بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

اصلاح اور انقلاب کیسے؟!


اصلاح اور انقلاب کیسے؟!


جس میں خلوصِ فکر نہ ہو وہ سخن فضول
جس میں نہ دل شریک ہو اُس لَے میں کچھ نہیں
آج کے سیاسی حالات ،بدعنوانی ،رشوت ستانی، اقربا پروری، بے روزگاری، دہشت گردی، غرض حالات وحوادث نے آج ملکِ پاکستان کو واقعی پھرایک خانہ جنگی، انتشار، عوام کی بدحالی، غرض ہر ہر قسم کی معاشی ابتری کی طرف دھکیل دیا ہے، مگر میرے نزدیک یا کسی تاریخ کے طالبِ علم کے نزدیک یہ کوئی نئی صورت حال نہیں ۔افسوس یہ ہے کہ ہم نے تاریخ اور حوادث سے سبق نہیں سیکھا۔
اللہ رب العزت نے جب بنی اسرائیل کی اصلاح کا ارادہ کیا اور حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کو عوام اور خواص میں دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے بھیجا، جو(ہر فرد کے لیے ایک درس ہے )کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے حضرت موسیٰ  علیہ السلام کو حکمِ خداوندی ہوا کہ فرعون کو جا کر تبلیغ کرو، فرمایا:اے موسیٰ! دیکھو ! نرمی سے بات کرنا اور اے موسیٰ! حکمت سے بات کرنااور شاید تمہاری بات سمجھ جائے۔ اس حکم میں پانچ نکات ملے:
۱:- اوّل یہ کہ بحیثیت نبی حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے ذمہ تھا کہ عام اور خاص ہر ایک تک تعلیم اور حکمِ الٰہی پہنچانا اور یقیناً اللہ کا نبی غافل نہیں ہوتا، مگر ایک دوسرے کو تعلیم کرنا، اور ایک دوسرے کو اخلاقِ جمیلہ کی تعلیم دینا بھی ضروری ہے۔ 
۲:- دوسرا یہ کہ نرمی سے بات کرنا۔
 ۳:- تیسرا یہ کہ حکمت سے بات کرنا ۔
۴:- چوتھا یہ کہ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ فرعون ایمان نہیں لائے گا، مگر اللہ رب العزت نے داعی (حضرت موسیٰ  علیہ السلام ) کو ہمت بندھائی کہ داعی کا یقین کامل ہونا چاہیے، پھر یہ کہ داعی کے ذمہ یہ نہیں کہ جس کو دعوت دی گئی وہ ایمان لایا یا نہیں؟ بس اس نے بات پہنچادی تو حق ادا کردیا۔ 
۵:- پانچواں اور میرے نزدیک سب سے اہم نکتہ حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کا جواب ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے یہ نہیں کہا کہ یا اللہ! میں تو اتنے سال سے لگا ہوا ہوں اور وہ (فرعون) مجھ پر ظلم کرتا ہے ، بلکہ موسیٰ  علیہ السلام  نے کہا:
’’پروردگار! میری خاطر میراسینہ کھول دیجئے ،اور میرے لیے میرا کام آسان بنادیجئے اور میری زبان میں جوگرہ ہے، اُسے دور کردیجئے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ اور میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو مددگار مقرر کردیجئے، یعنی ہارون ؑکو جو میرے بھائی ہیں، ان کے ذریعے میری طاقت مضبوط کردیجئے۔‘‘ (سورۂ طہٰ،آیت :۲۵تا۳۱)
 یعنی اپنی کمی اور اپنی کمزوری کا ذکر فرمایا اور دعا فرمائی۔ آج ہم سب کا المیہ یہ ہے کہ ہمیں صرف دوسروں کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے۔ منفی طریقہ سے کبھی مثبت تبدیلی نہیں آیا کرتی اور وہی ہورہا ہے۔  کیا ہم نے اپنی انفرادی زندگی پر غور کیا؟ چلیے! آج سے ہم اپنے آپ کو روزانہ پانچ منٹ اپنی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ کریں اور پھرسنت کی طرف توجہ کریں، جس کی وجہ سے اللہ رب العزت ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیاب فرمائے۔ بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جوشام کو بیٹھ کریہ جائزہ لیں کہ ہم نے آج کیا غلطی کی؟
اس وقت بھی اسلام اور پاکستان تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں گزشتہ ایک صدی کے حادثات وواقعات سے سبق لینا ہوگا اور خود کو تحمل‘ رواداری اور برداشت کا سبق حاصل کرتے ہوئے تمام تر نقائص کے باوجود اس نظام کو اور اس سے منسلک افراد کو برداشت کرتے ہوئے نئی نسل کو تعلیم اور اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرنا ہوگا۔ اس سے نہ صرف درجہ بدرجہ ایک اعلیٰ معاشرہ، بلکہ اگر ہم نے تمام تعلقات اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی اپنی حد میں رہتے ہوئے مثبت طریقہ سے اپنا کردارادا کیا تو ان شاء اللہ! ہم پھر ایک عظیم قوم کی شناخت بن کر سامنے آسکیں گے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیشن گوئی فرمائی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میںچار چیزیں ہونے والی ہیں :
۱:-    انسان کے اندر مال کی محبت اس قدر ہوجائے گی کہ وہ دنیا کے پیچھے بھاگے گا اورمال کی محبت اس قدر ہوجائے گی کہ وہ اس کی اطاعت کرے گا، یعنی مال کی محبت اُسے جو کرنے کو کہے گی ، وہی کرے گا۔
۲:-    جودل میںآرہا ہے حرام ہو یاحلال ہو، جائز ہو یا ناجائز ہو، آدمی اسی کے پیچھے چلے گا، وہ کہے گا کہ میں تو یہی کروںگا، کیونکہ مجھے تو اس میںمزا آرہاہے۔
۳:-    جب دنیا کو آخرت پرترجیح دی جارہی ہو ، یعنی آدمی کے سامنے دو راستے آجائیںکہ اس سے دنیااچھی ہوجائے گی اورآخرت خراب ہوجائے گی تو انسا ن دنیا کو آخرت پر ترجیح دے گا، یہ سوچے گا کہ آخرت آئے گی تو دیکھی جائے گی، دنیا تو میرے سامنے ہے۔
۴:-    یعنی جواس کی سمجھ میں آگیا‘ وہی ٹھیک ہے، وہ سمجھے گا کہ جومیں سمجھتا ہوں‘ وہ اور کوئی نہیں سمجھتا، میں ہی عقل کل ہوں ۔
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب یہ چیزیں ہونے لگیں تو پھر تم لوگوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دوکہ وہ کہاں جارہے ہیں؟ اور عام لوگ کس طرف جارہے ہیں؟ اس کی گفتگو کرنے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ اپنی فکر کرو، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: 
’’اے ایمان والو!تم اپنی فکر کرو، اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ اللہ رب العزت کی طرف تم سب کو لوٹ کرجانا ہے، اُس وقت وہ(اللہ) تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو؟ ‘‘         (المائدہ، آیت:۱۰۵)
پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آیت کی تشریح میں ارشاد فرمایاکہ: اپنی فکر کرو۔ یہ عجیب نسخہ ہے، زوال کے حالات میں، انحطاط کے حالات میں، انقلاب لانے کا یہ بڑا ہی آسان اور مؤثر طریقہ ہے،  ہر آدمی اپنی اصلاح کرے، اگر ایک آدمی نے اصلاح کرلی تو ایک چراغ جل گیاتو پھر ان شاء اللہ! چراغ سے چراغ جلے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے۔ اگر ہم صرف یہ باتیں کرتے رہیںکہ لوگ یہ کررہے ہیں، لوگ یہ کررہے ہیں،لوگوں میںیہ کمزوری ہے، یہ کمزوری ہے ، تو پھر دنیا میں کبھی بھی بہتری اور اچھائی نہیں آسکتی۔ایک حدیث میںہے کہ: ’’جو شخص یہ کہے کہ ساری دنیاتباہ وبرباد ہوگئی، (یعنی اس کے حالات خراب ہوگئے، فساد آگیا) جو شخص یہ کہہ رہا ہے ،تباہ وہ شخص ہے۔‘‘ 
کیوں بھئی! کیا تم سے دوسروں کے اعمال کے بارے میں حساب ہوگا؟ بلکہ تم سے اپنے اعمال کے بارے میں حساب ہوگا، تم سے تو صرف یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا؟ اگر ہم صحابہ کرامؓ کی زندگیوںپر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میںسے ہر شخص صرف اپنی فکر میںتھاکہ میرا کیا انجام ہونے والا ہے؟ آپ اور ہم سب عمل کرکے دیکھیں، ان شاء اللہ! پھر وہی ہوگا جو فتح مکہ مکرمہ کے موقع پر ہوا کہ بڑے بڑے کفار کے سردار ایمان لے آئے اور ایک پرامن انقلاب آگیا۔ پہلے مکہ مکرمہ اور پھر چلتے چلتے بیت المقدس فتح ہوا۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین