بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 افرادِ خیر القرون کا کلامِ الٰہی سے خصوصی تعلُّق وشغف


 افرادِ خیر القرون کا کلامِ الٰہی سے خصوصی تعلُّق وشغف

 

ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ عُیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ  مدینہ منورہ آئے اور اپنے بھتیجے حضرت حرّ بن قیس رضی اللہ عنہ  کے مکان میں قیام کیا، حضرت حرّ بن قیسؓ کو خلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی نگاہ میں خاص رتبہ و مقام حاصل تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ کی یہ خصوصیت تھی کہ اس میں وہ افراد جو اپنی زندگی کے شب وروز قرآن مجید کے ساتھ بسر کرتے تھے، وہ اس کمیٹی کا حصہ ہوتے تھے، خواہ وہ کم عمری کی بنا پر اس عہدے کے شایان نہ گردانے جاتے ہوں۔
 ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت عُیینہؓ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ: تمھیں امیر المؤمنین کے دربار میں خصوصی رتبہ ومقام حاصل ہے، میں بھی ان سے ملاقات کا متمنی ہوں، اگر میرے واسطے بھی اجازت حاصل کرو۔ بہرحال وہ اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حضرت عُیینہ بن حصنؓ جب حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بلند آواز سے پکار کر مخاطب کیا: اے ابن خطاب! بخدا آپ ہمیں عطیات سے محروم رکھتے ہیں، ہمارے مابین عدل وانصاف قائم نہیں فرماتے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثار نمودار ہوئے، اور قریب تھا کہ اُن پر برس پڑتے، اتنے میں حرّ بن قیسؓ نے کہا کہ: اے امیر المومنین! اللہ نے اپنے محبوب نبی کو حکم دیا: ’’خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ‘‘ اس آیتِ قرآنی کا سننا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکے۔
مذکورہ بالا قصہ میں غور وفکر کرتے ہوئے علماء، قارئین اور راہِ خدا میں دعوتِ دین کا پرچار کرنے والے افراد کے واسطے چند قابلِ ذکر فوائد مستنبط ہوتے ہیں، جن کو ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے:

٭    طالب علم کو اولاً حفظِ قرآنی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، پھر دیگر علوم وفنون میں مشغولیت اختیار کرنی چاہیے، چونکہ وہ عالم جس کا سینہ قرآن سے معمور ہو، وہ غیر حافظ عالم سے مرتبہ میں فضیلت کا حامل ہے، نیز محض حافظ جو علم وفقہ سے بالکل بے بہرا ہو‘ وہ ایک اعتبار سے جاہل کی مانند ہوتا ہے، جس سے دینِ اسلام کی نشر واشاعت یقینی نہیں ہوتی، لہٰذا ان میں کامل ترین وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو حفظِ قرآنی اور تمام علوم وفنون سے آراستہ کرے۔

٭    یہاں داعی حضرات سے متعلق ایک اور وصف قابلِ بیان ہے کہ وہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر اور لوگوں کی طبیعت و مزاج شناس ہوں، اور ان کے احساسات کی رعایت کرتے ہوئے ان سے برتاؤ و سلوک اختیار کریں، جس کی بنا پر ان کی دعوت انتہائی مؤثر ثابت ہوگی۔

٭    اسی طرح وہ قرآن مجید کے معانی و مفاہیم کو دل و دماغ میں مستحضر رکھیں، اور موقع ومحل کی رعایت برتتے ہوئے ان سے استدلال کریں۔

٭    مذکورہ بالا قصہ میں حضرت حُر بن قیسؓ نے ان تینوں اُمور کی رعایت کی، چونکہ آپ قراء صحابہؓ میں سے تھے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ عہدِ اول میں قاری کا اطلاق اس شخص پر ہوتا تھا جو علومِ قرآنیہ سے بہریاب اور ان کے مقتضیات پر عمل پیرا ہو۔ اگر حُر بن قیسؓ محض حافظ ہوتے تو کیا ان کے لیے معانی و مفاہیم کو سمجھ کر استدلال کرنا بھلا ممکن تھا؟ 
٭     اسی طرح اگر وہ صرف عالم ہوتے مگر حفظِ قرآنی کی گراں قدر دولت سے محروم ہوتے تو وہ اس آیت کی تلاش و تتبُّع کے لیے کسی حافظ سے معاونت یا مصحف کے محتاج ہوتے، جس کی بنا پر مقام کا مقتضا فوت ہوجاتا، مگر حضرت حُر بن قیسؓ نے اپنے علم و حفظ اور موقع شناسی کی صفاتِ جلیلہ کی بنا پر خلیفہ کے غصہ کو قابو میں کیا۔
٭    اسی طرح نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غیظ وغضب کی حالت میں آنے والے دشمنانِ اسلام کے سامنے موقع محل کی رعایت کرتے ہوئے مختلف آیات کی تلاوت فرمائی، جس کی بنا پر وہی دین کی بنیادوں کو ڈھانے کے ارادے سے سفر کرنے والے دین کے پاسبان وسپاہی بن کر لوٹے۔
٭    ذکر کردہ تینوں اوصاف آج ہمارے مبلغین حضرات میں تقریباً عنقاء و ناپید ہیں، خصوصاً مزاج شناسی کا وصف دورِ حاضر میں لابدّی اور ضروری امر ہے، جس کی طرف حدیث پاک میں اشارہ کیا گیا ہے: ’’أنزلوا الناس منازلھم‘‘ وفي روایۃ ’’کلموا الناس علٰی قدر عقولھم۔‘‘ اسی مزاج شناسی کے وصف کے فقدان کی بنا پر آج گوناگوں مصائب و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو دعوتی پیغام کے پرچار و نشر واشاعت میں قدرے رکاوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
٭    ذکر کردہ قصہ سے مزید فوائد کا استخراج کیا گیا ہے، وہ ہے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی قدر ومنزلت، اَفراد شناسی اور دور اندیشی کا وصف۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شورائی ومشاورتی کمیٹی میں علماء کو شریک کیا جن میں علوم وفنون میں فائق حضرت ابن عباس، ابن مسعود، حر بن قیس  رضی اللہ عنہم  جیسے نامور فقہاء صحابہؓ شامل تھے۔ علماء و قراء کی قدردانی ہمیشہ سے آپ کا طرۂ امتیاز رہی، اسی وجہ سے نو مسلم لوگوں کے درمیان اس کے متعلق چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ کم عمر افراد کو اس درجہ قرب سے نوازنے کی کیا وجہ ہے، جبکہ ہماری بھی اسی طرح کی اولادیں ہیں؟ اس پر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے اپنے موقف کو سب کے سامنے بیان کیا کہ ان کو قُرب سے نوازے جانے کی وجہ ان کا علمی رتبہ ومقام ہے۔
مذکورہ قصہ سے مزید فوائد مستنبط ہوتے ہیں: 
٭    قرآن مجید جو کہ کلامِ الٰہی ہے، اس کی قدر و منزلت۔
٭    جن قرون کی خیریت کی بشارت لسانِ نبوت سے صادر ہوئی، ان کا مقام وحیثیت۔
٭    حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی فضیلتِ خاص کہ انہوں نے اپنے غصہ کو قابو میں کیا اور کارروائی سے خود کو روکا، حکمِ قرآنی کے سامنے پس وپیش سے کام نہ لیا۔
٭    حضرت حر بن قیس رضی اللہ عنہ  کی خلیفۂ راشد کی نگاہ میں علمی وقعت وحیثیت، نیز ان کا واقعہ کی نزاکت کو بھانپ کر بروقت مؤثر علاج کرنا۔
٭    درگزر وحسنِ سلوک کی فضیلت، حضرات صحابہؓ دل میں پوشیدہ مرضِ نفاق سے کوسوں دور تھے، جو مرض آج روشن خیالی کے نام سے دلوں میں سرایت کرتا جارہا ہے۔
٭    عدل وانصاف کا قیام اور مراعات ونوازشات، یہ دونوں حاکم و امیر کے لیے امرِ بدی اور ضروری ہیں۔
٭    صلح وصفائی کی اہمیت، جس کا اہتمام حضرت حر بن قیس رضی اللہ عنہ  نے کیا ۔
٭    مشورہ و مجلس کی اہمیت، نیز علماء و صلحاء کی رکنیت کی اہمیت۔
٭    حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی فقاہت، انہوں نے مؤلفینِ قلوب کے مصرف کو یہ علت بیان کرتے ہوئے ختم فرمایا کہ: اب اسلام بے نیاز ہے، لوگ اسلام کے محتاج ہیں، اللہ نے اسلام کو شان وشوکت سے نوازا ہے۔
٭    کسی بھی مجلس میں خصوصاً اکابرین کی محافل میں بدون اجازت داخلہ سے احتراز کرنا۔
٭    سفارش کی اہمیت، جیسا کہ حضرت حر بن قیس رضی اللہ عنہ  نے اپنے عمّ محترم کے واسطے سفارش کی۔
٭    بڑے شخص کی خدمت میں حاضری سے قبل درمیان میں واسطہ وذریعہ طے کرنا ۔
٭    الفاظ کا عموم قابلِ اعتبار ہے، نہ کہ سبب کی خصوصیت، یہی وجہ ہے کہ آیتِ قرآنی میں اگرچہ خطاب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے خود کو اس کا مخاطب تسلیم کیا۔
٭    جاہل ونادان افراد سے بحث ومباحثہ سے اعراض و احتراز، نیز ان کے ترش وسخت رویہ کو برداشت کرنا۔
٭    کلام میں پختگی پیدا کرنے کے لیے قسم کے کلمات کا استعمال، جیسا کہ ابن عباس  رضی اللہ عنہ  نے کہا: ’’واللہ ما جاوزھا عمرؓ حین تلاھا۔‘‘
٭    غیر اللہ کی قسم کھانا مفید نہیں۔
٭    قرنِ اول میں قاری کا اطلاق عالم بالقرآن پر ہوتا تھا، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے : ’’ولیؤم القوم أقرؤھم لکتاب اللہ‘‘ جبکہ آج معاملہ اس کے برعکس ہے (فقہی و لغوی فائدہ)۔
٭    علم اور اس کے حاملین کی فضیلت۔
٭    دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے، جیسا کہ حضرت حر بن قیس رضی اللہ عنہ  نے امیر المؤمنین کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا۔
٭    عاجزی و انکساری کا درس، حضرت حر بن قیس رضی اللہ عنہ  نے جب خود کو قراء کے زمرے میں باور کرایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے اپنی علمی جلالت وفخامت کے باوجود خود کا قاری وعالم ہونا ظاہر نہ کیا۔
٭    علم اور اہلِ علم کی اہمیت، نیز عالم کی فضیلت سے عالم ہی واقف ہوتا ہے۔
٭    حضرات صحابہ کرامؓ علم وعمل کے جامع تھے، انہوں نے اپنی زندگی کو قرآن مجید کے بیان کردہ دستورِ حیات کے سانچے میں ڈھالا۔
٭    عمدہ طریق پر اسلوبِ خطاب ہدف وغرض تک پہنچنے میں مؤثر ثابت ہوتا ہے، جبکہ اسلوبِ خطاب کی شدت معاملات میں فساد کا باعث ہے، جیسا کہ حضرت حر بن قیسؓ نے ’’یا أمیر المؤمنین!‘‘ جبکہ عُیینہ بن حصنؓ نے ترش کلمات ’’یا ابن الخطاب!‘‘ سے پکارا، اور دونوں کلمات کا نتیجہ سب کے سامنے عیاں ہوا۔
٭    بعض احکامِ سماوی بعض احوال کے ساتھ مختص ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے مؤلفینِ قلوب کو مصرفِ زکوٰۃ سے خارج کیا، اور اس کی علت بیان کی کہ اب لوگ اسلام کے محتاج ہیں، جبکہ اس سے قبل معاملہ برعکس تھا، نیز آپ کو خلیفہ راشد ہونے کی حیثیت سے یہ حق حاصل تھا، چونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرات خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے۔
٭    حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی دلیری و گرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔
٭    نیز حضرت عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ  کی شجاعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
٭    کلامِ الٰہی کی دلوں پر تاثیر، دلوں پر اس قدر رعب پیدا کیا، جو کسی بادشاہ کی بساط سے باہر ہے: ’’وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔‘‘
٭    شب وروز علوم کے لیے وقف کرنے والوں کو علومِ قرآنیہ سے خصوصاً خود کو آراستہ کرنا چاہیے، چونکہ یہی دین کی اَساس وبنیاد ہے۔
٭    علم، عقل اور فضل، یہ قابلِ اعتبار امور ہیں، انسانی عمر کو اس میں دخل نہیں: ’’وکان القراء أصحاب مجلس عمرؓ ومشاورتہٖ کھولاً کانوا أو شبانا۔‘‘
٭    انسان کو امرِ الٰہی کی بجا آوری میں کسی ملامت گر کے عتاب سے ڈرنا نہیں چاہیے، نیز حکامِ بالا کو عوام ورعایا کے اموال و اَمانات کی نگہبانی کا فریضہ بخوبی سر انجام دینا چاہیے۔
٭    صغریٰ کبریٰ سمیت شکل اول: ’’وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ‘‘، ’’وإن ھٰذا لمن الجاھلین‘‘ اس کا نتیجہ بالکل عیاں ہے۔
٭    حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا نسلِ نو کی جانب احساسات وکیفیات سمیت علم نافع کی گراں قدر دولت کی سپردگی پر حریص ہونا، جیسا کہ ابن عباس  رضی اللہ عنہ  نے اس واقعہ کو دقائق و تأثرات سمیت نقل کیا۔
٭    حضرات خلفاء راشدینؓ و دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی سیرت و کردار اور اس میں پنہاں راہنما امور کی اہمیت و فخامت۔
٭    حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کا حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی یکتائے روزگارہستی سے متاثر ہونا۔
٭    رفقاء کے کارناموں پر تشجیع وحوصلہ افزائی کرنا، جیسا کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کا حضرت حر بن قیس رضی اللہ عنہ  کے علمی مقام کا اظہار کرنا۔
٭    انسان کو اپنے اقارب و رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت ان کے پاس حاضری، اور ان کی تشریف آوری پر ضیافت کا اہتمام کرنا، جیسا کہ حضرت عیینہ رضی اللہ عنہ  نے اپنے بھتیجے حضرت حر بن قیس رضی اللہ عنہ  کے یہاں قیام کیا۔
٭    سلف صالحین میں ایک دوسرے کے ساتھ معاصرت کی بنا پر بسااوقات تنقیص ہوجاتی ہے، البتہ متاخرین کا ان کے مابین حکم وثالث کا کردار ادا کرنا یا ان میں سے کسی کی شان میں نکتہ چینی کرنا انتہائی بے ادبی ہے۔ ہمیں ان سب کے ساتھ ادب واحترام کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز ان کے علمی کارناموں کو اُمت کے سامنے پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا۔
٭    کسی ناگوار گفتگو پر غصہ آجانا امرِ طبعی ہے، لیکن اصل مطلوب یہ ہے کہ انسان اس کے مقتضا پر فوری عمل نہ کرے، بلکہ سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کرے، چونکہ اس کے فیصلہ پر ہی ثواب و عقاب کا ترتُّب ہے۔
٭    لفظ قدوم مطلقاً آمد کو نہیں کہتے، بلکہ اس کا اطلاق شہری آبادی کے باہر سے آنے پر ہوتا ہے۔
٭    مذکورہ قصہ سے طلبِ اجازت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اس کے فضائل قرآن و سنت میں وارد ہیں۔
٭    جب بھی انسان علم وعمل اور عدل و انصاف کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو لوگوں کی نکتہ چینی کا نشانہ وہدف بنتا ہے۔

...................

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین