بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام میں مساجد کی اہمیت وعظمت!


اسلام میں مساجد کی اہمیت وعظمت!

 

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد سب سے پہلا اسلامی مرکز دارِ ارقم کو بنایا، جب کہ اس وقت بیت اللہ شریف قریش کے قبضہ میں تھا۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد بیت اللہ کو مرکزِ اسلام بنایا گیا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں پہلے مسجد قباء اور اس کے متصل بعد مسجد نبوی تعمیر کی گئی اور پھر جہاں جہاں اسلامی فتوحات ہوتی گئیں، وہاں وہاں مساجد کا اضافہ ہوتا گیا، حتیٰ کہ اسلامی قلمرو میں کوئی محلہ ، کوئی بستی، کوئی گاؤں یا قصبہ اور شہر ایسا نہ تھا، جہاں کوئی مسجد نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرہ میں مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ 
مسلم معاشرہ میں جب تک مساجد کو اہمیت دی جاتی رہی، اس وقت تک اسلام بھی بلند رہا، لیکن جوں ہی مساجد کی مرکزی حیثیت متزلزل ہوئی اور اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر الحاد وبے دینی سے متأثر لوگوں کا دور دورہ ہوا، اور ان کے افکار ونظریات سے پروردہ لوگ مساجد سے دور ہونے لگے اور انہوں نے مساجد کو وہ مقام نہ دیا جو اسلامی معاشرہ کا خاصہ رہا ہے۔ اسی لیے تو مسلمان اپنی شان وشوکت کھوکر تنزُّل اور پستی کا شکار ہوتے گئے اور بالآخر اسلام کو غربت سے ہمکنار ہونا پڑا، حالانکہ مساجد کی آبادی ایمان کی دلیل، مساجد میں آنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان، مساجد کی طرف آنے والوں کے لیے ایمان کی گواہی اور نور کی بشارت، مساجد کی حاضری رحمتِ الٰہی کا ذریعہ، مساجد کی طرف جانا آنا اور اُن میں ٹھہرنا گناہوں کی بخشش اور کفارہ کا ذریعہ قرآن وسنت میں بتایا گیا ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا، جس کی اساس اور بنیاد ہی اسلامی نظریہ پر رکھی گئی، جس کے آئین اور دستور میں بتایا گیا کہ سپریم لا قرآن وسنت ہیں اور کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا،اس ملک میں آئے روز اللہ کے گھر یعنی مساجد کو گرانے کی باتیں کی جاتی ہیں، پہلے پرانی سبزی منڈی کی دو مساجد کو گرانے کی باتیں کی گئیں اور کہا گیا کہ: سبزی منڈی کی جگہ جو پارک کا نقشہ بنایا گیا ہے، اس میں مساجد رکاوٹ ہیں۔ اس وقت کے اکابر علماء کرام اور بزرگانِ دین اس کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے، الحمد للہ! وہ مساجد آج بھی شان وشوکت سے موجود ہیں۔ اس کے بعد اسلام آباد میں یہ ڈرامہ رچایا گیا، کئی مساجد کو تو پارکوں اور ندی نالوں کی آڑ میں گرانا بھی شروع کردیا گیا، لیکن وہاں بھی مزاحمت ہوئی اور ان کو منہ کی کھانا پڑی۔
 اب دوبارہ کراچی میں یہ کھیل شروع ہوگیا ہے۔ پہلے نسلہ ٹاور کے مکینوں کو بے دخل کرکے اس کو گرایا گیا، اب مدینہ مسجد طارق روڈ کراچی جو تمام دستاویزات اور قانونی کارروائی کے مکمل کیے جانے کے بعد پانچ منزلہ خوبصورت مسجد وجود میں لائی گئی اور عرصہ چالیس سال سے یہاں پر قائم ہے اور اس میں نمازیں ادا کی جارہی ہیں۔ آناً فاناً اس کے گرانے کا حکم سپریم کورٹ سے صادر ہوچکا ہے، جب اس فیصلے پر عدالتِ عظمیٰ سے نظرثانی کی اپیل کی گئی تو کہا گیا کہ اگر اس فیصلے کو ہم واپس لیتے ہیں تو ہمارے دوسرے فیصلوں کا کیا ہوگا؟ گویا اسلامی تعلیمات سے ناآشنا اور عصری ومغربی تعلیمات سے پروردہ افسران ومقتدر قوتوں کے نزدیک پارک اور ندی نالوں کی اہمیت تو ہے، لیکن مساجد کی عزت وحرمت اور احترام سے ان کے قلوب یکسر خالی ہیں، ان کے نزدیک مسجد گرانا تو آسان ہے، لیکن اپنا صادر کیا ہوا فیصلہ واپس لینا مشکل ہے، لا حول و لا قوۃ إلا باللہ۔
جب کہ مسجد کی یہ جگہ سرکاری جگہ پر بھی نہیں ہے، بلکہ سوسائٹی کی جگہ ہے اور سوسائٹی نے مسجد کے لیے اجازت نامہ بھی دیا ہے، اور تمام سوسائٹی اور مارکیٹ کے لوگ اب بھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مسجد چاہیے، پارک نہیں چاہیے۔ اگر یہ مسجد سرکاری پارک کی جگہ پر بھی ہوتی ، تب بھی اس کو گرانا کسی حال میں جائز نہ تھا ، اس لیے کہ پارک عوام کے مفاد اور سہولت کے لیے ہوتا ہے تو جب عوام اپنے مفاد اور اپنی سہولت کو پارک کی بجائے مسجد میں دیکھ رہے ہیں تو سرکار کو اس میں مداخلت کا کیا جواز ہے؟ کیونکہ عوام بخوبی سمجھتی ہےکہ پارکوں میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے اور آج کل کیا کچھ ہورہا ہے۔ 
محسوس یوں ہوتا ہے کہ گویا ان مقتدر قوتوں کو پارکوں میں عریانی، فحاشی اور نشئی جتھوں کا اکھٹ اور مظاہرہ تو گوارا ہے، لیکن مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ کے ہاں سربسجود ہونا ، اس کے سامنے گڑگڑانا، دعائیں کرنا اور رحمتِ الٰہی کو انسانوں کی طرف متوجہ کرنا ان کو گوارا نہیں، فیاأسفٰی۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہاں پارک کی ضرورت ہے، کیونکہ اسی مسجد کے قریب ۱۲؍ ایکڑ پر مشتمل ایک بہت بڑا پارک ’’جھیل پارک‘‘ کے نام سے موجود ہے، جسے یہاں کے باشندے اپنے لیے کافی اور وافی سمجھتے ہیں۔
مسجد کی تعمیر اور پہلے سے موجود مساجد کی بقا اور استحکام اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اس فریضہ سے کوتاہی کرتی ہے تو مسلم عوام کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ مسجد کی تعمیر، اس کی تولیت وانتظام اور اس کے جملہ امور کا اہتمام کرے۔جو زمین اہلِ علاقہ کی ضرورت کے لیے مختص ہو، وہاں اہلِ علاقہ کی رضامندی سے مسجد بنانا جائز ہے اور یہ بھی شریعت کا مسئلہ ہے کہ جب ایک جگہ مسجد بن جائے اور وہ جگہ کسی فرد کی ملکیت میں ہو (سرکاری زمین نہ ہو) تو مسجد بن جانے کے بعد مسجد گرانا توجائز نہیں، بلکہ اس فرد کو اس زمین کی قیمت اور تاوان ادا کیا جائے گا۔ 
بہرکیف علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ: مساجد چونکہ شعائرِ اسلام میں سے ہیں، اس لیے مساجد کے احکام دیگر مکانوں، دکانوں اور املاک وعمارتوں کی طرح نہیں، بلکہ ان سے بالکل مختلف ہیں۔
 دوسری املاک وعمارتوں اور مساجد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسری املاک مخلوق کی ملکیت شمار ہوتی ہیں، جب کہ مساجد اللہ تعالیٰ کی ملکیت شمار ہوتی ہیں ۔ شخصی املاک میں انسان ہر قسم کے مالکانہ تصرف کا مجاز ہوتاہے، مثلاً ملکیت کا تبادلہ بالعوض یا انتقال وغیرہ ہوسکتا ہے، جب کہ مساجد یا وہ املاک جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوجاتی ہے، وہاں انسانوں کو کسی قسم کے مالکانہ تصرف، خرید و فروخت، تبادلہ وانتقال وغیرہ کا حق نہیں پہنچتا۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو قطعۂ زمین شرعی مسجد قرار پائے ، وہ حصہ تحت الثریٰ سے عرشِ معلی تک، مسجد کے نام خاص ہونے کے وقت سے قیامت تک مسجد کہلاتا ہے اور پھر مسجد کا یہ احاطہ مسجد کے علاوہ کسی اور مصرف میں قطعاً استعمال نہیں ہوسکتا۔ 
علماء شریعت اور فقہاء اُمت نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ تصریح فرمادی ہے کہ: اگر کہیں آبادی اُجڑ جائے اور مسجد کا کوئی نمازی نہ بھی رہے یا مسجد اہلِ محلہ کے لیے تنگ ہوجائے اور ا س پرانی مسجد کو کھلی جگہ منتقل کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہو، یا مسجد کو کوئی پڑوسی اپنی ضرورت کے توسیعی پروگرام میں شامل کرنا چاہے اور اس کے بدلے مسجد کے لیے وسیع جگہ کا بندوبست کرنا چاہے تو ایسا کرنا اور اس مقصد کی خاطر پرانی مسجد کو ہٹانے اور منہدم کرنے کی جسارت کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، بلکہ ناجائز اورحرام ہے  ۔‘‘
ہماری عدالت اور حکومت سے درخواست ہے کہ وہ اہلِ علاقہ کے غیورمسلمان اور جمہور عوام کی خواہش اور مطالبہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی فرمائے اور دنیا وآخرت میں اپنی عزت واحترام اور وقار ودبدبہ میں مزید اضافہ فرمائے اور دونوں جہانوں کی سعادتوں اور کامیابیوں کو اپنے نام کرائے، إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت، وما توفیقي إلا باللہ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین