بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اقوالِ زریں امام غزالی ؒقدس سرہ (آخری قسط)

اقوالِ زریں امام غزالی ؒقدس سرہ                         (آخری قسط)

حضرت امام غزالیؒ قدس سرہ کا اپنے شاگرد کو خط کا جواب اور امام الزاہدین، سراج السالکین حضرت مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے کئے گئے اُس کے ترجمہ سے انتخاب۔

۲۳…آٹھ باتیں جن میں سے چار کرنا اور چار نہ کرنا ضروری ہیں: ۱…یہ ایسی آٹھ باتوں کی نصیحت ہے کہ ان پر عمل کرنے سے عالم کا علم قیامت کے دن بجائے وبال کے مفید بنے گا۔ ان میں سے جن چار باتوں کو چھوڑنا ضروری ہے، وہ یہ ہیں: ۱-مناظرہ، ۲-صرف زبانی کلامی وعظ،۳-امراء اور حکام کی مجلسیں، ۴-امراء اور حکام کا ہدیہ وتحفہ، ان کی تفصیل یہ ہے: ۱…مناظرہ سے پرہیز: ۱…اس لئے ضروری ہے کہ اس سے کئی روحانی آفات پیدا ہوجاتی ہیں، جیساکہ ریا، حسد، غرور، کینہ اور عداوت اور اپنی ناموری، یہ سب کی سب روحانی آفات مناظرہ سے پیداہوتی ہیں، البتہ کسی کوکسی کے ساتھ کسی مسئلہ میں الجھاؤ پیدا ہوجائے تو سلجھاؤ کی نیت سے بحث وتکرار جائز ہے۔ ۲…سلجھاؤ کی نیت سے بحث وتکرار کی دونشانیاںہیں:۱- دونوں کو اس بات میں کوئی شرم اور عار نہ ہو کہ ان میں سے کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام ہوتا ہے۔ ۲-یہ بحث وتکرار علیحدگی میں ہو، عوام کے سامنے نہ ہو۔ ۳…جب کوئی شخص دین کی کسی بات کو سمجھنے کی نیت سے کوئی اشکال پیش کرتا ہے تو اس کی مثال بیمار کی سی ہے، اس لئے اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ ۴…دین سے ناواقف لوگوں کی حالت بیمار جیسی ہے، مگر ان بیماروں کا علاج ناقص علماء نہیں کرسکتے، اسی طرح کامل اور ماہر معالج بھی ہر بیمار کا علاج نہیں کرتا، بلکہ وہ بھی صرف اس بیمار کا علاج کرتا ہے جس کی بیماری قابل علاج ہو اور ناامیدی کی حد تک نہ پہنچی ہو، ورنہ سمجھدار اور ماہر معالج خطرناک مریض کے علاج پر توجہ نہیں دیتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا علاج بے سود ہے۔ ۵…اسی طرح بے دینی اور جہالت والی بیماری بھی چار طرح کی ہے: ایک تو ان میں قابل علاج ہے اور تین ناقابل علاج ہیں۔ ناقابل علاج بیماریوں میں سے ایک تو حسد کی بیماری ہے، کسی حاسد کو جس قدر بھی دلائل کے ساتھ سمجھا یا جائے، اس کی بیماری کا دور ہونا تو درکنار وہ بڑھتی چلی جاتی ہے، جیساکہ کسی عربی شاعر نے کہا ہے کہ ہر بیماری کا ازالہ ممکن ہے، مگر حسد کی بیماری کا ازالہ ممکن نہیں، قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’آپ دھیان نہ کریں اس کا جو منہ موڑے ہماری یاد سے اور کچھ نہ چاہے سوا ئے دنیا کی زندگی کے‘‘ یعنی اس کی نیت ہی اصلاح کی نہیں۔(النجم:۱۹) ۶…حاسد کے لئے یہی سزا کافی ہے کہ وہ اپنے علم کے باغ کو حسد کی آگ سے جلا رہا ہے۔ آپ ا کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’حسد نیک اعمال کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو جلادیتی ہے‘‘۔ ۷…اسی طرح وہ روحانی بیمار بھی لاعلاج ہے جس کی یہ بیماری بے وقوفی کی وجہ سے ہو، اس کا علاج بھی ممکن نہیں ہے، جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کے اذن سے مردہ انسانوں کو زندہ کرتا ہوں، مگر احمق کا علاج کرنا میرے بھی بس کا روگ نہیں‘‘۔اس کی مثال اس طرح ہے کہ بعض لوگ کچھ وقت تحصیل علم میں خرچ کرکے چند مسائل یاد کرلیتے ہیں اور پھر خوامخواہ کسی محقق عالم کے ساتھ محض خودستائی کے لئے چھیڑ چھاڑ شروع کردیتے ہیں، ایسے احمقوں کا جواب نہ دیاجائے۔ ۸…تیسری روحانی بیماری وہ بھی ناقابل علاج ہے کہ صدق دل سے ہدایت اور رہنمائی کی طلب نہ ہو۔ صدق دل سے ہدایت اور رہنمائی کے طالب کی علامت یہ ہے کہ اکابر علماء کرام کی اگر کوئی بات سمجھ نہ سکے تو اس کو اپنی کم فہمی پر محمول کرے، نہ کہ ان پر اعتراض کرے، اگر وہ کسی ایسی بات کے متعلق سوال کرے جو اس کی سمجھ اور دانست سے بالاتر ہو تو مرشد اور استاذ کو ایسی بات کا جواب نہیں دینا چاہئے، جیساکہ آپ ا کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہم سب انبیاء کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ ان کی فہم وعقل کے مطابق کلام کریں‘‘۔ ۹…قابل اصلاح روحانی امراض میں سے یہ ہے کہ اگر طالب دین کسی بات کو نہ سمجھے اور تسلی طبع کے لئے پوچھے تو استاذ اور مرشد کو جواب دینا نہ صرف بہتر، بلکہ ضروری ہے۔ ۲…زبانی کلامی وعظ سے پرہیز ۱…اس لئے ضروری ہے کہ اس کام کی طرف لوگوں کو دعوت دے جس پر خود عمل کرنے والا ہو، ایسا وعظ ونصیحت لوگوں کے لئے مفید ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وحی کی گئی کہ:’’اے مریم کے بیٹے! اپنے آپ کو نصیحت کر، اگر تو خود عمل کرنے والا بن جائے توتو پھر لوگوں کو سمجھا، ورنہ اپنے رب سے شرم کر‘‘۔ ۲…وعظ کرنا ہو تو صاف اور سیدھی بات لوگوں سے کہہ دینا چاہئے، اشعار اور  بتکلف بات بنانے سے گریز کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کسی بھی کام یا کلام میں تکلف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا اور ایسا وعظ باطن کی خرابی اور دل کی غفلت کی نشانی ہے۔ ۳…تذکیر کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو قیامت کی آگ سے ڈرایاجائے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کمی یا غیر حاضری کے خطرات سے آگاہ کیا جائے، لوگوں کو سمجھایاجائے کہ اپنی گزری ہوئی عمر پر افسوس اور ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے اس بات کی فکر کریں کہ وہ ایک نہ ایک دن اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کردیںگے، کیا وہ سکرات موت اور جان کنی کی تلخی برداشت کرسکیںگے؟ اور کیا وہ آخرت کی پہلی منزل قبر میں منکر نکیر کے سوالات کے جوابات دے سکیںگے؟ اور کیا وہ قیامت کے دن اس پل صراط کو عبور کرسکیںگے جس کے نیچے دوزخ کی آگ بھڑک رہی ہے اور وہ بال سے بھی زیادہ باریک ہے؟ اور کیا وہ قیامت کے دن ان سوالات کے جوابات دے سکیںگے جو ان کا خالق ان سے کرے گا؟ ان باتوں کو بار بار دہرایاجائے، تاکہ دل میں ان باتوں کو سمجھ کر ایسے حالات کے لئے تیار رہنے کا جذبہ پیدا ہوجائے، اس کا نام تذکیر ہے۔ ۴…اسی طرح لوگوں کو یہ سمجھانا کہ اپنے عیوب پر نظر رکھ کر گذشتہ بے کار اور نافرمانی کی عمر پر افسوس کرتے ہوئے باقی عمر کو رضائے مولیٰ اور اطاعت الٰہیہ میں صرف کریں، اس کا نام وعظ ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر کسی پڑوسی کے مکان میں سیلاب کا پانی داخل ہونے والا ہو یا خدانخواستہ آگ لگ رہی ہو تو ایسے وقت میں خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ سادہ سادہ الفاظ میں بلاتکلف اس کو ڈرایا جائے اور اس خطرہ سے آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ اپنے آپ کو اور اہل وعیال کو غرق ہونے اور جلنے سے بچالے۔ اگر کسی نے ایسے وقت میں شعر وشاعری شروع کردی اوردقیق الفاظ استعمال کئے تو وہ گھر جل جائے گا اور اس کی نصیحت بے فائدہ، بلکہ نقصان دہ ہوگی۔ ۵…وعظ کی صفت یہ ہو کہ نہ تو اس میں ترشی اور سخت لہجہ اختیار کیا جائے کہ سننے والے متنفر ہوجائیں اور نہ ایسی چکنی چپڑی باتیں ہوں کہ لوگ وجد میں آکر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالیں، یہ دنیا کی طرف رغبت کی نشانیاں ہیں جوکہ غفلت سے پیدا ہوتی ہیں۔ وعظ وتقریر سے ارادہ اور نیت یہ ہو کہ لوگوں کو دنیا سے قیامت کی طرف اور نافرمانی سے فرمانبرداری کی طرف اور لالچ سے قناعت کی طرف اور کنجوسی سے سخاوت کی طرف اور نفس پرستی سے تقویٰ کی طرف بلاتے ہوئے ان کے دلوں میں قیامت کو محبوب اور دنیا کو مبغوض کردے اور ان کو وعظ ونصیحت میں عبادت اور تقویٰ کی تعلیم دی جائے، کیونکہ اکثر اوقات لوگوں کے مزاج میں شریعت سے روگردانی پائی جاتی ہے اور ایسے کاموں کی رغبت پائی جاتی ہے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور اکثر لوگوں کے اخلاق اور عادات ردی ہوتے ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس طرز کے وعظ ونصیحت کی برکت سے ان کا ظاہر وباطن بدل جائے اور وہ گناہوں کو چھوڑ کر عبادت گزار بن جائیں۔ اگر وعظ ونصیحت کا مقصد یہ نہ ہو،پھر کہنے اور سننے والوں کے لئے وبال جان بن کر ان کومزید گناہوں کے قریب کردے گا، اس لئے ایسے واعظ اور مقرر کے قریب بھی نہیں جانا چاہئے اور اگر طاقت ہو تو ایسے واعظ کو ممبر سے نیچے اتار دینا چاہئے کہ یہ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جس کا امت محمدیہ کو حکم دیا گیا ہے۔ ۳…امراء اوراحکام کی مجالس سے پرہیز: اس لئے ضروری ہے کہ ان کی ملاقات اور ان کے ساتھ مجلس کرنا بہت بڑی آفت ہے۔ فائدہ: امام الزاہدین حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ارباب حکومت جب کسی کو اپنے قریب کرتے ہیں تو سب سے پہلے ان سے ایمان چھین لیتے ہیں۔ ۴…امراء اورحکام سے کوئی ہدیہ تحفہ قبول کرنے سے پرہیز: اس لئے ضروری کہ اس سے لالچ اور طمع پیدا ہوگا جو دین کے لئے نقصان دہ ہے، اگرچہ وہ حلال کا رزق ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اس سے ان کے مظالم پر چشم پوشی کا جذبہ پیدا ہوگا، اور ان کے مظالم کی ایک گونہ تائید ہوجائے گی۔ اور اگر ان کی درازئ حکومت کے لئے دعا کی گئی تو اس ظلم کی رات لمبی ہوجائے گی جس سے دین کا نقصان واضح ہے۔ کبھی کبھی شیطان مردود یہ وسوسہ ڈال دیتا ہے کہ ان ظالم حکمرانوں سے یہ رقم اور یہ ہدیہ نہ لیا گیا تو یہ کسی گناہ کے کام میں خرچ کرڈالیںگے، اس لئے کیوں نہ ان سے لے کر غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کردیا جائے، اسی وسوسہ کی بناء پرشیطان مردود نے کئی لوگوں کو ہلاک کردیا ہے۔ چار وہ کام جن کا کرنا ضروری ہے: ۱…اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس معیار پر تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ہرایک آقا اپنے غلام کے ساتھ چاہتا ہے، آقا مجازی مالک ہوکر چاہتا ہے کہ میرا غلام یا خادم نہ کوئی ایسا کام کرے، نہ کوئی ایسی بات کہے جو میرے مزاج کے خلاف ہو اور میری ناراضگی کا سبب بنے تو اس لئے کسی ایسی بات یا ایسے کام سے بچنا چاہئے جو مالک حقیقی کی ناراضگی کا باعث ہو۔ ۲…لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں یہ امر ملحوظ رکھے کہ لوگوں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے، جیساکہ آپ ا نے فرمایا:’’کسی بندے کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا، جب تک سب لوگوں کے لئے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘۔ ۳…کتابوں کے مطالعہ کے لئے ان کتابوں کا انتخاب کیا جائے جس سے تزکیۂ نفس اور اصلاح ہو۔ زندگی کے ہر لمحہ میں یہ امکان ہے کہ وہ آخری لمحہ ہو اور موت واقع ہوجائے، اس لئے دنیوی تعلقات سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے مشرف کرلینا چاہئے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجائے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے بدن اور لباس کی صفائی اور زیب وزینت میں مبالغہ ضروری نہیں، جیساکہ ارشاد نبوی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نہ تو تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہارے اموال کو دیکھتا ہے، بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے (رواہ مسلم) تو اس لئے اس قدر علم حاصل کرنا ضروری ہے جس سے دل کی صفائی اور تزکیہ حاصل ہوسکے۔ ۴…اپنے گھر میں ایک سال کے ضروری اخراجات سے زیادہ مال جمع نہیں کرنا چاہئے، جیساکہ سید دوعالم ا اپنی ازواج مطہراتؓ کے لئے ایک سال کا خرچ دیا کرتے تھے، ورنہ آپ ا کی دلی خواہش تو اس دعا سے ظاہر ہورہی ہے، جس میں فرمایا کہ: یا اللہ ! محمد (ا )کے گھر والوں کو صرف اتنا دے کہ موت سے بچ سکیں، یہی وجہ تھی کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ہاں صرف ایک دن یاڈیڑھ دن کا خرچہ دیاجاتا تھا۔ آخر میں امام غزالی قدس سرہ نے ایک دعا بھی تلقین فرمائی ہے، شائقین حضرات کسی عالم دین سے صحیح تلفظ اور ترجمہ کے ساتھ سیکھ کر پڑھنے کا معمول بنالیں تو دنیا وآخرت میں سرخروئی حاصل کرنا آسان ہوجائے گا۔ بہت ہی مفید، نافع اور جامع دعا ہے: ’’أللّٰہم إنی أسئلک من النعمۃ تمامہا ومن العصمۃ دوامہا ومن الرحمۃ شمولہا ومن العافیۃ حصولہا ومن العیش أرغدہ ومن العمر أسعدہ ومن الإحسان أتمہ ومن النعام أعمہ ومن الفضل أعذبہ ومن اللطف أقربہ۔أللّٰہم کن لنا ولاتکن علینا أللّٰہم اختم باالسعادۃ اٰجالنا وحقق بالزیادۃ اٰمالنا واقرن بالعافیۃ غدونا واٰصالنا واجعل إلی رحمتک مصیرنا وماٰلنا واصبب سجال عفوک علي ذنوبنا ومن علینا بإصلاح عیوبنا واجعل التقوی زادنا وفی دینک اجتہادنا وعلیک توکلنا واعتمادنا أللّٰہم ثبتنا علی نہج الأتقیاء وأعذنا فی الدنیا من موجبات الندامۃ یوم القیامۃ وخفف ثقل الأوزار وارزقنا عیشۃ الأبرار واکفنا واصرف عنا شر الأشرار واعتق رقابنا ورقاب آبائنا وأمہاتنا وإخواننا وأخواتنا من النار برحمتک یا أرحم الرحمین ویا أول الأولین ویا آخر الآخرین ویا ذاالقوۃ المتین ویاراحم المساکین ویا أرحم الراحمین لا إلہ إلا أنت سبحانک إنی کنت من الظالمین۔ وصلی اﷲ علی سیدنا محمد وأٰلہ وصحبہ أجمعین والحمد ﷲ رب العالمین‘‘۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین