بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلام میں صنفِ نازک کی رعایت!

اسلام میں صنفِ نازک کی رعایت!

تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم اقوام نے عورت پرجس قدر ظلم وستم روا رکھے ہیں، شاید اپنے معاشرے کی کسی اور صنف پر اتنے مظالم انہوں نے نہ ڈھائے ہوں اوراس ’’عضو ضعیف‘‘ پر نزلہ گرانے کے لیے مختلف اقوام نے نت نئے طریقے ایجاد کیے ہیں: کہیں اُسے میراث سے محروم کیا گیا، کہیں اُسے اپنے شوہر کی چتا میں جلایا گیا، کہیں اُسے اس جرم بے گناہی میں اپنی زندگی بنانے سے روک دیا گیا کہ اس کا شوہر کیوں مرگیا تھا۔ کہیں اُسے سوسائٹی میں جانور سے بھی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا کہ مرد تو اُس سے ہر طرح کا نفع اُٹھائے، ہر قسم کی خدمت لے، مگر جب اس کو حقوق دینے کی بات آئے اُسے اذیتیں پہنچائے۔ غرض اس طرح کے بے شمار ظلم وستم مختلف قوموں اور ملتوں نے ’’صنف نازک‘‘ پر ڈھائے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس قدر ہولناک، بھیانک اور انسانیت سوز مظالم مغربی تہذیب نے عورت پر ڈھائے ہیں، شاید اس سے پہلے کسی اورقوم اور ملت نے نہ ڈھائے ہوں۔ ان مظالم کا یہ پہلو اور بھی زیادہ المناک ہے کہ خود عورت کو اس کا احساس نہیں، وہ بے چاری یہ سمجھتی ہے کہ شاید میرے ساتھ انصاف ہورہا ہے۔ یورپ میں اٹھارویں صدی وہ زمانہ ہے جس میں وہاں کی اکثریت کے دل سے خوفِ خدا کا آخری بیج بھی مارا جاچکا تھا۔ اس سے پہلے یورپ میں وہی فطری تقسیم کار تھی جو اسلام نے متعارف کرائی ہے کہ مرد کماکرلائے اور عورت گھر کا انتظام کرے۔ اس زمانے میں جاگیرداری نظام رائج تھا اور تمدن کا نیا ڈھانچہ وجود میں نہ آیا تھا، اس لیے زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ تھے، اور اس وقت معیارِ زندگی بھی سادہ تھا۔ زندگی گزارنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کی ضرورت نہ تھی، اس لیے مرد نے اس تقسیم کار کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔  اٹھارویں صدی میں جب مشین ایجاد ہوئی تو یورپ کے اندر صنعتی انقلاب رونما ہواجس نے اہل یورپ کی زندگی کے ہر شعبے پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ جاگیرداری نظام نے دم توڑدیا اور سرمایہ داری نظام نے اس کی جگہ لے لی، شہروں میں بڑے بڑے کارخانے کھلنے لگے اور دیہاتی آبادیاں جو جاگیرداروں کے ظلم وستم سے تنگ آچکی تھیں، شہروں کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگئیں۔ اس پورے نظامِ معیشت کی تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ عام لوگوں کا معیارِ زندگی بھی بڑھنے لگا، ہر شخص کو سوسائٹی میں اپنا وقار باقی رکھنے کے لیے کافی سرمایہ کی ضرورت پیش آئی، چنانچہ پیسہ کمانے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی، وقت کی رفتار کے ساتھ طرزِ بودوباش بدلتا رہا، ضروریاتِ زندگی بڑھتی ہی چلی گئیں، اس لیے حصولِ زر کی دوڑ شدید تر ہوتی گئی۔ ان حالات میں مغربی مرد کی خود غرض طبیعت جو ہمیشہ سے بغیر کوئی قربانی دیئے عورت سے نفع اٹھاتی چلی آئی تھی، برداشت نہ کرسکی۔ اس لیے کہ سرمایہ اس کی اپنی ضروریات کے لیے بمشکل مہیا ہوتا ہے، اس میں عورت کو بھی کہاں سے حصہ دار بنائے؟ اس کے لیے یا تو اپنی ضروریاتِ زندگی میں کمی کرے یا مزید پیسہ حاصل کرنے کے لیے اپنی جان پر اور بوجھ ڈالے۔  نظامِ معیشت اور طرزِ تمدن کے اس غیر معمولی انقلاب کے بعد مرد کو عورت کا گھر میں رہنا دو وجہ سے بری طرح کھٹکنے لگا: ایک تو وہ اس عورت سے علیحدہ ہونا نہیں چاہتا تھا، صنعتی انقلاب کے بعد گھر سے دور درازمصروفیتیں زیادہ تھیں، اس لیے جاگیردارانہ نظام کے برعکس اُسے گھر سے دور رہنا پڑتا۔ دوسرا معیارِ زندگی کے بلند ہونے کی وجہ سے اپنے مصارف کا برداشت کرنا ہی مشکل تھا، اس لیے اسے اپنے ساتھ ایک اور فرد کے لیے محنت ومشقت اٹھانا اپنے نفس پر ایک غیر ضروری بوجھ محسوس ہونے لگا، ان دونوں مشکلات کا حل اسے ایک ہی نظر آیا کہ اب کسی طرح عورت کو بھی کمانے پر آمادہ کرو، تاکہ حصولِ زر کی مشکلات بھی ختم ہوں اور عورت کے ہر قدم پر ساتھ رہنے سے اس نفسانی جذبے کی تسکین ہو جو رگ وپے میں پیوست ہوچکا ہے۔ یہ بات اگر سیدھے سادے انداز سے عورت سے کہی جاتی تو وہ مرد کی اس انسانیت سوز خود غرضی سے خبردار ہوجاتی کہ وہ ایک طرف تو ہر قدم پر عورت کے وجود سے اپنی جنسی آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے، دوسری طرف جب اسی عورت کے لیے روٹی کے چند ٹکڑے مہیا کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اسے یہ کام دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ عورت یہ سوچتی کہ مرد کو اپنی جسمانی تکالیف کا تو اتنا احساس ہے کہ وہ ان کی وجہ سے عورت کو گھر سے نکالنا چاہتا ہے، مگر اسے اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لیے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ عورت جیسی صنف نازک روپیہ کمانے اور گھر کا انتظام کرنے کے دونوں کام کس طرح کرے گی؟ اپنی اس خود غرضی پر پردہ ڈالنے کے لیے مغربی مرد کی عیّاری نے جو ہمرنگِ زمیں جال تیار کیا، وہ اس قدر نظر فریب تھا کہ بے چاری عورت آج تک اس جال میں پھنسی ہونے کے باوجود اس کی دلفریبی میں مگن ہے، اسی نظر فریب جال کا دلکش اور معصوم نام ’’تحریک نسواں‘‘ ہے۔ مرد نے اپنی اسی خود غرضی پر عمل کرنے کے لیے آزاد خیالی کا سہارا لیا اور وہ لبرلسٹ جو عرصۂ دراز سے یورپ کی معاشی، اقتصادی، اخلاقی اور مذہبی زندگی میں انقلاب لانا چاہتے تھے، اس کام کے لیے موزوں ترین ثابت ہوئے، چنانچہ اس مقصد کے لیے ’’عورتوں کی آزادی‘‘ کا نعرہ لگایا اور عام مطالبہ کیا کہ عورت کو گھر کی چاردیواری میں محصور رکھنا اس پر ظلم ہے، مرتبہ ومقام کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں، اُسے مردوں کے دوش بدوش ہر کام میں حصہ لینا چاہیے، حصولِ معاش کے معاملہ میں اسے مرد کا محتاج ہونے کی بجائے مستقل بالذات ہونا چاہیے۔ چونکہ یہ نعرہ ہر اس مرد کی دلی آواز تھا جو نئے طرزِ زندگی کے بعد عورت کا گھر میں رہنا اپنی حرص وہوس کی وجہ سے برا سمجھ رہا تھا، چنانچہ لبرل پارٹی کی یہ آواز یورپ کے ہر خطہ سے اٹھنی شروع ہوگئی، بے چاری عورت مرد کی اس مکارانہ چال کو نہ سمجھ سکی اور اس نے بخوشی گھر کو خیر آباد کہہ کر مرد کی حرص وہوس کو نہایت اطمینان سے پورا کردیا، پھر مرد نے اپنی چال سے اس صنف سے بڑے بڑے کام لیے۔ عورت جب بازاروں میں نکلی اور دفتروں میں داخل ہوئی تو مرد نے اپنی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کے علاوہ اس کے ذریعہ اپنی تجارت بھی خوب چمکائی۔ دُکانوں اور ہوٹلوں کے کاؤنٹروں پر، دفتروں کی میزوں پر، اخبارات واشتہارات کے صفحات پر اس کے ایک ایک عضو کو سربازار رُسوا کیا گیا اور گاہکوں کو اس کے ذریعہ دعوت دی گئی کہ آؤ! اور ہم سے مال خریدو، یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پر فطرت نے عزت وآبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت وعصمت کے ہار ڈالے تھے، دُکان کی زینت بڑھانے کے لیے ایک شوکیس اور مرد کی تھکاوٹ دور کرنے کیے لیے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی۔ اسی دوران عورت کو اسی حال پر خوش رکھنے اور اُسے تسلّی دینے کے لیے نت نئے افسانے گھڑے گئے جس سے عورت کو یہ محسوس ہوا کہ واقعی ہمارے مرد ہمارے بڑے ہمدرد ہیں اور ہمیں ظلم سے نجات دلانا چاہتے ہیں، چنانچہ اسے مساویانہ حقوق کے نام پر فطرت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا، نتیجہ معلوم جو فطرت سے ٹکرائے گا، پاش پاش ہوجائے گا۔ آج اسی قسم کی عورت اپنا تشخص ڈھونڈ رہی ہے اور جہالت وضلالت کی تاریکیوں میں کبھی ایک دیوار سے سر ٹکرارہی ہے تو کبھی دوسری دیوار سے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ مردوں نے عورتوں کو فطری حقوق نہیں دیئے یا نہیں بتائے اور اسے اس کا صحیح معاشرتی مقام نہیں بتایا۔ ہم آئندہ سطور میں عورت کی ان استثنائی صورتوں کا اجمالاً تذکرہ کریں گے جو اس کے متعلق اسلامی قوانین میں موجود ہیں اور وہ عورت کے فطری تشخص کے برقرار رکھنے کی واحد ضمانت ہیں: ۱:…منصب حکمرانی     اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ‘‘۔ (النسائ:۳۴)۔۔۔۔۔۔۔’’مرد قوام (نگران) ہیں عورتوں پر‘‘۔ وضعی قوانین نے اس اصول کو مکمل طور پر غلط قرار دیا، مگر سو برس کے تجربہ نے بتایا کہ الٰہی قانون ہی اس معاملہ میں حقیقت سے قریب تر ہے۔ آزادیٔ نسواں کی تحریک کی تمام تر کامیابیوں کے باوجود آج بھی ’’مہذّب‘‘ دنیا میں مرد ہی جنس برتر (Dominant Sex) کی حیثیت رکھتا ہے۔ آزادیٔ نسواں کے علم بردار یہ کہتے تھے کہ عورت اور مرد کا فرق محض سماجی حالات کی پیداوار ہے،مگر موجودہ زمانہ میں مختلف شعبوں میں اس مسئلہ کا جو گہرا مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صنفی فرق کے پیچھے حیاتیاتی عوامل (Biological Factores) کار فرما ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جیروم گن کے مطالعہ نے اسے بتایا ہے کہ: ’’مرد اور عورت میں بعض نفسیاتی فرق محض معاشرتی تجربات کی وجہ سے نہیں ہوسکتے، بلکہ وہ لطیف قسم کے حیاتیاتی فرق کی پیداوار ہیں۔ ‘‘ کسریٰ کے مرنے کے بعد اس کے درباریوں نے اس کی لڑکی کو حکمران بنایا، آپ aکو معلوم ہوا تو آپ aنے فرمایا:’’لن یفلح قوم وَلَّوْا أمرَھم امرأۃ‘‘۔یعنی ’’وہ قوم کبھی کامیاب نہیںہوسکتی جس نے اپنی حکمرانی عورت کو دے دی‘‘۔ جدید تحقیق بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ہے،چنانچہ ایک امریکی سرجن Edan Berman کا فیصلہ ہے کہ : ’’عورتیں اپنی ہارمون کیمسٹری کی وجہ سے اقتدار کے منصب کے لیے جذباتی ثابت ہوسکتی ہیں‘‘۔ عورت صنف نازک ہے،جبکہ مرد قوی۔ عورت میں انفعالیت ہے اور مرد میں فعالیت اور جارحیت، لہٰذا فطری طور پر عورتیں نازک مزاج اور جذباتی ہوتی ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا۱۹۸۴ء میں خواتین کی حالت (Status Of Women)پر ایک مفصل مقالہ ہے، اس مقالے کا ایک ذیلی عنوان یہ ہے:’’مرد اور عورت کے فرق کا سائنسی مطالعہ‘‘مقالہ نگار کے مطابق ’’جدید تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ مرد اور عورت کے درمیان عین پیدائشی بناوٹ کے لحاظ سے فرق ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ’’اوصافِ شخصیت کے اعتبار سے مردوں کے اندر جارحیت اور غلبہ کی خصوصیات زیادہ پائی جاتی ہیں، ان میں حاصل کرنے کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے، اس کے مقابلہ میں عورتیں سہارا چاہتی ہیں، ان کے اندر معاشرت پسندی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور ناکامی کی صورت میں مردوں کے مقابلہ میں وہ زیادہ آسانی سے بے ہمّت ہوجاتی ہیں۔ عورت کے اندر انفعالیت اور مرد میں فعّالیت زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الکسس کیرل(۱۸۷۳ئ-۱۹۴۴ئ) نے مذکورہ موضوع پر نہایت نفیس بحث کی ہے، وہ اس معاملہ کی حیاتیاتی تفصیلات پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’مرد اور عورت کے درمیان جو فرق پائے جاتے ہیںوہ محض جنسی اعضاء کی خاص شکل، رحم طور کی موجودگی، حمل یا طریقۂ تعلیم کی وجہ سے نہیں ہیں، وہ اس سے زیادہ بنیادی نوعیت کے ہیں،وہ خود نسیجوں کے بناوٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور پورے نظام جسمانی میں خصوصاً کیمیائی مادے کے سرایت کرنے سے ہوتے ہیں،جو کہ خصیۃ الرحم سے نکلتے ہیں۔ ان بنیادی حقیقتوں سے بے خبری نے ترقیٔ نسواں کے حامیوں کو اس عقیدہ تک پہنچایا ہے کہ دونوں صنفوں کے لیے ایک طرح کی تعلیم ایک طرح کے اختیارات اور ایک طرح کی ذمہ داریاں ہونی چاہئیں، باعتبار حقیقت عورت نہایت گہرے طور پر مرد سے مختلف ہے۔ عورت کے جسم کے ہر خلیے میں زنانہ پن کا اثر موجود ہوتا ہے،یہی بات اس کے اعضاء کے بارے میں بھی درست ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے اعصابی نظام کے بارے میں عضویاتی قوانین بھی اتنا ہی اٹل ہیںجتنا کہ فلکیاتی قوانین اٹل ہیں، ان کو انسانی خواہشوں سے بدلا نہیں جاسکتا۔ہم مجبور ہیں کہ ان کواسی طرح مانیں،جیسے کہ وہ ہیں۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو خود اپنی فطرت کے مطابق ترقی دیں، وہ مردوں کی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تہذیب کی ترقی میں ان کا حصہ اس سے زیادہ ہے جتنا کہ مردوں کا ہے، انہیں اپنے مخصوص عمل کو ہرگز چھوڑنا نہیں چاہیے ‘‘۔ امریکی پروفیسر گولڈ برگ کہتے ہیں: ’’اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد عورتوں سے بہتر (Better) ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مرد عورتوں سے مختلف (Diffrent) ہوتے ہیں، مرد کا دماغ اس سے مختلف طرز پر کام کرتا ہے، جس طرح عورت کا دماغ کام کرتا ہے۔ کچھ عورتیں مستثنیٰ ہوسکتی ہیں، مگر وہ بہت معمولی اقلیت میں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مختلف ہیں، رحم مادر سے لے کر سوچنے کی صلاحیت تک یہ فرق دونوں کی حیاتیاتی نوعیت کے فرق سے پیدا ہوتا ہے، نہ کہ کسی قسم کے سماجی حالات سے‘‘۔ امریکہ میں آزادیٔ نسواں کی تحریک کافی طاقتور ہے، مگر اب اس کے حامی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی راہ کی اصل رکاوٹ سماج یا قانون نہیں، بلکہ خود فطرت ہے۔ فطری طور پر ہی ایسا ہے کہ عورت بعض حیاتیاتی محدودیت کا شکار ہے۔ میل ہارمون اور فی میل ہارمون کا فرق دونوں میں زندگی کے آغاز ہی سے موجود ہوتا ہے، چنانچہ تحریک آزادیٔ نسواں کے پرجوش حامی کہنے لگے ہیںکہ فطرت ظالم ہے، ہمیں چاہیے کہ پیدائشی سائنس ایوجنکس(cience Of Eufenics) کے ذریعہ جنیٹک کوڈ کو بدل دیں اور نئے قسم کے مرد اور نئی قسم کی عورتیں پیدا کریں۔ یہ ہے وہ آخری انجام جو امریکی عورت کے نعرہ ’’پالیسی بناؤ کافی نہ بناؤ‘‘ (Make Policy Not Coffee) کا دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں ہواہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ایک تجرباتی قرینہ ہے کہ وضعی قوانین کے مقابلہ میں الٰہی قانون میں فطرت کی رعایت زیادہ پائی جاتی ہے۔ ۲:…فطری تقسیم کار حضور اکرم a کا ارشاد ہے: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المتشبّہین من الرجال بالنساء والمتشبّہات من النساء بالرجال‘‘۔                              (مشکوٰۃ،ص:۳۸۰) ترجمہ:’’رسول اللہ a نے عورتوںکی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے  ‘‘۔ انسانیت کومرد وعورت کی صنفی تقسیم کے ساتھ پیدا کرنا براہِ راست خالق کی منصوبہ بندی ہے، اس تقسیم کو باقی رکھنے ہی میں انسانی زندگی کی ترقی ہے، جو مرد یا عورت اس تقسیم کو توڑنے کی کوشش کرے،وہ گویا نظامِ فطرت کو توڑتا ہے، نظامِ فطرت کو توڑنا صرف تخریب ہے، وہ کسی درجہ میں بھی تعمیری کام نہیں ہے، اسلام کے نزدیک مرد وعورت ایک دوسرے کے ہم سر (Duplicates) نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کا تکملہ (Complemen) ہیں اور دونوں میں ناقابل عبور قسم کے حیاتیاتی فرق پائے جاتے ہیں۔ یہ فرق تقسیم کار کی حکمت پر مبنی ہے، وہ اس طرح کہ مرد کی کمی کی تلافی عورت اور عورت کی کمی کی تلافی مرد کرے۔ قرضوں کے معاملہ میں اسلام کے قانونِ شہادت میں دو عورتوںکی گواہی ایک مرد کے برابر مانی گئی ہے،قرآن میں قرض کے معاملہ کا قاعدہ بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ’’اپنے مردوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنالو اور اگر دو مرد گواہ نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں، ایسے گواہوں میںجن کو تم پسند کرتے ہو، تاکہ ان دو عورتوں میں سے ایک اگر بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلادے۔‘‘ چنانچہ حالیہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ قرآن کا یہ قانون بالکل فطری ہے، کیونکہ وہ حیاتیاتی حقیقت کے عین مطابق ہے۔ ٹائمس آف انڈیا (۱۸ جنوری ۱۹۸۵ئ) میں یو۔پی۔آئی کے حوالہ سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، یہ رپورٹ اخبار کے صفحہ نمبر:۹ پر ہے۔ اخبار لکھتا ہے: ترجمہ:’’عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کے اندر اس بات کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ریاضیاتی معلومات کو یاد رکھیں اور اس کو ترکیب دے سکیں، مگر عورتیں الفاظ میں زیادہ بہترہوتی ہیں۔ یہ بات ایک روسی سائنسدان نے کہی۔ ڈاکٹر ولادیمیر کونوولوف نے تاس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مرد ریاضیاتی موضوعات پر چھائے ہوئے ہیں، اس کی وجہ ان کے اندر حافظہ کی خصوصی صلاحیت ہے، صنف قوی لسانی مواد کو ترکیب دینے اور استعمال کرنے میں زیادہ مشکل محسوس کرتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالاآیت کا تعلق قرض سے ہے،یعنی وہ صورت جبکہ آج معاملہ کیا جائے اور آئندہ اس کی ادائیگی ہو، ایسے معاملہ میں حکم دیا گیا ہے کہ اس کے اوپر دو مرد گواہ ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ مقرر کیے جائیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اس طرح کے معاملہ میں انصاف پسندی کے بعد دوسری چیز جو دیکھنے کی ہے، وہ یادداشت ہے اور جب حیاتیاتی طور پر عورت کی یادداشت مرد سے کم ہو تو یہ عین حقیقت کے مطابق ہے کہ ایک مرد کی جگہ دو عورتیں گواہ بنائی جائیں، گویا مرد اور عورت میں گواہی کا فرق بربنائے ضرورت ہے، نہ کہ بربنائے فضیلت۔ قرآنی آیت: ’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ بِمَافَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘ میں فضیلت سے عمومی فضیلت مراد نہیں ہے، بلکہ یہ وہ نوعی فضیلت ہے جو ناگزیر حیاتیاتی فرق کی وجہ سے ہے، ورنہ مطلقاً بحیثیت انسان ہونے کے مرد کو عورت پر کوئی فضیلت نہیں ہے، بلکہ یہ فضیلت فطری صلاحیتوں کی وجہ سے اس کے اوپر جو ذمہ داریاں عائد ہوئی ہیں اسی جہت سے ہے۔جیسے پھلوں کے متعلق ارشاد ہے:’’وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِیْ الْأُکُلِ‘‘۔(الرعد:۴) یہاںپر مفسرین نے تفضیل سے مرا دفرق اور تنوع لیا ہے، نہ یہ کہ پھلوں میں سے کسی ایک پھل کو دوسرے پھل پر مطلق برتری حاصل ہے، یعنی ہر پھل میں ایک منفرد خصوصیت ہے جو دوسرے میں نہیں۔ ہر پھل میں رنگ اور مزہ کے اعتبار سے ایک مزید پہلو ہے جو دوسرے پھل سے مختلف ہے۔ عورت اور مرد میں بھی اسی طرح فرق رکھا گیا ہے۔ ایک صنف کے اندر ایک اضافی خصوصیت ہے تو دوسری صنف میں دوسری اضافی خصوصیت، اسی لیے فرمایاگیا ہے کہ: ’’وَلَاتَتَمَنَّوْا مَافَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ، لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَائِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ‘‘۔                        (النسائ:۳۲) یعنی’’ جن چیزوں میں اللہ نے ایک کودوسرے پر فضیلت دی ہے، ان میں ہوس نہ کرو۔ مردوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے۔‘‘ یورپ میںفیملی سسٹم کی تباہی سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف نے ایک کتاب لکھی ہے’’پروسٹرائیکا‘‘ یہ کتاب پوری دنیا میں مشہور ہے اور شائع شدہ شکل میں موجود ہے، اس کتاب میں گورباچوف نے عورتوں کے بارے میں’’Status Of Women ‘‘کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے، اس میں اس نے صاف اور واضح لفظوں میں یہ بات لکھی ہے کہ: ’’ہماری یورپ کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا، اس کو گھر سے نکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کیے اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا، اس لیے کہ مرد بھی کام کررہے ہیں اور عورتیں بھی کام کررہی ہیں، لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، وہ نقصانات ان فوائد سے زیادہ ہیں جو پیداوار (پروڈکشن) کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے، لہٰذا میں اپنے ملک میں ’’پروسٹرائیکا‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں، اس میں میرا ایک بڑا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے، اس کو گھر میں واپس کیسے لایا جائے؟ اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے، ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے، اسی طرح ہماری پوری قوم تباہ ہوجائے گی‘‘۔ نفع بخش کاروبار ایک مرتبہ اس لیے سروے کیا گیا کہ معلوم کیا جائے کہ آج کل نفع بخش کاروبار کونسا ہے؟ چنانچہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار ’’ماڈل گرل‘‘ کا کاروبار ہے، اس لیے کہ ایک ’’ماڈل گرل‘‘ مصنوعات کے اشتہارات پر اپنی عریاں تصویر دینے کے لیے صرف ایک دن کے ۲۵ ملین ڈالر وصول کرتی ہے اور اس ایک دن میں وہ تاجر اور سرمایہ کار اپنی مرضی سے جتنی تصویریں جس انداز سے اور جس زاویے سے اتارنا چاہے، اُتارتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنی مصنوعات کو بازار میں پھیلاتا ہے، آج یہ عورت ایک بکاؤ مال بن چکا ہے اور سرمایہ دار اُس کو جس طرح چاہتا ہے، استعمال کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عورت نے گھر سے باہر نکل کر اپنی قدر ومنزلت اور اپنا مرتبہ کھودیا اور اس کا یہی نتیجہ برآمد ہوا۔ چند اصولی باتیں ۱:…وضعی قانون کوئی قابل قبول اصول وقانون دریافت کرنے میں ناکام رہا ہے اور وہ آئندہ بھی ناکام ہی رہے گا، کیونکہ انسان کی محدودیت یہاں راہ میں حائل ہورہی ہے۔ ۲:… وہ واقعہ جس نے انسان کے لیے اصول وقانون کی دریافت کو ناممکن بنادیا ہے، اسی میں الٰہی قانون کی صداقت کا قرینہ چھپا ہوا ہے، کیونکہ ایک طرف انسانی ذہن کی محدودیت اور دوسری طرف حقائق کی وسعت ظاہر کررہی ہے کہ کوئی ایسا ذہن ہو جو انسانی ذہن سے برتر ہو اور جس کے اندر سارے حقائق موجود ہوں۔ کائنات میں ایسے واقعات ہیں جو فطرت اور جبلّت کی سطح پر الہام کا امکان ثابت کررہے ہیں۔ الٰہی قانون اس میں صرف یہ اضافہ کرتا ہے کہ اس الہام کو انسان تک وسیع کردیتا ہے۔ یہ واقعہ اس مفروضہ کی مزید تائید کرتا ہے کہ موجودہ الٰہی قانون میں کچھ ایسی برتر امتیازی خصوصیات ہیں جو اسی وقت قابل فہم ہوسکتی ہیں، جب کہ یہ مانا جائے کہ وہ ایسے ذہن سے نکلا ہے جو انسان کے مقابلہ میں زیادہ وسیع طور پر حقائق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین