بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اصحاب صفہ

 

اصحابِ صفہ(s)

    تاریخ اسلام کے سنہرے باب کے چند تعلیمی اوراق ہیں جن کاسرورق اصحابِ صفہؓ سے شروع ہوتا ہے، درحقیقت یہ باب’’وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘۔(آل عمران:۱۶۴) ’’اور وہ (نبی) ان کو کتاب (قرآن) اور حکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں ۔‘‘اور’’وإنما بعثت معلماً‘‘۔ (سنن ابن ماجہ،مقدمۃ،باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، ص:۲۱،ط:قدیمی)’’اور اس کے سوا نہیں کہ مجھے تو بھیجا گیا ہے (دین) سکھلانے کے لیے۔‘‘۔۔۔۔۔۔کی عملی تفسیر ہے۔     مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے شمال مشرقی جانب ایک سائبان کے سایہ میں چند نفوسِ قدسیہ تعلیم وتربیت پارہے تھے، ان نفوسِ قدسیہ نے اپنی زندگی حصولِ علم ہی کے لیے وقف کر دی تھی، ان میں چند نفوس ایسے بھی تھے کہ کبھی کبھی دن کے کسی حصہ میںجنگل سے لکڑی لا کر فروخت کرتے اور گزر بسر کیا کرتے تھے۔ ان کے احوال وتعداد میں قدماء محدثین نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، جن میں امام حدیث ابو نعیم اصبہانی اور امامِ حدیث ابو عبداللہ حاکم اور ابن الا عرابی اور سلمیٰ وغیرہ w کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کی تعداد مختلف اوقات میں کل ملا کر چار سو تک پہنچتی ہے۔ ویسے تو حضرت رسول اللہ a کی پوری زندگی تعلیمی ہی تھی اور امت محمدیہ l میں صحابہ کرامs ہی سب سے پہلے متعلم وشاگر دتھے، لیکن اسی تحصیلِ علم کے ساتھ ساتھ اکثر وبیشتر حضرات کے تجارت وزراعت وغیرہ کے مشاغل بھی تھے۔ حضرت عمر فاروق q جیسی اہم شخصیت کا ایک دور ایسا بھی گزرا کہ مدینہ سے باہر عوالیِ مدینہ میںان کا قیام تھا اور بعدِ مسافت کے علاوہ معاشی مشغولیت کی وجہ سے ر وزانہ بارگاہِ نبوت کی حاضری سے معذور تھے، لیکن آپؓ نے اپنے ایک انصاری پڑوسی (غالباً ان کا نام اوس بن خولیؓ ہے) کے ساتھ یہ انتظام کیا ہواتھا اور باری مقرر کر رکھی تھی کہ ایک دن وہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا کریں اور جو وحی نبوت (قرآن کریم کی آیت) جدیداتری ہویا کوئی اہم حدیث آپa بیان فرمائیں تو وہ رات کو عمر فاروق q کو سنا دیا کریں اور ایک دن حضرت عمرq یہی خدمت انجام دیا کریں، جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔      الغرض صحابہ کرام s جو روزانہ حاضری نہیں دے سکتے تھے وہ بھی حصول علم کے لیے پورا اہتمام وانتظام فرماتے تھے۔ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی تھے جن کی شب وروزکی زندگی اسی حصول علم کے لیے وقف تھی۔ اہل وعیال سے آزاد، نہ تجارت سے غرض، نہ زراعت سے مطلب، نہ اپنی معاش کی فکر، نہ اہل وعیال کی، یہ وہ اصحاب صفہؓ   کی نفوسِ قدسیہ ہیں جن کی تعداد ایک ایک وقت میں ستر ستر تک بھی پہنچ جاتی تھی، انہی نفوسِ قدسیہ میںسے ستروہ شہداء بیر معونہہیں جن کو کفار کے چند قبائل بنی لحیان ورعل وذکوان وغیرہ نے جو تعلیم دین اور تبلیغ اسلام کی غرض سے حضرت رسول اللہ a سے معلم ومبلغ طلب کرنے آئے تھے اور آپa نے ان قرّاء کو اس دینی خدمت کے لیے بھیجا تھا، ان بدظن قبائل نے ان کو لے جا کر شہید کر ڈالاتھا، جس پر آپ aکو شدید صدمہ ہواتھا اور نماز فجر میں آپ aنے دعائِ قنوتِ نازلہ پڑھنی شروع فرمادی تھی۔ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے اس واقعۂ شہادت کے بعد ستر ایسے صحابہs بھی تھے جن کے متعلق حضرت ابوہریرہ q کا یہ بیان’’ صحیح بخاری‘‘ میں قابل عبرت وبصیرت ہے: ’’رأیت سبعین من أصحاب الصفۃؓ، مامنھم رجل علیہ ردائ، إما إزارو إماکساء قد ربطوافی أعناقھم، فمنھا ما یبلغ نصف الساقین ومنھا ما یبلغ الکعبین فیجمعہ بیدہٖ کراھیۃ أن تریٰ عورتہ‘‘۔    (صحیح البخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب نوم الرجال فی المسجد، ج:۱، ص:۶۳، ط: قدیمی) ’’میں نے ستر ایسے اصحاب صفہؓ   کو دیکھاہے جن میں سے کسی کے پاس (اوپر اوڑھنے کے لیے) چادر نہ تھی یا ان کے پاس صرف لنگی تھی یا (بدن ڈھانپنے کے لیے)ا یک کمبلی جس کو انہوں نے گردن سے (نیچے تک) باندھا ہواتھا، کوئی کملی تو ٹخنوں تک پہنچ جاتی، کوئی پنڈلیوں تک ہی پہنچتی،(رکوع سجدہ کے وقت) اس کو ہاتھ سے سنبھالے رہتے کہ(جسم کا) پوشیدہ حصہ نہ کھل جائے۔‘‘     انہی نفوس قدسیہ میں سے خود حضرت ابوہریرہ q بھی تھے جن پر بعض اوقات بھوک سے غشی کے دورے پڑا کرتے اور مسجد نبوی کے اندر منبرِ نبوی اور بیت الرسولؐ کے درمیان روضہ میں بے ہوش پڑے ہوتے اور عام حضرات کا گمان ہوتا کہ ان پر مرگی کا دورہ پڑا ہے، حالانکہ صرف بھوک کی شدت اور فاقوں کی کثرت سے ان پر اس قسم کی حالت طاری ہوتی تھی، خود انہی کے زبان سے صحیح بخاری میں یہ ساری تفصیل مذکور ہے۔ آخر اس جفاکشی اور اس اندازِ طالب علمی کے جو حیرت انگیز نتائج ہونے چاہیے تھے وہ امت کے سامنے آئے، خود انہی کے زبان سے ’’صحیح بخاری‘‘ میں مروی ہے: ’’صحبتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثَ سنین فلم أکن فی سنی أحرص علی أن أعی الحدیث منی‘‘۔ (صحیح البخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ج:۱، ص:۵۰۷، ط:قدیمی) ’’میں تین سال تک (ہمہ وقت) رسول اللہ a کے ساتھ رہا، میں نے اپنی عمر میں اپنے سے زیادہ حدیثوں کو یاد کرنے کا حریص (سرگرم شائق) اور کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘     اتنے مختصر عہد میں جو روایتیں مدونینِ کتب حدیث کو ان سے پہنچی ہیں، ان کی تعداد ۵۳۷۴ ہے۔ نہ معلوم اور کتنی روایتیں ہوں گی جو مدونین کتب حدیث تک ان کے معیار کے مطابق نہ پہنچ سکیں جو یقینا اس قدسی صحبت اور اس فنافی العلم کے جذبہ کی برکات تھیں، چنانچہ پورے آٹھ سو صحابہؓ وتابعینؒ کو ان سے شرف تلمذ حاصل ہوا اور دین کا بہت بڑا حصہ تنہا انہی کی روایات سے امت کو پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے مستشرقین اور منکرین حدیث مستغربین اور ان کے علاوہ اعدائِ اسلام کا سارا زور حضرت ابوہریرہ q پر طعن و تشنیع اور عیب چینی پر صرف ہورہا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی بنا پر ان اصحاب صفہؓ کے فقرو افلاس کی حالت کو برداشت کیا گیا؟ اور ان کو فکر معاش کی طرف کیوں متوجہ نہیں کیا گیا؟ کیوں ان کو زراعت یا صنعت وحرفت کی طرف رغبت نہیں دلائی گئی؟ اور کیوں ان کے پیٹ بھرنے یا سد ِرمق کے لیے زکاۃ وصدقات کا انتظار کیا جاتا؟ اور جب انتہائی مجبوری کی نوبت آجاتی اور فاقوں پر فاقے پڑنے لگتے تو حضرت رسول اللہ a ہر ایک صحابیؓ کو اربابِ صفہؓ میں سے ایک ایک نفر کو کھاناکھلانے کے لیے اپنے گھر لے جانے کا ارشاد فرماتے او رخود بھی دس دس افراد کو اپنے ہمراہ لے جایا کرتے تھے، اس لیے کہ ازواج مطہراتؓ کی تعداد ۹؍تھی اور دسویں آپa تھے، اس لحاظ سے گویا ’’طعام الواحد یکفی الإثنین‘‘ کے اصول پر جو حدیث مرفوع میں مذکور ہے(صحیح البخاری)خود بیوت نبی علیہ الصلاۃ والسلام میں عمل ہوتا تھا۔ یہ تو احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے شواہد وبینات ہیں، اب ذرا قرآن کریم کا ارشاد بھی سنیئے: ’’الَّذِیْنَ أُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِیْ الْأَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ أَغْنِیَائَ مِنَ التَّـعَـفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ لَا یَسْأَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافاً‘‘۔     (البقرۃ:۲۷۳) ’’وہ حاجت مند (تمہاری امدادواعانت کے مستحق ہیں) جو اللہ کی راہ میں (کسب معاش سے) روک دیئے گئے ہیں، وہ (روزی حاصل کرنے کے لیے) روئے زمین میں (کہیں) جاآنہیں سکتے، ناواقف آدمی تو ان کے (سوال کرنے سے )بچنے کی وجہ سے ان کو مالدار گمان کرتے ہیں (لیکن) تم ان کے فقرو افلاس کو ان کے چہرہ بشرہ سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے سوال ہی نہیں کرتے کہ( پیچھے پڑیں اور) اصرار کریں۔‘‘     مفسرین کااتفاق ہے کہ یہ آیت ِکریمہ انہی نفوس قدسیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کی زندگی کا مقصدِ وحید صرف تعلیم دین اور جہاد تھا۔     ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول a نے نہ صرف اس صورت حال کو قائم رکھا، بلکہ اس کی تعریف وتوصیف وحی متلو میں بھی فرمائی، کیا یہ واضح وصاف دلیل اس کی نہیں ہے کہ امت میں کچھ افراد ایسے ہونے چاہئیں جن کی حیاتِ طیبہ کلی طور پر علم ودین کے لیے وقف ہوچکی ہو؟ اس مقدس مشغلہ کے علاوہ ان کا اور کوئی مشغلہ ہی نہ ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ کھائیں گے کہاں سے؟ اور ضروریات معاش پوری کیسے کریں گے؟ تو قرآن حکیم کی تعلیمات اور نبی کریم a کے تعامل میں اس کاواضح جواب صرف یہی ملتا ہے کہ ان کی ضرورت کا تکفل اور خبر گیری امت ِمحمدیہ کے ذمہ فرض ہے، وہ اپنے صدقات وخیرات اور زکاۃ سے ان کی خدمت کرے گی، اسی لیے علم دین میں مہارت وخصوصیت فرض کفایہ ہے، فرضِ عین نہیں کہ ہر شخص کے بس کا یہ کام نہیں۔ اس کے بعد قابل غوریہ ہے کہ علم دین حاصل کرنے کے دو مقصد ہیں: علم دین حاصل کرنے کا مقصد     ۱:…خود اپنی تکمیل یعنی صاحب کمال بننا، اپنی دینی زندگی کو صلاح وتقویٰ سے آراستہ کرنا، تاکہ فلاح وسعادتِ دارین سے خود بہرہ ور ہوسکے۔     ۲:…دوسروں کی خدمت کرنا اور ان کو سعادتِ دارین سے ہمکنار کرنا۔      لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اگر کوئی عالم دین اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریاتِ زندگی کے لیے محتاجِ کسب معاش ہے تو اسی معاش کے ذرائع اور صحیح وسائل اختیار کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔ کیا اسلام کے انتہائی مجدو عروج کے دور میں کبارامت نے معاشی ذرائع اختیار نہیں کیے؟ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ علماء کے مناصب     اب رہا یہ کہ علماء دین کے وہ مناصب کیا ہیں جن کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی دینی خدمت انجام دے سکیں؟ اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے وہ کون سے شعبے ہیں جو ان کے سپرد ہونے چاہئیں؟ اس سوال کا جواب بالکل صاف ہے کہ اسلام کے عروج کے دور میں انہی علماء میں سے حسب اہلیت علماء خلافت، حکومت، احتساب، قضاء ،افتائ، خطابت، تبلیغ دین، درس وتدریس،تصنیف وتالیف، وغیرہ وغیرہ مناصب پر فائز تھے، جب کہ علوم اسلامیہ میں دین ودنیا کی تفریق نہ تھی اور ’’رجال دین‘‘ و ’’رجال دنیا‘‘ کے درمیان کچھ زیادہ وسیع خلیج حائل نہ تھی اور نہ کوئی بنیادی تفاوت موجود تھا۔ دنیا کے تمام کام دین کی تعلیمات کی روشنی میں انجام پاتے تھے، لیکن اس دور میں بھی اگر مسلمان اپنے دین اسلام سے بالکل بے نیاز اور بے تعلق نہ بنیں تو ان کے بچوں کے لیے تعلیم قرآن، ان کی مساجد کے لیے امام وخطیب و مؤذن، شب وروزکی زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں شرعی احکام بتلانے کے لیے مفتیین اور علومِ دینیہ( قرآن وحدیث وفقہ) کی حفاظت کے لیے معاہد ِدینیہ ومدارس اسلامیہ میں تدریس کے مناصب تواب بھی موجود ہیں، پھر علماء کی فکر معاش کا بہانہ بنا کر کیوں مدارس دینیہ کی مخالفت کی جاتی ہے؟ پاکستان کی دس کروڑ آبادی میں کل علماء وطلباء علم کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ نہیں، اگر مدارس اسلامیہ کی تعداد تقریباً۲۰۰۰ ؍بھی ہو تو مساجد کی تعداد کم از کم ایک لاکھ ہے، اگر مسلمان اس امر کا عہد کرلیں کہ ہر مسجد کا امام وخطیب باقاعدہ مستند عالم ہوگا تو ان طلبہ وعلماء کی تعداد اس ایک ہی دینی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتی۔ درسِ قرآن وتعلیم اطفال وتعلیم قرآن( حفظ وناظرہ) نیز تدریسِ علوم دینیہ وافتاء یعنی مدرسین ومفتیین مدارسِ اسلامیہ کی ضرورت اس کے علاوہ رہے گی۔ آخر اس مروجہ دنیوی تعلیم کا مقصد تو یہی ہے تاکہ پیٹ کی پرورش ہوسکے اور حکومت کا دفتری نظام چل سکے، لیکن جس کثرت سے لڑکوں اور لڑکیوں کی عصری تعلیم کا ہیضہ ملک میں پھیل رہا ہے، کیا اس کی نسبت سے سرکاری عہدے اور منصب اتنے ہیں کہ سب کو جگہ دی جاسکے؟ پھر اس تعلیم کی اتنی مخالفت کیوں نہیں کی جاتی جتنی علوم دینیہ اور علماء دین کی کی جارہی ہے؟ درحقیقت مسئلہ صرف دینی علماء وطلبہ کی معاش کا نہیں ہے، بلکہ دنیوی علوم کے فارغ التحصیل طلبہ کی معاش کا مسئلہ اس سے بدرجہا مشکل ہے۔     ایسی صورت میں بڑے افسوس کا مقام ہے کہ جو افراد اللہ اور اس کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے دین کی حفاظت کررہے ہیں اور امت ِمحمدیہ کے لیے راہِ سعادت ونجات کو محفوظ کررہے ہیں ان کو تو بیکار اور عضو معطل سمجھا جارہا ہے او رجن افراد کا معاشرہ میں صرف یہی مقام ہے کہ اپنے پیٹ بھرنے کی فکر کریں اور حکومت کی مشنری کو چلائیں ان کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ فیاللعجب ویا للأسف! اصل مشکل کا حل     دراصل اگر یہ علمائِ دین کی معاش کا مسئلہ کوئی مشکل ہے اور اس مشکل کو حل کرنا ضروری ہے تو اس کا حل صرف یہ ہے کہ حکومت کی وزارتِ تعلیم میٹرک تک کی تعلیم دینی اور دنیوی مشترک رکھے، بلکہ میٹرک تک کی تعلیم کی بنیاد دینی تعلیم پر ہو اور عربی زبان کی تعلیم وتدریس لازمی وضروری ہو، تاکہ ایک میٹرک پاس طالب علم بھی بقدرِ ضرورت دونوں شعبوں کی خدمات انجام دے سکے۔ درحقیقت یہ مشکل خود حکومت نے اور اس کے غلط نظامِ تعلیم نے بلکہ برطانوی عہد کے ملعون طریقۂ تعلیم نے پیدا کی ہے اور شومئیِ قسمت سے آج تک اسی قے کو ہم چاٹ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس معاملہ میں اگر قصور ہے تو صرف جدید نظام تعلیم کا ہے۔ اگر ابتدائی تعلیم سے لے کر میٹرک تک کی تعلیم میں علم دین کا وافر حصہ شامل کر لیا جائے، بلکہ زیادہ تر توجہ تعلیم دین پر ہی مرکوز ہو اور جدید حصہ پر توجہ ثانوی درجہ میں تو رجالِ دین او ررجالِ دنیا کی تفریق خود بخود ختم ہوجائے گی، جس نے اس ملک کے معاشرے پر بہت برا اثر ڈالا ہوا ہے اور تکلیف دہ خلیج حائل ہوگئی ہے، أللّٰھم اھد قومی فإنھم لایعلمون۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین