بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسکائی ایمس "SKYAIMS" کمپنی سے معاملات


اسکائی ایمس "SKYAIMS" کمپنی سے معاملات

    
    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
    پاکستان میں ۳؍اگست ۲۰۰۹ء کو ایک کمپنی کی ابتداء ہوئی جس کا نام "SKYAIMS" ہے۔ "SKYAIMS"ایک ڈائریکٹ مار کیٹنگ کمپنی ہے جو کوسمیٹکس، پرفیومز اور ہیلتھ پروڈکٹس سیل کرتی ہے۔ 
    سوال یہ ہے کہ میں اس کمپنی کا کسٹمرہوں، یعنی میں نے اس کمپنی کی پروڈکٹس کی خریداری کی ہے، جوکہ ’’ایلوویرا جوس‘‘ ہے اور کئی امراض میں صحت کے لئے مفید ہے۔اس کمپنی سے جو کوئی بھی ۲؍عدد جوس خریدتا ہے تو کمپنی اس کسٹمر کو ایک بزنس بھی فراہم کرتی ہے۔ بغیر خریداری کے بھی یہ بزنس مل سکتا ہے، بجائے خود خریداری کرنے کے آگے کسی اور کو کسٹمر بناکر اس بزنس میں کوئی بھی شامل ہوسکتا ہے۔ کمپنی اپنے کسٹمر کو ایک Right-Leftایجنسی دیتی ہے جس میں کمپنی کی طرف سے یہ پیشکش ہوتی ہے کہ یہ کسٹمر مزید آگے اس کمپنی کی پروڈکٹس کے خریدار تیار کرے، جس کے عوض اس کو کمیشن دیا جاتا ہے۔ ہر ایک کسٹمر بنانے کے عوض کمپنی اپنے Distributurکو ۵۰۰روپے بطور سپریم کمیشن دیتی ہے، اس طرح ۱۰ کسٹمر بنانے پر ۵۰۰۰ اور ۵۰ کسٹمرز بنانے پر ۲۵۰۰۰ روپے بطور سپریم کمیشن دیتی ہے۔ 
    اس کے علاوہ کمپنی کی طرف سے یہ بھی پیشکش ہوتی ہے کہ اگر ایک کسٹمر Rightپر اور ایک Leftپر رجسٹر کروایا جائے تو ایک یونٹ مکمل ہوجا ئے گا اور ہر یونٹ کے عوض یونٹ کمیشن ۴۰۰ روپے بھی دیا جائے گا۔اگراس طرح نہ کیا جائے، بلکہ ایک ہی طرف رجسٹرڈ کرواتے جائیں تو پھر یونٹ کمیشن نہیں ملے گا،البتہ وہ پہلا والا سپریم کمیشن بدستور ملے گا جو کہ کسٹمر کے عوض ۵۰۰روپے ہے۔
    چونکہ اس کمپنی کی پروڈکٹس کے کسٹمر تیار کرنے کے لئے ہمیں اپنا وقت لگانا پڑتا ہے، اپنی گاڑی اور اپنا فون وغیرہ استعمال کرنا ہوتا ہے، اس کے بعد خریدار تیار ہوتا ہے۔ جو کسٹمر ہماری اپنی محنت سے تیار ہوتا ہے، ہمیں اس پر کمیشن ملتا ہے۔ اگر ہمارے رجسٹرڈ کسٹمر آگے خود صرف اپنی محنت سے کسٹمر تیار کریں تو کمیشن صرف انہی کا حق ہے، ہمارا نہیں۔ اگر ہم اور ہمارے رجسٹرڈ کسٹمر دونوں کی مشترکہ محنت سے کوئی کسٹمر تیار ہو تو کمیشن ہم دونوں کو ملتا ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ میں اس کمپنی کا خریدار بن کر اس کی پروڈکٹس استعمال کرنا چاہتا ہوں، نیز اس کا ایجنٹ بن کر اپنی محنت کے عوض کمپنی سے کمیشن لینا چاہتا ہوں تو میرا یہ کمیشن لینا کیسا ہے؟ شرعی اعتبار سے مجھ کو اجازت حاصل ہے یا نہیں؟ امید ہے کہ تفصیلی جواب سے مطلع فرمائیںگے۔ 
                                   مستفتی:امیر معاویہ، لاہور
الجواب باسمہٖ تعالیٰ
    صورتِ مسئولہ میں جس کمپنی (SKYAIMS)کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، اس کے طریق کار کو دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ کمپنی کے ساتھ معاملہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ:
    ۱…اس میں ’’جوا‘‘ کی صورت پائی جاتی ہے، اس طور پر کہ مذکورہ کمپنی اور اس جیسی دیگر کمپنیاںاپنی مصنوعات کو بازاری قیمت سے مہنگے داموں پر فروخت کے لئے پیش کرتی ہیں اور لوگ کمیشن کے حصول کے لئے ان مصنوعات کو خرید لیتے ہیں۔ اب اگر کوئی ممبر بنانے میں کامیاب ہوا تو کمیشن کی صورت میں اپنی زائد رقم وصول کرسکے گا، ورنہ بازاری قیمت سے زائد رقم ڈوب جائے گی اور رقم کو اس طرح کسی کام پر معلق کرنا کہ اس کے ہونے اور نہ ہونے دونوں کا احتمال ہو، اسی کو ’’جوا‘‘ کہتے ہیں۔’’احکام القرآن‘‘ میں ہے:
’’قال قوم من أہل العلم: القمار کلہ من المیسر وحقیقتہ تملیک المال علی المخاطرۃ وہو أصل فی بطلان عقود التملیکات الواقعۃ علی الأخطار‘‘۔                                                    (ج:۲، ص:۶۵۴،ط:قدیمی)
    ۲…کمپنی کا اصل مقصد اپنی مصنوعات کی فروخت نہیں ہوتا، بلکہ محض سرمائے کی گردش ہوتی ہے، اس لئے اگر کوئی ممبر بنے بغیر مصنوعات خریدنا چاہے تو اسے یہ مصنوعات فروخت نہیں کی جاتیں۔
    ۳…اس کاروبار میں جوبنیادی چیز ہے وہ کمیشن ہے، گویا کمیشن کو ان اداروں میں مستقل تجارتی اور کاروباری شکل دے دی گئی ہے، جبکہ اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں، بلکہ فقہاء نے دلالی کے معاوضہ یعنی کمیشن کو اجارہ کے اصول وضوابط سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر اصولاً ناجائز قرار دیا ہے، البتہ کثرت تعامل کی وجہ سے کمیشن کی محدود گنجائش دی ہے، لیکن ساتھ ہی فقہاء نے یہ تصریح بھی فرمائی ہے کہ جواز کا قول اختیار کرنے کے باوجود دلالی کی اکثر صورتیں ناجائز ہی ہواکرتی ہیں۔’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’تفسد الإجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد، فکل ما أفسد البیع یفسدہا (أی الإجارۃ) کجہالۃ ماجور أو أجرۃ أو مدۃ أو عمل‘‘۔ (قال الشامی) إلا فیمااستثنیٰ، قال فی البزازیۃ: إجارۃ السمسار… ومالایقدر فیہ الوقت والعمل تجوز لما کان الناس بہ حاجۃ‘‘۔ (۶؍۴۶، ۴۷، ط:سعید)’’وفیہ‘‘ أیضاً:’’قال فی التاتارخانیۃ: وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل وما تواضعوا علیہ إن کافی کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیہم۔ وفی الحاوی سئل محمد بن سلمۃ عن أجر السمسار فقال: أرجو أنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ‘‘۔                                        (۶؍۶۳،ط:سعید)
     ’’إعلاء السنن‘‘ میں ہے۔
’’والحاصل أن أجر السمسار ضربان:إجارۃ وجعالۃ فالأول یکون مدۃ معلومۃ یجتہد فیہا للبیع وہذا جائز بلاخلاف…… والجعالۃ لایضرب فیہا أجل ولا یستحق فیہا شیئاً إلابتمام العمل وہی فاسدۃ عندنا لجہالۃ العمل والأجر معاًمرّۃً وجہالۃ أحدہما أخری‘‘۔  (۱۶؍۲۰۱،ط:ادارۃ القرآن)
    لہٰذا  مذکورہ کمپنی کے ساتھ اس کا ممبر بن کر کمیشن لینا درست نہیں۔فقط واللہ اعلم
الجواب صحیح         الجواب صحیح           کتبہ 
ابوبکرسعید الرحمن         محمد شفیق عارف         عبد الحمید
                دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین