بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اقوال زریں امام غزالی رحمہ اللہ، دوسری قسط

اقوالِ زریں امام غزالی ؒقدس سرہ

دوسری قسط

 

حضرت امام غزالیؒ قدس سرہ کا اپنے شاگرد کو خط کا جواب اور امام الزاہدین، سراج السالکین حضرت مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے کئے گئے اُس کے ترجمہ سے انتخاب۔


فائدہ:
    اگر کوئی شخص دن رات کتابوں کے مطابعہ اور تکرار میں مصروف رہتا ہے، مگر اس سے اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ بڑا عالم مشہور ہوجائے اور اہم عہدوں پر اس کی تقرری ہوجائے، اور دنیا حاصل ہوجائے تو یہ ساری محنت تباہی وبربادی کا ذریعہ ہے اور اگر اس محنت سے مقصد یہ ہے کہ سرکار دو عالم  ا کے دین کی سربلندی ہو، شریعت محمدیہ زندہ ہو، اخلاقِ نبوی کی اشاعت ہو، تو یہ محنت قابل مبارک باد ہے، جیساکہ کسی شاعر نے کہا ہے: ترجمہ… تیرے دیدار کی طلب کے بغیر کسی اور مطلب کے لئے راتوں کا جاگنا برباد اور فضول ہے اور آنکھوں کا تیری زیارت کے بغیر کسی اور کے لئے آنسو بہانا بے کار اور باطل ہے۔
۱۰…قبر میں چالیس سوالات:
    ۱…ارشاد نبوی: ’’انسان جتنا بھی زندہ رہے، آخر اس نے مرنا ہے اور جس چیز کے ساتھ اس کی محنت ہے ،آخر اس کو چھوڑنا ہے۔اور جو بھی عمل کرے گا اس کے مطابق جزاپائے گا، دنیوی علوم میں غایت درجہ انہماک واشتغال اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال سے غافل کر دے تو عمر ضائع ہوگئی۔
    ۲…میں نے (امام غزالیؒ) انجیل میں خود پڑھا ہے کہ ’’قبر میں اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے بہ نفس نفیس خود چالیس سوالات فرماتے ہیں، جن میں سے پہلا یہ ہوتا ہے: اے میرے بندے! ’’تونے لوگوں کے سامنے جانے کے لئے تو کئی سال اپنے بدن کی زیب وزینت میں لگا دیئے، میرے سامنے پیش ہونے کے لئے بھی کچھ وقت نکالا؟
    ۳…روزانہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرے دل کی گہرائی میں یہ صدا آتی ہے، اگرچہ تو اُسے نہ سن سکے: ’’اے میرا بندہ! تو مجھے چھوڑ کر دوسروں کے ساتھ تو اپنے تعلقات مضبوط کرنے کی فکر میں ہے، حالانکہ تمہاری یہ خوبی تو میری ہی رحمت کا اثر ہے۔
    ۴… علم بغیر عمل کے دیوانگی ہے اور عمل بغیر علم کے بیگانگی ہے۔ علم اگر گناہوں سے روک کر اللہ تعالیٰ کافرمانبردانہ نہ بناسکا تو قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی نہیں بچا سکے گا، اگر آج گناہوں سے توبہ نہ ہوسکی تو قیامت کے دن کہنا پڑے گا: اے اللہ! ہم کو دنیا میں بھیج، تاکہ نیک اعمال کریں۔                                                                    (المؤمنون:۹۹-۱۰۰)
    ۵…اپنی روح کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگانا ضروری ہے ،ایک دن یہ بدن سے بھاگ جائے گی ،کیونکہ دنیا کا قیام تو صرف موت تک ہے، پھر قبر میں جانا ہے تو قبر میں بغیر زاد راہ کے نہیں جانا چاہئے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’انسانوں کے بدن یا تو پرندوں کے گھونسلے ہیں یا چار پایوں کے اصطبل ہیں‘‘۔
۱۱…جسم زمین کی اور روح آسمان کی چیز ہے:
    ۱…جس نے اپنی زندگی پرندوں کی طرح گزاری تو اُسے یہ نغمہ سنایا جائے گا:’’ اے اطمینان والی روح! اپنے رب کی طرف واپس آجا ،تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے‘‘۔ (الفجر:۲۷تا۲۸) روح بدن والے پنجرہ سے اڑ کر اونچی جگہ جا بیٹھے گی، جیساکہ سرکار دو عالم  انے حضرت سعد بن معاذؓ کی موت پر ارشاد فرمایا کہ:’’اس کی موت پر اللہ تعالیٰ کا عرش حرکت میں آگیا ہے اور جس نے اپنی زندگی چار پایوں کی طرح گزاری تو اسے دوزخ کے لئے تیار رہنا چاہئے‘‘۔
    ۲…حضرت حسن بصریؒ کا دنیا کی زندگی میں آخرت کا فکر اس طرح تھا کہ ان کی خدمت میں ایک مرتبہ ٹھنڈے پانی کا پیالہ پیش کیا گیا تو پیالہ ہاتھ سے گرگیا اور وہ بے ہوش ہوگئے، ہوش آنے کے بعد پوچھنے پر بتایا کہ مجھے جہنمیوں کی وہ فرماد یاد آگئی جو وہ جنت والوں سے کریںگے کہ:’’ ہم پر پانی ڈالو یا وہ نعمت ہمیں دو جو تمہیں دی گئی  ہے‘‘۔(اعراف:۵۰) مجھے اس ٹھنڈے پانی کو ہاتھ لگانے سے وہ نقشہ بے ہوش کرگیا۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو بچائے)
    ۳…اگر علم بغیر عمل کے کافی ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سحری کے وقت یہ صدا نہ لگتی، کیا کوئی مانگنے والا ہے؟ کیا کوئی بخشش کا طلب گار ہے؟ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے؟

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین