بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اورمسلمانوں کے خلاف دُشمنانِ وقت کی طرف سے محاذوں کی تکثیراور اُسوۂ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم

اسلام اورمسلمانوں کے خلاف دُشمنانِ وقت کی طرف سے محاذوں کی تکثیراور اُسوۂ نبی اکرم محمد a

ہم مسلمانوں کے لیے کائنات کی ہر چیز کی طرح دِنوں اور سالوں کے اُلٹ پھیر اور ان کی آمد و رفت میں بھی بے پناہ عبرت کا سامان موجود ہے۔ ہجری سال کی آمد نو توبہ طورِ خاص حق و باطل کی معرکہ آرائی میں حق کی جیت کے تعلق سے فیصلہ کن موڑ اور باطل کی یقینی شکست کے واضح اور غیرمبہم اشارے کی یاد تازہ کرجاتی ہے اور فرزندانِ حق کو یہ یاد دہانی کرا جاتی ہے کہ شر کی بادِ صرصر، باطل کی دندناہٹ، کفر کی بلاخیز آندھی اور باغیانِ خدا و فرماں بردارانِ شیطان کی کرتب بازیوں و فسوں طرازیوں کے ہمہ گیر جھکڑوں کے باوجود جن سے بہت سی مرتبہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا کہ حق کا خیمہ ہمیشہ کے لیے اُکھڑ جائے گا اور خیر کا وجود درہم برہم ہوجائے گا اور اس کے ہم نواؤں کے تمام کیے دھرے پر ہمیشہ کے لیے پانی پھرجائے گا، اُنہیں مایوسی اور ناامیدی کے آگے سپر انداز نہیں ہونا چاہیے کہ باطل کی انتہائی شرانگیزی اس کی حرکت مذبوحی ہوا کرتی ہے، کیوں کہ اس کا نصیبہ ہی شکست خوردگی اور بالآخر زیر ہوجانا ہے۔ حق و باطل کی آج کی کش مکش کوئی نئی بات نہیں۔ یہ کش مکش دونوں کے درمیان اسی وقت سے جاری ہے جب سے دونوں کا وجود ہے اور آئندہ بھی اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک دونوں کا باہم پایا جانا خدا کو منظور ہے۔ کش مکش کے رنگ و آہنگ زمانے اور جگہ کی تبدیلی کی وجہ سے تبدیل ہوتے رہیں گے، لیکن کش مکش کی حقیقت تبدیل نہ ہوگی۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوگا کہ باطل کا حملہ بے نظیر ہے اور ایسا بھرپور ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی؛ لیکن درحقیقت‘ باطل کی یورش ہمیشہ ہی انتہائی قوّت کے صرفے پر مبنی ہوگی، زمانے اورجگہ کے فریم میں وہ ہمیشہ غیرمعمولی ہوتی ہے، دوسرے زمانے کے تناظر میں وہ معمولی معلوم ہوتی ہے۔ بہ ہر صورت حق کے ساتھ باطل کی لڑائی کل بھی جاری تھی، آج بھی جاری ہے۔ کل تیر و تفنگ اور سیف و سناں کا زمانہ تھا، آج توپ و ٹینک، میزائل اور بم، فضائی کارزار اور سائنس کے بازار کا زمانہ ہے؛ لہٰذا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ حق کے ساتھ باطل کی کل کی جنگ آسان، ہلکی اور قابل تسخیر تھی اور آج کی جنگ بہت سخت گمبھیر اور ناقابل تسخیر ہے۔ کل کے چوکھٹے میں کل کی جنگ اتنی ہی دشوار گزار تھی، جیسی آج کے حالات کے دائرے میں آج کی جنگ۔ کل حق کا دفاع کرنے والے کل کے لوگ تھے اور آج حق کا دفاع کرنے والے آج کے لوگ ہیں۔ حق کی کل کی جنگ اہل حق نے جیت لی تھی، آج کی حق کی جنگ بھی اہل حق بالآخر جیت لیں گے، ان شاء اللہ! لیکن شرط یہی ہے کہ کل کے اہل حق ہی کی طرح آج کے اہل حق میں اخلاص، جذبۂ  قربانی اور ایثار کی فراوانی ہو؛ ورنہ جنگ کا دورانیہ طویل، آزمایش کی گھڑی دراز، جیت کا موقع مؤخر، نقصان کا احتمال زیادہ اور صبر کے امتحان کی مدّت قدرے طویل ہوجائے گی، جس کی وجہ سے بادی النظر میں ایسا محسوس ہوگا کہ باطل فتح مند اور حق شکست خوردہ ہوگیا ہے اور باطل پرستوں کی طرف سے اہل حق کو دل خراش طعنوں اور خدائے حکیم کی طرف سے اصلی و نقلی ایمان کی پرکھ کے عمل سے گزرنا ہوگا، جو بہت سی دفعہ قلیل الصبر حق پرستوں کے لیے بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں آج اسلام کے خلاف متحدہوکر اس طرح اس پر ٹوٹ پڑی ہیں کہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے کہ اسلام کے خلاف اس کے دشمنوں کی ایسی یگانگت، ایسا اتحاد، ایسی یک جائی کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اسلام سے لڑنے، اس کا پیچھا کرنے، اس کوگھیرنے اور ہرطرف سے اس پر راہ بند کردینے کی ہرتدبیر سے کام لیا جارہا ہے، ہرذریعے کو آزمایا جارہا ہے، ہرطریقۂ پیکار کو استعمال کیا جارہا ہے اور ایک کے بعد دوسرا محاذ کھول کر فرزندان اسلام کو ہرمحاذ پر مشغول کرکے ان کی طاقت کو منتشر کردینے اور فیصلہ کن اور آخری مزاحمت سے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرزندان اسلام غافل اور محو استراحت ہیں اور دشمنان اسلام ہمہ وقت محو فکر وعمل ہیں۔ محاذوں کی تکثیر اور جنگی کارروائیوں کے مراکز کا تنوّع، اسلام سے برسرپیکار طاقتوں کے کارگر اور ترجیحی طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، جس پر وہ ماضی میں بھی کاربند رہی ہیں۔ انہیں یقین رہا ہے کہ اگر اسلام کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے محاذ ایک دو ہی رہیں گے، تو فرزندان اسلام کے لیے ان سے نمٹنا اور حساب بے باق کرنا آسان ہوگا؛ لیکن محاذوں کی کثرت اور ان کے متنوّع ہونے کی صورت میں دشمنان اسلام کے بہ زعم اہل اسلام کے لیے ان سارے محاذوں پر اُن سے لڑنا آسان نہ ہوگا، نتیجتاً وہ شکست کھاجانے، ان کے سامنے سرنگوں ہوجانے اور ان کے لیے جیت کو تسلیم کرلینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ محاذ جنگ کی تکثیر اور اس کو نوع بہ نوع کرنے کی پالیسی پر ہی آج اسلام دشمن طاقتیں عمل پیرا ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے اپنی صفوں میں اتحاد و یک جہتی کی ایسی مثال قائم کی ہے، جو دیدنی بھی ہے اور باعث عبرت بھی۔ باعث عبرت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان اختلاف و تضاد کے اتنے سارے عوامل پائے جاتے ہیں کہ انہیں کسی بھی حال میں متحد نہیں ہونا چاہیے تھا، بلکہ انہیں ہمیشہ اورہر طرح متحارب یا متصادم رہنا چاہیے تھا۔ یہ زمانے کی نیرنگی اور اس کے عجائبات میں سے ہے کہ اختلاف کے لاتعداد محرکات کے باوجود صرف ایک محرک یعنی اسلام دشمنی نے انہیں متحد اور متعاون بنادیا ہے۔ ان کے عقیدے مختلف ہیں، رجحانات و میلانات مختلف ہیں، عبادتوں اور پرستشوں کا انداز مختلف ہے، ساتھ ہی ان کے مقاصد و مفادات، ان کی نسلوں اور جنسوں، رنگوں اور ملکوں، معبودوں اور عقیدتوں کے محوروں میں نہ صرف اختلاف، بلکہ بالکل تضاد پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کے بت پتھر کے ہیں، تو کسی کے صنم لکڑی کے، کسی کے معبود گڑے ہیں تو کسی کے کھڑے، کسی کے پڑے ہیں تو کسی کے بیٹھے! لیکن ان کے درمیان ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے اسلام دشمنی، جس نے سارے تضادات کے باوجود انہیں ایک بنادیا ہے۔ کیا یہ بات ہم مسلمانوں کے لیے درس انگیز نہیں کہ ہم مسلکوں اور مکاتب فکر کے اختلاف کے باوجود ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کے قدر مشترک پر متحد ہوکر باطل کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیں، تاکہ خدا کی کائنات امن کی جنت، سکون کا گہوارہ، راحت کی جا اور انسانیت کی جائے پناہ اسی طرح بن جائے جس طرح کہ خدانے چاہا ہے اور خدا کے نبی (a)نے جس کو برپا کرکے دکھادیا ہے!۔ محاذوں کی تکثیر کی کارروائی کے ضمن میں ہی خلافت عثمانیہ کے پرزے اُڑائے گئے، جو اپنی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتی تھی۔ نیز اسی پالیسی کے تحت اللہ پاک کی محبوب و مقدس اور مبارک سرزمین، یعنی مسجد اقصیٰ و فلسطین کی بعثت انبیاء کی سرزمین میں جو خالص اسلامی اور عربی سرزمین ہے، اسرائیل کے ناپاک درخت کی زور زبردستی سے اور مکمل ظالمانہ و غاصبانہ طور پر کاشت کی گئی۔ پھر اسرائیل کو طاقت ور ترین بنادینے کے لیے کوشش کی گئی کہ وہ عسکری و اقتصادی طور پر خود کفیل ہوجائے اور باقی ماندہ ارض فلسطین کو ہڑپ کرکے فلسطینیوں کو خانما برباد کردے اور جو وہاں رہ جائیں انہیں ہمہ گیر طورپر ’’ادب‘‘ سکھاتا رہے اور دوسری طرف اسرائیل کے سامنے کے عربی ممالک اور پڑوسی اسلامی و عربی ریاستوں کو اس درجہ ناتواں، غیرمسلح، بے دم اور بے دست وپا کردیا جائے کہ اسرائیل جب چاہے ان کی اینٹ کا جواب پتھر سے دے اور ان کی طرف سے فرضی خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا ڈھنڈورا پیٹ کر عالمی رائے عامّہ بالخصوص یورپ اور امریکہ کی ’’ضرورت‘‘ سے زیادہ ہمدردی اورہم نوائی اور مادی و معنوی تعاون سے بہرہ ور رہے۔ نیز اسی پالیسی کے تحت اسرائیل کو کھل کر اس کا موقع دیاگیا کہ وہ باقاعدہ ایٹمک ملک بن جائے اور سیکڑوں نیوکلیر ہیڈس کا مالک بن بیٹھے، دوسری طرف دوہرے پیمانے کی اساس پر، بلکہ دشمنانہ رویے کے تحت پڑوس کی ہر عربی اورپوری دنیا کی ہر اسلامی ریاست کو ’’ایٹمک غلیل‘‘ کے حصول سے بھی نہ صرف باز رکھا گیا، بلکہ اس حوالے سے محض سوچنے پر بھی نہ صرف یہ کہ بدترین انجام کی دھمکی دی گئی، بلکہ ’’خارش زدہ اونٹ‘‘ کی طرح اس کو پوری دنیا سے الگ تھلگ کردینے اور اس کی شبیہ کو ایسا مکروہ بنادینے کی کوشش صرف کی گئی کہ عالمی برادری کو اس سے ہمیشہ کے لیے گھن آجائے اور اس پر ہر طرف سے ٹوٹ پڑنے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کے لیے وقت، مال، سیاست کاری، سفارت کاری، دھونس دھمکی کا اتنا بڑا اَثاثہ صرف کیا گیا کہ اس سے بہت کم اَثاثے کے ذریعے دنیا کی ساری بے انصافیوں کا علاج، غربت کا خاتمہ، ناخواندگی کا انسداد، بیماریوں کا صفایا، استبداد کے تریاق کی تلاش اور الجھے ہوئے معاشی اور سیاسی مسئلے کا معقول اور اطمینان بخش حل ڈھونڈا جاسکتا تھا، بشرطیکہ نیت سچی ہوتی، انسانیت کا واقعی درد ہوتا، ظلم سے سچ مچ نفرت ہوتی، اسلام دشمنی سے عقل کی بصیرت اور آنکھ کی بصارت سے محرومی کا روگ اہل مغرب اور امریکہ کے لیے لاعلاج بیماری نہ بن گیا ہوتا اور دوہرے پن، نفاق اور عصبیت کی تہ بتہ تاریکیوں کی وجہ سے ان کے دل اور ضمیر کا چپہ چپہ شب دیجور کے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہوگیا ہوتا۔ اسلام کے خلاف تکثیر محاذ ہی کی پالیسی کے تحت بڑے ممالک بالخصوص امریکہ اور یورپ نے اپنے لیے ایٹمک پروگراموں کی تخلیق، تعمیر اور ترقی کو نہ صرف جائز رکھا، بلکہ ان گنت نوع کے جہنمی اسلحے اور وسیع تر تباہی کے ہتھیار بنائے اور اہل مشرق بالخصوص مسلمانوں پر انہیں آزمایا اور انہیں اپنا غلام بنائے رکھنے اور ترغیب و تخویف کے ذریعے ان کی دولت کو چوسنے کے ساتھ ساتھ، ان کی تہذیب و ثقافت، تعلیم و تربیت، دین و روایت، طرزِ زندگی اور نظام حکومت کو مغربی اور امریکی بنا دینے کی کوشش کی اورہنوز کررہے ہیں اور حکم دیا جارہا ہے کہ جو کہا جارہا ہے وہی کرو، ورنہ ہم تم سے کروانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ دنیا والے امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں سے جن کے پاس زبردست نیوکلیر پروگرام، نیوکلیر اسلحے اور تباہ کن عسکری صلاحیتیں اور ظالمانہ ریکارڈس اور سابقہ جارحانہ عزائم کا پشتارہ موجود ہے اور جو اپنی غیرمعمولی عسکری صلاحیتوں کی وجہ سے ہی پوری دنیا کو روندنے میں لگی ہوئی ہیں اور پاگل پن اور طاقت کے نشے سے چور سانڈ کی طرح ہر قوم، ملک، تہذیب و ثقافت اور تاریخ و روایت سے سرٹکراتی اور سینگ لڑاتی پھررہی ہیں، ان طاقتوں سے دنیا والے یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم کو اگر واقعی انسان کی تباہی اور دنیا کی بربادی کا خوف ستارہا ہے، تو دنیا کے کمزور ملکوں پر نیوکلیر پروگرام سے دست برداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے زور ڈالنے سے پہلے تم اپنے اپنے تباہ کن نیو کلیر پروگراموں سے از خود دست بردار کیوں نہیں ہوجاتے، تاکہ تمہارا عمل سبھوں کے لیے خود دعوت عمل بن جائے؟ تم دوسروں کو غیرمسلح ہوجانے کی دعوت دیتے ہو اور خود اسلحے کے سب سے بڑے خالق، تاجر، برآمد کنندہ اور ان کے ذریعے ظلم و جارحیت کے سب سے بڑے علم بردار بنے بیٹھے ہو۔ دنیا سب سے زیادہ تمہارے ہاتھوں ہی برباد ہورہی ہے، پوری دنیا عموماً اور عالم اسلام خصوصاً صرف تمہاری ہی دہشت گردی سے زیر و زبر ہورہا ہے اور انسانیت کی قبا تمہارے ہاتھوں ہی چاک ہورہی ہے۔ تم اگر ظلم سے ہاتھ اٹھالو تو دنیا از خود امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ ظلم کے سارے انداز تمہارے ہی تراشیدہ ہیں، بگاڑ کی ساری راہیں تمہی نے دکھائی ہیں، شر و فساد کی ساری طرحیں تمہی نے ڈالی ہیں۔ تمہارے زوال کے دور میں انسانیت بدامنی سے نا آشنائے محض تھی، تمہارے عروج نے دنیا کو جہنم کدہ بنادیا ہے۔ الغرض اے امریکہ والو! اور اے فرزندان مغرب! اور اے بڑی طاقتوں کے برے لقب سے جانے جانے والو، جو ظلم اور ناانصافی کا رَمز بن چکا ہے! تم قول و عمل کے تضاد سے جس وقت ’’شفایاب‘‘ ہوجاؤگے، یہ چھوٹے چھوٹے ممالک از خود راہِ راست پر آجائیں گے، جو پہلے سے بھی تمہاری طرح بے راہ رو اور ظلم و جارحیت کے پجاری نہیں ہیں۔ تمہیں شرم نہیں آتی کہ زبردست تباہی کے ہتھیاروں کے طفیل ہی تم نے دنیا پر اپنی چودھراہٹ قائم کررکھی ہے اور اپنی چودھراہٹ کو دوام اور استحکام دینے کے لیے کمزور ملکوں کو بالکل تہی مایہ ہوجانے اور اسلامی ملکوں کو تو اور بھی بالکل بے شناخت ہوجانے کی نہ صرف دعوت دیتے ہو، بلکہ زور زبردستی سے اپنا حکم ان سے منوانا چاہتے ہو؟ یہ انصاف کی کون سی منطق ہے کہ تم تو پہلے سے زیادہ طاقت ور اور عسکری صلاحیتوں کی افزودگی اور ترقی کے بام عروج پر پہنچ گئے اور تمہارا سفر ہنوز تیزگامی سے اور سامانِ صد ہزار کے ساتھ خوب سے خوب تر منزل کی طرف جاری ہے اور تم دوسروں سے کہتے ہو کہ ٹھہر جاؤ، رک جاؤ، بیٹھ جاؤ، بلکہ ذلت اور رسوائی کی نیند سوجاؤ؟۔ اسلامی ملکوں سے بالخصوص اور دنیا کے دیگر کمزور ملکوں سے جنہیں تم نے اپنی چالاکی سے کمزور رہنے دیا ہے اور ترقی کی راہ پر ان کے چلنے کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیتے ہو، تمہاری لڑائی، کلچر، تہذیب، تاریخ، روایت، مذہب، طرزِ زندگی اور طرزِ حکومت کی عصبیت کے ساتھ ساتھ، اس لیے بھی ہے کہ وہ ترقی اور اٹھان کی راہ پر چلنے کی محض سوچتے کیوں ہیں؟ جب کہ یہ حق تمہارے بہ زعم خدا کی طرف سے صرف تمہی کو عطا کیاگیا ہے! ذرا دیکھو تو سہی تم نے اسرائیل کے لیے، اس کی برتری کے لیے، عربوں کے بالمقابل اس کی عسکری و اقتصادی طاقت کو دوبالا کرنے کے لیے، انصاف کا کتنا خون کیا ہے؟ بے انصافیوں کی کتنی نئی نئی فصلیں اُگائیں ہیں؟ طرف داری بے جا کے کتنے نئے نئے اور عجیب عجیب بیج بوئے ہیں اور وعدوں، معاہدوں، الفاظوں اور تعبیروں کے معانی اور مفاہیم کو تم نے کس کس طرح بدل کر رکھ دیا ہے؟ حق کا دفاع کرنے والے تمہارے نزدیک دہشت گرد ہیں اور ناانصافی اور ظلم محض کے اساس گزار و طرف دار تمہارے نزدیک دہشت گردی کا شکار ہیں؟ ظالم و غاصب و قاتل و جارح و درندہ صفت اسرائیل تمہارے نزدیک بے گناہ مظلوم ہیں اور مظلوم و مقتول و مجروح اور مصائب گزیدہ فلسطینی تمہاری لغت میں ظالم اور شرپسند ہیں۔ سبب کو مسبّب اور مسبّب کو سبب بناڈالنے کی ایسی جرأت تمہارے چچا فرعون اور تمہارے جدّ امجد شیطان کو بھی نہ ہوئی ہوگی۔ قول و فعل کے سارے تضاد اور الفاظ و تعبیرات کی ساری بے آبروئیوں کے تمہارے ایسے جرم آسمان کی آنکھوں اور زمین کی گود نے کیوں دیکھے ہوںگے؟ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ یہ مغربی ممالک اور امریکہ ڈھیر سارے ایٹمی ہتھیار بنائیں، بناتے جائیں، انہیں ترقی دیتے جائیں، ان کی وجہ سے دنیا والوں بالخصوص مسلمانوں کو اس طرح ڈرائیں جیسے بڑی عمر کے لوگ بچوں کو بھوت اور جن سے ڈراتے ہیں اور مسلم ملکوں اور دیگر کمزور ملکوں سے کہیں کہ تمہیں کسی طرح کے ’’چاقو‘‘ اور ’’چھری‘‘ بنانے کا حق نہیں اور اگر تم نے بنانے پر اصرار کیا تو ہم تمہیں نیست و نابود کردیں گے۔ برطانیہ کے ’’ٹائمز‘‘ اخبار نے کچھ دنوں پہلے جو اعداد و شمار شائع کیا تھا، اس کے بہ موجب دنیا میں اس وقت (۱۷۰۰۰) ایٹمی ہیڈس ہیں، جن کے ذریعے دنیا کو کئی بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ جن میں سے تنہا امریکہ کے پاس ۷۳۰۰ ہیڈس ہیں۔ امریکہ نے ۱۹۴۵ء میں اپنے نیوکلیر تجربات شروع کردیے تھے۔ برطانیہ کے پاس ۲۲۵ ہیڈس ہیں، اس نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ ۱۹۵۲ء میں کیا تھا۔ فرانس کے پاس ۳۵۰ ہیڈس ہیں، اس نے پہلا ایٹمی تجربہ ۱۹۶۰ء میں کیا تھا۔ چین کے پاس ۴۰۰ ہیڈس ہیں، اس نے پہلا ایٹمی تجربہ ۱۹۶۴ء میں کیا تھا۔ روس کے پاس ۸۰۰۰ ہیڈس ہیں، اس نے پہلا ایٹمی تجربہ ۱۹۴۹ء میں کیاتھا۔ اسرائیل کے حوالے سے دنیا والوں کو یقین ہے کہ اس کے پاس سیکڑوں ہیڈس ہیں، لیکن چوں کہ وہ خود، اس کا آقا امریکہ اور اس کا پاس دار مغرب، اس کے تعلق سے ایٹمی معاملے میں بہ طور خاص مکمل طور پر راز داری برتتے ہیں، اس لیے اس کے ایٹمی ہیڈس کی تعداد کا ذرائع ابلاغ کو صحیح علم نہیں۔ شمالی کوریا بھی اپنے پاس ایٹمی ہتھیار کی موجودگی کا مدعی ہے، لیکن عالمی ذرائع کو اس حوالے سے کوئی یقینی بات معلوم نہیں۔ ہندوستان کے پاس بھی چھوٹا سا ایٹمی اسلحہ خانہ موجود جس میں ۱۲۵ ہیڈس ہیں۔ پاکستان کے متعلق جیسا کہ معلوم ہے عالمی طور پر صرف یہ خیال ہے کہ اس کے پاس شاید کچھ نیوکلیر ہتھیار ہیں، لیکن حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں۔ (اندازاً پاکستان کے پاس بھی ۱۲۰؍ تک ہیڈس موجود ہیں۔ )لیکن امریکہ، اسرائیل، مغرب اور ان کے دم چھلوں نے پچھلے چند سالوں میں پاکستان اور اس کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف جس طرح شور برپاکیا، اس سے عالم اسلام کے ضمیر کو زبردست ٹھیس پہنچی اور مسلم امّہ کو یقین کرنا پڑا کہ ساری دنیا کی اقوام و ملل یقینا ایک فریق ہیں اور امت مسلمہ دوسرا فریق ہے اور اس کو یقین کرنا پڑا کہ ’’اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ  ‘‘  واقعی ایک زندہ، ناقابل تکذیب اور ہزاروں سچائیوں کی ایک سچائی ہے۔ امریکہ جس طرح عراق اور افغانستان پر قبضے کے بعد شام کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑا ہوا ہے، اس سے سیاسی مبصرین اور عالمی حالات کے اکثر ماہرین کو یقین ہوچلا ہے کہ امریکہ شام کے خلاف عسکری کارروائی کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔ جہاں تک سلامتی کونسل اور نام نہاد اقوام متحدہ کا تعلق ہے تو سارے باخبر اور حقیقت پسند ذرائع کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں عالم اسلام و عالم عرب کی ’’تادیب‘‘ کے لیے امریکہ کی کٹھ پتلی ہیں۔ امریکہ اور مغرب ان دونوں کے ذریعے اسلامی کاز کو نقصان پہنچانے اور کمزور ممالک خصوصاً عربی اور اسلامی ملکوں پر اپنی چودھراہٹ تھوپنے، انہیں غلام بنائے رکھنے اور تیل والے خلیجی ملکوں کی دولتوں کو چوسنے کا کام لیتا ہے۔ اگر یہ دونوں ادارے کسی وقت امریکہ کے ہم رائے نہیں ہوتے (جیسا کہ عراق کے مسئلے میں ہوا تھا) تو امریکہ ان کی پروا کیے بغیر وہی کرتا ہے جو اس کو کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ میں اسٹیج کیاگیا ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کے دھماکوں کے واقعات کا ڈرامہ اور اس کی اساس پر ’’دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ‘‘ اور اس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا عالمی پیمانے پر شکار اور سارے اسلحہ اور سامان ہائے جنگ اور لشکر جرار کے ساتھ ہر اسلامی ملک پر یکے بعد دیگرے دھاوا اور ہر ایک کو طرح طرح سے مجبور کرنا کہ وہ اپنے ہاں نصاب ہائے تعلیم، طرزِ معاشرت اور معیشت، نظام حکومت وغیرہ میں بہ عجلت تبدیلی لائے، نیز ہر اسلام پسند اور دین دار مسلمان کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے اور ہر دینی عالم کو ’’بنیاد پرست‘‘ باور کرے اور ہر دینی مدرسے اور اسلامی یونیورسٹی کو دہشت گردی کا اڈہ مانے اور ہر رفاہی ادارے اور انجمن کو دہشت گردی کی مؤید اور مالی مدد دینے والی تصوّر کرے اور اصلی اور صحیح اسلام کو دہشت گردی تسلیم کرے اور ایک ایسا ’’معتدل‘‘ اسلام معرض وجود میں لائے جو زمانے سے ہم آہنگ اور امریکہ، اسرائیل، عالمی صہیونیت اور صہیونیت سے آمیختہ مسیحیت سے ہمدردی رکھتا ہو اور اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے ہر بے جا برتاؤ کو خوش دلی سے گوارا کرتا ہو، جس کو صرف منافق اور مرتد ہی گوارا کرسکتا ہے اور سچا پکا مسلمان -جس کا دل اللہ و رسول(a) کی محبت اور دینی حمیت اور اسلامی غیرت سے لبریز ہو- ہرگز گوارا نہیں کرسکتا۔ یہ ساری پالیسیاں بھی اسلام کے خلاف تکثیر محاذ ہی کا حصہ ہیں۔ اسی طرح تکثیر محاذ ہی کا تسلسل وہ پالیسی ہے جو امریکہ نے مسلم عوام کو دین بے زار کرنے، جہاد کی تنسیخ کا عقیدہ مان لینے، نبی a کی تکذیب پر آمادہ کرنے وغیرہ کے لیے ’’الفرقان الحق‘‘ کے نام سے عربی اور انگریزی میں شائع کر کے برپا کی تھی۔ کتاب کو پڑھنے سے جہاں ایک عربی داں کو اس کی عربی سے گھن آتی ہے وہیں یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور ان دونوں کی پشت پناہ طاقتیں سب سے زیادہ اسلام کے تئیں مسلمانوں کی جاں نثاری سے ہی خائف اور فکرمند ہیں۔ انہیں یہی خدشہ ہر وقت بھوت کی طرح رگیدتا رہتا ہے کہ اسلام کے یہ متوالے فلسطین، افغانستان، عراق، شام اور دیگر ان جگہوں کی طرح جہاں وہ یہ باور کرلیتے ہیں کہ محض خدائے واحد کی پرستش کے گناہ کی وجہ سے ان پر عریصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے، اگر یہ ہرجگہ جان کی بازی لگانے اور اسلام کی عزت و ناموس پر مرمٹنے کے لیے سر سے کفن باندھ کے اٹھ کھڑے ہوگئے تو ہم پاس دارانِ بُتانِ ہزار نوع کے لیے زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے کوئی ٹھکانا نہ ہوگا، اسی لیے فرزندانِ تثلیث و یہود و بت پرستوں نے ہمیشہ جہاد کے بطلان اور مسلمانوں کے دلوں میں اس عقیدے کی بیخ کنی پر سب سے زیادہ زور صرف کیا ہے۔ یقینا اسی لیے حدیث پاک میں انتہائی شدّ و مد کے ساتھ جہاد کے قیامت تک باقی رہنے کی بات کہی گئی ہے’’ الجہاد ماضٍ إلٰی یوم القیامۃ  ‘‘جس سے اس کی منسوخی کی بات کہنے والے خود ننگے ہوجاتے ہیں اور ان کا ملت اسلام سے خارج ہونا از خود عیاں ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حضور اکرم a کی شان میں گستاخی اور آپ کی تحقیر و توہین پر مشتمل ڈنمارک اور مغرب کے ملکوں میں کارٹونوں کی اشاعت اور دفاعِ آزادیِ اظہار کے بہانے اس پر اصرار اور ہر طرح کے نقصانات کو اس حوالے سے برداشت کرلینے کے عزم کا اظہار اور کارٹون کے تخلیق کار کا صاف لفظوں میں بار بار یہ کہنا کہ اس نے یہ کارٹون بالقصد اور سوچ سمجھ کر اس عقیدے اور ایمان کی ترجمانی کے لیے بنائے ہیں کہ اسلام کے نبی محمد a واقعی دہشت گرد، دہشت گردی کے معلم اوّل اور اس مذہب کے بانی تھے جس کی بنیاد ہی دہشت گردی پر ہے۔ نیز یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایسی فلموں کی تیاری اور نمایش جن سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مغرب کی نسل نو کے ذہنوں میں انتہائی خراب اور قابل نفرت بنتی ہو اور بالآخر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دلوں میں ناپسندیدگی اور عداوت پیدا ہوتی ہو اور یہ یقین راسخ ہوتا ہو اور یہ تصوّر عام ہوتا ہو کہ مسلمان وحشی، درندہ صفت اور غیر مہذب اور نا آشنائے رواداری و ملن ساری لوگ ہیں اور اسلام دُور اَزکار اور فرسودہ مذہب ہے جو آج کی دنیا میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ یہ اور اس طرح کی ان گنت باتیں اور اقدامات جو مغرب اور امریکہ کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بے تکان کیے جارہے ہیں اور ایک کے بعد دوسرا شوشہ چھوڑا جارہا ہے اور ایک کے بعد دوسری حکمت عملی روبہ عمل لائی جارہی ہے اورکسی وقت ٹھہرنے، سانس لینے، ذراسا وقفہ دینے کی نوبت نہیں آتی۔ ان ساری باتوں کا مقصد وہی ایک کے بعد دوسرا محاذ کھولنا ہے، تاکہ مسلمان اس میں بری طرح اُلجھے رہیں کہ دفاع کے سوا ان کے پاس اقدام کی کوئی فرصت نہ ہو اور تعمیر جہاں، خلافت ارضی، جہاں بینی، اصلاحِ انسانیت اور افادئہ عام کا وہ کام نہ کرسکیں جو ان کے دینی وجود، عقائدی ساخت اور خیر امت کی حیثیت سے ان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے۔ یہاں ہم مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا ہے کہ حق کے خلاف باطل کی سعی پیہم، محاذوں کی تکثیر اور معرکوں کی تنوّع کاری کوئی نئی بات تھی، نہ ہے، اور نہ آئندہ ہوگی۔ باطل کے ضمیر کی گہرائی میں اپنی فیصلہ کن آخری شکست کاایک جاوداں یقین موجود ہوتا ہے اور اس کے لاشعور میں اس کا واضح شعور محوعمل رہتا ہے کہ اس کی ’’تعمیر‘‘ میں خرابی کی ایک صورت ضرور مضمر ہے، اس لیے وہ ہمہ وقت حق سے لرزاں اور ترساں رہتا ہے اور اس کے خلاف تگ و تاز کی ایسی کھیپ بروئے کار لاتا ہے، جو اس کے نزدیک مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے حق کی کوششوں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ حق کو اپنے حق ہونے کا یقین اور نتیجتاً دیر یا سویر آخری فتح سے بہرہ یاب ہونے کا واضح احساس، اس کو جدوجہد کی آخری حد پار کرلینے سے روکے رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ قدرے مطمئن اور فارغ البال رہتا ہے، جو جہد وعمل کی اس خاکی دنیا میں مناسب نہیں، اسی لیے بعض دفعہ وقتی طور پر ہی سہی باطل ’’جیت‘‘ اور حق ’’ہار‘‘ جاتا ہے جو عام اور ظاہر بیں لوگوں کے لیے نہ صرف دور رَس نتائج کا حامل ہوتا ہے، بل کہ بڑی آزمائش کا ذریعہ بھی ہوتاہے۔ باطل کی یہ تکثیری اور تنویعی پالیسی اسی پالیسی کا تسلسل ہے جو اس نے اسلام کے آغاز میں اس کو نیست و نابود کردینے کے لیے اپنائی تھی۔ قریش نے اسلام کو اس کی گود یعنی مکہ مکرمہ، اس کے تکوینی دور یعنی مکہ مکرمہ کے اس کے ۱۳؍ سالہ دورانیے، پھر اس کے دار اور اس کی جائے قرار یعنی دور مدینہ منوّرہ اور اکناف بلاد عرب میں اس کی ترویج کے پورے سفر میں ترغیب و تخویف، ایذا و تعذیب، ملک بدری و دیس سے بہ جبر اخراج، لڑائی اور نسل کشی، مثلہ کرنے اورکلیجہ چبانے کے عمل، سازش و بلاک بندی، پروپیگنڈہ اور جھوٹ سچ کی صنعت گری اورہر تدبیر کے ذریعے اسلام کی یقینی، عیاں اور روز روشن کی طرح واضح پیش قدمی کی راہ روکنے کی کوشش (جس کا ریکارڈ میں آنے والی تفصیل سے سیر و مغازی اور اسلامی تاریخ کی متعدّد الاجزا کتابیں بھری ہوئی ہیں) کے ذریعے کون سا حربہ ہے، جس کو اس نے نہیں برتا اور کون سی کوشش ہے جس کو اس نے آزمانے سے گریز کیا ہے؟۔ قریش اور ان کے ہم عصر و ہم مذہب و شریک درد مشرکین کے لیے کسی نہ کسی درجے کی جیت، خواہ وقتی سہی، اسلام کے سیل رواں کو روک دینے کے لیے- جوہر رکاوٹ کو عبور، ہرچٹان کو پاش پاش اور اس کی راہ میں کھڑی کی گئی ہر پرشکوہ دیوار کو پار کر کے، ہر ’’خس و خاشاک‘‘ کو بہائے آگے بڑھتا جارہا تھا- حاصل ہوسکتی تھی۔ اگر اس سیل رواں کا جاری کنندہ محمد a کے سوا کوئی اور شخص ہوتا، جن کی ثابت قدمی سے پہاڑ ناآشنا اور جن کی حوصلہ مندی اور صبر سے چونٹیاں بھی نابلد اور جن کے جوش و جذبے اور زور آوری و روانی سے کسی سیل کو بھی سابقہ ہوا اور نہ ہوگا۔ آپ کی ثابت قدمی کے سامنے کفر و شرک اور ظلم و جارحیت کی ساری طاقتیں ڈھیرہوگئیں اور ان کا لشکر جرار، بے پناہ سامانِ ضرب و حرب، تدبر و تفنن، مکر و دَسیسہ کاری، نفاق اور دہرا پن (اسلام کے خلاف ان کی ساری عسکری و غیرعسکری جنگوں میں جن کے ذریعے انہوں نے اسلام کو دوڑایا) انہیں کچھ کام نہ دے سکا اور نازک سے نازک گھڑی میں بھی وہ اسلام کے جن کو بوتل میں نہ کرسکے۔ تھک ہار کے انھوں نے اپنے ترکش کا آخری تیر آزمانا چاہا، چناں چہ انہوں نے اپنے دارالمشورہ میں جس کو وہ ’’دارالندوہ‘‘ کہتے تھے، یہ طے کیا کہ ہرقبیلے سے ایک ایک پٹھا و توانا و خوب صورت و شریف النسب جوان چنیں گے، ہر ایک کو ایک سیف برّاں تھمادیں گے، یہ سب طے شدہ وقت پر رات کے وقت محمد (a) کے گھر کو آگھیریں گے اورجب وہ گھرسے نکلیں گے تو سب کے سب یک بارگی حملے کے ذریعے ان کا کام تمام کردیں گے، اس طرح شرکی شاہ کلید اور فتنے کے سرچشمے سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل جائے گا، روز روز کا دردِ سر ختم ہوجائے گا، محمد(a) کا خون سارے قبائل میں تقسیم ہوجائے گا، بنی عبد مناف سارے قبائل سے انتقام کی تاب نہ لاسکیں گے، سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹ پائے گی۔ انہوں نے اپنے زعم میں بڑی کامیاب تدبیر سوچی تھی اور اپنے ترکش کے آخری تیر کو آزمانے کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ بھی ان کی گھات میں لگا تھا۔ اللہ نے اپنے پیغام رساں فرشتے حضرت جبرئیل m کے ذریعے اپنے نبی محمد a کو مطلع کردیا کہ اہل قریش اب یہ کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا آج رات تم اپنے بستر پر مت سوؤ۔ اللہ کے سًُجھاؤ کے بہ موجب سرکارa  ان کے درمیان سے گزرے اور دروازے سے ان کے جتھے کے بیچ سے نکلے، لیکن اللہ کی حکمت سے آپa کے نکلنے کی انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اللہ نے انہیں اپنے نبی کے دیکھنے سے نابیناکردیا اور ایک مٹھی مٹی پر سورئہ یٰسین کی بعض آیتیں پڑھ کے پھونک کر ان کے سروں پر پھینک دی تو وہ ان میں ہر ایک کے سرپر جاپڑی۔ الغرض ’’شکار‘‘ ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ لیکن باطل کے یہ تجربہ کار نمایندے اور شرک و کفر کے یہ نام ور علم بردار و تاج دار تھک ہار کے بیٹھ نہیں گئے، بلکہ انھوں نے اپنے ’’شکار‘‘ کا اس کے آخری اور مستحکم و محفوظ کچھار تک پیچھا کیا اور محمدa اور ان کے دنیا و آخرت کے ساتھی ابوبکر (q) کو زندہ یا مردہ پکڑلے آنے والوں کے لیے اتنا بڑا انعام مقرّر کردیا جو اس وقت کی دنیا کے ماضی و حاضر کی تاریخ کا سب سے قیمتی اور ناقابل فہم تصوّر انعام تھا، یعنی سو سرخ اونٹ کا انعام، عرب میں سرخ اونٹ کم یاب بلکہ نایاب تھے، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قریشیوں نے کتنا گراں قدر انعام رکھا تھا! اس زبردست انعام نے قریش کے طاقت ور و خوش قامت شخص ’’سراقہ بن جعشم‘‘ کو بری طرح ورغلایا کہ وہ حصولِ انعام کے ساتھ تاریخی شہرت اور پایندہ تذکرے اور وسیع تر عربی معاشرے میں اس نیک نامی سے فائز المرام ہونے کے لیے کہ اس نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے عربی ہاشمی ’’مجرم‘‘ اور اس کے وفادار رفیق و ہم راز کو پکڑلانے کا شرف حاصل کیا ہے، محمد a کی گردِ راہ کو پانے کے لیے بے تاب ہوگیا، چناں چہ اس نے تیر و کمان لیے، تلوار کا پرتلا لٹکایا اور تاریخ کی ابدی سمت کی طرف محوسفر دونوں عظیم مسافروں کے نقوشِ قدم کی پیروی کرتا ہوا اُن کا پیچھا کرنے کو مکہ سے روانہ ہوا، اس سمت کے عظیم مسافروں کا پیچھا کرتا ہوا جس کی ابتدا اور انتہا کو صحیح معنی میں خالق کائنات کے سوا کوئی نہیں جانتا، جو ہر چیز کا مبدا اور منتہاہے، اس مرکز کی طرف سفر کرنے والے دونوں عظیم مسافروں کا پیچھا کرتا ہوا، جو حق کی مکمل اور آخری فتح اور باطل کی فیصلہ کن شکست کا نقطہ بننے والاتھا۔ مسکین سراقہ کو یہ پتا نہ تھا کہ وہ کوشش ناکام کی سمت میں روانہ ہوا ہے، لیکن اس کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس کی سعی کام یابی سے ہم کنار نہیں ہونے کی، جب ان کے قرعہ اندازی کے تیروں نے اس کو یہ باور کرادیا کہ اس کی اس جدوجہد کی منزل صرف ناکامی ہے، اس سے قبل اس کا گھوڑا دو مرتبہ بری طرح ٹھوکر کھاچکا تھا، جس کی وجہ سے اس کی ٹانگیں زمین میں دھنس گئیں اور سراقہ کی مایوسی اور انقباض کا سبب بن کر اس کے مقصد کے حصول کی راہ کو دھندلانا شروع کرچکی تھیں۔ ناکامی کے یقین کا سایہ جیسے ہی سراقہ کے سامنے گہرا ہوکر خیمہ زن ہوا، اس نے مہاجر اعظم محمدa سے امان کا وثیقہ طلب کیا اور آپ a سے ملاقات کی دستاویز مانگی۔ پھر وہ اپنے نشانِ قدم پر پیچھے لوٹ آیا، اس کی اس سفر سے ناکام رجعت کفر کی آئندہ ہمیشہ، یقینی اور ہرمحاذ پر شکست کی علامت کی حیثیت رکھتی تھی جس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ حق و باطل کی آئندہ کی ساری کشمکشیں باطل کی بے انتہا اور بے طرح شکست پر ہی منتج ہواکریں گی، چنانچہ صنادید قریش کی قائم کردہ بڑی سے بڑی رکاوٹوں کو عبور کرتاہوا اسلام اپنی جاوداں فتح کی طرف سیل تیز رو کی طرح محو سفر رہا اور بالآخر عربوں کی سرزمین میں ہمیشہ کے لیے کفر و شرک کا چراغ گل ہوگیا۔ نورِ اسلام کو بجھانے کی اس کی کوشش خاک میں مل گئی۔ لیکن مشرکین و کفار نے فوراً شکست تسلیم نہیں کرلی اور نہ ہی اسلام کی مزاحمت کے حوالے سے اپنی بے بسی کے اعتراف پر بہ جلد رضامند ہوئے، بلکہ انہوں نے ضد، ہٹ دھرمی اور اپنی مزید ذلت کا سامان بہم پہنچانے کا عمل جاری رکھا۔ گو علیم و حکیم خدا نے یہ چاہا کہ خود انہیں اور ساری کائنات کو اس حقیقت کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرادے کہ وہ ہر محاذ پر، ہر معرکے میں، ہر تدبیر کے ساتھ، ہر تیاری کے باوجود سقوط سے دوچار ہورہے ہیں، جس سے یہ عیاں ہے کہ اسلام کی جیت جہاں محض ’’خود کار‘‘ اور صرف غیبی طاقت، الٰہی قدرت اور ربانی مدد ہی کا فیضان نہیں، وہیں کفر کی شکست بھی محض تقدیر الٰہی اور خدائی ارادے کی دین نہیں، بلکہ اسلام اور کفر کے مابین کشمکش اور کھلے ہوئے مقابلے کی اس سنت پر دونوں حقیقتیں مبنی ہیں، جو خدانے اپنی حکمت کے تحت وضع کی ہے۔ یہی سنت اور اٹل خدائی قانون اس بات کا متقاضی ہوا کہ کفر‘ اِسلام کی کامیاب مزاحمت نہ کرسکے اوراس کا کام تمام کردینے کی وہ کوئی چال نفع بخش طور پر نہ چل سکے، بلکہ ہر سامان کے باوجود بے سر و سامان ثابت ہو، لیکن پاس دارانِ باطل نے حق پر فتح پانے کے لیے اپنی جان توڑ کوشش میں کوئی کمی نہیں کی، چشم کائنات نے مشاہدہ کرلیا کہ باطل کے ناخدا بھی بہت سے طوفانوں سے نبرد آزما ہوئے اور حق کی طرح باطل بھی جسم و جاں پر ان گنت زخم کھاکر ہی حق سے شکست کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوسکا تھا۔ تاریخ نے حق سے مقابلے کے معرکے میں اس کی جان کی بازی لگادینے کو اچھی طرح ریکارڈ کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ریکارڈ کیا ہے کہ اہل باطل اپنے باطل اور عقیدے کو حق صریح سے زیادہ سچ، سچائی سے زیادہ تاب ناک اور اپنے افسانے کو حقیقت سے زیادہ کھرا اور محسوس وجود کا مالک سمجھتے ہیں اور اپنے باطل کی راہ میں بعض دفعہ اس درجہ مارنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں کہ اہل حق‘ حق کے لیے بھی نہیں ہوتے۔ بدر، احد، خندق، تبوک اورحنین وغیرہ بڑی اور چھوٹی جنگیں اہل باطل کے باطل پر اصرار اورحق کے مسلسل اور آخری حد تک انکار کی واضح علامتیں ہیں۔ سازشوں کے رَچنے، بلاک بندیوں کا عمل کرنے، گٹھ جوڑ کے لیے فن کاری دکھانے اور شبانہ روز کی تگ و دو میں اہل باطل نے اپنی ہمت کا جو ثبوت پیش کیا وہ باعث عبرت بھی ہے اور جائے حیرت بھی۔ انہوں نے آخری طور پر اپنے بال و پر کے کترجانے کا اعتراف تب کیا، جب نبی خاتم محمد a نے انہیں ان کے گھر اور اصل قلعے مکہ مکرمہ میں انہیں جادَبوچا اور ان کے لیے جائے رفتن رہا نہ پائے ماندن، لیکن نبی رحمت (a)نے انہیں یک لخت معاف کردیا اور انہیں آزادی اورکسی بھی مؤاخذے سے مکمل چھٹکارے کاپروانہ عطا فرمادیا۔ ہجرت کا عظیم واقعہ ہر سال ہمیں ثبات و اصرار کے ان بہت سارے معانی کی یاد دلاتا ہے، جنہیں ہمارے پیارے نبیa نے اپنے قول و عمل کے جامع ترین اورہمہ گیر اُسوے سے برپا کیا۔ آپa نے اپنی زندگی کے مکمل سفر میں ہرکردار سے ثابت قدمی، عزم راسخ اور استقامت و استقلال کا نمونہ پیش کیا۔ آپa نے کبھی کمزوری دکھائی، نہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے، نہ باطنی شکست سے دوچار ہوئے، نہ معنوی ہار کا احساس کیا، نہ ذہنی سقوط کو تسلیم کیا اور نہ کسی بھی مرحلے میں یہ سوچا کہ کفر اور اس کے ہم نواؤں کے شر و فساد، مکاری و چال بازی، دانائی و ہوشیاری اور تاریک رات میں بھتنیوں کے ناچنے سے زیادہ بری طرح موت کے رقص والی جنگوں میں ان کے اپنے سارے جگر پاروں کے ڈال دینے کے عمل کو عبور نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ یہ اہل کفر اپنی ہمت و حوصلے سے ناقابل تسخیر محسوس ہوتے ہیں، اس لیے ان سے مزاحمت کرکے اپنی جان، اپنے مال، اپنے سامان اور اپنے وقت کا ضیاع کوئی عقل مندی کی بات نہیں، اس لیے ان کی جیت کو تسلیم کرکے کام کی بساط لپیٹ کر کسی اورموقع اور خدائی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے!۔ رسول خداa آغازِ سفر سے انجام سفر تک ٹھوس ارادے، ناقابل تسخیر صبر، نا آشنائے کمزوری، ثابت قدمی اور بے مثال اولوالعزمی کے ساتھ سرگرم عمل رہے۔ ہر طرح کی تکلیف سہتے رہے۔ ہفتہ، مہینہ اور سال دو سال نہیں، بلکہ سال ہا سال تک، یہاں تک کہ رفیق اعلیٰ سے جاملے، لیکن وفات سے قبل ہی آپa نے اپنی آنکھوں سے اپنے جہد و عمل اور صبر و ثبات کا میٹھا پھل چکھ لیا کہ اللہ نے اپنی روشنی کی تکمیل کردی اور باطل کے فرزندانِ وفاکیش اس کو اپنے مونہوں سے بجھا نہ سکے۔ آج کی رات کل کی رات سے کتنی مشابہ ہے؟ کفر کے سارے پنڈے، باطل کے سارے بندے اور شیطان کے سارے تلامذہ پوری دنیا میں آج اسلام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، امریکہ ان کا قائد بنا ہوا ہے، عالمی صہیونیت انہیں ہدایت دے رہی ہے، صہیونیت زدہ مسیحیت اور عالمی صنم پرستی، اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ سب کے سب آج اپنے سرکش دشمن یعنی اسلام پر ایک جوٹ ہوکر ٹوٹ پڑے ہیں۔ وہ ذلت، خواری اور جگ ہنسائی کے باوجود پشت پھیر کر نہیں بھاگ رہے اور اپنی شکست نہیں مان رہے، تو محمد  a کے سپاہیوں یعنی مسلمانوں کو زیادہ لائق ہے کہ وہ سپرد انداز ہوں، نہ ہار مانیں، نہ کمزور پڑیں، نہ سستی دکھائیں اور نہ ان کی مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کی سوچیں، یہاں تک کہ انہیں اپنے ’’بلوں‘‘ میں چلے جانے اور اپنی ہار مان لینے پر انہیں مجبور کردیں۔ یہ تب ہوگا جب انہیں کاری زخم لگے گا، ان کے ضمیر کو صدمہ پہنچے گا اور جان و مال کا اتنا خسارہ انہیں لاحق ہوگا جس کے بعد انہیں زیاں کے احساس پر مجبور ہونا پڑے گا، لہٰذا اے مجاہدین حق! اے جنود محمد!اے بحر و بر میں جاہلیت اور باطل کے فرزندوں سے برسرپیکارو! تم جمے رہو، ڈٹے رہو، ثابت قدم رہو اور زخم کھاکر، عذاب جھیل کر، تکلیف سہہ کر حق کی پاسبانی سے پیچھے ہرگز نہ ہٹو۔ تقویٰ، خوف خدا کے ساتھ تمہاری مورچہ بندی کے سامنے کسی کا بس نہ چل سکے گا۔ مدد خداکی دین ہوتی ہے، بشرطیکہ تم مدد کی شرط پوری کرلو۔ دشمنانِ خدا کو خوف زدہ کرنے والی تیاری، حکمت عملی اور انہیں ہزیمت دینے والی جرأت تمہارا سب سے بڑا، پہلا اور کارگر ہتھیار ہے، جس کے سامنے باطل کے پاسباں پہلے کبھی ٹھہرے ہیں، نہ آج ٹھہرسکیں گے۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو اوراس کی توفیق تمہاری ہم رکاب ہو۔ ٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین