بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اور طہارت

اسلام اور طہارت


اسلام انتہائی پاکیزہ مذہب ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو طہارت و پاکیزگی کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کو اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توسُّط سے زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کتاب وسنت کی شکل میں جو احکام اور ہدایات عنایت فرمائی ہیں، اگر حقیقی معنوں میں ان پر عمل پیرا ہوجائیں توہر فرد کا ظاہر و باطن، اس کا جسم و لباس، رہنے کی جگہ، گھر بار، گلی، محلہ، ماحول حتیٰ کہ پورا معاشرہ سب پاکیزگی کے مظہر بن جائیں گے۔ طہارت والوں یعنی پاک صاف رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے: ’’إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ‘‘ (۱) ۔۔۔۔۔ ’’بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
اسلام کی ان تعلیمات کے پیشِ نظر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طہارت و پاکیزگی کا خوب اہتمام فرماتے تھے جس کی وجہ سے قرآن کریم مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میں ارشاد فرمایا: 
’’فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ أَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ۔‘‘(۲) 
’’اس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں اور اللہ پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ‘‘
امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ طلحہ بن نافع کہتے ہیں کہ مجھے ابو ایوب انصاری، جابر بن عبد اللہ، اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم نے بتلایا کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے گروہِ انصار! اللہ تعالیٰ نے طہارت کے بارے میں تمہاری تعریف بیان کی ہے تو تمہاری طہارت و پاکی کیا ہے؟ انصارؓ نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول! ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، جنابت سے غسل کرتے ہیںاور پانی سے استنجا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: یہی وہ طہارت و پاکی ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے، پس تم اُسے لازم پکڑو۔(۳) 

طہارت کامعنی ومطلب

طہارت کسے کہتے ہیں؟ اس کا کیا معنی ومطلب ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ ان تفصیلات کو جاننے کے بعد ہی انسان منشأ خداوندی کے مطابق پاکیزگی حاصل کرسکتا ہے۔ طہارت عربی زبان کا لفظ ہے، طَہُرَ یَطْہُرُ باب کرم سے مصدر ہے، لغت میں طہارت کے معنی مطلق طور پر صفائی و پاکیزگی کے ہیں۔(۴) ، فقہی اعتبار سے حدث اور نجاست سے پاکیزگی حاصل کرنے کو طہارت کہتے ہیں۔(۵) ، جبکہ شرعاً طہارت اللہ کی منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روکنے یعنی خود کو گناہوں سے پاک رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے اوامر سے خود کو مزین کرنے کو کہتے ہیں۔ بعض دفعہ اطلاقاتِ شرعیہ میں طہارت من الارجاس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، یعنی اس سے مراد کفر و شرک اور معصیت سے پاک ہونا ہوتاہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’إِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا۔‘‘(۶) 
 ’’اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے (شرک وکفر کی) گندگی دور رکھے اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو۔‘‘

اقسامِ طہارت

طہارت کی ابتداء میں دو بڑی قسمیں ہیں: طہارتِ معنویہ اور حسّیہ۔ پہلی قسم کے بارے میں علمائے عقیدہ یعنی متکلمین گفتگو کرتے ہیں، جبکہ دوسری سے فقہاء بحث کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے طہارتِ معنویہ کی بھی دو قسمیں ہیں: طہارتِ معنویہ کبریٰ اور صغریٰ۔ طہارتِ معنویہ کبریٰ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کو شرک اور اس کی غلاظتوں سے مکمل پاک کرلے اور توحید خالص کے عقیدہ کو اپنے دل و دماغ میں بسالے اور مکمل طور سے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کر لے۔ طہارتِ معنویہ صغریٰ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کو اخلاقی برائیوں کینہ، حسد، ریا، تکبر اور حبِ جاہ و مال وغیرہ سے پاک کرے اور اپنے دل کو اخلاقی محاسن و فضائل سے مزین کرے۔ اسی طرح طہارتِ حسّیہ یعنی ظاہری طہارت کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ حدث کو زائل کر کے پاکی حاصل کرنا، اس قسم کے ذیل میں فقہاء حضرات پانی کی پاکی و ناپاکی ، وضو، غسل، تیمم اور موزوں پر مسح وغیرہ کے مسائل سے بحث کرتے ہیں۔ دوسری قسم یہ کہ خبث کو زائل کر کے طہارت حاصل کرنا، اس قسم کے ذیل میں فقہائے کرام اشیائے نجسہ کی طہارت سے متعلق ضوابط اور نجاست کی اقسام کو بیان کرتے ہیں۔

نصف ایمان

اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ الطُّہُوْرُ شَطْرُ الْإِیْمَانِ‘‘(۷) یعنی پاکی نصف ایمان ہے۔ شطر ایمان یعنی طہارت کا نصفِ ایمان ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کے بارے میں شرّاحِ حدیث فرماتے ہیں کہ: ایمان مکفّر سیئات ہے، ایمان سے صغائر و کبائر دونوں طرح کے گناہ معاف ہوتے ہیں ، طہارت بھی مکفّرِ سیئات ہے، لیکن اس سے صرف صغائر معاف ہوتے ہیں، اس نسبت سے طہارت کو شطرِ ایمان قرار دیا گیا ہے۔ علامہ تورپشتی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ایمان سے ظاہر و باطن یعنی حدث اصغر و اکبر اور شرک وغیرہ دونوں سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے، جبکہ حدیث میں وارد لفظ ’’الطُّہُوْرُ‘‘ سے صرف طہارتِ بدن من الانجاس و الاحداث مراد ہے، اس لیے اس کو شطر ایمان کہا گیا ہے۔(۸) 

اجزائے ایمان

حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’ ایمان تخلیہ اور تحلیہ دو اجزاء سے مرکب ہے، تخلیہ کے چار مراتب ہیں:
پہلا مرتبہ: ظاہری بدن کو ہر طرح کی ناپاکی ، حدث و خبث اور فضلات سے پاک کرنا۔ 
دوسرا مرتبہ: اپنے اعضاء و جوارح کو جرائم و گناہوں سے پاک رکھنا۔ 
تیسرا مرتبہ: دل کو اخلاقِ ذمیمہ و رذیلہ سے پاک رکھنا۔ 
چوتھا مرتبہ: دل کو ماسوی اللہ سے خالی اور پاک رکھنا۔ 
اس تفصیل کے مطابق حدیث میں شطر الایمان سے مراد’’ تخلیہ‘‘ ہے اور وہ اس اعتبار سے نصف ایمان ہے۔‘‘(۹) 
غرض جو بھی مراد لیا جائے، خواہ شطر کو جزء کے معنی میں لیا جائے یا نصف کے معنی میں بہرحال طہارت کو ایمان کے ساتھ لزوم کا تعلق ہے، ایمان ہر حال میں طہارت کا تقاضا کرتا ہے۔

طہارتِ باطن 

علمائے کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ طہارت تمام مراتب طہارت میں نصفِ عمل کا مقام رکھتی ہے، کیوں کہ اعمالِ باطن سے مقصود اللہ کی عظمت و جلال کا منکشف ہونا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا ہے جب تک باطن سے ماسویٰ اللہ نکل نہ جائے، طہارتِ قلب یعنی اخلاقِ حمیدہ کا حصول اس وقت تک نہیں ہوسکتا ہے جب تک دل کو اخلاقِ ذمیمہ اور قابلِ نفرت رذائل سے پاک نہ کیا جائے، اسی طرح جوارح کو اس وقت تک طاعت سے مزین نہیں کیا جاسکتا جب تک گناہوں سے نہ بچا جائے۔ یہی حال ظاہر کا ہے کہ ظاہری طہارت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ احداث سے پاکی حاصل نہ کی جائے، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تمام مراتبِ طہارت میں اصل باطن کی طہارت ہے، لیکن اس کا حصول بھی ظاہری طہارت پر موقوف ہے۔(۱۰) 

اہتمامِ طہارت

اسلام میں ظاہری طہارت کا بھی نہایت ہی اہتمام کیا گیا ہے، بیداری سے لے کر سونے تک، بیت الخلاء سے مسجد و بیت اللہ تک، دن بھر میں پانچ مرتبہ وضو، نیز غسل و تیمم وغیرہ کے ذریعہ ظاہری و باطنی دونوں طرح کی طہارت کا اہتمام کیا گیا ہے، قضائے حاجت انسان کی فطری ضرورت ہے، اس ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے، اس کی رہنمائی بھی موجود ہے، سنن ابی داؤد میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: 
’’اِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَھَبَ الْمَذْھَبَ أَبْعَدَ۔‘‘ (۱۱) 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: 
’’إِذَا أَرَادَ الْبَرَازَ انْطَلَقَ حَتّٰی لَا یَرَاہُ أَحَدٌ۔ ‘‘(۱۲)  
خلاصہ دونوں روایتوں کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو اتنے دور جاتے کہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے۔ پیشاب کرتے وقت نرم اور نشیبی جگہ دیکھ کر وہاں کرنے کا حکم ہے، تاکہ پیشاب کی چھینٹیں اُڑ کر کپڑوں اور بدن پر نہ پڑیں۔
 حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’إِذَا أَرَادَ أَحَدُکُمُ الْبَوْلَ فَلْیَرْتَدْ لِبَوْلِہٖ مَوْضِعًا۔‘‘(۱۳) 
’’جب تم میں کوئی پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیے کہ پیشاب کے لیے (نرم اور نشیبی) جگہ تلاش کرے۔‘‘
 قضائے حاجت کے لیے جانے سے قبل دعا کی تعلیم دی گئی ہے، تاکہ شیاطین و جنات کے شرور سے حفاظت میں رہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو یہ دعا پڑھے:’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ۔‘‘ (۱۴) ’’اے اللہ ! میں ہر طرح کے شیاطین(مذکر و مؤنث کے شر) سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سَتْرُ مَا بَیْنَ الْجِنِّ وَ عَوْرَاتِ بَنِيْ آدَمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَائَ أَنْ یَّقُوْلَ: بِسْمِ اللّٰہِ۔‘‘(۱۵) یعنی ’’جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو بسم اللہ پڑھے، بنو آدم کی شرمگاہ اور جنات کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا۔‘‘ علمائے کرام نے ان دونوں روایات کے درمیان جمع کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے جانے والا ان دونوں دعاؤں کو ملا کر یوں پڑھے:’’ بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ۔‘‘(۱۶) 
بیت الخلاء جانے سے قبل دعا تعلیم دینے کی حکمت یہ ہے کہ وہ نجاست اور گندگی کی جگہ ہوتی ہے، پھر جاکر ذکر اللہ میں انقطاع آجاتا ہے، کشفِ عورت کی نوبت آجاتی ہے اور بول و براز وغیرہ نجاستوں کا خروج ہوتا ہے تو ایسے میں شیاطین اور جنات جنہوں نے اپنا مسکن ان جگہوں کو بنایا ہوتا ہے وہ وہاں جانے والے انسان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا ان کے شر سے حفاظت کے لیے دعا بتلائی گئی ہے۔
اسی طرح ایک مسلمان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے اور اپنی طبعی ضرورت کے تحت اس کو پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے برتن میں نہ ڈالے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُکُمْ مِّنْ نَّوْمِہٖ فَلْیَغْسِلْ یَدَہٗ قَبْلَ أَنْ یَّدْخُلَ فِيْ وَضُوْئِہٖ ؛ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَا یَدْرِيْ أَیْنَ بَاتَتْ یَدُہٗ۔‘‘ (۱۷) یعنی ’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وضو کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل اپنا ہاتھ دھو لے، اس لیے کہ اسے معلوم نہیں کہ نیند کی حالت میں اس کے ہاتھ نے کہاں رات گزاری ہے۔‘‘
شراحِ حدیث نے لکھا ہے کہ نیند کی حالت میں یہ ممکن ہے کہ آدمی کا ہاتھ اس کی شرمگاہ سے مس ہوا ہو اور اس پر نجاست کے اجزاء لگ گئے ہوں، یا رات نیند کی حالت میں احتلام ہوگیا ہو اور ہاتھ پر منی لگ گئی ہو، یا وظیفۂ زوجیت کی ادائیگی کے وقت کچھ نجاست لگ گئی ہو، یا جسم کے کسی حصہ میں زخم ہو اور اس سے خون رس رہا ہو، یا کوئی دانہ وغیرہ نکلا ہو اور اس سے پیپ یا نجس مادہ نکل رہا ہو اور وہ ہاتھ پر لگ گیا ہو، غرض اگر نجاست یقینی طور سے لگ گئی ہو تو پھر ہاتھ کا پانی کے برتن میں داخل کرنے سے قبل دھونا واجب ہے اور اگر نجاست کا لگنا یقینی نہ ہو صرف شک ہو تو پھر ہاتھوں کا برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونا مسنون ہے، اور اگر یہ یقین ہے کہ کوئی نجاست نہیں لگی تو پھر دھونا مستحب ہے۔ (۱۸) 
مشرکینِ مکہ اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے اور طعنہ دیا کرتے تھے کہ آپ کے نبی تو آپ کو قضائے حاجت کے متعلق باتوں کی بھی تعلیم دیتے ہیں، چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی طعنہ کے جواب میں فرمایا کہ: جی ہاں! (یہ شرم کی نہیں، بلکہ یہ ضروت کی چیز ہے) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بھی بتلایا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ رُخ نہ ہوا کریںاور ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ ہم ہڈی یا گوبر سے استنجا کریں اور ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم تین پتھروں سے استنجا کریں۔(۱۹) 
ان اُمور کو ذکر کرنے کا مقصد صرف اسلام کے نظامِ طہارت و نظافت کی ایک جھلک دکھانا ہے، ورنہ اسلام نے تو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کی ہے، اور اسلام سارا کا سارا پاکیزگی اور طہارت ہی سے مرکب ہے۔(۲۰) ضرورت اس امر کی ہے کہ ثقہ علماء سے اسلامی تعلیمات سیکھ کر ان پر عمل کیا جائے، تاکہ دنیا میں پاکیزگی و کامیابی کے ساتھ آخرت کی ہمیشہ کی کامرانی مقدر بن جائے۔

حوالہ جات

۱:۔۔۔ البقرۃ: ۲۲۲۔                ۲:۔۔۔ التوبۃ: ۱۰۸۔
۳:۔۔۔ باب ’’العشرون من شعب الإیمان‘‘ [وہو باب ] الطہارات، فصل الوضوء،ج:۳،ص:۱۸، ۱۹۔
۴:۔۔۔القاموس الوحید کامل، ص: ۱۰۱۷،ادارہ اسلامیات کراچی۔و عمدۃ الفقہ، مولانا سید زوار حسین شاہ، ج:۱، ص:۹۹، زوار اکیڈمی، کراچی۔ 
۵:۔۔۔ الفقہ الإسلامی وأدلتہ للزحیلی، ج:۱، ص:۲۰۱، دار الفکر، بیروت۔
۶:۔۔۔ الاحزاب: ۳۳۔ دیکھیے: نفحات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح، ج:۲، ص:۲۔
۷:۔۔۔ رواہ مسلم فی صحیحہ فی الطہارۃ، باب فضل الوضوء، برقم:۲۲۳۔
۸:۔۔۔ نفحات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح، ج:۲، ص:۳۔        ۹:۔۔۔ إحیاء علوم الدین، کتاب أسرار الطہارۃ، ص: ۱۶۰۔
۱۰:۔۔۔ إحیاء علوم الدین، کتاب أسرار الطہارۃ، ص:۱۶۰،۱۶۱۔ ومفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ فی موضوعات العلوم، ج:۳، ص:۲۵، ۲۶۔
۱۱:۔۔۔ رواہ أبو داؤد فی سننہ فی الطہارۃ، باب التخلی عند قضاء الحاجۃ، رقم الحدیث: ۱۔
۱۲:۔۔۔ رواہ أبو داؤد فی سننہ فی الطہارۃ، باب التخلی عند قضاء الحاجۃ، رقم الحدیث: ۲۔
۱۳:۔۔۔ رواہ أبو داؤد فی سننہ فی الطہارۃ، باب الرجل یتبوأ لبولہ، رقم الحدیث: ۳۔
۱۴:۔۔۔ رواہ البخاری فی صحیحہ فی الوضوء، باب ما یقول عند الخلاء، رقم الحدیث: ۱۴۲۔
۱۵:۔۔۔ رواہ ابن ماجہ فی سننہ فی الطہارۃ، باب ما یقول الرجل إذا دخل بیت الخلاء، رقم الحدیث:۲۹۷۔
۱۶:۔۔۔ المجموع شرح المہذب، باب الاستطابۃ، ج:۲، ص:۷۴۔
۱۷:۔۔۔ رواہ البخاری فی صحیحہ فی الوضوء، باب الاستجمار وترا، رقم الحدیث:۱۶۲۔ ومسلم فی صحیحہ فی الطہارۃ، باب کراہۃ غمس المتوضی وغیرہ یدہالمشکوک فی نجاستہا فی الإناء قبل غسلہا ثلاثا، رقم الحدیث:۲۷۸۔
۱۸:۔۔۔ فیض القدیر للمناوی، ج:۱، ص:۳۵۸۔        ۱۹:۔۔۔ رواہ مسلم فی صحیحہ فی الطہارۃ، باب الاستطابۃ: ۲۶۲۔
۲۰:۔۔۔بہجۃ قلوب الابرار للسعدی، ج:۱، ص:۱۴۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین