بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلامی تہوار فلسفہ، اثرات، امتیازات

اسلامی تہوار  فلسفہ، اثرات، امتیازات

     اللہ تعالیٰ نے انسانی نفسیات کا خاص خیال رکھا ہے، انسان کی طبعی تفریح پسندی کے ناطے مخصوص حدودوقیود کے ساتھ اُسے خوشی کے مواقع عنایت کیے گئے ہیں۔ ان حدود وقیود کی پاس داری ہر مسلمان پر لازمی اور ضروری ہے۔ اسلام میں ان خوشی کے مواقع کو ’’عید‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اور ان کو آداب و شرائط کے ساتھ منانا باعث ِثواب اور مستحسن ہے، لیکن آداب وشرائط کی پامالی سے یہی خوشی روزِ قیامت غم واندوہ کا باعث بنے گی۔  اسلامی تہوار  تہذیب ِاسلامی میں دو تہوار ہیں: ایک عیدالفطر اور دوسر ا عیدالاضحی۔ آنحضرت a کا ارشاد ہے: ’’ إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا و ھٰذَا عِیْدُنَا ۔‘‘             (صحیح بخاری،رقم الحدیث:۳۹۳۱)  ’’بے شک ہر قوم کی عید ہے اور یہ (عیدالفطر اور عیدالاضحی)ہماری عیدیں ہیں‘‘۔  اس حدیث مبارک میں جہاں مسلمانوں کے لیے’’عید ‘‘کی تعیین کر دی گئی ہے، وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے تہواروں میں نمایاںفرق موجود ہے۔ اگر یہ فرق ملحوظ نہ ہوتا تو الگ طورپرعیدین کے ایام مقرر کرنے کی بجائے سابقہ اقوام و ملل کی عیدوں میں سے کسی ایک دن کو مسلمانوں کے لیے بطورِ تہوار منتخب کر لیاجاتا۔  حضرت انس q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ سال کے دو دنوں میںکھیل کود کرتے اور خوشی مناتے تھے۔ آپa نے ان دو دنوں کے بارے میں دریافت فرمایا کہ: یہ کیا ہیں؟ اہل مدینہ نے عرض کیا کہ: ان ایام میں ہم زمانۂ جاہلیت سے کھیل کود کرتے چلے آرہے ہیں ۔ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا: تمہیں اللہ تعالیٰ نے ان دودنوں کے بدلے میں ان سے اچھے دو دن عطا فرمائے ہیں ،عیدالبقر کا دن اور عیدالفطر کا دن ۔ (ابو دائود) اس حدیث سے وضاحت کے ساتھ اسلامی تہواروں کی تعداد اورایام متعین ہو گئے۔غرض اسلامی تہذیب کے نمائندہ تہوار یہی دو ہیں اور ان کے علاوہ کوئی بھی تہوار اسلامی تہذیب کا خاصہ نہیں اور نہ ہی شریعت کی جانب سے مقرر ہے۔  اسلامی تہواروں کا فلسفہ  اسلامی تعلیمات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عید منانا اور خوشی کا اظہار دراصل اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں کا استحضار کیا جائے اور ان پر شکر ادا کیا جائے۔  جب سورۂ ما ئدہ کی آیت’’ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘‘ نازل ہوئی تو بعض یہود نے حضرت عمر q سے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل کی جاتی توہم اس کے یومِ نزول کو بطورِ عید مناتے۔ حضرت عمرq نے فرمایا :تمہیں معلوم نہیں کہ جس روز ہم پر یہ آیت نازل کی گئی،مسلمانوں کی دو عیدیں جمع ہو گئی تھیں ۔ یہ آیت دس ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر ’’عرفہ‘‘ کے دن یعنی نویں ذوالحجہ کو بروزِ جمعہ عصر کے وقت نازل ہوئی،جبکہ میدانِ عرفات میںنبی کریم a کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اتقیاء و ابرار sکا مجمع تھا۔ (تفسیر عثمانی)      حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب v لکھتے ہیں کہ:’’ فاروق اعظم q کا جواب اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ دن ہمارے لیے دوہری عید کا تھا ،ایک عرفہ اور دوسرا جمعہ (یعنی جس طرح عرفہ اور جمعہ کے دن عبادت ،قبولیت ِدعا اور منقبت کے ہیں، اسی طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں)۔‘‘ (معار ف القرآن، ج:۳،ص:۳۴)  معلوم ہوا کہ مسلمانوںکی عید کا فلسفہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ،مناجات ودعا، ایثار و قربانی اور باہمی اتحاد و یکجہتی ہے، نہ کہ محض خوشی و طرب جو روحانیت سے خالی ہو۔      مفتی شفیع صاحب v لکھتے ہیں: ’’(فاروق اعظم q کے )اس جواب سے یہ بھی پتہ چلا کہ یہود و نصاریٰ کی طرح ہماری عیدیں ،تاریخی واقعات کے تابع نہیں کہ جس تاریخ کو کوئی اہم واقعہ پیش آگیا ہو ،اس کو عید منانا شروع کردیا، جیسا کہ جاہلیت ِاُولیٰ کی رسم تھی۔‘‘     (معارف القرآن ،ج:۳،ص:۳۴)      مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ’’جن ایام کو اسلام نے تہوار کے لیے مقرر فرمایا،ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکر ختم ہو چکا ہو،بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قرار دیا،جو ہر سال پیش آتے ہیں اور ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں عیدیں ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں ،جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں ، چنانچہ عیدالفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میرے بندے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے، اس کی خوشی اور انعام میں یہ عیدالفطر مقرر فرمائی اور عیدالاضحی ایسے موقع پر مقرر فرمائی جب مسلمان ایک دوسری عظیم عبادت یعنی حج کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے کہ حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفہ ۹؍ذوالحجہ کو ادا کیا جاتا ہے، اس تاریخ کو پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان میدانِ عرفات میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظیم عبادت کی تکمیل کرتے ہیں،اس عبادت کی تکمیل کے اگلے دن یعنی دس ذوالحجہ کو اللہ تعالیٰ نے دوسری عید یعنی عیدالاضحی مقرر فرمائی۔ ‘‘     (اصلاحی خطبات، ج:۱۲، ص:۹۰)  اسلامی معاشرے پر تہواروں کے اثرات اوران کے امتیازات  اسلامی معاشرے پر تہواروں کے بڑے دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوئے ہیں اورانہی اثرات کی وجہ سے وہ اقوام عالم کے تہواروںسے ممتازہیں،ان میں سے چند ایک کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔  روحانیت  اسلام نے تہواروں کو عیش و طرب کا نمونہ نہیں رکھا جو اخلاقی قدروں کو بہا لے جائے اور انسان کے روحانی تقاضوں سے متصادم ہو،بلکہ ان میں عبادت کے ایسے پرجوش مظاہر رکھے ہیں ، جو روحانیت وللہیت اور صدق وخلوص کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسلامی حدود و قیود کے ساتھ منائی جانے والی عیدیں پاپی طبیعتوں میں تدین و خدا پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہیں اور انسان کے جذبۂ عمل صالح کو مہمیز بخشتی ہیں۔ جب تک اسلامی معاشرہ اور تہذیب اپنے طمطراق سے قائم تھی، اسلامی تہواریں اُن پر اپنا روحانی اثر ثبت کرتی رہیں اور مسلمانوں کی روحانی غذاکا سامان بنتی رہیں۔ باطنی صفائی کے ساتھ تہواروں میں ظاہری طہارت ونظافت کا درجہ بھی’’عبادت‘‘ہے۔ وضو،غسل ،صاف ستھرا لباس، خوشبو، مسواک اور دیگر نظافتیں انسان کے ظاہر کو نکھارتی ہیں۔ اسلامی تہواروں میں طہارت و نظافت کے حصول کوباعث اجر وثواب بتایا گیا ہے،جس کے حصول میں ایک طرف ظاہر کی آراستگی ہے اور دوسری طرف اس کے باطن پر پڑنے والے اثرات ہیں ،کیونکہ ظاہر کی صفائی کا تزکیۂ باطن پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ اتحاد ویگانگت  اسلامی تہواروں میں اجتماع ومجامع کے مظاہر وجوبی حیثیت رکھتے ہیں، دونوں تہواروں میں نماز عید کو ’’بڑے مجمع‘‘کے ساتھ ادا کرنا واجب رکھا گیا ہے، ایک طرف یہ اجتماعی عبادت رحمتِ الٰہی کی توجہ کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف اسلامی معاشرے کے تمام طبقات کو اکٹھا ہونے اور اتحاد ویگانگت کے مظاہرہ کا سنہری موقع بھی بہم پہنچاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں تہواروں سے پہلے جن عبادات کی تکمیل ہوتی ہے، ان میں بھی اجتماع کی شان نمایا ں ہے۔ عیدالفطر سے قبل تراویح کی اضافی عبادت کو سنت مؤ کدہ رکھا گیا ہے،اس کی ادائیگی اجتماعی ہیئت کے ساتھ ہوتی ہے اور چونکہ سال بھر میں صرف ایک مہینہ ہوتی ہے، اس لیے اجتماع کا جوش وخروش اور باہمی اُلفت و یگانگت ممتاز دکھائی دیتی ہے، جبکہ عیدالاضحی سے قبل حج کی تکمیل ہوتی ہے ، جو دنیا میں رائج تمام تہذیبوں اور ملتوں میں کسی ملت کا سب سے بڑا، منظم اور عالمگیر اجتماع ہے، دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان بلا تفریقِ رنگ ونسل اور زبان و وطن ایک ہی معمول پر ،ایک ہی مکان میں اور ایک ہی وقت پر اکٹھے ہو کر جہاں عظیم دینی عبادت کی تکمیل کرتے ہیں ،وہاں نظم وضبط،ترتیب و نسق اور اتحاد ویگانگت کی وہ مثال پیش کرتے ہیں،جس کا مظاہرہ اسلامی تہذیب کے سوا کہیں نہیں ملتا۔ان مجامع کے اتحاد کا اثراسلامی معاشرے پر انتہائی دیرپا اور مؤثر انداز میں مرتب ہوتا ہے اور اسلامی معاشرہ میں دنیابھر کے مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارے ، یکجہتی اور محبت و مودّت کا شعور اُجاگر ہوتا ہے۔ ایثار وقربانی  اسلامی تہوار محض انفرادی خوشی منانے کا نام نہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی انجام دہی میں ایسی عبادتیں رکھ دی ہیں،جو ایثار وقربانی کا درس دیتی ہیںاور اسلامی معاشرہ میں اجتماعی خوشی منانے کے جذبہ کو مہمیز بخشتی ہیں، مثلاً عیدالفطر کی نماز سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان چھوٹے بڑے پر صدقہ فطر واجب قرار دیا ہے ،جو اسلامی معاشرہ کے ان غریب طبقات پر خرچ کیا جائے گا جن کے پاس ایسے مواقع پر خوشی کے اسباب اختیار کرنے کی وسعت وگنجائش یا تو ہوتی نہیں یا بہت محدود ہوتی ہے،تاکہ یہ طبقات احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں اور ان مقدس ایام میں اپنے اور اپنے بچوں کے واسطے کھانے پینے اور لباس کا مناسب بندوبست کر سکیں۔ اسی طرح عیدالاضحی میں صاحب استطاعت مسلمانوں پر جانورکی قربانی واجب قرار دی گئی، چونکہ یہ تہوار اللہ تعالیٰ کی جانب سے مہمانی ہوتی ہے ،تاکہ اُس کے بندے اس خوشی میںاعلیٰ ترین غذا ’’گوشت‘‘ کا لطف اٹھائیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے معاشرے کے صاحبِ ثروت طبقات کو جانور کی ’’قربانی‘‘ پیش کرنے کا حکم دیا ۔ یہ قربانی جہاںعمل ابراہیمی کی یادگار، حب مال کے رذیلہ کا حکیمانہ علاج ،دین کے لیے مال وجان کی قربانی پیش کرنے کے جذبے کا حصول اور اللہ تعالیٰ کے دربار سے بے پایاںاجروثواب کمانے کا ذریعہ ہے، وہاں معاشرے کے غریب طبقات کو اپنے ساتھ اس خوشی اور پر لطف غذا میں شریک کرنا ہے۔ اسلامی تہوار کا یہ پہلو مسلمانوںکے دلوںمیں ’’ایثارو قربانی‘‘کا لا زوال جذبہ پیدا کرتا ہے اور اُنہیں یہ شعور بخشتا ہے کہ دولت وثروت چند ہاتھوںمیں سمیٹ کر رکھنے کی شے نہیں،بلکہ اسلام کامزاج معاشرے کے تمام طبقات میںاس کی مناسب ’’گردش‘‘ پر مبنی ہے، تاکہ کوئی طبقہ اس قدر ذلت وکہتری کا شکار نہ ہو کہ مایوسی کے پاتال میں پڑا رہے اور اُسے زندگی کی جائز خوشیاں بھی نصیب نہ ہوں۔ ذوقِ عبادت کی فراوانی  اسلامی تہوار عبادت ہی کی تکمیل کا انعام ہیں اور خود ان تہوارں میںبھی جانی ومالی عبادات کے مختلف مظاہر رکھے گئے ہیں، جو لوگ عام حالات کے اندر ذوقِ عبادت میں کوتاہ سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی ایسے اجتماعی مواقع پر ’’عبادت‘‘میں جوش وخروش دکھاتے ہیں اور اس کا کافی اہتمام کرتے ہیں۔ ان مواقع میں عبادات کا جوش واہتمام معاشرے میں دُعا و عبادت کا ذوق پیدا کرتا ہے۔ یہ اسلامی تہواروں کا ہی امتیاز ہے کہ خوشی و تفریح کے یہ مواقع دینی بیداری اور مذہبی میلان کا باعث بنتے ہیں اورمعاشرے میں مذہبی و دینی رجحانات کو جلا بخشتے ہیں، ورنہ اقوام عالم کے تہواروںنے تو ان کی مذہبی تعلیمات کا جنازہ نکالنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سادگی وزہد وقناعت  اسلامی تہواروں میں دیگر مذاہب کے تہواروں کی طرح عیش وطرب اور لہو و لعب کی ممانعت ہے، خوشی کی آڑ میں اسراف و تبذیر اور تضییع و تعیش کی ہر گز اجازت نہیں، کیونکہ ان چیزوں کا التزام و رواج مآلاً خوشی کووبال میں بدل دیتا ہے اور معاشرے کے لا چار اور غریب طبقات میں احساسِ کمتری و کہتری کا باعث بنتا ہے۔ اسلام نے خوشی کے ان مواقع میں سادگی و زہد و قناعت کا بنیادی اُصول بر قرار رکھا ہے، نئے لباس یا عمدہ و مہنگے کھانوں کا کوئی التزام نہیں،بس صاف ستھرا لباس پہننا مسنون ہے، اگرچہ پرانا ہو۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ کھانے پینے میںبھی اپنی وسعت و گنجائش کو مدِ نظر رکھا جائے اور ان مادی اشیاء سے نفس کو طراوت بخشنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے استحضار اور ذکر وعبادت سے جی خوش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال اور اظہار کوئی امرِ ممنوع نہیں ،مقصود یہ ہے کہ سادگی و قناعت کاجوہر ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، ضروری راحت و آرام اور تسکین و تفریح کے سامان سے شرعی حدود میں رہ کر مستفید ہوا جائے اور اغیار کی طرح آرام و آسائش اور تفریح و تسکین کے لیے اسراف و تبذیر کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ تہواروں میں سادگی اور قناعت کے یہ مظاہر اسلامی معاشرے میں نجی اور انفرادی خوشی کے مواقع پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں اور یہ شعور اُجاگر کرتے ہیں کہ خوشی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو بے دریغ لٹایا اور ضائع کیا جائے، بلکہ ان کا شکر ہی خوشی کی اصل روح ہے۔ غیرت و حمیت کی بڑھوتری  اسلامی تہواروں میں ایسے نشاطات کا اہتمام جو اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں، مباح ہے، مثلاً غیرت و حمیت کاجذبہ موجزن کرنے کے لیے نظمیں اور ترانے پڑھنا ،یا جہادی مظاہروں اور کھیلوں کا انعقاد کرنا ۔اس سے معاشرے میںجذبۂ حریت،قومی و ملی غیرت اور اسلامی حمیت روزافزوںہو تی ہے اور تفریح کا مناسب سامان بھی مہیا ہوتا ہے ۔ان مثبت تفریحی سر گرمیوں کا اسلامی معاشرے پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور من حیث القوم ایک نشیط ،بیدار مغز اورپر حمیت نسل پروان چڑھتی ہے ۔  اسلامی تہواروں کے ان اثرات و مقاصد کے پیش نظر اب قابل غور امر یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں رواج پانے والے اغیار کے رسوم و تہوار اور ان میںنسل نو کی دلچسپی سے کیا معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ؟ہر گز نہیں!بلکہ مسلمانوں کے اپنے تہواربھی ان اثرات و مقاصد کو کھو دیں گے، جیسا کہ مشاہد ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین