بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام میں ذات پات کی حیثیت!

اسلام میں ذات پات کی حیثیت!

 

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
خان، انصاری، شیخ، ان سب ذاتوں کی اسلام میں کیا کوئی اہمیت ہے؟ اپنی ذات کو اعلیٰ شمار کرنا اور دوسری ذات کو حقیر جاننا یہ کیسا ہے؟                                        مستفتی: ارشدعلی

الجواب حامدًا و مصلیًا

واضح رہے کہ ایک شرعی فضیلت ہے اور ایک عرفی فضیلت ہے۔ شرعی فضیلت کا مدار اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف تقویٰ پر ہے، جبکہ عرف میں مختلف طبقات کے دنیوی معیشت ومعاشرت میں مختلف درجات ہیں، جن کا لحاظ شریعتِ مطہرہ نے بطور عرفی فضیلت کے رکھا ہے، مثلاً عرب و عجم کی تقسیم، صنعتوں اور پیشوں میں تفاوت، وغیرہ ۔ اسی عرفی فضیلت میں سے قبائل میں انساب کی تقسیم ہے جو اللہ کی ایک نعمت ہے۔ اسی کے ذریعہ آدمی اپنا نشان اور پتہ پوری طرح دے سکتا ہے، اسی کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں کی صلہ رحمی کے حقوق ادا کر سکتا ہے، اسی کے ذریعہ تقسیمِ میراث میں حقدار کو حق پہنچ سکتا ہے، لہٰذا جس شخص کو یہ فضیلت حاصل ہو اسے چاہیے کہ اس کے حقوق ادا کرے، اخلاقِ حسنہ کا مظاہرہ کرے، اپنے معاملات درست رکھے، شرعی فضیلت یعنی تقویٰ کو اصلی فضیلت سمجھ کر اس کے حصول کی کوشش کرتا رہے اور جو کوئی شرافتِ نسبی کے اعتبار سے اس سے کمتر ہے، اس کو ذرا حقیر نہ سمجھے، کیونکہ یہ تکبر ہے۔ اور جس شخص کو یہ عرفی فضیلت حاصل نہ ہو اسے چاہیے کہ اس فکر میں نہ پڑے اور شرعی فضیلت یعنی تقویٰ کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہے اور خوب سمجھ لے کہ جو چیز حق تعالیٰ نے مجھے عطا نہیں فرمائی، وہ میرے لیے مناسب نہ تھی، کیونکہ وہ مجھ پر مجھ سے زیادہ مہربان ہے۔ (ماخوذ از جواہر الفقہ،ج: ۲، ص:۶۹)
’’شعب الإیمان‘‘ میں ہے:
’’عن جابر بن عبد اللہؓ قال: خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في وسط أیام التشریق خطبۃ الوداع، فقال: ’’یا أیہا الناس! إن ربکم واحد، وإن أباکم واحد، ألا لافضل لعربي علی عجمي، ولا لعجمي علی عربي، ولالٔاحمر علی أسود، ولا لأسود علی أحمر إلا بالتقوی ’’إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ أَتْقَاکُمْ‘‘   (فصل:و مما یجب حفظ اللسان منہ الفخر بالآباء، ج:۷، ص:۱۳۲، ط: مکتبۃ الرشد )
بخاری شریف میں ہے:
’’فأما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلم یفر، فلقد رأیتہ وإنہ لعلٰی بغلتہ البیضاء، وإن أبا سفیان أخد بلجامہا والنبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: أنا النبي لاکذب أنا ابن عبد المطلب۔‘‘ (صحیح البخاري، باب من قاد دابۃ غیرہ في الحرب، ج:۴، ص:۳۰، دارطوق النجاۃ)
’’المعجم الکبیر للطبراني‘‘ میں ہے:
’’عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: إن اللہ تعالیٰ قسم الخلق قسمین، فجعلني في خیرہا نسبا، فذلک قولہ: ’’وَأَصْحَابُ الْیَمِیْنِ‘‘ (الواقعۃ:۲۷) ’’وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ‘‘ (الواقعۃ:۴۱) فأنا من أصحاب الیمین وأنا من خیر أصحاب الیمین، ثم جعل القسمین بیوتا، فجعلني في خیرہما بیتا، فذلک قولہ: ’’فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۝ وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ ۝ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ ۝‘‘ (الواقعۃ:۸- ۱۰) فأنا من خیر السابقین، ثم جعل البیوت قبائل، فجعلني في خیرہا قبیلۃ، فذلک قولہ: ’’شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ‘‘ (الحجرات: ۱۳) فأنا أتقی ولد آدم وأکرمہم علی اللہ عز وجل، ولافخر، ثم جعل القبائل بیوتا، فجعلني في خیرہا بیتا، فذٰلک قولہ: ’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘ (الاحزاب:۳۳)۔‘‘  (المعجم الکبیر للطبراني، بقیۃ أخبار الحسن بن عليؓ، ج:۳، ص:۵۶، ط: مکتبہ ابن تیمیۃ) 
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’(وتعتبر) الکفاء ۃ للزوم والنکاح، خلافًا لمالک (نسبًا فقریش) بعضہم (أکفاء) لبعض۔‘‘    (فتاویٰ شامی ، باب الکفاءۃ، ج:۳، ص:۸۶، ط: سعید)  

2:  سوال میں مذکورہ حدیث کا جواب یہ ہے کہ قربانی صاحبِ نصاب پر واجب ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں اکثر وبیشتر صاحبِ نصاب گھر کا بڑا ایک فرد ہوا کرتا تھا اور وہی قربانی کرتا تھا، باقی سب قربانی نہیں کرتے تھے، لیکن جو قربانی ہوتی وہ سب گھر والوں کی طرف منسوب ہوتی تھی، اور یہ اس لیے ہوتا تھا کہ گھر کے افراد قربانی کرنے والے کے ساتھ جانور کو ذبح کرنے میں معاونت کرتے اور اکٹھے مل کر گوشت کھاتے اور انتفاع حاصل کرتے۔ حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک قربانی گھر کے متعدد صاحبِ نصاب عاقل، بالغ کی طرف سے کافی ہوجائے گی۔
’’المسوی شرح الموطا‘‘ میں ہے:
’’وتأویل الحدیث عندہم أن الأضحیۃ لاتجب إلا علی غني ولم یکن الغني في ذلک الزمان غالباً إلا صاحب البیت ونسب إلٰی أہل بیتہ علی معنی أنہم یساعدونہ في التضحیۃ ویأکلون لحمہا وینتفعون بہا۔‘‘ (المسوی شرح الموطا، باب التضحیۃ سنۃ کفایۃ لکل أہل بیت، ج:۱، ص:۲۲۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت) 

 

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

محمد عبدالقادر

 

محمد شفیق عارف

رمیز منصور علی

 

الجواب صحیح

 

تخصص فقہ اسلامی

شعیب عالم 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین