بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام کا تصورِ تفریح اورموجودہ معاشرہ 

اسلام کا تصورِ تفریح اورموجودہ معاشرہ 


ہمارے معاشرے میں تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے بہت سے معاملات میں غلط فہمیاں اور اُلجھنیں پیدا ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اہم بات ’’اسلام کا تصورِ تفریح‘‘ بھی ہے، لوگوں کے ذہنوں میں آج کل جو اسلام کا عمومی تصور پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام صرف عبادات کا دین ہے اور یہ فرد کا انفرادی مسئلہ ہے، اس کا معاشرتی، حکومتی اور تفریحی پہلو اب قابلِ عمل نہیں رہا۔ تاریخ کی یہ سب سے بڑی غلط فہمی نا صرف مسلم قوم کے لیے زہرِ قاتل بنی، بلکہ دیگر اقوام کے معاشرتی و اخلاقی پہلو بھی تشنگی کی آخری حدو ں کو چھو رہے ہیں۔
بلاشبہ تفریح‘ انسانی شخصیت کے بنا نے اور بگاڑنے کابہت اہم ذریعہ ہے اور صحیح و بامقصد تفریح بغیر کسی عمر کی قید کے انسان کی بہتر نشوونما کی ضامن ہے اور بے مقصد و غلط تفریح اخلاقیات کے مقتل تک پہنچا کر سانس لیتی ہے، معاشرے اخلاقی گراوٹ کاشکار ہوجاتے ہیں اورنوجوان نسل بے راہ روی کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ یہی وہ اسلامی نقطہ نظرہے جس پر نام نہاد عقلمندوں، مادر پدر آزاد ذہنوں، احترامِ انسانیت کی چادر تارتار کرتے روشن خیالوں کو دن رات کھٹکتا ہے کہ بھلا تفریحِ طبع کی بھی کوئی حد ہوسکتی ہے؟ تفریح کے لیے فن کا اظہار جس طرح مرضی کیا جائے، کوئی حرج نہیں اور تفریحِ طبع کو من مرضی کے مطابق کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ وغیرہ، وغیرہ۔
مگر اسلام بامقصد تفریح کی اجازت دیتا ہے، وقت کے ضیاع اور اخلاقیات کی بر بادی کرنے والی تفریحات کی سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں اخلاقی اور شرعی حدود کو توڑنے والا جو بھی طریقۂ تفریح ہے وہ ناجائز ہے، جیسے کسی کا ازراہِ مزاح استہزاء کرنا، کسی کے بارے میں محض لذتِ زبان کے لیے جھوٹ بھولنا اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے تفریح کو اختیار کرنا سخت معیوب ہے، البتہ اعتدال و توازن برقرار رکھتے ہوئے صحت مند تفریح کی ناصرف اسلام میں اجازت ہے، بلکہ اسلام صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی بھی کرتا ہے۔ اسلام میں خوشی کے اظہار کے لیے اکھٹا ہونا، نئے کپڑے پہننا، اچھے اچھے پکوان بنانا، کھیل کود کرنا سب ٹھیک ہے، مگر اخلاقی و شرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے مثلاً شادی کا موقع خاندان کی خوشی و تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ہے، مگر اس تفریح میں اسلام کہتا ہے کہ چند چیزوں کا لازمی خیال رکھا جائے، مثلاًشرعی حدود کی پابندی یعنی آپ اپنی خوشی کو ہمسائیوں، پڑوسیوں، اہلِ محلہ کے لیے باعثِ مصیبت نا بنائیں، حقوق اللہ کا خیال رکھیں، یعنی جس پروردگار کی عطا کردہ خوشی کو آپ منا رہے ہیں، اس کے احکامات کی پاسداری کریں، شعائر اللہ کی پاسداری کریں، اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں، لیکن نام و نمود کے لیے، کسی کو نیچا دکھانے کے لیے، کسی کو کم تر باور کرانے کے لیے اور اپنے اعزہ و اقارب کی آنکھوں میں حسرتیں بکھیرنے کے لیے بالکل بھی اجازت نہیں ہے، بلکہ ایسے اعمال اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہیں۔ 
اس کے ساتھ ساتھ جدید دور میں مغرب سے جو تفریحی تصور مشرقی اقدار کا جنازہ نکال رہا ہے، وہ ’’جنسی تفریح و تسکین‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ تفریحی پروگرامز، ناچ گانا، ڈرامے اور فلموں وغیرہ میں ناظرین کی جنسی تفریح وتسکین کو لازمی جزو بنا دیا گیا ہے، جو کہ بعد میں معاشرتی و اخلاقی بگاڑ کا بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے، بد قسمتی سے اب یہ موذی مرض ملک عزیز پاکستان میں بھی آچکا ہے۔ اخلاق باختہ مارننگ شوز، بد تہذیب ٹاک شوز، معاشرتی اقدار کا جنازہ نکالتے ڈرامے اور فلمیں، ماڈرن ازم کی نظر ہوتی تشہیری مشہوریاں قوم کے معماروںکے ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہیں اور پیمرا خاموش تماشائی بنا اپنے ملک کے قیمتی اثاثہ کو لٹتا ہوا دیکھ رہا ہے۔
اب آتے ہیں اسلام کے تصورِ تفریح کی طرف جو کہ تفریح کو خوش طبعی کے ساتھ ساتھ فلاحِ انسانی کے لیے ایک معاون کے طور پراپناتا ہے۔

اسلام کے تفریحی اصول و حدود     

۱:مقصدیت     

اسلام کہتا ہے کہ تفریح نہایت دلچسپ و مزیدار سرگرمی ہے، بشرطیکہ بہتر و بامقصد ہو، محض وقت کے ضیاع کے لیے یا نفسانی خواہش کے لیے تفریح کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جیسا کہ قرآن پاک اور احادیث میںبیان کیا گیا اور دنیا کی سیر، میاں بیوی کو ایک دوسرے سے حاصل ہونے والی فرحت و خوشی، مختلف قوموں کے احوال و واقعات، گھڑ سواری، تیر اندازی، دوڑ، وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔    

۲:حرمت

مضرِ انسانیت کھیل جن میں انسانیت کا احترام اور وقار مجروح ہوتا ہو، اسلام اس کی سخت ممانعت کرتا ہے، جیسے بھوکے جانوروں اور انسانوں کا مقابلہ، کسی کی عزت کو اُچھالنا، خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کا استہزاء کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کے مخصوص کھیل مرد وں کے لیے اور مردوں کے مخصوص کھیل عورتوں کے لیے ممنوع ہیں، ان سے دونوں کا وقار مجروح ہوتا ہے، مگر چند ایک کی اجازت ہے۔ 
اسی طرح اسلام میں کھیل کے دوران لباس کی بہت اہمیت ہے، ایسا لباس جو مردو خواتین کے مخفی اعضاء کے نمایاں ہونے کا سبب ہیں ان کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے، کیونکہ کھیل کسی کی حرمت کے ظہور کے لیے نہیں ہونا چاہیے اورجو کھیل شارحِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردئیے، مثلاً: شطرنج، جوا، جانور لڑانا وغیرہ، وہ بھی حرام ہیں، اسی طرح وہ تفریحی مشاغل جو ایمان و دین میں کمی کا باعث بنیں یا جن سے قوم و ملت کو فائدہ نہ ہو یا کسی کی بھی ضرر رسانی کا باعث ہوں، اسلام ان کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن پاک کی سورۂ حجرات میں ہے کہ:
 ’’ اے ایمان والو! نہ مَردوں کو مَردوں پر ہنسنا چاہیے، کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، کیا عجب ہے کہ وہ ان سےبہتر ہوں اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو، ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا (ہی) برا ہے اور جو (ان حرکتوں سے) باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘ 
ایک حدیث شریف میں ہے کہ:
 ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

۳:حدودِ اوقات کی پابندی     

اسلام کہتا ہے کہ تفریح بے وقت اور بے قاعدہ نہیں ہونی چاہیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے نیند کو ناپسند کرتے تھے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے۔‘‘ (البخاری)
رات کو اللہ پاک نے آرام کے لیے بنایا ہے اور دن کو باقی سرگرمیوں کے لیے اور آج ہم فطرت کے اصولوں کے خلاف چلنے میں زندگی کی ترقی اور خوشی ڈھونڈ رہے ہیں۔ تفریح کرنی چاہیے، لازم اور ہر روز کرنی چاہیے، اگر صحت مند تفریح نہی ہوگی تو آپ اپنے حقوق و فرائض بحسن و خوبی انجام نہیں دے سکتے، مگر اخلاقی، گھریلو، سماجی اور مذہبی خدمات کے اوقات کو کھیل کود میں لگا نا سخت نااہلی کا ثبوت ہے۔ ایک ضروری بات کہ تفریحی مشاغل میں فضول خرچی کی بھی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا، بلکہ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔

۴: حقوق اللہ و حقوق العباد سے متصادم نہ ہو 

اسلام کہتا ہے کہ کھیل سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حرج واقع نہ ہو، بلکہ حقوق و فرائض میں معاون ثابت ہو، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ: ’’ہر وہ چیز جس سے ابن آدم غفلت میں پڑے وہ باطل ہے۔‘‘ (ترمذی) 
یہ چند ایک مثالیں ذکر کی ہیں، ورنہ اسلام دیگر شعبوں کی طرح تفریح میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے، اسے بہتر اور بامقصد بنانے کے لیے احکامات جاری کرتا ہے اوراسلام کہتا ہے کہ ایک صحت مند جسم ایک صحت مند دماغ کا ذریعہ بنتا ہے اور ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔ اور اسلام کہتا ہے کہ تندرست، توانا، چاک و چوبند مسلمان ایک بیمار، لاغر اور کمزور مسلمان سے بہتر ہے، اگر وہ اسلامی احکامات کی پابندی کرنے والا ہے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین