بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اشاعت دین میں خواتین کا کردار!

اشاعت دین میں خواتین کا کردار!



اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح مردوں سے دین کی خدمت لی ہے، اسی طرح عورتوں سے بھی دینی خدمت لیتے آئے ہیں، قرآن کریم میں سورة النمل اور سورة القصص دو مفصل سورتیں ہیں، ایک میں ملکہ بلقیس کی حقیقت پسندی اور ایمان ذکر فرمایا ہے اس کے بعد متصل سورت میں فرعون کا قصہ ہے، اس میں اشارہ ہے کہ بعض عورتیں مردوں سے زیادہ حقیقت پسند اور زیادہ دین کا کام کرنے والی ہوتی ہیں۔ بلقیس کا قصہ مشہور ہے کہ: جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہدہد کے ذریعے پتا چلا کہ وہاں ایک عورت ہے جو تملکھم (ان کی بادشاہ ہے) قابل تعجب بات یہ ہے کہ: ۱:-عورت ہے اور ملکہ ہے۔ ۲:-دوسری تعجب کی بات یہ ہے کہ أُوتیت من کل شیء، کہ اس کے پاس ہر قسم کا ساز و سامان ہے۔ ۳:-تیسری تعجب کی بات یہ ہے کہ ولھا عرش عظیم کہ عظیم الشان تخت کی مالکہ ہے۔ ۴:-اور چوتھی تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کو اور اس کی قوم کو میں نے دیکھا کہ وہ سورج کی عبادت کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو خط لکھا، ملکہ بلقیس نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے اس خط کے تناظر میں مشورہ کیا اور بادشاہی روایات کے مطابق حضرت سلیمان کو ہدیہ بھیجا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدیہ واپس فرمایا اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور تبلیغ کی۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ بلقیس کا نکاح حضرت سلیمان علیہ السلام سے ہوا ہے، نکاح ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اتنی بات تو ضرور ہے کہ قرآنِ کریم میں أُدخلی الصرح تو ہے، اور جس محل میں وہ داخل ہوئی ہے اس سے نکلنا ثابت نہیں، بہرحال وہ اتنی حقیقت پسند تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک بار دعوتِ اسلام سے متأثر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور کوئی رد و قدح نہیں کی۔ اس کے بالمقابل فرعون کا قصہ ہے، فرعون باوجود مرد ہونے، ہوشیار ہونے اور باوجود تمام اسبابِ ہدایت موجود ہونے کے، اس کی ضد، عناد، جحود اور تکبر و اِستکبار کی وجہ سے اس کو ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔ ماشاء اللہ! دین پڑھنے والی یہ طالبات دینی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد دین کی وہ خدمت کریں گی اور دین کو اس طرح سینے سے لگائیں گی جس طرح بلقیس نے لگایا تھا، متنبی کا مشہور شعر ہے آپ نے سنا ہوگا:
ولا التأنیث لاسم الشمس عیب
ولا التذکیر فخر للھلال
ترجمہ:۔”موٴمن ہونا شمس کے لئے عیب کی بات نہیں ہے، شمس موٴنث ہے اور اعلیٰ درجے کی چیز ہے، اور ہلال کے لئے مذکر ہونا فخر کی بات نہیں ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: عورتیں ناقصات العقل و ناقصات الدین ہیں، ناقصات الدین کا مطلب یہ ہے کہ بعض ایام ایسے آتے ہیں کہ جس میں وہ دین پر عمل نہیں کرسکتیں، یعنی اس نقص کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ان کے اختیار کو کوئی دخل ہے، بلکہ یہ ایسے ہے جیسے ہم کہیں کہ فلاں کا قد چھوٹا ہے اور شاخ تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچتا، حالانکہ وہ اپنی جگہ کامل مرد ہے۔ اسی طرح عورتوں کو ناقصات العقل کہا گیا ہے۔ عقل کی دو قسمیں ہیں: ۱:․․․عقل شرعی، ۲:․․․عقل عرفی۔عورتوں میں عقل عرفی بہت اعلی درجے کی ہے۔ شریعت نے عورتوں کو کس طرح ناقصات العقل کہا ہے؟ تو اس کا آسان جواب آپ کو بتاتا ہوں کہ ناقصات العقل سے مراد عقل شرعی ہے، عقل عرفی عورتوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے، خود حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ یہ عورتیں أذھب للب الرجل الحازم من احداکن ہوشیار مرد کو بھی بوتل میں اتارنے والیاں ہیں، گھر میں بھی اس کی حکومت چلتی ہے اور باہر بھی اس کی حکومت چلتی ہے۔ ہاں عقل شرعی کی کمی ہوتی ہے، اور عقل شرعی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نتائج کو نہ سوچے، جب آدمی نتیجے پر غور نہیں کرتا تو اسے نقصان ہوتا ہے، جیسے عورت یہ کہتی ہے کہ فلاں موقع آرہا ہے اور اس پر ہمیں اتنا خرچ کرنا ہے، ختنے میں اتنا خرچ کرنا ہے، شادی میں اتنا خرچ کرنا اور منگنی میں اتنا خرچ کرنا ہے، اور فلاں رسم اس طرح ہونا چاہئے، تو شوہر اور باپ کے مال کو انہی چیزوں میں اڑاتی ہیں، اس معنیٰ میں ان کو ناقصات العقل کہا گیا ہے کہ نتائج کو وہ نہیں سوچتیں۔ بہرحال حضرت بلقیس بھی عورت تھی اور اسی طرح حضرت آسیہ بنت محازب فرعون کے گھر میں تھی اور فرعون کے گھر میں پلی بڑھی، فرعون کی بیوی تھی، اس کے باوجود اللہ نے اس کو اعلیٰ درجے کی ہدایت کی توفیق نصیب فرمائی تھی، فرعون کا مقابلہ کیا اور سخت مشقتوں کو برداشت کیا، اسی طرح دین کی محنت میں آپ مشقتوں کو برداشت کریں اور اس محنت اور مشقت کے نتیجے میں اللہ آپ کو مالامال فرمائیں گے ان شاء اللہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن باکمال عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے ان میں حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ ا ور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن بہت نمایاں ہیں، ان میں سے ہر خاتون کی دینی، علمی، عملی ہراعتبار سے ہر ایک کی الگ خصوصیت تھی، گویا ہمیں یہ حکم ہو رہا ہے کہ ہماری عورتوں کو ان خصوصیات کے اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے، اگر ان خصوصیات میں سے کوئی خصوصیت آپ میں نہیں ،تو آپ کامل نہیں بلکہ ناقص ہوں گی۔ حضرت خدیجة الکبریٰ کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دین کے لئے قربانی دیتی تھیں، دین کے لئے جتنی قربانی انہوں نے دی، اتنی قربانی دوسری عورتوں نے بہت کم دی ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور ان کو تسلی دینا اور ان پر اپنا مال خرچ کرنا اور ان کے ساتھ شعب ابی طالب میں رہنا اور بھوک و پیاس برداشت کرنا، یہ ان کی خصوصیات تھیں، اس خصوصیت کو ہم بھی اور ہماری عورتیں بھی اختیار کریں کہ اپنا مال دین پر خرچ کریں اور دین کے راستے میں بچے اور بچیوں پر تکلیف آئے یا شوہر پر تکلیف آئے تو ان کو حوصلہ دیں۔ جب رسول اللہ علیہ وسلم پریشان تھے تو حضرت خدیجہ نے فرمایا: اللہ آپ کو ذلیل و رسوا نہیں کریں گے۔
انک لتصل الرحم،
آپ رشتہ داریوں کو پالتے ہیں۔
وتحمل الکل،
اور آپ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
وتکسب المال للمعدوم،
اور مال کماکر ان کو دیتے ہیں، جن کے پاس مال نہیں ہے۔
وتعین علی نوائب الحق،
اور حق کے راستے میں جو مصیبتیں پڑتی ہیں ان کی مدد کرتے ہیں، دیکھو! تسلی دینا، مال خرچ کرنا اور مصیبت برداشت کرنا یہ خصوصیت ہماری عورتوں میں بھی آنی چاہئے جتنا عمل اونچا ہوتا ہے جزاء بھی اتنا ہوتی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جبریل نے مجھے فرمایا کہ: میں خدیجہ کو ایسے محل کی خوشخبری دوں جو موتی کا بنا ہوا ہے۔ جنہوں نے دین میں مشقت برداشت کی ان کے ساتھ خاص فضل و کرم اور راحت والا معاملہ ہوگا، ایک پہلو تو یہ ہے، اس پہلو سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری عورت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھی وہ حضرت عائشہ  تھیں، ان کی دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ علم کے حاصل کرنے میں بہت زیادہ مشغول تھیں، محدثین نے راویوں کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے:
۱:- بعض راویوں کو مکثرین کہتے ہیں، جن صحابہ سے ایک ہزار سے زیادہ روایات مروی ہوں وہ مکثرین ہیں۔
۲:- جن راویوں سے سو سے لے کر ہزار تک احادیث مروی ہوں ان کو متوسطین کہتے ہیں۔
۳:- جن صحابہ سے سو سے کم احادیث مروی ہوں ان کو مقلّین کہتے ہیں۔
حضرت عائشہ کا شمار مکثرات صحابہ میں سے ہے، اور ان سے ۲۲۱۰ احادیث مروی ہیں۔
سب سے پہلا مرتبہ حضرت ابوہریرہ کا ہے ان سے ۵۳۷۴ احادیث مروی ہیں، اس کے بعد ابن عمر ہیں، اس کے بعد حضرت انس اور اس کے بعد حضرت عائشہ ہیں جن سے ۲۲۱۰ روایات مروی ہیں۔ تو ہماری خواتین کا فرض یہ ہے کہ وہ حضرت عائشہ کی وراثت کو سنبھالیں، ان کی وراثت، علم کا پھیلانا ہے، حضرت عائشہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی علم سکھاتی تھیں، اور رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے مرد صحابہ بھی پردے کے پیچھے بیٹھ کر ان سے علمی استفادہ کرتے تھے، جس پر کئی احادیث دال ہیں کہ پردے کے پیچھے سے حضرت عائشہ نے یہ فرمایا، یہ فرمایا وغیرہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی ایک خاتون حضرت فاطمہ تھیں، ان کو ایک نمایاں خصوصیت یہ حاصل تھی کہ وہ گھر کا کام کاج خود کیا کرتی تھیں، وہ واقعہ تو آپ سب جانتی ہوں گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اور خادمائیں آئی تھیں، حضرت فاطمہ نے گھر کے کام کاج کے لئے ایک خادم طلب فرمایا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم عطا نہیں فرمایا بلکہ اس کی جگہ تسبیحاتِ فاطمہ سکھائیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تسبیحاتِ فاطمہ کو غنیٰ، مال داری اور رزق کی وسعت میں بہت بڑا دخل ہے۔ دوسری بات جو ہمیں اس روایت سے ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے خادم یا خادمہ کا انتظام نہیں فرمایا، کیونکہ گھر کا کام کاج خادم کے بغیر عورت چلاسکتی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خادم دے دیتے تو یہ مسئلہ بن جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو جب خادمہ ملی تھی تو ہم سب کو بھی خادمہ ملنی چاہئے، بغیر خادمہ کے کام ہی نہیں کریں گی۔ حالانکہ غریب اور متوسط گھرانوں میں یہ کام نہیں ہوتا یہ خادم اور خادمائیں نہیں ہوتیں۔ تو جیسے آپ کا کام علم سیکھنا ہے، اسی طرح آپ کا کام گھر کا کام کاج سیکھنا بھی ہے، آپ کی ڈیوٹی اور فرائض مردوں سے زیادہ ہیں، کیونکہ مردوں کا کام صرف باہر کا کام ہے، اور آپ کے ذمہ گھر کے کام کاج کے ساتھ علم کا کام بھی ہے جو کہ حضرت عائشہ و فاطمہ کا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعد میں لوگوں کو پریشانیاں لاحق ہوں، آپ علیہ السلام کے گھر کی تینوں خواتین کی خصوصیات پر ہمیں نظر رکھنی چاہئے۔ پھر آج کل عورتوں کے مسائل اتنا زیادہ ہیں کہ مردوں کے لئے ان کا سمجھنا تو آسان مگر ان کا سمجھانا مشکل ہے، اور اگر عورت عورت کے ذریعے علم سیکھتی ہے تو اسے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اس لئے کہ جنس جب اپنی جنس کو سکھاتی ہے تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے، الحمدللہ! یہ جامعہ کی شاخ ہے اور اچھا کام کر رہی ہے جس طرح طلبہ کو اس سے فائدہ ہے، اسی طرح طالبات کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ دنیا کی زندگی ہے اس علم اور دینی مشغلے کی برکت سے ان شاء اللہ دنیا کا وقت بھی اچھا گزرے گا اور دینی ماحول بھی آپ کی برکت سے بنے گا، جب دینی ماحول بنتا ہے تو اسے ہم نورانی ماحول کہتے ہیں، نورانی ماحول میں روشنی ہوتی ہے اور اس روشنی کی وجہ سے گھر میں سکون اور اطمینان ہوتا ہے، اب اگر کسی عالم کے گھر میں عالمہ بیوی ہو تو عالم شوہر بھی کتاب دیکھے گا اور عالمہ بیوی بھی کتاب دیکھے گی تو پھر کوئی نزاع اور جھگڑا نہیں ہوگا، اور اگر شوہر عالم ہو اور وہ کتاب دیکھتا ہے اور بیوی کتاب کے حروف کو بھی نہیں جانتی تو بیوی کہے گی کہ کتاب کیوں دیکھتے ہو؟ میرے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ حضرت سفیان ثوری کی بیوی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کہتی تھی کہ:
ھٰذہ الکتب أضر علیّ من ثلٰث ضرائر،
کہ سفیان کی کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں، اس لئے کہ شوہر کی لائن الگ تھی اور بیوی کی لائن الگ تھی، اور جب دونوں کی ایک ہی علمی لائن ہو تو دونوں ایک دُوسرے کے لئے معاون ہوتے ہیں، شوہر بیوی کے لئے اور بیوی شوہر کے لئے۔ صاحب بدائع و صنائع خود بھی مفتی تھے اور ان کی اہلیہ بھی مسائل بتایا کرتی تھیں، اور شوہر کے ساتھ تصنیف و تالیف اور افتاء میں مدد کیا کرتی تھیں، جو فتویٰ شائع ہوتا تھا اس میں دونوں کے دستخط ہوتے تھے، گویا کہ وہ بھی مدد کرتی تھیں، ماشاء اللہ آپ دینی ماحول میں بھی مدد کریں گی اور دنیوی ماحول میں بھی۔ اسی لئے ہمارے شیخ الشیخ یعنی شیخ الحدیث صاحب کے ایک خلیفہ تھے اور وہ ڈاکٹر بھی تھے، کسی نے ان سے ایک مرض کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہہ دیا کہ فلاں ڈاکٹر سے رجوع کرو، جیسا کہ دوسرے ڈاکٹر کہتے ہیں۔ تو شیخ الحدیث صاحب نے ان سے کہا کہ: ڈاکٹر صاحب! جیسے آپ کو تصوف کی لائن میں سب سے آگے ہونا چاہئے ایسے ہی ڈاکٹری کی لائن میں بھی آپ کو سب سے آگے ہونا چاہئے، تاکہ باہر کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان مولویوں نے ڈاکٹروں کو بھی خراب کردیا اور ان کی ڈاکٹری ختم ہوگئی۔ اسی طرح آپ کو اگر سلائی کڑھائی اور گھر کے کام کاج میں تجربہ نہیں ہوگا تو علم میں چاہے جتنا بھی تجربہ ہوگا لوگ اور دیگر عورتیں آپ کو ناقص اور غیرمکمل سمجھیں گی، اور وہ کہیں گی کہ یہ کیسی عورت ہے کہ جس کو عورتوں کا کام نہیں آتا؟لہٰذا آپ وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دوسری عورتیں تو صرف گھر کا کام کاج جانتی ہوں گی اور آپ کام کاج کے ساتھ علم بھی جانتی ہوں گی تو آپ کو فوقیت حاصل ہوگی، آپ اپنے اساتذہ کے لئے بھی صدقہ جاریہ بنیں گی اور والدین بھی خوش ہوں گے، یہ نہ ہو کہ والدین ناراض ہوں کہ جب گھر میں آتی ہیں تو صرف کتاب کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کسی کام کو نہیں جانتی، لہٰذا اپنے اوقات کو تقسیم کرنا ہے کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک علم کا کام، اور فلاں وقت سے فلاں وقت تک گھر کا کام کروں گی۔ شمائل ترمذی میں یہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا تھا، ایک حصہ اہل و عیال کے لئے، ایک حصہ اپنے آرام کے لئے، جس میں سے کچھ حصہ نکال کر صحابہ کو دیا کرتے تھے، اور ایک حصہ اپنے رَبّ ذوالجلال کی عبادت کے لئے تھا۔ یہ سیرت کی کتابیں جب ہم پڑھتے ہیں تو یہ صرف پڑھنے کے لئے نہیں ہیں، بلکہ سیکھنے کے لئے بھی ہیں، ہم بھی اپنے اوقات، دن کے ہوں یا رات کے ان کو تقسیم کرلیں اور یہ ترتیب بنالیں کہ فلاں وقت سے فلاں وقت ہمیں یہ دینی کام کرنا ہے، اور فلاں وقت سے فلاں وقت ہمیں یہ دنیوی کام سیکھنا ہے، والدہ اور والد کی خدمت کرنی ہے، شوہر اور بچوں کی خدمت کرنی ہے، اسی طرح اوقات کو تقسیم کرنا چاہئے، بہرحال اللہ تعالیٰ آپ کو برکات سے نوازیں اور آپ سے دین کی خدمت لے لیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین