بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اور پاکستان کے خلاف اِک عالمی قانونی وار اور اس کی واقعاتی و آئینی وضاحت

اسلام اور پاکستان کے خلاف اِک عالمی قانونی وار

اور اس کی واقعاتی و آئینی وضاحت


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت نے دینِ اسلام کے مقابل نیا دین اور مذہب گھڑا، قادیانیت ہر اعتبار سے دینِ اسلام کے متوازی ایک جماعت ہے، اس لیے کہ انہوں نے قرآن کریم کے مقابل نئی کتاب، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقابل نیا نبی، حتیٰ کہ ہر دینی شعار کی جگہ جداگانہ شناخت اپنائی، لیکن مسلمانوں کو دینِ اسلام سے برگشتہ کرنے اور انہیں مرتد بنانے کے لیے خواہ مخواہ اپنے کو احمدی مسلمان کہلانے پر مصر ہیں، حالانکہ کسی ایک بات میں بھی یہ مسلمانوں سے اشتراک نہیں رکھتے، اس لیے پاکستان کی قومی اسمبلی نے تمام تر آئینی اور جمہوری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قادیانی جماعت کو پورا پورا موقع دیا کہ وہ اپنا رشتہ مذہب اسلام سے ثابت کریں اور دیگر اسلامی فرقوں کی طرح ایک مسلمان فرقہ ہونا ثابت کریں، مگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، جس کے بعد وطن عزیز کے آئین ساز ادارے نے قادیانی جماعت کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور ان کے لیے غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق مختص کردیئے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ آئین کو مانتے ہوئے پاکستان کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرتے، اُلٹا انہوں نے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان کے لیے ہر مرحلہ پر مشکلات میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ حال ہی میں انہوں نے اقوامِ متحدہ میں ایک قرارداد دائر کی، جس پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قانونی مشیر نے کئی اعتراضات لگاکر اقوام متحدہ کو بھیجے، چونکہ یہ تمام تر کارروائی انگلش میں تھی، اس کا اردو ترجمہ قارئین بینات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، پہلے قادیانیوں کی قرارداد اور پھر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے اس قرار داد پر کیے گئے اعتراضات کو ملاحظہ فرمائیں:
’’مؤرخہ ۶؍ جون ۲۰۱۹ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس میں قادیانیوں کی طرف سے ایک قرارداد جمع کرائی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ:’’ احمدیہ مسلم کمیونٹی پاکستان میں بڑی مشکلات میں ہے اور ان کو مذہبی طور پر دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ان کے خلاف نفرت انگیز باتیں کہی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے دھمکیاں، خوف اور جان جانے کے خطرات پاکستان میں قادیانیوں کے لیے ہیںا ور بہت ساری دفعات جو کہ رپورٹ نہیں اور پولیس نے جھوٹے کیس احمدیوں کے خلاف بنائے اور اس یقینی موت کی دھمکی کے سبب بہت سارے احمدی سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بعض احمدی سیاسی پناہ طلب کررہے ہیں، جیسے: یوکے، کینیڈا، امریکا اور بہت سے یورپی ممالک میں اور کچھ پاکستان کے احمدی ہیں۔ جب ۲۰۱۰ء میں لاہور میں حملہ ہوا، جس میں ۸۶  احمدی ۲ عبادت گاہ میں مار دیئے گئے۔ اس خوف سے بہت سارے قادیانی پڑوسی ملکوں سری لنکا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں چلے گئے۔ کچھ کو وہاں ریفوجی کا حق دیا گیا، لیکن وہاں ان کو شہریت کا حق نہیں دیا گیا اور وہ عرصہ تیس سال سے اس امید پر وہاں رہ رہے ہیں، لیکن تھائی لینڈ اور ملائیشیا نے کہا ہے کہ ۱۹۵۱ء کے اقوام متحدہ کنونشن اور ۱۹۶۷ء کے پناہ گزین قرارداد کے مطابق نہیں ہیں اور ہم بغیر قانونی حیثیت کے پناہ گزینوں کو گرفتار کرلیں گے یا آپ کو واپس اپنے ملک بھیج دیں گے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ۱۲۰۰  احمدی پناہ گزین تھائی لینڈ میں ہیں، ان ممالک کو ہدایت دیں کہ ان کو پناہ دی جائے اور اس اپیل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہماری عبادت گاہوں پر، ہمارے کاروبار پر آئے دن حملے ہوتے ہیں، ہمیں کاروبار کرنے کی آزادی نہیں ہے، انہوں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ احمدی مسلم کمیونٹی کو ایک خصوصی حیثیت دی جائے جو کہ تیس سال سے مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں اور احمدیوں کو مستقل بنیادوں پر خاص طور پر ستم رسیدہ مرد اور عورتوں اور بچوں کو تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں مستقل شہریت دی جائے اور اس کے علاوہ بین الاقوامی برادری ہمیں اس مصیبت اور مظلومیت کا حل نکالنے میں مدد کرے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل احمدیوں کا مقدمہ اولین طورپر اور یقینی بنائے، سری لنکا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں مستقل شہریت کا بندوبست کرے۔ پاکستان توہین رسالت اور قادیانیوں سے متعلق قانون کو ختم کرے اور اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا خیال کرے۔‘‘
قادیانیوں کی اس قرارداد کے بعد اب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قانونی مشیر کی طرف سے اس قرارداد پر اُٹھائے گئے اعتراضات ملاحظہ ہوں: 
"Coordination des Associations et des Particuliers pour la Liberte de Conscience"
کی تحریرکے جواب میںعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے اعتراضات جمع کرائے گئے۔ مذکورہ بالا ایک غیر سرکاری تنظیم ہے ، جس کے پاس انسانی حقوق کی حفاظت سے متعلق ایک خاص مشاورتی درجہ ہے۔ ان کی تحریر کا ریفرنس نمبر’’اے/ایچ آر سی/این جی او‘‘ بتاریخ چھبیس جون ہے۔

(2019  26 June۔A/HRC/41/NGO/153:Reference No)

اپنی تحریر بتاریخ چھبیس جون ،ریفرنس نمبر’’اے/ایچ آر سی/ این جی او‘‘سے رجوع کریں، جو اقتصادی اور سماجی کونسل سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے متعلق جاری کی گئی۔ہمارے اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں:
۱:-آپ نے اپنی تحریر میں’’مسلم احمدیہ برادری‘‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں،جو کہ ہر اعتبار سے ایک نامناسب بات اور نامناسب الفاظ ہیں ،کیونکہ آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل (۲۳۰-۳) میں مسلمان اور غیرمسلم کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے:
’’مسلمان اس شخص کو کہتے ہیں، جو اللہ رب العزت کی وحدانیت پر کامل ایمان رکھتا ہو، جو حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختم نبوت والی صفت کو مکمل جانتا ہو اور اس پر کامل اور پختہ ایمان رکھتا ہو،جو اللہ کے آخری نبی ہیں،اور کسی بھی ایسے شخص پرایمان نہیں رکھتا،اور نہ ہی اس کااقرار کرتا ہے، بحیثیت نبی کے یا دینی مجدد کے،جو اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد نبی مانتا ہو،اس بات کے ہر ممکن مطلب کے مطابق‘‘اور’’غیر مسلم اس شخص کو کہتے ہیں جو مسلمان نہ ہو،جس میں شامل ہیں عیسائی، ہندو، سکھ،بدھ مت یا پارسی برادری،کوئی شخص جس کا تعلق قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے ہو،جو اپنے آپ کو احمدی یا پھر کسی اور نام سے پکارتے ہوں،یا بہائی، یا کوئی ایسا بندہ جو ہندو برادری کی خصوصی (نچلے طبقہ کی)ذات سے تعلق رکھتا ہو۔‘‘
لہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کاآئین۱۹۷۳ء احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے،بلکہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا گیاہے، جبکہ انہوں نے اپنے آپ کو بحیثیت اقلیت طبقے یا اقلیت گروپ اندراج نہیں کروایا،لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین نے واضح طور پراحمدیوں کو ایک اقلیت کی حیثیت دی ہے۔ 
۲:-یہ کہ سن ۲۰۰۹ء اور۲۰۱۰ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات ہوئے اور ان دو سالوں میں ۲۴۵دہشت گرد حملے ہوئے۔ان میں سے۷۵ حملے ملک بھر میں دینی اور مقدس جگہوں پر ہوئے ،اور ان میں سے بھی صرف ۱۲مقدس مقامات لاہور میں تھے،جن میں سے صرف ایک جگہ احمدیوں کی تھی، جس میں ۸۶لوگ جاں بحق ہوئے،باقی سب مساجد تھیں، جن میں ۲۱۰سے زیادہ افراد جاںبحق ہوئے۔ان سارے حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پنجاب نے لی، لہٰذا یہ حملے احمدیوں یا قادیانیوں سے کوئی ذاتی دشمنی کا ثبوت نہیں پیش کرتے۔
۳:-یہ کہ ان احمدیوں کے متعلق جنہوں نے ملک سے فرار اختیار کیا، کوئی وضاحت پیش نہیںکی گئی اورنہ ہی کوئی اطلاع دی گئی،اور اب دوسرے ممالک میں پانچ ،چھ سال سے مہاجر کی حیثیت سے رہ رہے ہیںاور نہ ہی ان ممالک یا ریاستوں سے کوئی وضاحت یا اطلاع آئی ہے کہ فلاں احمدی ہمارے ہاں مہاجر کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔
۴:-یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء،جس میں احمدیوں کو ایک اقلیت کہا گیا، حالانکہ احمدیوں نے اس طرح سے اپنااندراج بھی نہیں کروایا، جیساکہ پہلے ذکر کیاگیا۔ احمدی آئین ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۳۶ کی مستقل اور بہت عرصے سے خلاف ورزی کر رہے ہیں۔اس کے نتیجے میںپاکستان کی قابل احترام سپریم کورٹ،آئینی بنچ،نے احمدیوں کو اس خلاف ورزی سے آگاہ کیا ہے اور احمدی/قادیانی اور لاہوری گروپ کو سپریم کورٹ نے آرڈر دیا ہے کہ وہ بمطابق آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنااقلیت کی حیثیت سے اندراج کروائیں۔
۵:-اسلامی جمہوریہ پاکستان کاآئین ۱۹۷۳ء آرٹیکل ۳۶ اس بات کو وضاحت سے پیش کرتا ہے کہ’’ریاست اقلیتوں کے قانونی حقوق اور مفادات کی حفاظت کرے گی،بشمول ان کی صوبائی اور وفاقی سروسز میں نمائندگی کے۔‘‘ لہٰذا پاکستان نے ہر اس شخص کو بڑی وضاحت سے اس کا حق دیا ہے، جس نے اپنے آپ کو پاکستان میں بحیثیت اقلیت اندراج کروایا ہے، لیکن احمدی/قادیانی مستقل پاکستان کی قابل احترام عدالت سپریم کورٹ کے احکامات کا انکار کر رہے ہیں۔
۶:-اسلامی جمہوریہ پاکستان کاآئین آرٹیکل ۳۶اقلیتوں کے حقوق کو مزید بڑھاتے ہوئے، ان کے حقوق کو اسلام کے اصولوں کے مطابق لاگو کرتا ہے، جو قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہیں۔ یہ چیز ان کے حقوق کو ایک مؤثر اور اطمینان بخش طریقے سے یقینی بناتی ہے،کیونکہ دنیا کا کوئی بھی قانونی نظام قرآن اور حدیث سے بہتر نہیں ہے،اور اس بات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی قانون بھی قرآن و حدیث کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔
۷:-پاکستانی حکومت نے آرٹیکل ۳۶میں مزید ترمیم کی ہے، جس کے تحت اقلیتوں کے لیے سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے، تاکہ ان کے حقوق کی مزید حفاظت کی جا سکے،لہٰذا آرٹیکل ’’۳۶[۲]‘‘ کے تحت لوکل کونسل الیکشن کے لیے اہلیت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، بلکہ سب کے لیے ہے۔‘‘اسی لیے یہ ترمیم ایک اسلامی ریاست میں ،جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے،اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے نافذکی گئی ہے، ورنہ الیکشن میں منتخب ہونے کا ان کو موقع کبھی بھی نہ ملتا۔یہ سارا قانون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کاآئین۱۹۷۳ء آرٹیکل ۳۶ کس قدر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے ،لیکن پھر بھی احمدی اپنا اندراج ایک اقلیت کی حیثیت سے نہیں کرواتے۔
۸:-اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کا آرٹیکل ۲۰ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اقلیتوں کواپنے دین پر عمل کرنے کی اور عبادت گاہوں کو قائم اور برقرار رکھنے کی اجازت ہے۔ آرٹیکل ۲۰ کے تحت:
’’ہر فرد کے پاس حق ہو گا کہ وہ اپنے دین پر عمل کرے اور اس کی تبلیغ کرے۔‘‘
’’ہر قسم کے فرقے کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ وہ اپنی عبادت گاہ بنائے اور اس کو چلائے۔‘‘
۹:-اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کا آرٹیکل ۲۰ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اقلیتوں کواپنے دین پر عمل کرنے کی اور عبادت گاہوں کو چلانے اور برقرار رکھنے کی اجازت ہے۔ اور مزید یہ آرٹیکل ۲۰ احمدیوں کی دینی آزادی کے بارے میں خصوصی طور پر سائنوپسسکشن (۴۔۴/۲) میں وضاحت کرتا ہے کہ’’کسی لحاظ سے بھی (پاکستان کی )قانون سازی، احمدیوں کی دینی آزادی پر اثرانداز نہیں ہوتی،کیونکہ یہ قانون احمدیوں کو صرف ان صفاتی الفاظ کو استعمال سے منع کرتا ہے، جس سے ان کی کوئی دینی مناسبت نہ ہو، لیکن وہ اپنی پسند کے اوردیگرصفاتی الفاظ واصطلاحات بنا سکتے ہیں۔ دوسری اقلیتوں کی طرح احمدیوں کو بھی اپنے دین پر چلنے کی کھلی اجازت ہے اور یہ حق ان سے کسی بھی قانون یا ایگزیکٹو آرڈر کے تحت نہیں لیا جا سکتا، لیکن احمدی اس بات کے پابند ہیں کہ وہ آئین اور قانون کی اطاعت کریں،اور کسی دین بشمول اسلام کی مقدس اور متقی ہستیوں کی شان میں گستاخانہ اور بدنام کرنے والے الفاظ نہ استعمال کریں، نہ ہی وہ مخصوص اسلامی الفاظ یا القاب یا عنوانات اسلامی استعمال کریں، اور مزید وہ خصوصی الفاظ جیسے مسجد بھی نہ استعمال کریں اور نہ ہی اذان دیں، تاکہ مسلمانوں کی ایذا رسانی نہ ہو،اور لوگ دین کے اعتبار سے گمراہ نہ ہوں، نہ دھوکہ میں پڑجائیں۔‘‘
۱۰:- پاکستان میں احمدی، مسلمانوں کو اپنے دین سے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پینل کوڈ ۱۸۶۰(ایس۲۹۸۔بی اور۲۹۸سی)کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے مطابق’’کوئی برادری ، چاہے وہ کتنی ہی منظم،امیر اورمعاشرے میں بااثرکیوں نہ ہو، اس کو اجازت نہیں کہ دوسرے کے دین اور حقوق سے اس کو گمراہ کرے، اس کی جائیداد پر قبضہ کرے، یا پھر جان بوجھ کر اور جانتے ہوئے ایسے کام کرے یا ایسے اقدام کرے ،جن سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔‘‘
۱۱:-پاکستان میں احمدی، مسلمانوں کو اپنے دین سے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس حوالے سے انہوں نے واضح طور پر ۱۹۸۴ء کے آرڈیننس ۲۰ (یو/ ایس ۲۹۸ ترمیم شدہ سیکشن ۲۹۸ بی اور ۲۹۸سی، پی پی سی۱۸۶۰)کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے مطابق’’کسی کا قادیانیوں کے لیے کوئی دعویٰ کرنا،یا قادیانیوں کے لیے کوئی پیش گوئی کرنایااپنے آپ کو جھوٹ سے قادیانی ظاہر کرنا،یا قادیانیوں کی نمائندگی کرنا،بغیر قادیانیوں کے دین کی حقیقت کو اعلانیہ بیان کیے ہوئے،تو ایسا کرنا ناصرف قانون کی خلاف ورزی ہے، بلکہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘‘
۱۲:-قابل احترام سپریم کورٹ آف پاکستان نے اور ہائی کورٹ نے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۳۶ کے نکات کی وضاحت کی ہے، جوکہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق ہے،اور یہ کہا ہے کہ اب تک نہ صرف احمدی/قادیانی آرٹیکل۲۶۰[۳]کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،بلکہ اپنے آپ کو بحیثیت اقلیت اندراج نہ کروا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل۳۶ کی بھی مستقل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
۱۳:-قابلِ احترام سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائیکورٹ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۲۰ کے سیکشنز۲۹۸ بی اور ۲۹۸سی کی خلاف ورزی سے متعلق،کسی قسم کا ردعمل اختیار کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ ان سیکشنز کے تحت’’دینی آزادی کی وجہ سے قانون کی خلاف ورزی کی، یا عوامی امن و سکون کو خراب کرنے کی اجازت نہیں ہے‘‘، اور مزید یہ کہ’’دین پر چلنے کی آزادی کا اصول یہ ہے کہ ریاست کسی کو بھی،اپنے دینی حقوق کو حاصل کرنے میںکسی دوسرے شخص کے حقوق کو پامال کرنے کی یا اس کے حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتی، اور یہ بھی کہ کسی شخص کو (اپنے دین کے علاوہ) کسی دوسرے کے دین کی توہین، بے عزتی یا خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں ہے، خصوصی طور پر اگر یہ عمل ملکی امن و امان کے خلاف ہو۔‘‘
۱۴:-پاکستان نے ہمیشہ اقلیتوں کی ان کے اپنے رہائشی علاقوں میں ان کے حقوق کی حفاظت کی ہے، اور ہمیشہ قانون کی پابندی کی ہے، اور کبھی بھی پاکستان کاکسی اقلیت پر، جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت اندراج شدہ ہیں،توہین رسالت کا کوئی بھی جھوٹا الزام لگانے کا جرم ثابت نہیں ہوا۔
۱۵:- جب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کاآئین ۱۹۷۳ء رو بہ عمل میں آیا ہے، اس وقت سے کسی بھی اقلیت کی طرف سے، ان کی حفاظت سے متعلق ،کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور اسی لیے احمدیوں/ قادیانیوں نے کبھی بھی اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے دین اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے میں ملوث رہے ہیںاور اس بات کا قابل احترام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے پورے پاکستان میں نوٹس لیا ہے۔
۱۶:-احمدیوں کے اپنے نظریہ کے مطابق،اورسیکشنز۲۹۸بی اور۲۹۸سی کی خلاف ورزی کی روشنی میں، یہ بات تو واضح ہے کہ احمدی لوگ اوران کے علاوہ مسلمان کہلانے والی اُمت مسلمہ، دونوں ایک وقت میں مسلمان نہیں ہو سکتے،اگر ان میں سے ایک جماعت مسلم ہے تو پھر دوسری نہیں ہو سکتی،اس کے برعکس احمدی اپنے آپ کو پاکستان میں مسلمان کی حیثیت دلوانے کی مستقل کوشش کر رہے ہیں۔ان کا یہ عمل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کے مطابق نہیں ہے ،جس میں ان کو ایک غیر مسلم/اقلیت قرار دیا گیا ہے،لہٰذا بغیر کسی پروپیگنڈا کے ،مسلمانوں کی بنیادی اوربڑی جماعت کو ہی مسلمان کہا جائے گا، کیونکہ وہ مسلمان لفظ کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں، پاکستان میں بھی اور باقی دنیا میں بھی۔
۱۷:-احمدیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اپنے آپ کومنفرد کیا جائے، اور اپنے آپ کو ایک ایسا درجہ دلوایا جائے جو دوسری سب قوموں سے مختلف اور نمایاں ہو۔ ایک دینی گروہ کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی مخالفت کی ہے، اور ان کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو، بلکہ انہوں نے حقیقت میں ساری مسلم امت کو کافر قرار دیا ہے، لیکن ایک اقلیت ہونے کی وجہ سے وہ اپنا یہ دعویٰ مسلط نہیں کر سکے۔
۱۸:-احمدیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ا پنے آپ کودینی اور سماجی اعتبار سے ایک منفرد مقام دیا جائے، وہ اپنا مقصد حاصل کرنے پر خوش ہوتے، خصوصی طور پر اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کاآئین یہ حق ان کو قانونی طور پر دیتا۔ان کی سب سے بڑی مایوسی یہی ہے کہ یہ قانونی طور پر ساری دنیا کے مسلمانوں کو کافر اور اپنے آپ کو مسلمان کا لیبل نہ لگوا سکے، لہٰذا وہ شاید اسی لیے مایوس ہیں کہ اب وہ کامیاب طریقہ سے اپنا کام نہیں کر پا رہے،یعنی کہ کم علم رکھنے والے مسلمانوں کو دعوت دے کر قادیانی بنانا۔
۱۹:-احمدی لوگ،پاکستان اور دنیا بھر میں،مسلمانوں کواپنے دین سے گمراہ کرنے کے لیے پروپیگنڈا کر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ اپنی ریاستوں کو چھوڑو اور ہمارے پاس آ جائو، جب کہ اس عمل سے تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ احمدی جہاں کہیں بھی رہتے ہیں، اس جگہ پراپنا ہی ایک گروپ اوراپنی منفرد سوسائٹی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ جس طرح سے وہ چاہیں، ان کو دینی لحاظ سے استقامت مل سکے، لہٰذا پاکستان میں ان کے اس گمراہ کن ردعمل کاقابل احترام سپریم کورٹ آف پاکستان نے اور ہائی کورٹ نے پاکستان بھر میں صحیح طرح سے نوٹس لیا،اور اسی لیے قادیانی پاکستان میں اپنے دینی پروپیگنڈے کوکم کرنے اور چھپ کر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
۲۰:-جب احمدیوں نے یہ دیکھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو رہے،انہوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے نئی سرزمینیں ڈھونڈنا شروع کر دیں،لیکن مسلمانوں نے،چاہے پاکستان کے رہائشی ہوں یابیرون ممالک کے،ہمیشہ اپنے دین کی بقاء کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں،اور اسی لیے پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ سے دوسرے ملکوں میں آباد مسلمانوں کو اس فتنے اور پروپیگنڈے سے آگاہ کیا ہے۔
۲۱:-جب احمدیوں نے دیکھا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام ہو رہے ہیں،انہوں نے ہر جگہ یہ بات پھیلانا شروع کر دی کہ پاکستان نے ان کو حقوق نہیں دیئے، لہٰذاجوقرارداد احمدیوں نے آپ کی اسمبلی میں پیش کی ہے ،اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین سے گمراہ کیا جائے۔
۲۲:-ایک بہت اہم نکتہ آپ کی معزز اسمبلی میں نوٹ ہونا چاہیے کہ ماضی میں یا حال میں، احمدیوں نے مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم کو اپنے دین سے گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کی،کسی اور دینی مذہب نے اس کی آج تک شکایت نہیں کی کہ احمدیوں نے ان کو دین سے گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے،اس کے برعکس احمدی ہمیشہ مسلمانوں کو ہی گمراہ کرتے پائے گئے ہیں۔
۲۳:-ہمارا یہ اعتراض اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ احمدی اس چیز کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح سے مسلمانوں کی ظاہری علامتوںکوبرقراررکھیںاوراپنے مشکوک مذہب اور مؤقف کواسلام کا لیبل لگوا دیں،اوراس معاملے میںان کا ہمارے موقف سے انحراف قابل فہم ہے، جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ان کی قرارداد کی راہ میں رکاوٹ ہے، کیونکہ ہمارا یہ اعتراض آئین کی تائید کرتا ہے،اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ،کسی کا قادیانیوں کے لیے کوئی دعویٰ کرنا،یا قادیانیوں کے لیے پیش گوئی کرنا، یااپنے آپ کو جھوٹ سے قادیانی ظاہر کرنا،یا قادیانیوں کی نمائندگی کرنا، بغیر قادیانیوں کے دین کی حقیقت کو اعلانیہ بیان کیے ہوئے،تو ایسا کرنا نہ صرف ہمارے اس اعتراض کی خلاف ورزی ہے، بلکہ آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں اور دوبارہ بھی ہو سکتے ہیں، اور ماضی کی طرح امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کا بھی ذریعہ بن سکتے ہیں۔
۲۴:-پاکستان اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ، احمدیوں /قادیانیوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی، اگر وہ اس بات کی یقین دہانی کرا دیں کہ:
’’وہ اپنے آپ کو بحیثیت اقلیت اندراج کروائیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل۲۰ آرٹیکل۲۰ [بی] آرٹیکل۲۰ سائنوپسس سکشن۴(۴۔۲)،آرٹیکل۳۶آرٹیکل۳۶[۲]اور آرٹیکل ۲۶۰ (۳) پر عمل کریں گے۔‘‘
’’وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے گمراہ کرنا چھوڑ دیں گے اور مسلمانوں کے دین ، اوراحمدیوں کی اپنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل۲۰ سائنوپسس سکشن ۴ (۴۔۲) کی خلاف ورزی ،کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلانا چھوڑ دیں گے۔
وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۳۶،۳۶ [۲] اور ۲۶۰ [۳] اور پی پی سی ۱۹۸۰ء کے سیکشنز۲۹۸بی اور۲۹۸سی کی آئندہ خلاف ورزی نہیں کریں گے،اورکوئی اور ایسی خلاف ورزی نہیں کریں گے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین  کے خلاف ہو۔

 منظور احمد میو راجپوت ایڈوکیٹ                           
                                    معترض،منجانب: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان

ہم اقوام متحدہ سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ ان ممالک کو بھی اپنی جانب سے ہدایات دیں جو اُن کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اس لیے کہ یہ مسلمانوں کے دینی تشخص اور ان کے مذہبی عقائد کے تحفظ کا معاملہ ہے، جس میں غیر مسلم ممالک کی مداخلت یا مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت کی پشت پناہی سے مسلمان ممالک میں انتشار اور فتنہ و فساد پھیلنے کا ہمیشہ سبب بنتا ہے۔ اس لیے یہ قادیانی اور لاہوری حضرات آئینِ پاکستان کو مانتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت تسلیم کرلیں تو جھگڑا ہی ختم ہوجائے، کیونکہ ان قادیانیوں اور لاہوریوں کے علاوہ کسی اقلیت کو پاکستان سے یا مسلمانوں سے کبھی کوئی شکوہ یا ِشکایت نہیں رہی اور یہ شکایت ہو بھی کیسے سکتی ہے جب کہ ہمارا دین اسلام اقلیت کے حقوق کی ادائیگی کا درس دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور اس بات کی توفیق دے کہ یہ لوگ خود مرزا قادیانی کے خود ساختہ مذہب سے لاتعلق ہوکر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دامن سے وابستہ ہوجائیں۔ ان شاء اللہ! اس سے جہاں ان کی دنیا سنور جائے گی، وہاں ان کی آخرت بھی بن جائے گی،  وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین