بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلامی مملکت کیسی ہونی چاہیے؟!

اسلامی مملکت کیسی ہونی چاہیے؟!


عرصہ دراز کے بعد ایک خطہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا، تاکہ یہ خطہ اس آخری دور میں ملتِ مسلمہ کی ایک مثالی مملکت ہو جہاں حق تعالیٰ کے قوانینِ عدل جاری ہوں اور اس مملکت کے باشندے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے مالا مال ہوں اور ظاہری وباطنی برکات سے سر فراز ہوں، یہاں سکونِ قلب نصیب ہو، جان ومال وآبر و محفوظ ہو، امن وعافیت کی زند گی ہو، ظلم وعدوان کا دور ختم ہو، ہر شخص اس امانتِ الٰہیہ کا حقِ امانت ادا کرے، راعی ہو یار عیت، فوج ہو یا پولیس، حاکم ہو یا محکوم، تا جر ہو یا زمیندار، دکاندار ہو یا مزدور، ہر شخص اپنا فرضِ منصبی ادا کرے اور اطمینان کا سانس لے اور راحت کی زندگی گزارے اور صحیح معنی میں جنت جیسی زندگی ہو۔

بہشت آنجا کہ آزارے نباشد

کسے را با کسے کارے نباشد

حقیقت میں اسلامی زندگی دنیا میں ہی جنت کی زند گی ہوتی ہے، سب سے بڑی عظمت جو صحیح اسلام کی دولت سے نصیب ہوتی ہے وہ سکونِ قلب اور عافیت واطمینان ہے۔ اگر ہزاروں نعمتیں حاصل ہوں، مال ودولت کی فر اوانی ہو، عیش وعشرت کے تمام وسائل و اسباب میسر ہوں، لیکن قلبی سکون نہ ہو اور حزن وغم سے قلب حزیں ہو تو یہ تمام نعمتیں بے سود ہیں اور تمام باغ وبہار بے کار۔

بہارِ گل دل آسودہ را بکار آید

چوں دل ملول بود گل بدیدہ خار آید

خیال یہی تھا کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی ایک نیا نقشہ ہوگا، جس طرح روئے زمین کے نقشہ پر پاکستان کا وجودرونماہوا، اسی طرح زندگی کا ایک نیا نقشہ ہوگا، اُخوت ومودت کا عالم ہوگا۔ صو بائی اور قبائلی، وطنی اور لسانی تفریق مٹ جائے گی، نہ سندھی، نہ پنجابی، نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ مہاجر، نہ اصلی باشندہ۔ اسلام کی عالمگیر اُخوت کا مظاہرہ ہوگا، نہ مشرقی کا فرق نہ مغربی کا فرق، ایک اسلامی روح تمام جسمِ پاکستان میں جلوہ گر ہو گی، راعی یا سر براہِ مملکت کے دل میں اپنی رعیت کی محبت ومودت ہوگی، ان کے سامنے تمام باشندے یکساں ہوں گے، بلا تفریقِ وطن اور بلاتمیزِ مسلک سب حقوق انسانی بر ادری کے اصول سے یکساں طور پر ادا ہوں گے، قرآن وحدیث میں جو کچھ اسلامی اُخوت کے حقوق واصول بیان ہوئے ہیں اور جن کا ایک اچھا خاصاحصہ اس حقیر مجلہ ’’بینات‘‘ کے صفحات پر بارہا پیش کر نے کی سعادت حاصل کی گئی ہے، خیال تھا کہ یہ نقشہ سامنے آئے گا، بے تاب نگاہیں اور تڑ پتے ہوئے دل اس کے مشاہدے سے تسکینِ روح حاصل کر یں گے، لیکن جو کچھ ہوااور جو کچھ ہورہا ہے آپ کے سامنے ہے، عیاں راچہ بیاں، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ درحقیقت سب سے بڑی مصیبت صالح قیادت کا فقدان ہے، بالکل ابتداء میں کچھ تو قع ہو گئی تھی، لیکن چشمِ زدن میں وہ تو قع ختم ہو گئی:

 

از ما است کہ بر ما است

 حدیثِ نبوی میں جوارشاد ہوا کہ:

 ’’بادشاہ یا اسلامی مملکت کا سر براہ حق تعالیٰ کا اس زمین میں سایہ ہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، فصل فی فضل الامام العادل، ج:۶، ص:۱۵، ط:دارالکتب العلمیۃ، بیروت) 
یہ ظلِ خداوندی، یہ سایۂ الٰہی اگر نصیب ہو تو پھر کس بات کا خطرہ؟! خلافتِ الٰہیہ کا صحیح مظہر ایک اسلامی ملک کا سر براہ ہی ہوسکتا ہے، حق تعالیٰ شانہٗ کی ربوبیت کا پورا ظہور نسلِ انسانی میں کسی ملک کا صالح فر مانروا ہی ہوتا ہے، اس کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کاوہ ذمہ دار ہوتا ہے، بھوکوں پیا سوں کے لیے تمام انتظامات کرتا ہے، ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرتا ہے۔ غرض کہ تمام رعایا کے لیے ہر طرح صحیح معنوں میں ملجأ وماویٰ ہوتا ہے، حق تعالیٰ سے صحیح تعلق ہوتا ہے، پاکیزہ اخلاق ،پا کیزہ زند گی، باخدازندگی کا مظہرِ اتم ہوتا ہے، مظلوم پر رحم کرتا ہے، ظالم سے مظلوم کے لیے انتقام لیتا ہے، جس طرح ان کی جسمانی ضرورت اور امراض کے لیے مستشفیات وہسپتال قائم کرتا ہے، رعایا کی جان ومال کی حفاظت کے لیے پولیس کا نظام کیا جاتا ہے، مملکت کے حدود کی دشمنِ اسلام سے حفاظت کے لیے فو جیں ہوتی ہیں، سلسلۂ معاش ،وسائلِ رزق اور نقل و حمل اور درآمد وبرآمد کے لیے صحیح تدابیر ہوتی ہیں، مظلوم کے لیے ظالم سے داد خواہی کے لیے شرعی محاکمِ عدلیہ کا نظم ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ٹھیک اس طرح روحانی واخلاقی کر دار کی در ستگی کے لیے دل وجان سے لگ کر مؤ ثر تد بیر یں اختیار کی جاتی ہیں، لیکن وائے ناکامی ہو کیا رہا ہے؟ کونسی برائی ہے جو روز افزوں ترقی پر نہ ہو؟ بلکہ مختلف تد بیروں سے مسلسل ان برائیوں کو معاشرے میں پھیلایا جارہا ہے اور نئی نسل بری طرح ان کا شکار ہورہی ہے، افسوس کہ یہ ملک تباہی وبر بادی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے۔

مسلمانوں کی دردناک صورتِ حال اور اس کا سبب

دراصل جو موجودہ دردناک صورت حال کا نقشہ ہے، کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ معاشرہ اتنا تباہ وبر باد ہو چکا ہے کہ اب ان سے انتقام لیا جارہا ہے کہ ان پر ایسے بے رحم مسلط ہورہے ہیں کہ الا مان والحفیظ۔ ایک بحران ہے، ایک اضطراب ہے ،ایک انتشار ہے، ہر طرف بے قراری ، بے چینی، بد امنی اور خودغرضی، نہ کسی کی جان محفوظ، نہ کسی کی آبر و محفوظ۔ آج کار خانے کا مالک ہے، کل نانِ شبینہ کا محتاج ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کل کیا اُفتاد پیش آجائے۔ ہر طرف اقتدار کی مجنونانہ ہوس ہے، نہ رحم ہے، نہ عاطفہ ، نہ اخلاق، نہ خدا ترسی، گر انی روز افزوں بڑ ھ رہی ہے۔ بے ایمانی، بدمعاملگی اور بد عہدی کا دور دورہ ہے، نہ پولیس اپنا فرض ادا کرتی ہے، نہ حاکم کو اپنے زیر دستوں کی فکر ہے، نہ مز دور کو چین، نہ کار خانہ دار کو سکون، نہ زمیند ار کو اطمینان، نہ کا شت کار کو قناعت، ہر طرف حرص ہی حرص ہے، مال ودولت کی بھوک ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ملک کی پیدا وار خزانہ شاہی بھر نے کی غرض سے با ہر جاتی ہے، تاکہ زرِ مبادلہ حاصل ہوجائے، لوگ بھوک سے مر ر ہے ہیں اور یہاں کی پیدا وار باہر بھیجی جارہی ہے۔ غریب نان و نفقہ کے لیے تڑپ رہے ہیں، اندرونی ملک اپنی پیدا کر دہ چیزوں سے محروم ہے اور جو کچھ زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے وہ عیاشی وفحاشی کی نذر ہوتا ہے، یا پھر چند مخصوص افراد کے پیٹ میں پہنچ جاتا ہے، غریب پھر بھی محروم رہتا ہے۔ نہ ملک کو زرِمبادلہ سے فائدہ پہنچتا ہے، نہ ملک اپنی پیداوار سے نفع اندوز ہوتا ہے، عمدہ شکر وچینی باہر جائے اور اندرونی ملک گڑکے لیے ترستا رہے۔ ٹیکس پر ٹیکس کاوہ عالم کہ کوئی حد نہیں۔ غریب ومز دور بھوکا ہے، اس کے پاس نہ بدن ڈھانکنے کا کپڑا ہے نہ سر چھپانے کی جگہ، نہ پیٹ بھر نے کا کوئی ذریعہ ہے، نہ وہ علاج کا چارہ کر سکتا ہے۔ جب یہ لوگ تمام ضروریاتِ زندگی کے لیے محتاج نظر آتے ہیں تو سو شلزم کی آواز اُٹھا تے ہیں اور نفاق سے اس کے ساتھ اسلام کا پیو ند لگا نے کا نعرہ بھی لگا دیتے ہیں اور اسلامی سوشلزم لا نے کی چیخ وپکار کرتے ہیں، تاکہ ان نعروں سے مزدوروں وغریبوں کو دھوکا دے سکیں، کبھی جاگیروں پر قبضہ کرنے کا ارادہ کر تے تو کبھی کا ر خانوں کو قو میا نے کی تحریک کرتے ہیں۔ اسلام میں نہ سوشلزم کی گنجائش ہے نہ کمیو نزم کی گنجائش، نہ کسی کی جائیداد ومال پر قبضہ کرنے کی گنجائش۔ اسلام کا عادلانہ نظام اسلامی حکومت کے تمام شہروں کی عام ضروریات کا کفیل ہوتا ہے۔ سر براہِ مملکت گلی کو چوں میں پھر کر غر یبوں کی خبر گیری کرتا ہے، نہ وہاں کوئی بھو کارہتا ہے، نہ کروڑوں کا مالک ہوتا ہے۔

 اسلام کیا سکھا تا ہے؟

اسلام مال دار کے دل میں خداترسی پیدا کر کے رحم دلی پید اکرتا ہے۔ اسلام فقیر کے دل میں آخرت کی نعمتوں کی یاد تازہ کرتا ہے اور اسے صبر وقناعت پر آمادہ کرتا ہے اور قناعت کی دولت سے اُسے مالا مال کر دیتا ہے، اغنیاء کو اتفاق کی تر غیب دے کر جنت کی نعمتوں کا مستحق بناتا ہے۔ اسلام سراپا خیر ہے، سر اپا سعادت ہے۔ اسلام سکونِ قلب کا سرچشمہ ہے ۔اسلام پا کیز گی سکھاتا ہے۔ اسلام انسان کو فرشتہ بناتا ہے۔ اسلام کو چھوڑ کر قیامت تک دنیا کا کوئی نظام بھی عالم کی اصلاح نہیں کرسکتا۔ اسلام کو چھوڑ کر خسارہ ہی خسارہ اور بر بادی ہی ہے، نہ معلوم ان عقل کے دعویداروں کو کیا ہوگیا کہ اتنا بھی نہیں سمجھتے، جو تمدن و تہذیب یورپ سے آیا ہے اور جس کی رات دن نقالی کی جارہی ہے آخر اس کا کیا حشر ہوگا ؟ اسلام کے آفتابِ عالم تاب کو چھوڑ کر ان ظلمت کدوں سے کیا نور ملے گا؟ اور کیو نکر فلاح کا راستہ نظر آئے گا؟ آج یورپ وامر یکہ کی دنیا سرا سر شہوات کی حیوانی دنیا ہے۔ وہ انسانیت کے تصور سے بھی محروم ہیں۔ انسانی صورتوں میں خالص در ندے اور چارپائے ہیں، آج ان کی نقل اُتارنا دنیا کو ہلاکت میں دھکیلنا ہے، انسانیت سے حیوانیت کی طرف لے جانا ہے، نور سے ظلمت کی طرف لے جانا ہے، سکون وطمانینت سے بے چینی کی طرف لے جانا ہے۔ آج کل ہماری مملکتِ خداداد کا جو حشر ریڈیو اور ٹی وی پر ہورہا ہے یہ خطر ناک مستقبل کی پیش گو ئیاں کررہا ہے، لا فعل اللّٰہ وأعا ذنا منہ(خدا کرے ایسا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے)۔ آج اس ملک میں جو مناظر بازاروں، سڑکوں اور تفریح گاہوں میں نظر آرہے ہیں انہیں دیکھ کر مسلمانوں کو ڈوب مر نا چاہیے، یہ سب کچھ تاریک عاقبت کی نشاند ہی کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اُمت پر رحم فرمائے، بجاہ نبیہ الکریم علیہ صلوات اللّٰہ وسلامہ
درحقیقت یہ سب کچھ صالح قیادت کے فقدان سے ہورہا ہے۔ اگر صالح ہمدرد اورملک کے لیے مخلص قیادت نصیب ہوتی تو آج یہ روزِ بد نہ دیکھنا پڑتا اور جس دردناک حسرت ناک مقام پر پہنچ گئے نہ پہنچتے۔ صحیح اسلامی تعلیمات اور اسلامی تر بیت نہ ہونے سے کالجوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا جو حال ہو رہا ہے آپ کے سامنے ہے، حیرت ہی حیرت ہے۔ کا رخانے کے مزدوروں کو چھوڑ ئیے، وہ غیرتعلیم یا فتہ ہیں، ان تعلیم یافتگان کی حالت ملا حظہ کریں۔ یادرکھو! اور گوشِ ہوش سے سنو، جب تک صحیح اسلام نہ لایا جائے گا نہ تو رشو تیں ختم ہوں گی، نہ قارونی حرص ختم ہوگی، نہ ہوسِ اقتدار ختم ہوگی، نہ عدالتوں میں انصاف ملے گا، نہ جان محفوظ ہوگی، نہ مال محفوظ ہوگا، نہ آبرو محفوظ ہوگی، نہ قلب کو سکون میسر ہوگا، نہ زندگی میں آرام نصیب ہوگا۔ یہ سب نعمتیں اسلام کی بدولت نصیب ہو تی ہیں، لیکن یادرکھو کہ زبان کا اسلام نہیں، نام کا اسلام نہیں، بلکہ ظا ہر وباطن میں صحیح اسلام کی ضرورت ہے، تاکہ نہ حق تعالیٰ کے حقوق میں تقصیر ہو، نہ بندوں کے حقوق میں تقصیر ہو:
’’وَلَوْ أَنَّ أَھْلَ الْقُرٰی أٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنٰھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔‘‘                       (الاعراف:۹۶)
 ’’اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور پر ہیز گاری اختیار کر تے تو ہم ان پر آسمان وزمین کی نعمتوں کے دروازے کھول دیتے، لیکن جھٹلایا انہوں نے تو ان کے اعمال کے بدلے ان کو پکڑلیا ہم نے۔‘‘
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین