بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام میں تعلیمِ نسواں اورموجودہ مخلوط نظامِ تعلیم(پہلی قسط)

اسلام میں تعلیمِ نسواں  اورموجودہ مخلوط نظامِ تعلیم(پہلی قسط)

اسلام میں علم کی اہمیت بلاشبہ علم انسان کو شرافت وکرامت اور دارین کی سعادت سے بہر ہ مندکرنے کا ایک خدائی ذریعہ ، دیگر بے شمار مخلوقات خدا وندی سے اُسے ممیز کرنے کی ساحرانہ کلید اور ربّ الارباب کی طرف سے عطا کردہ خلقی اورفطری بر تری میں چار چاند لگا نے کا اہم سبب ہے،بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مقصد تخلیقِ انسانی تک رسائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے ۔ نیز علم ہی کی بہ دولت انسان نے سنگلاخ وادیوں، چٹیل میدانوں اور زمینوں کو مر غزاری عطا کی ہے ، سمندر کی تہوں سے لاتعداد معدنیات کے بے انتہا ذخائر نکالے ہیں اور آسمان کی بے پایاں وسعتوں کو چیر کر تحقیق واکتشاف کے نت نئے پر چم لہرائے ہیں،بلکہ مختصر تعبیر میں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام تر محیّر العقول کا رنامے علم ہی کے شرمند ۂ احسان ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی اپنے ظہور کے اول دن ہی پیغمبرِؐ اسلام پر ’’إِقْرَأْ‘‘کے خدائی حکم کے القاء کے ذریعہ جہالت اورلاعلمی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں دہشت بہ داماں کھڑی ہوئی انسانیت کے قلوب میں علم کی عظمت واہمیت کو جاگزیں کیا اورخدائے لایزال کی طرف سے نبی اکرم اکو دیئے گئے عظیم الشان علمی معجزے ’’قرآنِ مقدس‘‘میں بار بار علم کے ذکر ، اہل علم اور علم سے ناآشنا لوگوں کے درمیان فرق کے بیان اورجگہ جگہ حصولِ علم کی ترغیب وتشویق کے ذریعے اس کی قدرومنزلت کو اور سِوا کردیا، چنانچہ ’’المعجم المفہرس لألفاظ القرآن الکریم ‘‘کے مطابق قرآن کریم میں علم کا ذکر اسّی بار اور علم سے مشتق شدہ الفاظ کا ذکر سیکڑوں دفعہ آیا ہے، اسی طرح عقل کی جگہ ’’أَلْبَاب ‘‘(جمع لُبّ)کا تذکرہ سولہ دفعہ اور ’’نُہٰی‘‘(جمع نہیۃ)کا تذکرہ دوبار آیا ہے، پھر ’’عقل‘‘کے مصدر سے نکلے ہوئے الفاظ اٹھارہ جگہ اور ’’فقہ‘‘سے نکلنے والے الفاظ اکیس مرتبہ مذکور ہوئے ہیں ۔ لفظ ’’حکمت ‘‘کا ذکر بیس دفعہ اور’’برہان‘‘کا تذکرہ سات دفعہ ہوا ہے ، علم وفکر سے متعلق صیغے مثلاً:’’دیکھو‘‘’’غور کرو‘‘ وغیرہ، یہ سب ان پر مستزاد ہیں ۔ قرآن کریم کے بعد اسلام میں سب سے مستند، معتبر اورمعتمد علیہ لٹریچر (LITERATURE) احادیثِ نبویہ کا وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے، جسے امت کے باکمال جیالوں نے اپنے اپنے عہد میں انتہائی دقتِ نظری ، دیدہ ریزی اورجگر کاری کے ساتھ اکٹھا کرنے کا ناقابلِ فراموش کا رنامہ انجام دیا ہے ۔جب ہم اس عظیم الشان ذخیرے کا مطالعہ کرتے ہیں ،تو ہمیں قدم قدم پر نبوی زبانِ مقدس علم کی فضیلت ، حاملینِ علم کی فضیلت اوراس کے حصول کی تحریص وتحریض میں سرگرم نظر آتی ہے، چنانچہ تقریباً تمام کتب ِ حدیث میں علم سے متعلق احادیث کو علیحدہ ابواب قائم کرکے بیان کرنے سے خصوصی اعتنا برتا گیا ہے ۔ مُشتے نمونہ از خروارے چنانچہ امام بخاریؒ کی صحیح میں ابوابِ وحی وایمان کے بعد ’’کتاب العلم ‘‘کے عنوان کے تحت ابواب میں حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانیؒ کے بہ قول چھیاسی مرفوع حدیثیں (مکررات کو وضع کرکے) اوربائیس آثارِ صحابہؓ وتابعینؒ ہیں ، اسی طرح صحاحِ ستہ کی دیگر کتب اور’’موطا مالک ‘‘میں بھی علم کا علیحدہ اورمستقل باب ہے۔ ’’مسند امام احمد بن حنبلؒ ‘‘کی ترتیب سے متعلق کتاب ’’النّصح الربانی ‘‘میں علم سے متعلق اکیاسی احادیث ہیں۔ حافظ نور الدین ہثیمیؒ کی ’’مجمع الزوائد ‘‘میں علم کے موضوع پر احادیث بیاسی صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ’’مستدرک حاکم‘‘میں علم سے متعلق حدیثیں چوالیس صفحات میں ہیں ۔ مشہور ناقدِ حدیث اورجلیل القدر محدث حافظ منذریؒ کی ’’الترغیب والترہیب‘‘میں علم کے تعلق سے چودہ احادیث ہیں اور علامہ محمد بن سلیمانؒ کی ’’جمع الزوائد ‘’میں صرف علم کے حوالے سے ایک سو چَوَّن حدیثیں بیان کی گئی ہیں ۔ اسلام میں تعلیمِ اناث کی اہمیت یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے،تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کر نے اور خصائلِ فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے محلّٰی ومزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم ،بلکہ مرکزی اوراساسی کردار ہو تا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اُٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماؤں کا اہم رول ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ مہد ِمادر بچے کی اولین تربیت گاہ ہوتی ہے ، اس لئے شروع ہی سے اسلا م نے جس طرح مردوں کے لئے تعلیم کی تمام تر راہیں روا رکھی ہیں،ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے ،بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے ،جس کے نتیجے میں قرنِ اول سے لے کر تا حال ایک سے بڑھ کر ایک کج کلاہِ علم و فن اور تا جور ِفکر وتحقیق پیدا ہو تے رہے اور زمانہ ان کے علومِ بے پناہ کی ضیا پاشیوں سے مستنیر ومستفیض ہو تا رہا ۔ بالکل اسی طرح اس دین ِحنیف نے خواتین کو بھی تمد نی ،معا شرتی اور مِلکی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کر نے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیئے،چنانچہ ہردور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں، جنہوںنے اطاعت گزار بیٹی ، وفاشعار بیوی اور سرا پا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکا بجا یا اور ان کے دم سے تحقیق وتدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے ۔ خواتین کی تعلیم سے متعلق روایات  ۱:…نبی پاک اکا ارشاد ہے : ’’ثلاثۃ لہم أجران :رجل من أہل الکتاب آمن بنبیہ، وآمن بمحمد، والعبد المملوک إذا أدی حق اللّٰہ ،وحق موالیہ ،ورجل لہ أمۃ ،فأدبہا فأحسن تأدیبہا، وعلمہا، فأحسن تعلیمہا، ثم أعتقہا، فتزوجہا، فلہ أجران‘‘۔(۱) اس حدیث کے آخری جزء کی شرح میں ملاعلی قاریؒ لکھتے ہیں کہ :’’یہ حکم صرف باندی کے لئے نہیں ہے ،بلکہ اپنی اولاد اورعام لڑکیوں کے لئے بھی یہی حکم ہے ‘‘۔(۲) ۲:…ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہؓ   تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ ا نے ان سے فرمایا کہ: ’’تم نے جس طرح حفصہؓ   کو ’’نملہ‘‘(پھوڑے )کا رقیہ سکھا یا ہے، اسی طرح لکھنا بھی سکھادو‘‘۔ ۳:…نبی پاک اخود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے ، اور ان کی خواہش پر آپ ا  نے باضابطہ ان کے لئے ایک دن مقرر کردیا تھا، حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے : ’’قالت النساء للنبی ا :’’غلبنا علیک الرجال ، فاجعل لنا یوما من نفسک ، فوعد ہن یوما لقیہن فیہ، فوعظہن ، وأمرہن ‘‘۔(۳) ۴:…حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہؓ بڑی متدین اور سمجھدار خاتون تھیں۔ اُنہیں ایک دفعہ عورتوں نے اپنی طرف سے ترجمان بنا کر آپ اکے پاس بھیجا کہ آپ اسے دریافت کریں کہ: ’’اللہ نے آپ اکو مردو عورت ہر دو کی رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے ،چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائے اورآپ اکی اتباع کی، مگر ہم عورتیں پر دہ نشیں ہیں،گھروں میں رہنا ہوتا ہے ،ہم حتیٰ الوسع اپنے مردوں کی ہر خواہش پوری کرتی ہیں ، ان کی اولاد کی پرورش وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے، ادھر مرد مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جہاد میں شریک ہوتے ہیں ،جس کی بناپر انہیں بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے ،لیکن ہم عورتیں ان کے زمانۂ غیبوبت میں ان کے اموال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں۔ اللہ کے رسول ! کیا ان صورتوں میں ہم بھی اجروثواب میں مردوں کی ہمسر ہوسکتی ہیں ؟‘‘آپ انے حضرت اسمائؓ کی بصیرت افروز تقریر سن کر صحابہؓ کی طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا : ’’اسمائؓ سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسی عورت سے اتنا عمدہ سوال سنا ہے ؟‘‘صحابہؓ نے نفی میں جواب دیا ، اس کے بعد آپ انے حضرت اسمائؓ سے فرمایا کہ: ’’جائواور ان عورتوں سے کہہ دو کہ :’’إن حسن تبعل إحدا کن لزوجہا ، وطلبہا مرضاتہ، واتباعہا موافقتہ ، تعدل ذلک کلہ‘‘۔(۴) آپ اکی زبانِ مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسمائؓ کا دل بلیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئیں واپس گئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکر سنا یا ۔ تاریخ اسلامی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ اکے زمانے میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے تئیں کس قدر شوق اور جذبۂ بے پایاںپایا جاتا تھا اور آپ ابھی ان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو کی قدر کرتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے ۔ تعلیم وتربیت کے عمومی ماحول کا اثر تعلیم وتر بیت کے اسی عمومی ماحول کا اثر ہے کہ جماعتِ صحابیاتؓ میں بلند پایہ اہل علم خواتین کے ذکرِ جمیل سے آج تا ریخِ اسلام کاورق ورق درخشاں وتا با ںہے ،چنانچہ یہ امر محقق ہے کہ امہا ت المؤمنینؓ میں حضرت عا ئشہؓ و حضرت ام سلمہؓ فقہ وحدیث وتفسیر میں رتبۂ بلندرکھنے کے سا تھ ساتھ تحقیق ودرایت کے میدان کی بھی شہ سوار تھیں۔ (۵)حضرت ام سلمہؓ کی صاحبزادی زینب بنت ابو سلمہؓ جو آپ اکی پر وردہ تھیں ،ان کے بارے میں تا ریخ کا بیان ہے کہ: ’’کانت أفقہ نساء أہل زمانہا ‘‘ (۶) حضرت ام الد رداء الکبریٰؓ اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ تھیں ۔(۷) حضرت سمرہ بنت نہیک اسد یہؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ :’’وہ زبردست عالمہ تھیں ، عمر درازپائی ، بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیاکر تی تھیں اور لوگوں کو ان کی بے راہ روی پرکو ڑوں سے ما رتی تھیں ‘‘۔(۸) پھر یہ زریں سلسلہ دور صحابیاتؓ تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ تابعیاتؒ اور بعد کی خواتین کے زمانوں میںبھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ، زاہدہ اور امت کی محسنہ وباکما ل خواتین ملتی ہیں ، چنانچہ مشہو ر تا بعی ، حدیث اور فنِ تعبیرالر ؤیا کے مستند امام حضر ت محمد بن سیرینؒ کی بہن حفصہؒ نے صرف بارہ سال کی عمر میں قرآن کر یم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفِظ کر لیاتھا۔ (۹)یہ فن تجوید وقراء ت میں مقامِ امامت کو پہنچی ہو ئی تھیں ، چنانچہ حضرت ابن سیرینؒ کو جب تجوید کے کسی مسئلے میں شبہ ہوتا ، تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع کر نے کا مشورہ دیتے ۔(۱۰) نفیسہ جو حسن بن زید بن حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب کی صاحبزادی اور حضرت اسحا ق بن جعفرؒکی اہلیہ تھیں ، انہیں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میںبھی درک حاصل تھا۔ ان کے علم سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی معتدبہ تعداد نے سیرابی حاصل کی ، ان کا لقب ’’نفیسۃالعلم والمعرفۃ ‘‘ پڑ گیا تھا ، حضر ت امام شافعیؒجیسے رفیع القدر اہلِ علم دینی مسائل پر ان سے تبا دلۂ خیال کر تے تھے ۔(۱۱) اُف۔۔۔۔! یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم  مذکورہ حقائق سے یہ بات تو الم نشرح ہو جا تی ہے کہ اسلام جس طرح صنفِ لطیف کو دیگر حقوق بخشنے میں بالکل عادلانہ ،بلکہ فیاضا نہ مزاج رکھتا ہے ،ویسے ہی اس کے تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے، بلکہ عملی سطح پر انہیں عطا کر نے کا بھی حدسے زیا دہ اہتمام کر تا ہے ۔ لیکن جہا ں تک بات ہے خواتین کے موجو دہ نظامِ تعلیم کی جسے (Co-Education )سے یاد کیا جاتا ہے ،جو مغرب سے در آمد (  import )کر دہ ہے اور جو در اصل مغرب کی فکرِ گستاخ کا عکاس، خاتونِ مشرق کو لیلا ئے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بنانے کی ہمہ گیر اور گھناؤنی سازش اور اس کی چادرِ عصمت وعفت کو تارتار کر نے کی شیطانی چال ہے ۔ اس کی مذہبِ اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا، نیزعقلِ دانا بھی اس سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ مخلوط تعلیم…ایک ہمہ گیر جائزہ  مخلوط تعلیم کے حوالے سے دو پہلو نہایت ہی توجہ اور انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں : ۱:…یہ کہ لڑکوں اورلڑکیوں کا نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہئے یا جدا گانہ ؟ ۲:…لڑکے اورلڑکیوں کی تعلیم ایک ساتھ ہونی چاہئے یا الگ الگ ؟ جہاں تک نصابِ تعلیم کی بات ہے ،تو اگرچہ کچھ امور ایسے ہیں، جو دونوں کے مابین مشترک ہیں اوران کا نصاب لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے یکساں رکھا جاسکتا ہے، مثلاً:زبان وادب ، تاریخ ، معلوماتِ عامہ (General knowledge) جغرافیہ ، ریاضی ، جنرل سائنس اورسماجی علوم (Socialscience) وغیرہ ،لیکن کچھ مضامین ایسے ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا، مثلاً:انجینئرنگ کے بہت سے شعبے ، عسکری تعلیم، اورٹیکنیکل تعلیم ،کیوں کہ ان کی لڑکیوں کو قطعاً ضرورت نہیں ۔البتہ میڈیکل تعلیم کا اچھا خاصا حصہ خواتین سے متعلق ہے ،اس لئے ’’امراضِ نسواں‘‘زمانے سے طب کا مستقل موضوع رہا ہے ، یہ لڑکیوں کے لئے نہایت ضروری ہے ۔ اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم میں امورِ خانہ داری کی تربیت بھی شامل ہونی چاہئے ، کہ یہ ان کی معاشرتی زندگی میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ سلائی ، کڑھائی ، پکوان کے مختلف اصول اوربچوں کی پرورش کے طریقے بھی ان کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہونے چاہئیں ، ان سے نہ صرف لڑکیاں گھریلوزندگی میں بہتر طور پر متوقع رول ادا کرسکتی ہیں ،بلکہ ازدواجی زندگی کی خوش گواری ، اہلِ خاندان کی ہر دل عزیزی اورمشکل اور غیر متوقع صورتِ حال میں اپنی کفالت کے لئے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں۔ ساتھ ہی لڑکیوں کے لئے ان کے حسبِ حال آداب ِ معاشرت کی تعلیم بھی ضروری ہے، کیوں کہ ایک لڑکی اگر بہترین ماں اورفرماںبردار بیوی نہ بن سکے تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ا نے (جیسا کہ ذکر ہوا) عورتوں کی تذکیر کے لئے علیحدہ دن مقرر فرمادیا تھا ، جس میں عورتیں جمع ہوتیں اورآپ ا انہیں ان کے حسبِ حال نصیحت فرماتے ،چنانچہ ایک دفعہ آپ ا نے فرمایا کہ :’’خواتین کی دل بہلائی کا بہترین مشغلہ سوت کا تنا ہے ‘‘(۱۲) کیوں کہ سوت کا تنا اس زمانے میں ایک گھر یلو صنعت تھی،بلکہ آج سے نصف صدی پیشتر تک بھی بہت سے گھرانوں کا گزرانِ معیشت اسی پر تھا ۔ غور کیجئے کہ جب قدرت نے مردوں اور عورتوں میں تخلیقی اعتبار سے فرق رکھا ہے ، اعضاء کی ساخت میں فرق ، رنگ وروپ میں فرق ، قوائے جسمانی میں فرق ، مزاج ومذاق ،حتیٰ کہ دونوں کی پسنداورناپسند میں بھی تفاوت ہے ، پھر اسی طرح افزائشِ نسل اوراولاد کی تربیت میں بھی دونوں کے کردار مختلف ہیں ، تو یہ کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں دونوں کے فرائض اورذمہ داریاں بھی الگ الگ نہ ہوں؟ اورجب دونوں کی ذمہ داریاں علیحدہ ٹھہریں ، تو ضروری ہے کہ اسی نسبت سے دونوں کے تعلیمی وتربیتی مضامین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں ۔ اگر تعلیمی نصاب میں دونوں کے فطری اختلاف کو ملحوظ نہ رکھا جائے اورتعلیم کے تمام شعبوں میں دونوں صنفوں کو ایک ہی قسم کے مضامین پڑھائے جائیں ، تو جہاں یہ طریقۂ تعلیم انسانی معاشرے پر منفی اثر ڈالے گا ،وہیں خود عورت کے عورت پن کے رخصت ہونے کا بھی انتہائی منحوس سبب ہوگا ،لہٰذا صنفِ نازک کی فطری نزاکت کے لئے یہی زیب دیتا ہے کہ وہ وہی علوم حاصل کرے،جو اُسے زمرۂ نسواں ہی میں رکھیں اور اس کے فطری تشخص کی محافظت کریں ، نہ کہ وہ ایسے علوم کی دل دادہ ہوجائے، جو اُسے زن سے نازن بنا دیں۔ قرآ ن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’وَلَاتَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَائِ  نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوْا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْْئٍٍ عَلِیْماً ‘‘۔(۱۳) ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک دوسرے کو جو (فطری )برتری عطا فرمائی ہے ، اس کی تمنا مت کرو! مرود ں کے لئے ان کے اعمال میں حصہ ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال میں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل وکرم مانگتے رہو، بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے ‘‘۔ یہ آیت دراصل معاشرتی زندگی کے آداب کے حوالے سے آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، اس میں یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اللہ نے انسانی سماج کو اختلاف اوررنگا رنگی پر پیدا کیا ہے ، کسی بات میں مردو ں کو فوقیت حاصل ہے ، توکسی معاملے میں وہ عورتوں کے تعاون کادستِ نگر ہے ۔ قدرت نے جو کام جس کے سپرد کیا ہے ، اس کے لئے وہی بہتر اوراسی کو بجالا نا اس کی خوش بختی ہے ،کیوں کہ خالق سے بڑھ کر کوئی اورمخلوق کی ضرورت اورفطرت وصلاحیت سے واقف نہیں ہوسکتا ۔ یہ مغربی ہوس کا روں کی خود غرضی اوردناء ت ہے کہ انہوں نے عورتوں سے’’حقِ مادری ‘‘بھی وصول کیا اور’’فرائضِ پدری‘‘کے ادا کرنے پر بھی ان بے چاریوں کو مجبور کیا ، پھر جب انہوں نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ عورتوں پرلادنے کی ٹھان لی ، توایسا نظامِ تعلیم وضع کیا، جس میں عورتوں کو مرد بنانے کی پوری صلاحیت موجود ہو۔ پیغمبرِ اسلام انے خوب ارشاد فرمایا کہ:’’تین افراد ایسے ہیں ، جو کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے‘‘اوران تینوں میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :’’الرجلۃ من النساء ‘‘(۱۴)یعنی ’’عورتوں میں سے مرد‘‘۔دریافت کیا گیا :’’عورتوں میں سے مرد سے کون لوگ مراد ہیں ؟‘‘تو آپ انے فرمایا :’’وہ عورتیں، جو مردوں کی مماثلت اختیار کریں ‘‘جیسا کہ بخاری کی روایت ہے: ’’والمتشبہات من النساء بالرجال‘‘ (۱۵) علماء نے ایسی عورتوں کو جو مردوں والی تعلیم وتربیت اختیار کرتی اورپھر عملی زندگی میں مردوں کی ہم صف ہونا چاہتی ہیں ،اسی وعید کا مصداق قراردیا ہے ۔ فرنگی نظامِ تعلیم پر اقبالؒ اوراکبرؒ کی تشویش  بیسویں صدی کے عظیم مفکر وفلسفی ، سوزِ دروں سے سرشار ، اسرارِ خودی ورموزِ بے خودی کو واشگاف کرنے والے اورتاحیات حجازی لے میں نغمۂ ہندی گنگنا نے والے شاعرِ اسلام ، جو خود عصری تعلیم گاہ کے پرداختہ تھے اور مغربی نظامِ تعلیم کا انتہائی قریب سے اور عمیق مطالعہ کیا تھا، انہیں عورتوں کے حوالے سے مغرب کے پر فریب نعروں پر ، جن کی صدائے باز گشت اسی وقت مشرق میں بھی سنی جانے لگی تھی ،کافی بے چینی اور اضطراب تھا۔ ان کی نظر میں ان نعروں کا اصل مقصد یہ تھا کہ مشرقی خاتون کو بھی یورپی عورتوں کی طرح بے حیائی وعصمت باختگی پر مجبور کردیا جائے اورمسلم قوم بھی مجموعی طور پر عیش کوشی وعریانیت کی بھینٹ چڑ ھ جائے اور مسلمانوں کی روایتی خصوصیات شجاعت ومردانگی ، حمیت وایثار ، مروت اور خداترسی مدہوشی کی حالت میں دم توڑ جائیں ،تاکہ وہ یورپ کی غلامی کے شکنجے سے کبھی بھی رہائی نہ پاسکیں ،اس لئے انہوں نے اپنی مثنوی ’’اسرارورموز ‘‘’’جاوید نامہ ‘‘، ’’ارمغا نِ حجاز ‘‘اور ضربِ کلیم ‘‘میں متعدد مقامات پر مخلوط سوسائٹی اورمخلوط طریقۂ تعلیم کے تئیں انتہائی نفرت وبیزاری کا اظہار کیا ہے ، چنانچہ ’’ضرب کلیم ‘‘میں کہتے ہیں : جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن  کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن ہے عشق ومحبت کے لئے علم وہنر موت اورتہذیبِ مغرب نے جس طرح عورت کو اس کے گھر سے زبردستی اٹھا کر بچوں سے دور کار گاہوں اوردفتروں میں لابٹھایا ہے ، اس پر ’’خرد مندانِ مغرب‘‘کو اقبال یوں شرمندہ کرتے ہیں   ؎ کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے ہندو یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش کیا یہی ہے معاشرت کا کمال مرد بے کار زن تہی آغوش مغربی تعلیمِ نسواں کے حامی مشرق کے مستغربین کی روش پر اقبالؒ اپنے کرب وبے چینی کا اظہار یوں کرتے ہیں :’’معاشرتی اصلاح کے نوجوان مبلغ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم کے چند جرعے مسلم خواتین کے تنِ مردہ میں نئی جان ڈال دیں گے اوراپنی ردائے کہنہ کو پارہ پارہ کردے گی،شاید یہ بات درست ہو،لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو برہنہ پاکر انہیں ایک مرتبہ پھر اپنا جسم ان نوجوان مبلغین کی نگاہوں سے چھپا نا پڑے گا‘‘۔(۱۶) بہ قول فقیر سید وحید الدین: ’’اقبالؒ زن ومرد کی ترقی، نشوونما اورتعلیم وتربیت کے لئے جدا گانہ میدانِ عمل کے قائل تھے ، کہ اللہ نے جسمانی طور پر بھی دونوں کو مختلف بنایا ہے اور فرائض کے اعتبار سے بھی ،چنانچہ موصوف ِ محترم عورتوں کے لئے ان کی طبعی ضروریات کے مطابق الگ نظامِ تعلیم اورالگ نصاب چاہتے ہیں ‘‘۔(۱۷) ’’شذرات ‘‘میں لکھتے ہیں : ’’تعلیم بھی دیگر امور کی طرح قومی ضرورت کے تابع ہوتی ہے ۔ ہمارے مقاصد کے پیشِ نظر مسلمان بچیوں کے لئے مذہبی تعلیم بالکل کافی ہے ۔ ایسے تمام مضامین ، جن میں عورت کو نسوانیت اوردین سے محروم کردینے کا میلان پایا جائے ، احتیاط کے ساتھ تعلیمِ نسواں سے خارج کردیئے جائیں ‘‘۔(۱۸) اسی سلسلہ میں’’ملفوظاتِ اقبالؒ‘‘میں ان کا یہ قول ہے : ’’مسلمانوں نے دنیا کو دکھانے کے لئے دنیوی تعلیم حاصل کرناچاہی ،لیکن نہ دنیا حاصل کرسکے اورنہ دین سنبھال سکے۔ یہی حال آج مسلم خواتین کا ہے ، جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں دین بھی کھورہی ہیں ‘‘۔(۱۹) دراصل اقبالؒ کے نزدیک امتِ مسلمہ کے لئے قابلِ تقلید نمونہ نبی اکرم ااوران کے صحابہؓ کا اسوہ ہے،چنانچہ اسی نسبت سے وہ خواتین کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ حضرت فاطمۃ الزہرائؓ کی پیروی کریں اوراپنی آغوش میں ایسے نونہالوں کی پرورش کریں ، جو بڑے ہو کر شبیر صفت ثابت ہوں،’’رموزِ بے خودی‘‘ میں فرماتے ہیں : مزرعِ تسلیم را حاصل بتول مادراں را اسوۂ کامل بتول اورارمغانِ حجاز میں خواتین کو یوں نصیحت کرتے ہیں: اگر پندے زِ درویشے پذیری ہزار امت بمیرد تو نہ میری بتولے باش وپنہاں شو ازیں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری ترجمہ:’’ایک درویش کی نصیحت کو آویزۂ گوش بنالو، تو ہزار قومیں ختم ہوسکتی ہیں،لیکن تم نہیں ختم ہوسکتیں ۔ وہ نصیحت یہ ہے کہ بتول بن کر زمانے کی نگاہوں سے اوجھل ہوجائو (پر دہ نشین ہوجائو)تاکہ تم اپنی آغوش میں ایک شبیر کو پال سکو‘‘۔ دوسرے لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادیؒ ہیں ، اقبالؒ کی طرح وہ بھی عصری تعلیم سے باخبر ہیں اورانہی کی طرح ان کی بھی ساری فکری توانائی اور شاعرانہ صلاحیت وقوت کی تان تہذیبِ فرنگ کو لتاڑنے اوراس کی زیاں کاریوں سے خبر دار کرنے پر ہی ٹوٹتی ہے۔  ان کی شاعری پوری تحریکِ مغربیت کے خلاف ردِّ عمل ہے ، ان کی شاعری بھی اقبالؒ کی طرح ا ول سے لے کر آخر تک اسی مادیتِ فرنگی کا جواب ہے اوران کی ترکش کا ایک ایک تیر اسی نشانے پر لگتا ہے۔ بس دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقبالؒ بہ راہِ راست تیشہ سنبھال کر تہذیبِ نو کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے نظر آتے ہیں ، جب کہ حضرتِ اکبرؒ طنز کی پھلجھڑیوں کو واسطہ بنا کر مغرب کے مسموم افکار وخیالات پر پھبتیاں کستے ہیں ۔ مغربی نظامِ تعلیم بھی حضرت اکبرؒ کا خاص موضوع تھا اور اس کی طرف خواتین کے روز افزوں بڑھتے ہوئے رجحانات سے بھی وہ بہت ملول اورکبیدہ خاطرتھے ،چنانچہ ایک جگہ مغرب کی طرف سے اٹھنے والی تعلیمِ نسواں کی تحریک اوربے پردگی کو لازم وملزوم بتاتے ہوئے فرماتے ہیں : مجلسِ نسواں میں دیکھو عزتِ تعلیم کو پردہ اٹھا چاہتا ہے علم کی تعظیم کو مشرق میں بہترین عورت کا تخیل یہ ہے کہ وہ شروع سے نیک سیرت ، بااخلاق اورہنس مکھ رہے وہ جب بات کرے تو اس کے منھ سے پھول جھڑیں، وہ دینی تعلیم حاصل کرے اورخانہ داری کے طور طریقے سیکھے کہ آگے چل کر اس کو گھر کی ملکہ بننا ہے ۔ بچپن میں والدین کی اطاعت اورشادی کے بعد شوہر کی رضامندی کو پروانۂ جنت خیال کرے ،تاکہ خانگی شیرازہ اس کی ذات سے بندھا رہے ، خاندان کی مسرتیں اس کے دم سے قائم رہیں اور وہ صحیح معنی میں’’گھر کی ملکہ ‘‘ثابت ہو۔ اس کے بر خلاف فرنگیوں کے یہاں عزت کا معیار بدلا ہواہے ، وہ عورت ہی کیا ؟جس کے حسنِ گفتار ، حسنِ رفتار ، حسنِ صورت ، زیب وزینت ، خوش لباسی ، گلے بازی اورر قاصی کے چرچے سوسائٹی میں عام نہ ہوں، اخبارات میں اس کے فوٹو شائع ہوں ، زبانوں پر جب اس کا نام آئے تو کام ودہن لذت اندوز ہوں ، اس کا جلوہ آنکھوں میں چمک پیدا کردے ، اور اس کا تصور دلوں میں بے انتہاشوق ۔ بہترین عورت وہ نہیں، جو بہترین بیوی اوربہترین ماں ہو، بلکہ وہ ہے جس کی ذات دوست احباب کی خوش وقتیوں کا دل چسپ ترین ذریعہ ہو اور ایسی ہو کہ اس کی رعنائی ودل ربائی کے نقش ثبت ہوں کلب کے درودیوار پر ، پارس کے سبزے زار پر ، ہوٹلوں کے کوچ اورصوفوں پر ،’’ہمارے ‘‘اور ’’ان کے ‘‘تخیل کے اس بُعد المشرقین کو اقلیمِ لفظ ومعنی کا یہ تاجدار دو مصرعوں میں جس جامعیت اوربلاغت کے ساتھ بیان کرجاتا ہے، یہ اسی کا حصہ تھا: حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بے گانہ تھی  اب ہے شمعِ انجمن پہلے چراغِ خانہ تھی ’’چمکی ‘‘میں وہ بلاغت ہے کہ سننے والا لوٹ لوٹ جائے اوریہ ’’چمک ‘‘مخصوص ہے ’’نئی روشنی‘‘ کی چمنیوں کے ساتھ۔ حسن وناز کی دنیا میں قابلِ دادوتحسین اب تک کم سخنی ، کم گوئی اور بے زبانی تھی۔ مشرقی شوہر ’’چاندسی دلہن ‘‘اس لئے بیاہ کرلاتا تھا کہ وہ اسے اپنے گھر کا چراغ بنادے اور تخیل ’’خانہ آبادی‘‘کاغالب رہتا ، مگر مغربی نظامِ تعلیم کی دَین کہ محفل کے طور ہی کچھ اور ہوگئے ، نقشہ بالکل ہی بدل گیا۔ اب تو ٹھاٹھ بزم آرائیوں کے جمے ہوئے، حجاب کی جگہ بے حجابی ، سکوت کی جگہ طوفانِ تکلم ، مستوری کی جگہ نمائش ، عاشق بے چارہ اس کا یا پلٹ پردنگ ، حیران ، گم صم ، کل تک جو نقشِ تصویر تھا، وہ آج گرامو فون کی طرح مسلسل وقفِ تکلم: خامشی سے نہ تعلق ہے نہ تمکین کا ذوق اب حسینوں میں بھی پاتا ہوں ’’اسپیچ ‘‘کا شوق شانِ سابق سے یہ مایوس ہوئے جاتے ہیں بت جو تھے دیر میں ناقوس ہوئے جاتے ہیں اکبرؒ کے اسی مرقع کا ایک اور منظر   ؎ اعزاز بڑھ گیا ہے آرام گھٹ گیا ہے  خدمت میں ہے وہ لیزی اور ناچنے کو ریڈی  تعلیم کی خرابی سے ہوگئی بالآخر شوہر پرست بیوی پبلک پسند لیڈی ایک دوسری جگہ اس مرقع میں آب ورنگ ذرا اورزیادہ بھردیتے ہیں ،چنانچہ ارشاد ہے : اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو سنوارا اِک پیر نے تعلیم سے لڑکی کو سنوارا کچھ جوڑ تو ان میں کے ہوئے ہال میں رقصاں باقی جو تھے گھر ان کا تھا افلاس کا مارا بیرا وہ بنا کمپ میں یہ بن گئیں آیا  بی بی نہ رہیں جب تو میاں پن بھی سدھارا  دونوں جو کبھی ملتے ہیں گاتے ہیں یہ مصرعہ  ’’آغاز سے بد تر ہے سرانجام ہمارا‘‘ یہ خیال نہ گزرے کہ اکبرؒ سرے سے تعلیمِ نسواں کی مخالفت کرتے تھے اور لڑکیوں کو بالکل ہی ناخواندہ رکھنے کے حامی تھے، وہ تعلیمِ نسواں کے حامی تھے،لیکن تعلیم تعلیم میں بھی توزمین وآسمان کا فرق ہے، وہ اس تعلیم کی تائید میں تھے ، جو رابعہ بصریہؒ نہ سہی دورِ مغلیہ کی جہاں آراء بیگم ہی کے نمونے پیدا کرے، نہ کہ اس تعلیم کی ،جو زینت ہو اپر ہائوس اورپکچر پیلس کی ، اس تعلیم کو وہ رحمت نہیں ، خدا کا قہر سمجھتے تھے، جس پر بنیاد یں تعمیر ہوں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی ، وہ آرزو مند تھے ، اس نظامِ تعلیم کے، جو مہربان مائیں ، وفا سر شت بیویاں اوراطاعت شعار لڑکیا ں پیدا کرے ، نہ کہ اس کے جو تھیٹر میں ایکٹری اوربرہنہ رقاصی کے کمالات کی طرف لے جائے ۔ وہ ملک میں حوریں پیدا کرنا چاہتے تھے کہ دنیا جنت نظیر بن جائے ، وہ پریوں کے مشتاق نہ تھے کہ ملک ’’راجہ اندر‘‘کا اکھاڑ ا ہوکر رہ جائے، ان کا قول تھا کہ : دو شوہر واطفال کی خاطر اُسے تعلیم قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو مزید توضیح ملاحظہ ہو: تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں ذی علم ومتقی ہوں، جو ہوں ان کے منتظم استاذ ایسے ہوں مگر ’’استاد جی‘‘ نہ ہوں  ’’ استاذ‘‘ اور’’ استاد‘‘ کے لطیف فرق کو جس خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ، وہ بس انہی کا حصہ ہے ، استاذ تو دینی واخلاقی تعلیم وتربیت دینے والے کو کہتے ہیں ، جبکہ استاد جی ارباب نشاط کو تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں ۔ ایک اور طویل نظم میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنا پورا مسلک وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے، چند اشعار نظر نواز ہوں: تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے  لڑکی جو بے پڑھی ہے وہ بے شعور ہے ایسی معاشرت میں سراسر فتور ہے اور اس میں والدین کا بے شک قصور ہے لیکن ضرور ہے کہ مناسب ہو تربیت جس سے برادری میں بڑھے قدر و منزلت آزادیاں مزاج میں آئیں نہ تمکنت ہو وہ طریق جس میں ہو نیکی ومصلحت ہر چند وہ علمِ ضروری کہ عالمہ شوہر کی ہو مرید تو بچوں کی خادمہ عصیاں سے محترز ہو خدا سے ڈرا کرے اور حسن عاقبت کی ہمیشہ دعا کرے آگے حساب کتاب ، نوشت وخواند ، اصولِ حفظانِ صحت ، کھانا پکانے اورکپڑے سینے وغیرہ کودرسِ نسوانی کا لازمی نصاب بتا کر فرماتے ہیں : داتا نے دھن دیا ہے تو دل سے غنی رہو پڑھ لکھ کے اپنے گھر کی دیوی بنی رہو مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے  مغرب کے نازو رقص کا اسکول اور ہے دنیامیں لذتیں ہیں نمائش ہے شان ہے  ان کی طلب میں حرص میں سارا جہان ہے اکبر سے یہ سنو! کہ یہ اس کا بیان ہے دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے حد سے جو بڑھ گیا توہے اس کا عمل خراب آج اس کا خوش نما ہے مگر ہوگا کل خراب(۲۰) حوالہ جات  ۱:…صحیح بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واہلہ ، ج:۱ص:۲۰ ، صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب وجوب الایمان برسالۃ نبیناالخ،ج:۱، ص:۸۶۔ ۲:…مرقات ،ملاعلی قاریؒ ، ج:۱، ص:۷۹۔ ۳:…صحیح بخاری، کتاب العلم ، باب ہل یجعل للنساء  یوما علی حدۃ فی العلم ج:۱،ص:۵۷۔ ۴:…شعب الایمان للبیہقی،ج:۶،ص:۴۲۰۔ ۵:…الاستیعاب ،ابن عبدالبرؒ ، ج:۲،ص:۷۲۶۔ ۶:…الاستیعاب، ابن عبدالبر ،ج:۲،ص:۷۵۶۔ ۷:… تہذیب التہذیب ،ابن حجر عسقلانیؒ ج:۱۱،ص:۴۰۹۔ ۸:…الاستیعاب، ابن عبد البرؒ ،ج:۲،ص:۷۶۰۔ ۹:…تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانیؒ، ج:۱۱،ص:۴۰۹۔ ۱۰:…صفۃ الصفوہ ، ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزیؒ، ج:۴،ص:۱۶۔ ۱۱:…تاریخِ اسلام کی چار سو باکمال خواتین ، طالب الہاشمی ،ص:۱۲۲-۱۲۳۔ ۱۲:…کنزل العمال ، باب الہو واللعب والغنی ، حدیث:۴۰۶۱۱۔ ۱۳:…سورۂ نساء آیت :۳۲۔ ۱۴:…مجمع الزوائد، نورالدین ہثیمیؒ ،ج:۴،ص:۳۲۷۔ ۱۵:…صحیح بخاری ، کتاب اللباس ، باب المتشبہین بالنساء والمتشبہات بالرجال ،ج:۲ ،ص:۸۷۴۔ ۱۶:…شذراتِ فکر ِاقبال ، علامہ اقبالؒ، ص:۱۴۸۔ ۱۷:…روز گارِ فقیر ، ج:۱،ص:۱۶۶۔ ۱۸:…ص:۸۵۔ ۱۹:…ص:۲۰۸۔ ۲۰:… اکبرنامہ ،عبدالماجد دریابادیؒ ، ص:۱۰۵-۱۰۷؍اور ۱۱۰-۱۱۳ ؍ملخصاً۔                                                                                                (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین