بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلامی معاشرے میں قوانین کی پابندی

اسلامی معاشرے میں قوانین کی پابندی

 

کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزُّلی کا راز اس کے قوانین کی پابندی میں مضمر ہوتا ہے۔ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے اور الحمد للہ! ہم مسلمان ہیں، ہمارا مذہب اسلام ہے، اسلام اللہ جل جلالہٗ کا بنایا ہوا نظامِ زندگی ہے جس کی پابندی ہم پر فرض ہے۔ اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَلَاتَعْثَوْا فِیْ الأرْضِ مُفْسِدِیْنَ‘‘ ۔۔۔۔ یعنی ’’اللہ کی زمین میں فساد پھیلانے والے مت ہو۔‘‘ 
لفظِ ’’اسلام‘‘ میں سلامتی کا درس ہے اور پھر مذہبِ اسلام پر چلنے والا مسلمان کہلاتا ہے تو لفظِ ’’مسلمان‘‘ میں بھی سلامتی کا درس ہے اور جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو ’’السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں، چنانچہ روزِ روشن کی طرح ثابت ہوا کہ اسلام امن وسکون اور سلامتی کا مذہب ہے۔ مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر معاشرے، ہرقوم اور ہرملک کے کچھ قوانین اور ضوابط ہوتے ہیں، پُرامن اور پُر سکون زندگی گزارنے کے لیے ان کی پابندی از حد ضروری ہوتی ہے۔
 یہ ایک مثبت پہلو ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ قانون توڑنے اور اُصول وضوابط کا احترام نہ کرنے سے افرا تفری پھیل جاتی ہے، جن کی بنا پر نہ صرف افراد کا سکون تہہ وبالا ہوجاتا ہے، بلکہ پورے معاشرے اور قوم کی زندگی متأثر ہوجاتی ہے، اس لیے مذہبِ اسلام نے مسلمانوں کو قانون کا احترام اور پابندی کرنے کی تاکید کی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں اسلامی معاشرے میں قانون کا کس قدر احترام کیا جاتا تھا، اس کی نہایت عمدہ مثال شراب کی حرمت کے سلسلے میں دیکھنے میں آئی ہے، جوں ہی شراب کی حرمت کا اعلان کرایا گیا، اسی وقت لوگوں نے شراب کے تمام برتن توڑ دیئے اور شراب مدینے کی گلیوں میں بہہ نکلی اور اسلامی معاشرہ شراب کی لعنت سے پاک ہوگیا اور یہی اللہ جل جلالہٗ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کی اصل روح اور اسلام کا حقیقی مفہوم ہے، کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ۔‘‘ (محمد:۳۳)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔‘‘ 
چنانچہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے اُصول واحکام اور اس کی روشنی میں بنائے ہوئے تمام قوانین وضوابط کی پوری پابندی اور کامل احترام کرے، اسی طرح ہم ایک اچھے شہری، اچھے پاکستانی اور سچے مسلمان بن سکتے ہیں، جس طرح قدرت کا نظام چند ضروری قوانین کا پابند ہے، اسی طرح معاشرے کا قیام ودوام‘ معاشرتی، اخلاقی اور دینی احکام وقوانین پر موقوف ہے۔ 
یوں تو دنیا کا کم عقل سے کم عقل انسان بھی قانون کی ضرورت، اس کی پابندی اور اہمیت کا اعتراف کرے گا، لیکن کم لوگ ایسے ہیں جو عملاً قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوں، عصرِ حاضر میں دو افراد کے باہمی معاملات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک لوگ ضوابط اور قوانین کی پابندی سے گریزاں ہیں اور لاقانونیت کے اس رجحان نے دنیا کا امن وسکون غارت کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان قانون کی افادیت کا قائل ہونے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کیوں کرتا ہے؟ اس کی چند وجوہ ہیں:
۱:-اسلامی تعلیمات سے روگردانی۔        ۲:-خود غرضی اور مفاد پرستی۔
۳:-اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھنا۔        ۴:-حب الوطنی سے بے توجہی۔
۵:- امن وسلامتی کی ناقدری۔
    چنانچہ اسلام ان سب وجوہ کاخوبی سے تدارک کرکے مسلمانوںکو قانون کا پابند بناتا ہے، بہ ایں وجہ ایک طرف وہ انہیں خدا پرستی اور ایثار وسخاوت اور اکرامِ مسلم کا درس دیتا ہے تو دوسری طرف ان میں آخرت کی جواب دہی کا احساس وشعور پیدا کرتا ہے اور انہیں احساس دلانا چاہتا ہے کہ اگر وہ اپنے اثر ورسوخ یا دھوکے فریب سے دنیا میں قانون کی خلاف ورزی کی سزا سے بچ بھی گئے تو آخرت میں اُنہیں خدا کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ 
آخرت میں جواب دہی کا یہی احساس اسلامی معاشرے کے گناہ میں ملوث ہوجانے والے افراد کو از خود عدالت میں جانے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں سزا دے کر پاک کردیا جائے، تاکہ وہ آخرت کی سزا سے بچ جائیں۔ لوگوں کے دلوں میں قانون کے احترام کا سچا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود حکمران طبقہ بھی قانون کی پاسبانی کرے اور اپنے اثر ورسوخ کو قانون کی زد سے بچنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی دستور یا آئین ایسا ہو جس میں حکمران طبقے کو مخصوص مراعات مہیا نہ ہوگئی ہوں اور قانون میں آقا وغلام، شاہ اور گدا کا کوئی امتیاز نہ ہو۔
اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیq کی زرہ گم ہوگئی اور ایک یہودی کے پاس ملی، خود خلیفۂ وقت ہونے کے باوجود آپؓ اسے قاضی کی عدالت میں لے گئے، چنانچہ جب قاضی نے آپؓ سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو خلیفۂ وقت حضرت علیq نے اپنے بیٹے اور غلام کو پیش کیا۔ قاضی نے دونوں کی گواہی ان سے قریبی تعلق کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کردیا تو آپؓ اپنے دعوے سے دستبردار ہوگئے۔ احترامِ قانون کے اس فقید المثال واقعے نے یہودی کو اتنا متأثر کیا کہ وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
اسلامی معاشرے میں نماز کے اندر قانون کی پابندی کی دلکش تصویر موجود ہے، ایک صف میں کھڑے ہوکر ایک قبلے کی طرف رُخ کرکے ایک امام کی اقتداء میں قیام ، رکوع اور سجود، زید،عمرو، بکر، محمود و ایاز سب مل کر ہمیں قانون کی پابندی سکھاتے ہیں اور دلوں میں احترامِ قانون کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
اسی طرح رمضان المبارک میں روزہ رکھنا احترامِ قانون کا حسین نقشہ ہے۔ حکمِ خداوندی کے تحت صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک مفطراتِ ثلاثہ (اکل، شرب اور بعال یعنی جماع) سے مطلق پرہیز یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اپنے خالقِ حقیقی کا مطیع اور فرماں بردار ہے۔ حج بھی اسی قوانین کی پابندی کا ایک دلنشین نظارہ ہے۔
 دنیا میں جہاں کہیں امن وسکون ہے، اس کا راز یہی ہے کہ وہاں کے باشندے قانون کے پابند ہیں، جہاں کہیں بگاڑ وانتشار ہے، بدامنی اور پریشانی ہے، وہاں قانون شکنی کی حکمرانی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بدنِ انسانی ہمارے سامنے ہے کہ جب جسم کے نظام میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو بیماری لاحق ہوجاتی ہے اور بدنِ انسانی کا چین وسکون غارت ہوجاتا ہے۔ فتحِ مکہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سرکارِ دوعالم a کی ہدایت کے تحت ان گھروں اور باغوں پر بھی قبضہ نہ کیا جن کو وہ ہجرت کے وقت چھوڑ گئے تھے، جوکہ قانون کی پابندی کی زندہ مثال ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین