بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلام میں تعلیمِ نسواں اورموجودہ مخلوط نظامِ تعلیم(دوسری اور آخری قسط)

اسلام میں تعلیمِ نسواں  اورموجودہ مخلوط نظامِ تعلیم(دوسری اور آخری قسط)

مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو لڑکوں اورلڑکیوں کی مشترک تعلیم گاہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ ابتدائی عمر ‘ جس میں بچے صنفی جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور ان میں ایسے احساسات پیدا نہیں ہوتے ، مخلوط تعلیم کی گنجائش ہے ۔اسی لئے اسلام نے بے شعور بچوں کو غیر محرم عورتوں کے پاس آمدورفت کی اجازت دی ہے اور قرآن مقدس نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے، (۱) لیکن جب بچوں میں جنسی شعور پیدا ہونے لگے اور ایک حد تک بھی (کلی طور پر نہ سہی ) ان میں صنفی جذبات کی پہچان ہوجائے تو ایک ساتھ ان کی تعلیم آگ اور بارود کو ایک جگہ جمع کرنے کی مانند ہے اور اس کا اعتراف (گودیر سے سہی) آج یورپ وامریکہ کے بڑے بڑے ماہرین نفسیات(Psychlogy)وحیاتیات بشری (Humanbiology) کررہے ہیں ،چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ عورت اورمرد میں کششِ جنسی بالکل طبعی اور فطری ہے اور دونوں جب باہم ملیں گے اورکوئی مانع نہیں ہوگا ،تو رگڑ سے یکبارگی بجلی کا پیدا ہوجانا یقینی ہے ۔ اوراسلام کا نقطۂ نظر اس حوالے سے بالکل واضح ، بے غبار ، ٹھوس اورسخت ہے کہ ایک مردیاعورت کے لئے کسی غیر محرم کے ساتھ مل بیٹھنا تو کجا، ایک دوسرے کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے کی بھی قطعاً گنجائش نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ا کے تاریخی سفرِ حج میں فضل بن عباسؓ آپ ا کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہیں ، قبیلۂ ’’بنو خثعم ‘‘کی ایک لڑکی ایک شرعی مسئلے کی دریافت کے لئے آپ ا  کی طرف متوجہ ہوتی ہے اورفضل بن عباسؓ کی نگاہ اچانک اس لڑکی پر پڑجاتی ہے ،تو نبی پاک ا فوراً اُن کا رخ پھیردیتے ہیں ۔ جلیل القدر صحابی حضرت جریربن عبداللہ بجلیؓ فرماتے ہیں : ’’سألت رسول اللّٰہ اعن نظر الفجاء ۃ فقال:’’اصرف بصرک‘‘۔(۲) حضرت علیؓ بن ابی طالب سے آپ ا نے فرمایا : ’’یاعلی ! لا تتبع النظر ۃ النظرۃ ،فإن لک الأولی ، ولیست لک الآخرۃ‘‘۔(۳)  مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی آپ ا نے ممانعتی حکم جاری فرمایا ،چنانچہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہؓاور حضرت میمونہؓ (بعض روایات کے مطابق حضر ت عائشہؓ)حضور ا کے پاس موجود تھیں، اچانک حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ تشریف لے آئے ۔ حضورا نے ان دونوں سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو! تو حضرت ام سلمہؓنے قدرے تحیر زدہ ہوکر کہا:’’یہ تو نا بینا ہیں ! نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اورناہی پہچان سکتے ہیں ‘‘تو حضور ا نے فرمایا :’’کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟کیا تم اُنہیں نہیں دیکھ رہیں ؟‘‘۔(۴) پھر اسلام کا یہ نظریہ کسی خاص شعبۂ حیات سے متعلق نہیں ،بلکہ سن شعور کو پہنچنے کے بعد سے تا حیات اس کا یہی حکم ہے ،چنانچہ جب ہم اہلِ علم خواتین اسلام کی تاریخ اوران کی تعلیم وتربیت کے طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک ا کے عہدِ میمون میں خود آپ ا اس بات کا غایت درجہ اہتمام فرماتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں اختلاط کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے، تاکہ یہ شیطان کی طرف سے کسی غلط کاری کی تحریک کا باعث نہ ہو ۔چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ :  ’’حضور ا مردوں کی صف سے نکلے اور حضرت بلال ؓ آپ ا کے ساتھ تھے ، آپ ا کو خیال ہوا کہ آپؐ کی آواز عورتوں تک نہیں پہنچی ، تو آپ ا عورتو ں کی صف تک تشریف لے گئے ، اُنہیں نصیحت فرمائی اورصدقہ کرنے کا حکم دیا ، تو کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی اور کوئی انگوٹھی اورحضرت بلالؓ اپنی چادر میں اُنہیں سمیٹنے لگے ‘‘۔(۵) ایک مرتبہ آپ ا نے مردوں اورعورتوں کو خلط ملط دیکھا، تو عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :’’پیچھے ہٹ جائو ! تمہارا بیچ راستے پر چلنا مناسب نہیں، لبِ راہ چلا کرو!‘‘۔(۶) آپ ا کے بعد کے ادوار میں بھی عورتوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے عدمِ اختلاط کا خصوصی اہتمام رہا،چنانچہ حضرت مولانا قاضی اطہر مبارکپوری ؒ قرنِ اول اوراس کے بعد طالبات کے تعلیمی اسفار اور ان کے طریقۂ تعلیم وتربیت کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :’’عام طور سے ان تعلیمی اسفار میں طالبات کی صنفی حیثیت کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا تھا اوران کی راحت وحفاظت کا پورا اہتمام ہوتا تھا ۔ خاندان اور رشتہ کے ذمہ داران کے ساتھ ہوتے تھے ، امام سہمیؒ نے ’’تاریخ جرجان‘‘میں فاطمہ بنت ابی عبداللہ محمد بن عبدالرحمن طلقی جرجانیؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ:’’ میں نے فاطمہ کو اس زمانے میں دیکھا ہے ، جب ان کے والدان کو اٹھا کر امام ابو احمد بن عدی جرجانیؒ کی خدمت میںلے جاتے تھے اور وہ ان سے حدیث کا سماع کرتی تھیں‘‘ ، فاطمہ بنت محمد بن علی لخمیہؒ اندلس کے مشہور محدث ابو محمد باجی اشبیلیؒ کی بہن تھیں ، انہوں نے اپنے بھائی ابو محمد باجیؒ کے ساتھ رہ کر طالب علمی کی اور دونوں نے ایک ساتھ بعض شیوخ واساتذہ سے اجازتِ حدیث حاصل کی ‘‘۔(۷)آگے لکھتے ہیں : ’’ان محدثات وطالبات کی درس گاہوں میں مخصوص جگہ ہوتی تھی ، جس میں وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اورطلبہ وطالبات میں اختلاط نہیں ہوتا تھا‘‘۔(۸) ان تصریحات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جہاں عورتوں کو تعلیم وتربیت کے حصول کی پوری آزادی بخشی ہے، وہیں اس کے نزدیک مردو عورت کے درمیان اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں ،بلکہ دونوں کے لئے علیحدہ تعلیم گاہ ہونی چاہئے ، جہاں وہ یک سوئی اورسکونِ خاطر کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں ، اورہرنوع کے ممکن فتنے کا سدِّ باب ہوسکے۔ خاص طور سے موجودہ دور میں جب کہ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مخلوط تعلیم کی فحش کاریاں اورزیاں کاریاں ظاہر وباہر ہوچکی ہیں اور خود یورپ وامریکہ کی تعلیم گاہوں کے ماہرینِ تعلیم وسماجیات وعمرانیات کی رپورٹس اس کا بین ثبوت ہیں ،چنانچہ مشہور فرانسیسی عالمِ عمرانیات ’’پول بیورو‘‘(POULBUREOU)اپنی کتاب( TOWARDSMORAL BANKRUPTCY) میں لکھتا ہے کہ :’’فرانس کے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیا ں، جو کسی فرم میںکا م کرتی ہیں اورشائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہیں، ان کے لئے کسی اجنبی لڑکے سے مانوس ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے ، اول اول اس طرزِ معاشرت کو معیوب سمجھاگیا ، مگر اب یہ اونچے طبقے میں بھی عام ہوگیا ہے اور اجتماعی زندگی میںاس نے وہی جگہ حاصل کرلی ہے ، جو کبھی نکاح کی تھی ‘‘۔(۹) امریکہ کی تعلیم گاہوں کے نوجوان طبقہ کے بارے میں جج ’’بن لنڈسے‘‘ (BENLINDSEY) جس کو ڈنور(DENVER) کی عدالت جرائم اطفال (JUENTLECOURT) کا صدر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے نوجوانوں کی حالت سے واقف ہو نے کا بہت زیادہ موقع ملا ، اپنی کتاب (REVOLM OF MODERN YOUTH)میں لکھتا ہے کہ :’’امریکہ میں ہائی اسکول کی کم از کم ۴۵؍فیصد لڑکیاں اسکول سے الگ ہونے سے پہلے خراب ہوچکتی ہیں اوربعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لڑکیاں خود ان لڑکوں سے اس چیز کے لئے اصرار کرتی ہیں ،جن کے ساتھ وہ تفریحی مشاغل کے لئے جاتی ہیں اور اس قسم کے ہیجانات کی طلب ان میں لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، اگرچہ زنانہ فطرت ان اقدامات پر فریب کاری کے پردے ڈالتی ہے ‘‘۔(۱۰) انگلینڈ کے مرکزی شہر لندن )جو تہذیبِ جدید کاآئینہ دار ہے، اسی آئینے میں اس کی تمام تر گل کاریوں کاعکسِ قبیح نظر آتا ہے( کی ’’غیر شادی شدہ مائوں اوران کے بچوں کی نویں کونسل‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے انگلینڈ کی مشہور مصنفہ ’’مس مار گانتا لاسکی ‘‘یہ دھماکہ خیز انکشاف کرتی ہے کہ : ’’انگلستان کی تقریباً ۷۰؍فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی اپنے دوستوں سے جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور ۳۳؍فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں ‘‘۔(۱۱) لندن کے ایک سماجی کارکن (SOCILWORKER) نے اپنی مطالعاتی رپورٹ میں وہاں کی مخلوط تعلیم گاہوں کی صنفی آوارگی اورجنسی انار کی (ANARCHY) کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’’اسکول میں آج کل چودہ برس کے لڑکے اورلڑکیاں عام طور پر مانع حمل اشیاء اپنے اپنے بیگ میں لئے پھر تے ہیں کہ جانے کب کہاں ضرورت پڑجائے ؟اس معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے کہیں زیادہ ہوشیار ہیں ‘‘۔(۱۲) خیر ! یہ تو نافِ تمدن اورمرکز تہذیب کی بات ہے ، خود مشرق میں بھی (جس کے رگ وپے میں گویا خوانِ مغرب کی زلہ خواری سرایت کرچکی ہے اورمغرب کی ’’عطا کردہ‘‘ہر ’’عنایتِ خاصہ ‘‘کا والہانہ استقبال کرنا اوراسے ہاتھوں ہاتھ لینا اس کی جبلت بن چکا ہے اورجس کے فرزندوں میں مستغربین کی ٹولی کی ٹولی جنم لے رہی ہے ) مخلوط تعلیم کے انتہائی مضرت رساں نتائج مشاہدے میں آرہے ہیں، بلکہ صورت حال تویہ ہوچکی ہے کہ    ؎ مے خانہ نے رنگ وروپ بدلا ایسا مے کش مے کش رہا نہ ساقی ساقی  غور کیجئے! کہ مخلوط تعلیم گاہوں میں جہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہوں، پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ایک ساتھ ہوں اور ان سب پر طرفہ یہ کہ عریاں ونیم عریاں بازو، لب ہائے گلگوں ، چمکتے ہوئے عارض ، چشم ہائے نیم باز ، بکھری ہوئی زلفیں ،بلکہ سارا سراپا ’’أنا البرق‘‘ کا منظر پیش کررہا ہو، تو کیا فریقِ مقابل اپنے ذوقِ دید اور شوقِ نظارہ کو صبر وشکیبائی کار ہین رکھے گا یا بے تابانہ اپنی نگاہوں کی تشنگی دور کرنے کی سوچے گا؟پھر جب جمالِ جہاں آراء پوری تابانیوں کے ساتھ دعوتِ نظارہ دے رہا ہو، تو اس کی دید کی پیاس بجھے گی کیوں ؟وہ تو اور تیز تر ہو جائے گی اور جام پر جام چڑھائے جانے کے باوصف اس کاشوقِ دیدار ’’ہل من مزید‘‘کی صدائے مسلسل لگائے گا   ؎ ساقی جو دیئے جائے یہ کہہ کر کہ پیے جا تو میں بھی پیے جائوں یہ کہہ کر کہ دیئے جا اور شیطان ایسے موقعوں پر کبھی نہیں چوکتا ، جب اس کا شکار پوری طرح اس کے قبضے میں آجائے ،چنانچہ معاملہ صرف دیدہی تک محدود رہ جائے ، یہ ناممکن ہے ، اس سے بھی آگے بڑھ کر گفت وشنید تک پہنچتا ہے ، پھر بوس وکنار اورہم آغوش ہونے اوربالآخر وہاں تک پہنچ کر دم لیتا ہے ، جس کے بیان سے ناطقہ سر بہ گریباں اورخامہ انگشت بہ دنداں ہے اور اس قسم کے حادثات کوئی ضروری نہیں کہ یونیورسٹیز اورکالجز کے احاطوں ہی میں رونما ہوں،بلکہ رسل ورسائل اور آئے دن کے مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کالجز کے کلاس روم، شہروں کے پارک اور پبلک مقامات تک کی بھی کوئی قید نہیں ہے   ؎ بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا پس چہ باید کرد؟ ایسے پر آشوب اور ہلاکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لئے گئے، اور لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی ’’مثقف ‘‘اور ’’روشن خیال ‘‘بنانے کا مخلوط طریقۂ کار یو ں ہی بر قرار رہے تو ہر نیا طلوع ہونے والا سورج بنتِ حوا کی عزت وناموس کی پامالی کی خبر نو لے کر آئے گا اورپھر دنیا بہ چشمِ عبرت نگاہ دیکھے گی کہ وہ مقامات ، جو انسان کو تہذیب وشائستگی اورانسانیت کا درس دینے ، قوم ووطن کے جاں سپار خادم اور معاشرے کے معزز وکامیاب افراد تیار کرنے کے لئے منتخب کئے گئے تھے،محض حیوانیت وبہیمیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کررہ گئے ۔(لاقدر اللّٰہ ذلک) خواتین کو تعلیم دی جائے ، اسلام قطعاً اس کی مخالفت نہیں کرتا،بلکہ وہ تو اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے ، جیسا کہ ماقبل میں اشارات دیئے گئے ،لیکن یہ ملحوظ رہے کہ ان کی تعلیم وہی ہو ، جو ان کی فطرت ، ان کی لیاقت اوران کی قوتِ فکر وادراک کے مناسب ہو اوران کی عفت کی حفاظت میں ممدو معاون ہو ، نہ کہ ایسی تعلیم، جو اُنہیں زمرۂ نسواں ہی سے خارج کردے اورشیاطین الانس کی درندگی کی بھینٹ چڑھادے، اللہ تعالیٰ سود دوزیاں کے صحیح فہم کی توفیق بخشے ۔(آمین ) حوالہ جات  ۱:… النورآیت:۵۸ ۲:…سنن ابی دائود، کتاب النکاح ، باب مایؤمر من غض البصر، ج:۱،ص:۲۹۲ ،صحیح مسلم ، کتاب الأدب ، باب نظر الفجاء ۃ، ج:۲ ،ص:۲۱۲۔ ۳:…سنن ابی دائود، کتاب النکاح ، باب مایؤمر من غض البصر، ج:۱،ص:۲۹۲۔ ۴:…سنن ترمذی ، ابواب الاستیذان والادب ، باب ماجاء فی احتجاب النساء من الرجال ،ج:۲،ص:۱۰۶۔ ۵:…صحیح بخاری ، کتاب العلم، باب عظۃ النساء وتعلیمہن ، ج:۱،ص:۲۰ ۔صحیح مسلم ، کتاب صلوۃ العیدین ، فصل فی الصلوۃ قبل الخطبۃ، ج:۱،ص:۲۸۹۔ ۶:…سنن ابی دائود، کتاب الادب ،باب فی مشی النساء فی الطریق ،ج:۲،ص:۷۱۴۔ ۷:…خواتینِ اسلام کی دینی وعلمی خدمات ،قاضی اطہر مبارکپوری ،ص:۲۳ تاریخ جرجان ، امام سہمی ،ص:۴۶۳۔ ۸:…خواتینِ اسلام کی دینی وعلمی خدمات ،قاضی اطہر مبارکپوری، ص:۳۳۔ ۹:…  پردہ،سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ،ص:۵۴۔ ۱۰:…فریبِ تمدن ، اکرام اللہ ایم اے ،ص:۱۵۸، افکارِ عالم، اسیر ادروی ،ج:۱،ص:۲۲۶۔ ۱۱:…صدقِ جدید ،عبد الماجددریابادیؒ ، ۲۶؍دسمبر ۱۹۶۰ ء ۔فریبِ تمدن ، اکرام اللہ ایم اے، ص:۱۸۷ ۔افکارِ عالم ، اسیرادروی ج:۱،ص:۲۲۸۔ ۱۲:…صدق جدید ، عبدالماجد دریابادیؒ ،۶؍جنوری ۱۹۵۶ء ۔فریبِ تمدن، اکرام اللہ ایم اے، ص:۱۸۹، افکارِ عالم ، اسیر ا دروی، ج:۱،ص:۲۲۹۔

 ٭٭٭  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین