بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلام کا قانونِ جنگ امن وعافیت کا ضامن!

اسلام کا قانونِ جنگ  امن وعافیت کا ضامن!

    اسلام کا قانونِ جنگ جسے اصطلاحِ شرع میں ’’جہادفی سبیل اللہ ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے،کچھ تو خود ہماری بداطواریوں، اوجھی ونامناسب حرکات وسکنات، اور ہوش سے زیادہ جوش وجذباتیت کے اظہار، دوسری جانب اعداء اسلام کی سازشوں، افواہوں اور غلط پروپیگنڈوں اور ان کی جانب سے اس کی غلط توضیح وتشریح، اس کے حقیقی مفہوم کو پردۂ خفا میں رکھنے کی وجہ سے، معاشرہ کی اصلاح، امنِ عامہ کے قیام اور سماج سے ظلم وسفاکیت اور فساد و بگاڑ کے دور کرنے میں اس کا حقیقی اور بامعنی کردار نگاہوں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔     ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈے کے اس دور میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف ذرائع تشہیر کے ذریعے اسلامی احکام وتعلیمات کے روشن اور تابناک پہلوؤں کا اظہار کرتا رہے، تاکہ رفتارِ زمانہ اور خود مسلمانوں کی غفلت اور نادانی کے نتیجے میں ‘ اسلامی تعلیمات کی خوبیوں پر گردوغبار کی جو دبیز تہہ جم چکی ہے اس کی صفائی ہو، اور اسلامی تعلیمات کا حقیقی، روشن وتابناک چہرہ لوگوں کے سامنے آئے، جس کا ایک نقد فائدہ تو یہ ہوگا کہ اغیار واجانب کی غلط فہمیوں پر مبنی نظریات وتصورات کا خاتمہ ہوگا، دوسری جانب ان کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی راہیں کھلیں گی۔ یہ تحریر اسی تناظر میں ضبطِ تحریر میں لائی جارہی ہے کہ اسلامی قانونِ جنگ کے مختلف محاسن سامنے آئیں اور غلط وباطل نظریات ومفروضات کا ازالہ ہو۔ اگرچہ مذہب اسلام سراپا خیر ورحمت ہے، لیکن مطلب پرستوں،نفسانیت کے پجاریوں اور عدل وانصاف کے قاتلوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ حذف واضافہ اور ردوبدل کے ذریعے کسی بھی عبادت کے حقیقی مفہوم کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کرکے اس سے اپنا معنی ومطلوب کشید کرلیں، جس میں وہ ماہر ہوتے ہیں۔     چونکہ اس وقت اسلام کا نظریۂ جنگ اقوامِ عالم کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے، وہ تعصب اور جانب داری کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے عمداً اور باتکلف اسلام کے قانونِ جنگ کو دوسرا رنگ وآہنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی، صاف وروشن چہرہ لوگوں کے سامنے ہوگا تو اس سے ان کی چودھراہٹ اور سرداری خطرہ کی زد میں آجائے گی؛ اس لیے یہ لوگ مختلف عنوانات سے اسلام کے چمکدار اور تابناک اور بلندوبالا سور ج پر تھوکنے کی احمقانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جنگ علی الاطلاق ممنوع نہیں     اللہ عزوجل نے انسان کو مجموعۂ اضداد بنایا ہے ، خیر وشر دونوں پہلو انسانی طبیعت میں ودیعت کیے ہیں، انسان میں خیر کا پہلو اُسے نیکی اور بھلائی پر ابھارتا ہے، جب کہ شر کا پہلو اُسے آمادۂ معصیت اور ظلم وستم کرتا ہے؛ اس لیے روزِ اول ہی سے اللہ عزوجل کا یہ قانون رہا ہے کہ وہ مختلف قوموں کو آمادۂ پیکار کیے رہتے ہیں، تاکہ اس طرح نیکی اور بھلائی کا پلڑا بھاری ہوجائے، سچائی وصداقت کی حقانیت آشکارا اور برائی کی قباحت وشناعت بھی عیاں ہوجائے۔چنانچہ دنیا میں حق وصداقت کے غلبہ اور برتری اور شر وفساد کے خاتمہ کے لیے مختلف قوموں کے درمیان آویزش وٹکراؤ کے اپنے اسی ازلی قانون وروایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا: ’’جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ گھٹواتا رہتا تونصاریٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے، بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ (کے دین)کی مدد کرے گا،بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا،غلبہ والا ہے، وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے‘‘۔     مذکورہ بالا آیت میں مسلمانوں کو جو قتال کی اجازت دی گئی ہے، وہ نہایت ہی ناگزیر حالت میں ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو یہ جنگ کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد وبگاڑ کریں، بلکہ اس جنگ کی اجازت کا مقصد یہ ہے کہ وہ جملہ مذاہب کی آزادی کو قائم رکھیں، بد امنی اور انارکی کا خاتمہ کریں، پارسیوں، عیسائیوں، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی مساجد کو ہر طرح کے نقصانات اور گزند سے مامون ومحفوظ رکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قتال اور جہاد کا حکم کوئی نیا حکم نہیں۔ پچھلے انبیاء o اور ان کی امتوں کو بھی قتالِ کفار کے احکام دیئے گئے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی مذہب اور دین کی خیر نہ تھی، سارے ہی دین و مذہب اور ان کی عبادت گاہیں مسمار کردی جاتیں۔ اسلام میں جہاد کا حقیقی مفہوم     جہاد سے متعلق سب سے پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ اس لفظ کو ’’جنگ ‘‘ کے معنی میں لیا جاتا ہے اور اُسے عربی لفظ ’’حرب ‘‘ کے مرادف باور کیا جاتا ہے جو تباہی وبربادی کے معنی میں آتا ہے۔ (المعجم الوسیط: ۱۴۶)  یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے کہیں بھی اپنے اسلامی نظریۂ جنگ کے لیے لفظ ’’حرب ‘‘ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ قابل ِالتفات امر یہ ہے کہ جس ملت ومذہب ہی کے نام میں امن وعافیت کا مفہوم شامل ہو‘ وہ کیوں کر بے جا کُشت وخون اور فساد وبگاڑ کی دعوت دے سکتا ہے؟! بلکہ دین ‘دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ اس قسم کی ظلم وفساد پر مشتمل جنگوں کا خاتمہ کرے اور امن وامان اور عدل و مساوات پر قائم ایک ایسا نظریۂ جنگ اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرے کہ دورانِ جنگ بھی کسی کی حق تلفی یا اس پر ظلم وستم جائز نہ ہو، چنانچہ مذکورہ بالا لغت میں لفظ ’’جہاد‘‘ کی تشریح یوں کی گئی ہے: ’’قتال من لیس لھم ذمۃ من الکفار‘‘ ۔۔۔۔ یعنی ’’غیر ذمیوں سے قتال ‘‘۔(المعجم الوسیط) اسلامی جنگ کا مقصود فتنہ وفساد کا خاتمہ     اسلام میں جنگ ایک نہایت شریف عمل ہے، لہٰذا ہمیں اس کے متعلق کسی طرح کے بھید بھاؤ یا معذرت خواہانہ رویہ کے اختیار کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ اس کے بعد یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے، اس کی تعلیمات دیگر مذاہب کی طرح محض چند رسوم وعقائد کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ انسان کا خود ساختہ اپنے ہاتھوں بنایا ہوا قانون ودستور ہے؛ بلکہ خالقِ کائنات کا نازل کردہ نظامِ حیات ہے، جس میں ہر شعبۂ زندگی کے متعلق انسانیت کے لیے رہنمایا نہ اصول بتلائے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو ہر شخص اپنا سکتا ہے، کوئی بھی شخص ان اصول کو اپنا کر اس کے دامن رحمت وعافیت میں جگہ پاسکتا ہے۔ ’’اسلامی نظامِ جنگ ‘‘، ’’جہاد‘‘ یا اس جیسی نقل وحرکت کا مقصود بھی یہی ہے کہ فطرتِ انسانی سے موزون اعتدال پر مبنی ان تعلیمات کا ہرسمت بول بالا ہو، روئے زمین سے ناانصافی، بد امنی، ظلم وجبر اور شروفساد کا خاتمہ ہو اور ہر شخص آزادی کے ساتھ اس خدائی نظام کے تحت امن وسکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ اشاعت ِاسلام کا ہرگز یہ مقصود نہیں کہ لوگوں کومجبور کرکے اسلام میں داخل کیا جائے، ارشاد خداوندی ہے: ’’لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’دین میں زور زبردستی نہیں۔‘‘ اگر کوئی شخص جزیہ کی مشروعیت پر غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اسلامی جنگ کا مقصود اسلام کا غلبہ ہے، خواہ وہ مخالف کے اسلام لانے سے ہو یا رعیت بن کر رہنا منظور کرنے سے۔ چوں کہ جزیہ دے کر اسلامی سلطنت میں رہنا بھی در اصل اسلامی قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہے، جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تو فتنہ وفساد کے امکانات بھی ختم ہوچکے ؛ لہٰذا اب جنگ بھی موقوف کردی جائے گی، اب اس ذمی شخص کو اسلامی سلطنت میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی کوآیت کریمہ میں یوں بیان کیا گیا ہے : ’’اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فسادنہ رہے اور دین (غلبہ)اللہ ہی کا ہوجاوے۔ اور اگر وہ لوگ (فساد سے)بازآجاویں تو سختی کسی پر نہیں ہواکرتی بجز بے انصافی کرنے والوں کے‘‘۔(البقرۃ :۱۹۳) اس آیتِ کریمہ میں جنگ بندی کی انتہا فتنہ و فساد کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔     دورِ رسالت کے غزوات وسرایا کی مجموعی تعداد ۸۲ ہے۔ اگر ان لڑائیوں کو جارحانہ اور اقدامی تسلیم کیا جائے تو بھی ان میں مقتولین کی مجموعی تعداد ۱۰۱۸ (ایک ہزار اٹھارہ) ہے اور ۸۲(بیاسی) پر ان کو تقسیم کرنے سے فی جنگ 12.414 (بارہ اعشاریہ چار سو چودہ)اوسط نکلتا ہے۔ قیدیوں کی مجموعی تعداد ۶۵۶۴ (چھ ہزار پانچ سو چونسٹھ) ہے جو جزیرہ نما عرب کی وسعت کے مقابلہ میں ہیچ ہے اور چوں کہ ان کی تعداد کے اندر بڑی تعداد ۶۰۰۰ (چھ ہزار) ایک ہی غزوہ حنین کی ہے (جوکہ بعد میں تمام آزاد کردیے گئے) اس لیے باقی جنگوں میں اسیرانِ جنگ کا اوسط ۷(سات) رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل زمانۂ گزشتہ کی دو عظیم جنگیں اور ان کی ہلاکت خیزیوں اور تباہیوں کا اندازہ لگائیے جو صرف چھوٹی سلطنتوں کو آزاد کرانے کی غرض سے لڑی گئی تھیں۔ مقتولین، مجروحین کی تعداد ساٹھ ستر لاکھ سے متجاوز ہے۔ اہلِ دنیا کی لڑائیوں کا ذکر چھوڑو، مقدسین کی لڑائیاں لو، مہابھارت کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم نہیں۔ یورپ کی مقدس مذہبی انجمنوں نے جس قدر نفوس ہلاک کیے ،ان کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے ۔(تمام اعداد وشمار کے لیے ملاحظہ ہو : رحمۃ للعالمین،ج: ۲،ص:۴۶۴)     جزیہ کی ادائیگی کو بھی جو کہ در اصل اسلامی تعلیمات کی بالادستی اور روئے زمین پر فتنہ وفساد مچانے سے رکنے کا اعتراف اور عہد ہوتا ہے، اس کو بھی جنگ بندی کی انتہا بتلایاگیا ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے: ’’اہلِ کتاب جوکہ نہ خدا پر (پورا پورا)ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول (a) نے حرام بتلایا ہے اور نہ سچے دین (اسلام) کو قبول کرتے ہیں، ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہوکر اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں‘‘۔ (التوبۃ : ۲۹)     جزیہ کہتے ہیں اس مال کو جو اسلامی سلطنت کے ما تحت رہنے والے غیر مسلموں سے ان کی جان، مال، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے لیا جاتا ہے اور بالکل معمولی رقم ہوتی ہے۔ جزیہ کی یہ رقم ادا کرنے والے یہ لوگ ذمی کہلاتے ہیں اور ان کے اسلامی سلطنت کے باشندے ہونے کی حیثیت سے ان کے جان ومال، عزت وآبرو کی حفاظت اسلامی حکومت کے ذمہ ہوتی ہے، ان کے مذہبی امور میں مداخلت کو اسلام منع کرتا ہے، پھر اس میں بچے، بوڑھے، عورتیں اور معذورین سے جزیہ نہیں لیا جاتا، اسی طرح مکاتب، مدبر، ام الولد پر بھی جزیہ نہیں ہوتا، مذہبی پیشواجو گوشہ نشیں ہوں ان سے بھی جزیہ نہیں لیا جاتا۔ (اصح السیر،ص: ۴۷۴) دورانِ جنگ بے قصور لوگوں سے تعرض کی ممانعت     اسلامی قانونِ جنگ کا ایک حسین اور خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے دورانِ جنگ بے قصور، نہتے اور کمزور لوگوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کی ہے، عملاً جن لوگوں نے جنگ میں حصہ لیا ہے یا جنہوں نے مشوروں اور خدمات کے ذریعے ان کو مدد بہم پہنچائی ہے، یہی لوگ قتل کے مستحق ہوں گے، بقیہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور خلوت نشیں عابدوں اورزاہدوں سے ہرگز تعرض نہ کیا جاتا۔ دورانِ جنگ بے قصور لوگوں کے قتل کو تو رہنے دیجیے، اسلام نے سرسبز وشاداب کھیتوں، پھل دار درختوں اورباغات کو بھی نقصان پہنچانے سے روکا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم a نے فرمایا: ’’ کمزوربوڑھوں، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔ ‘‘ (ابوداؤد، باب دعوۃ المشرکین إلی الإسلام، حدیث:۸۴۹)     اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق q نے ایک لشکر کو جو ملکِ شام ایک مہم کے لیے روانہ ہوا تھا،اُنہیں اس قسم کی ہدایات دی تھیں کہ وہ بچوں کو قتل نہ کریں، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں، کسی ضعیف بوڑھے کو نہ ماریں، کوئی پھلدار درخت نہ کاٹیں، کسی باغ کو نہ جلائیں۔ ( مؤطامالک : ۱۶۸)     یہ بات پیشِ نظر رہے کہ عہدِ نبوی میں آنحضرت a نے جہاں کہیں بھی کسی آبادی کو نرغے میں لیاہے، وہاں کی ساری آبادی اور قبیلے کے سارے لوگ بنفس نفیس اور عملاً جنگ میں شریک تھے؛ البتہ عہدِ صحابہؓ میں عموماً مسلمانوں کا مقابلہ وہاں کی آبادی سے نہیں، بلکہ حکومت کے منظم فوجیوں سے ہوا ہے؛ اس لیے مجاہدین نے اس ملک میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد وہاں کی عوامی املاک یا وہاں کے باشندوں کے مال وجان پر کسی طرح کی دست درازی نہیں کی ہے، بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور رواداری اور انصاف پر مبنی طرزِ عمل کو دیکھ کر کئی موقعوں پر اپنے ہم مذہب عیسائیوں اور پارسیوں کے خلاف ہی جاسوسی، خبر رسانی اور رسد بہم پہنچانے اور اس قسم کی مختلف طرح سے امداد کی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جنگِ یرموک پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا: ’’جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے‘‘۔ عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا : ’’ خدا کی قسم! تم رومیوں کی بہ نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو ‘‘۔ (الفاروق، ج:۲،ص: ۱۲۰)     غور طلب امر یہ ہے کہ اگر اسلامی جنگ کا مقصود کشیدگی اور بد امنی اور انارکی کا ازالہ اور وہاں عدل وانصاف پر مبنی طرزِ حکومت کا قیام نہ ہوتا تو وہاں کے مقامی باشندے اپنے ہم مذہب پیشواؤں کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ کیوں دیتے ؟ اور ان کے ساتھ اس جذباتی محبت وعقیدت کا اظہار کیوں کرتے ؟ معاہدے کی پاسداری کی تاکید     اسلام نے حالتِ جنگ میں جن چیزوں کی سخت تاکید کی ہے، ان میں سے ایک عہد کی پاسداری بھی ہے، بلکہ عام حالات میں بھی وفائے عہد کو ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کا لازمہ اور خاصہ قرار دیا گیا ہے: ’’ ایک ایمان والے کے شایانِ شان نہیں کہ وہ وعدہ خلافی یا عہد شکنی کرے، بدعہدی یہ تو منافق کا شیوہ ہوتا ہے۔‘‘ (ریاض الصالحین : ۲۹۳)     عہد وپیمان کے پاس ولحاظ کی تاکید کر تے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا: ’’معاہدے کی پاسداری کرو؛کیوں کہ اس کے تعلق سے بازپرس ہوگی ‘‘۔ عام حالات میں پابندیِ عہد کا اس قدر سختی کے ساتھ اسلام مطالبہ کرتا ہے،ظاہر ہے کہ جنگ کی حالت میں اس کی اہمیت مزید دوچند ہوجاتی ہے، اس لیے خصوصاً دورانِ جنگ یہ تاکید کی گئی ہے کہ دشمن خواہ بدعہدی کیوں نہ کرے، مسلمانوں کے لیے ہرگز یہ اجازت نہیں کہ قبل از اطلاع ان کی جانب پیش قدمی کریں یا بغیر انقطاعِ عہد کی اطلاع کے ان پر چڑھ دوڑیں؛ بلکہ ان کی جانب سے عہد شکنی کے باوجود بھی مسلمانوں کے لیے یہ ضروری قراردیا گیا ہے کہ وہ پہلے صاف اور صریح الفاظ میں معاہدہ کے خاتمہ کا اعلان کردیں، پھر اس کے بعد ہی وہ جنگی کارروائی کرسکتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’اور اگر تجھ کو ڈر ہو کسی قسم سے دغا کا تو پھینک دے ان کا عہد ان کی طرف ایسی طرح پر کہ ہو جاؤ تم اور وہ برابر، بیشک اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز۔‘‘ (الانفال :۵۸)     اس آیت کریمہ میں قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی گئی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف سے خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں؛ لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو صاف طور پر ختم کر دینے سے پہلے ہم ان کے خلاف کوئی اقدام کریں، بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو اطمینان و فرصت کی حالت میں اس سے آگاہ کر دیا جائے کہ تمہاری بدنیتی یا خلاف ورزی ہم پر ظاہر ہوچکی ہے، یا یہ کہ تمہارے معاملات مشتبہ نظر آتے ہیں؛ اس لیے ہم آئندہ اس معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے، تم کو بھی ہر طرح اختیار ہے کہ ہمارے خلاف جو کارروائی چاہو کرو!۔     اس سلسلہ کا ایک دلچسپ اور مشہور واقعہ جس کا ذکر مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی v نے کیا ہے: حضرت معاویہ qکا ایک قوم کے ساتھ ایک میعاد کے لیے التوائے جنگ کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہq  نے ارادہ فرمایا کہ اس معاہدہ کے ایام میں اپنا لشکر اور سامان جنگ اس قوم کے قریب پہنچا دیں، تاکہ معاہدہ کی میعاد ختم ہوتے ہی وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں، مگر عین اس وقت جب حضرت معاویہ q کا لشکر اس طرف روانہ ہو رہا تھا، یہ دیکھا گیا کہ ایک معمر آدمی گھوڑے پر سوار بڑے زور سے یہ نعرہ لگا رہاہے: ’’أللّٰہ أکبر أللّٰہ أکبر وفائً لا غدرًا‘‘، یعنی نعرۂ تکبیر کے ساتھ یہ کہا کہ ہم کو معاہدہ پورا کرنا چاہیے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہیے۔ رسول اللہ a نے فرمایا کہ جس قوم سے کوئی صلح یا ترکِ جنگ کا معاہدہ ہوجائے تو چاہیے کہ ان کے خلاف نہ کوئی گرہ کھولیں اور نہ باندھیں۔ حضرت معاویہ q کو اس کی خبر کی گئی، دیکھا تو یہ کہنے والے بزرگ حضرت عمرو بن عنبسہ صحابیq تھے۔ حضرت معاویہ q نے فوراً اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا، تاکہ التوائے جنگ کی میعاد میں لشکر کشی پر اقدام کرکے خیانت میں داخل نہ ہو جائیں‘‘۔ (معارف القرآن ، ج:۴ ،ص: ۲۷۰) اسیرانِ جنگ کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ     دنیا میں جتنی قومیں اور سلطنتیں گزری ہیں، وہ اسیرانِ جنگ کے ساتھ نہایت ہی وحشیانہ اور بہیمانہ سلوک کرتے تھے۔ موجودہ یورپین حملہ آور اقوام کا جنگی قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک ان کے اسیرانِ جنگ کے ساتھ سلوک کے حوالے سے شاہدِ عدل ہے۔ گوانتا ناموبے اور ابوغریب کی بدنامِ زمانہ جیل اور وہاں کی انسانیت سوز اور حیا باختہ انواعِ تعذیب وعقوبت کو دیکھ کر ہر شخص تلملا اٹھا، اس کے ساتھ اسلام کا اسیرانِ جنگ کے ساتھ حسنِ سلوک بھی مشاہدہ کرتے چلئے:     ’’ جنگ بدر کے ۷۲( بہتر ) قیدیوں میں آنحضرت a نے  ۷۰ (ستر) قیدیوں کو جرمانہ لے کر آزاد فرمادیا تھا۔ ان قیدیوں کو دورانِ اسارت مہمانوں کی طرح رکھا گیا، اہلِ مدینہ نے ان کے ساتھ نہایت ہی اچھا برتاؤ کیا، اپنے بچوں سے بڑھ کر ان کی خاطر مدارات کی۔ ایک دفعہ آنحضرتa کو بدر کے قیدیوں کی بندش کے تنگ ہونے کی وجہ سے کراہنے کی آوازیں سنائی دیں، آنحضرت aکو ان کی اس تکلیف کی وجہ سے ساری رات نیند نہ آئی، جب آپ aکے حکم سے تمام قیدیوں کی بندش ڈھیلی کی گئی، تب آپ a کو راحت ہوئی۔ بدر کے تما م قیدیوں میں سے صرف دو شخص ( عقبہ بن مُعیط اور نضر بن حارث ان کے بھیانک جرائم کی وجہ سے) قتل کر دیے گئے۔ جنگ بدر کے بعد غزوئہ بنی مصطلق میں بھی (۱۰۰) سے زیادہ مرد وزن قید ہوئے، آپ aنے ان سب کو بلاکسی شرط اور جرمانہ کے آزاد کردیا۔ جنگ حنین کے موقع سے بھی چھ ہزار مردوزن قیدیوں کو بلا کسی شرط ومعاوضہ کے آزاد فرمادیا، بلکہ بعض اسیروں کی آزادی کا معاوضہ آپ aنے اسیر کنندگان کو خود ادا کیا، پھر اکثر اسیروں کو خلعت اور انعام سے نواز کر رخصت کیا۔ ان جملہ نظائر سے اسلام کے حملہ آور دشمنوں اور قابویافتہ قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحم وکرم کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آنحضرت a کی پاک تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ خلفائے راشدین sکے عہد میں جب کہ عراق، مصر، شام، ایران اور خراسان، جیسے بڑے اور متمدن علاقے فتح ہوئے، لیکن کسی بھی جگہ حملہ آور یا جنگ آزما رعایا میں سے کسی کو لونڈی، غلام بنانے کا ذکر نہیں ملتا، بلکہ مغلوب دشمن سے تاوانِ جنگ لینے کا ذکر بھی درج نہیں ہے۔ (رحمۃ للعالمین، ج:۱،ص:۲۱۲)     مذکور ہ بالا تحریر کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا قانونِ جنگ امن وعافیت کا ضامن ہے۔ سسکتی، بلکتی اور تڑپتی انسانیت کو اگر کوئی جائے پناہ اور موقع نجات مل سکتا ہے تو اسلامی تعلیمات کے زیرِ اثر، ورنہ یہ خوف او راندیشوں کے سائے انسانیت کا یوں ہی پیچھا کرتے رہیں گے۔ (بشکریہ :ماہنامہ دارالعلوم،دیوبند، ماہ ربیع الثانی ۱۴۳۵ھ)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین