بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اور سیکولرزم (پہلی قسط)

اسلام اور سیکولرزم

(پہلی قسط)

زیرِنظر تحقیقی مقالہ مفتی عبدالرؤف غزنوی مدظلہٗ نے ۳۰ جون ۱۹۹۱ء کو ’’انجمن خدام القرآن وانمباڑی، انڈیا‘‘ کی طرف سے منعقدہ اجتماع میں اس وقت پیش کیا تھا جب وہ دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمت انجام دے رہے تھے اور مذکورہ انجمن کی طرف سے ان کو مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ’’اسلام اور سیکولرزم‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ مقالہ میں سیکولر زم کا تاریخی پسِ منظر، اس کا مفہوم ومقصد، اسلام کی روشنی میں اس کا تجزیہ اور سیکولر طرزِ حکومت میں مسلم اقلیت کے لیے لائحۂ عمل پیش کیا گیا ہے۔ افادیتِ عامہ کے پیشِ نظر قارئینِ ’’بینات ‘‘ کی نذر کیا جارہا ہے۔                                                     (ادارہ)

تمہید

تاریخِ انسانی پر ہم جب ایک غائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو بہت سے فاسد خیالات، لاتعداد نظریے اور زہریلے افکار کے آہن پوش لشکر ہمیں باہم برسرِپیکار نظر آتے ہیں ، کہیں فرعونیت کا چرچا ہے تو کہیں قارونیت کے ڈنکے بج رہے ہیں ، کسی جگہ قیصریت کا شہرہ ہے تو کہیں سے کسرائیت کی آوازیں آرہی ہیں۔
اگر چہ تاریخِ انسانی کے پورے سفر میں اسی اتھل پتھل اور شور شرابے کا ماحول گرم ہے، لیکن اُنیسویں صدی اس لحاظ سے کچھ زیادہ ہی اہمیت کی حامل ہے کہ ذہنی پراگندگی، فکری انتشار ، سیاسی و مذہبی کشمکش اس صدی میں اپنے شباب کو پہنچ رہی ہے اور باطل جماعتوں نے پوری قوت سے عالمِ اسلام پر شب خون مارا ہے۔
ایک مؤرخ فکر و تدبر، ذہانت و فراست اور دور بینی کے ساتھ تاریخ کا جائزہ لے کر حالات کا صحیح موازنہ کرے تو یقینا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ یہ صدی اپنے باغیانہ افکار، ملحدانہ خیالات اور منافقانہ نظریات کی پرورش میں دیگر تمام صدیوں پر بازی لے گئی ہے۔
سرمایہ داری کا ظہور بھی اسی میں ہوا، تحریکِ الحاد بھی یہیں سے اُٹھی ہے اور دنیا میں عدل و مساوات کا پُرفریب نعرہ لگا کر انسانیت کا خون چوسنے والے اشتراکیت و کمیونزم جیسے ناپاک نظریے بھی اسی صدی کی پیداوار ہیں، لیکن اس صدی کا سب سے اہم نظریہ وہ فکر ہے جس کو دنیا آج سیکولرزم کے معروف نام سے جانتی ہے، یہ نام اگرچہ نیا نہیں پُرانا ہے اور دنیا کا بچہ بچہ پوری طرح اس سے واقف ہے، لیکن اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس تحریک کے پسِ منظر ، اس کے اغراض و مقاصد اور اسی کے مزاج سے عوام تو کیا بعض دانشورانِ قوم بھی پوری واقفیت نہیں رکھتے۔ اسی کے پیشِ نظر ہم نے اس مقالے میں جہاں اس نظریے کی پوری تاریخ قلم بند کی ہے، وہیں ایک آفاقی اور ہمہ گیر فکر کے تحت اپنی نگاہ کو کسی ایک خطہ کے بجائے پوری دنیا پر مرکوز رکھا ہے۔
اگر ہم ابتداء ہی میں سیکولرزم کے اس مفہوم پر بحث کرنے لگتے جو ہندوستان میں عموماً مراد لیا جاتا ہے تو اس مقالہ کی خانہ پوری تو ہوجاتی، لیکن جہاں اس عنوان کی وسعت کو صدمہ پہنچتا اس کی آفاقیت متاثر ہوتی، وہیں ہمارا یہ وسیع موضوع ہندوستان ہی میں سمٹ کر رہ جاتا اور اس کا پورا حق بھی ادا نہ ہوپاتا، اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے بغیر کسی خوف و جھجھک کے اس موضوع پر بہت بے باک ہوکر قلم اُٹھایا ہے اور اس کے ایک ایک پہلو، ایک ایک زوایہ کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ سامعین جہاں اس کی ماہیت سے واقف ہوں ، اس کے ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، وہیں ان تمام اسباب و عوامل کا بھی مطالعہ کرتے چلیں جو اس نظریے کی تخلیق کاباعث بنے ہیں ، تو اس طرح یہ مقالہ ہمہ گیر پہلوؤں کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلہ کی ایسی مستند دستاویز بن گیا ہے جو ہر دور میں ان شاء اللہ تعالیٰ! تاریخ کے طالبِ علم کی رہنمائی کرتی رہے گی ۔ 
یہاں پر اس امر کی بھی وضاحت کردیں کہ سیکولرزم پر بے لاگ تبصرہ کرنے اور اس کی متعدد توجیہات کاقرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے میں ہم نے ذرا سخت موقف اختیار کیا ہے ( جس سے سامعین کو کچھ نہ کچھ غلط فہمی ہوسکتی ہے) لیکن لائحۂ عمل کے باب میں آکر یکایک اپنی پوزیشن بدل دی ہے اور ایک وقتِ مقررہ تک ہم نے اس سے سمجھوتہ کر لیا ہے ، کیونکہ موجودہ حالات میں مختلف مصلحتوں کے پیشِ نظر ہم بھی ہندوستان میں سیکولرزم ہی کو مفید سمجھتے ہیں ۔

پہلا باب
سیکولرزم کا تاریخی پسِ منظر

رومی سلطنت نے اپنے آبائی مذہب بت پرستی کو چھوڑ کر ۳۰۵ عیسوی میں جب عیسائیت کو قبول کیا تو اس بے یارو مددگار مذہب کو اپنی شان و شوکت، رعب و دبدبہ قائم کرنے اور عالمگیر پیمانے پر مذہبی اشاعت کا وہ موقع مل گیا جس کا وہ برسوں سے آرزو مند تھا، ورنہ اس سے پہلے وہ محض بوریا نشین زاہدوں اور جنگل میں روپوش راہبوں کا ایسا مذہب تھا جو صرف فلسطین کی گلیوں تک محدود تھا، لیکن جب ایک بڑی طاقت نے اس پر دستِ شفقت رکھا تو وہ آندھی اور طوفان کی طرح اُٹھا اور بحر الکاہل کے تمام ساحلی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا پورے یورپ پر چھا گیا اور اس کی اشاعت کے لیے سرکاری ذرائع ابلاغ اور مملکت کی پوری مشینری حرکت میں آگئی تو اس طرح چھٹی صدی عیسوی تک مسیحیت نے نہ صرف یہ کہ یورپ میں اپنے قدم جما لیے، بلکہ کلیسائی نظام اور محکمۂ احتساب کا گھنا جال بچھا کر یورپی عوام کو پورے طور پر اپنی گرفت میں لے لیا، یہ وہ وقت تھا کہ جب یورپ اپنے خود ساختہ فلسفوں، تاریک نظریوں اور کلیسائی نظام کی بنا پر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ علم و حکمت، صنعت و حرفت کی اس کو ہوا تک نہ لگی تھی! لیکن جب ساتویں صدی کے اوائل میں اسلام کا روشن آفتاب طلوع ہوا اور اس کی نورانی کرنیں عرب کے ریگزاروں سے نکل کر افریقہ اور یورپ تک پہنچیں تو وہاں کی فضاؤں سے وہ کُہرا چَھٹنے لگا جو مسیحیت کی تاریک دنیا میں زمانۂ دراز سے چھایا ہوا تھا ۔
آٹھویں صدی عیسویں میں جب عرب کے ان جیالے سپوتوں نے عیسائیت کو بیت المقدس سے بے دخل کردیا اور بے خوف و خطر ایشیا و افریقہ کو روندتے ہوئے فرانس کی وادی پیرینز تک جا پہنچے تو ان کی سانسوں کی آواز سن کر عیسائیت کا وہ قصر لرزنے لگا جو یور پ کو اپنی آبائی جاگیر سمجھ رہا تھا، نیز مسلمانوں کے پے در پے حملوں اور ان کی جرأت مندانہ پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے عیسائی دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر عربوں کی فتوحات کا یہی حال رہا تو مسیحیت کی تاریخ میں وہ دن ضرور آئے گا جب وہ کلیساؤں اور شہروں کوچھوڑ کر پہاڑوں اور ویرانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگی۔ اس بھیانک انجام کو سوچ کر پادریوں کے بدن تھرّا گئے، دل و دماغ لرز اُٹھے، ا ن کی عقلیں جواب دینے لگیں، اور جب کچھ نہ بن پڑا تو جورو تشدّد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دبے اور کچلے عوام کی عقل و فراست پر پہرے بٹھادیئے اور ان تمام لوگوں کو مجرم قرار دیا جو علمی ضیا پاشیوں سے مستفید ہوکر کلیسائی نقطۂ نظر سے اختلاف کرنے لگے تھے۔
یہ طریقہ اگرچہ ایک حد تک کامیاب رہا اور مسیحیت جزئی طور سے اپنا تخت و تاج بچانے میں کامیاب ہوگئی، لیکن سولہویں صدی تک پہنچتے پہنچتے جب پاپاؤں کے ظلم وستم حدود سے تجاوز کرنے لگے تو سالہا سال سے پسے عوام کے صبر کا پیمانہ بالآخر لبریز ہوگیا اور ان ہی کے درمیان سے ملحدوں کی ایک بڑی اکثریت مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے عیسائیت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ یہ عمل چونکہ برسہا برس کی زیادتیوں کا نتیجہ تھا، اس لیے اس کے اندر اتنا غلو اور اتنی تیزی آتی گئی کہ مذہبی طبقہ گھبرا گیا ، اُسے زمین تنگ اور آسمان گرتا ہوا محسوس ہوا، کیونکہ ملحدین ان خونخوار بھیڑیوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہ تھے جنھوں نے مذہب کا سہارا لے کر صدیوں ان کے آباء واجداد کی رگوں سے لہُو نچوڑا تھا، اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ملحدوں نے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر کے نہ صرف یہ کہ عیسائیت کے خلاف مورچہ بندی شروع کردی، بلکہ زندگی کے ہر میدان میں مذہب کو للکارتے ہوئے اس کے خلاف زبردست جنگ چھیڑ دی۔ میدان میں کیونکہ دونوں حریف ٹکر کے تھے اور کلیسا اتنا کمزور بھی نہ تھا کہ آسانی سے ہتھیار ڈال دیتا، چنانچہ اس نے اپنی قیادت کو بچانے کے لیے ہر ہر طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا، لیکن ا س کے باوجود ظالموں کا یہ تھکا ہوا ٹولہ اس تازہ دم طاقت کا مقابلہ نہ کرسکا جو مظلوموں کی آواز بن کر پورے یورپ میں گونج رہی تھی۔ عیسائیت آخر آخر تک معاشرہ پر اپنی بالا دستی چاہتی تھی، جب کہ فریق مخالف اُسے زندہ رہنے کا حق دینے کا بھی روادار نہ تھا، اسی نقطے پر یہ دونوں تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زمانۂ دراز تک گھمسان کی جنگ لڑتی رہیں ، اور طویل قربانیوں کے بعد جنگ کو اس منزل پر لے ہی آئیں جس میں ایک کی فتح اور دوسرے کی ہار یقینی تھی، لیکن عین وقت جب کہ فیصلہ کن معرکہ گرم تھا، مسیحیت ملحدوں کے سامنے سپر ڈالنے کی تیاری کر رہی تھی، اچانک ’’ جارج جیک ہولی اوک‘‘ کی قیادت میں ایک منافق گروپ بیچ میں کود پڑا اور اس نے مذہب کو پرائیویٹ معاملہ قرار دینے کی آواز اُٹھاکر سالہا سال تک چلنے والی جنگ کی بساط ہی اُلٹ دی، یہی وہ نظریہ تھا جس کو آج ہم ’’سیکولرزم‘‘ کے معروف نا م سے جانتے ہیں۔

تحریکِ الحاد اور عیسائیت دونوں کا سیکولرزم سے سمجھوتہ

تحریکِ الحاد چونکہ مذہب سے نفرت کے ساتھ ساتھ اسے ایسا شکنجہ بھی قرار دیتی تھی، جس سے انسان کو نجات دلانا اس کے نزدیک اولین فرض تھا، اسی لیے اُسے ان لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہوسکی جو مذہب کے لیے ذرا بھی نرم گوشہ رکھتے تھے، جب کہ عیسائیت اپنے ظلم و ستم ، جور وتشدد اور زیادتیوں کی وجہ سے اس مذہبی طبقہ کی حمایت سے محروم رہی، اور سیکولرزم نے اپنی منافقانہ روش کی بنا پر نہ صرف یہ کہ اکثریت کی تائید حاصل کرلی، بلکہ عیسائیت کو بھی مجبور ہوکر سیکولرزم سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ملحد تو یوں سیکولرزم کی پشت پناہی کرنے لگے کہ وہ حکومت و سلطنت اور اجتماعی طور سے مذہب کو معاشرہ سے نکالنے میں ان سے کامل طور پر اتفاق کر تے تھے، جب کہ عیسائیت اپنے خطرناک اور بھیانک انجام کو دیکھ رہی تھی کہ ملحدین کی جماعت عنقریب اُسے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردے گی، اس لیے الحاد کے بالمقابل سکیولرزم جیسی تحریک اُسے بروقت نصرتِ خداوندی محسوس ہوئی جو انسانوں کواجتماعی طور پر نہ سہی انفرادی طور پر تو کم از کم مذہبی رواداری کا حق دیتی ہے ، اسی کو سوچ کر عیسائیت نے ملحدوں کو شکست دینے کے لیے اپنی بچی کھچی طاقت کا وزن سیکولرزم کے پلڑے میں رکھ دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اُسے قیادت کے منصب کو سونپ کر عیسائیت کو کلیسا تک محدود کردیا۔
اس پسِ منظر کو سامنے رکھ کر ایک مؤرخ یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہے کہ میدانِ مبارزہ میں اگرچہ الحاد و کلیسا ہی برسرِپیکار ہیں، لیکن میدان سیکولرزم کے ہاتھ رہا ہے۔

سیکولرزم پر ایک اجمالی نظر اور اس کا مفہوم

سیکولرزم دراصل یورپ کے ایک باشندے ’’ جارج جیکب ہولی اوک ‘‘ کے فاسد خیالات کا پلندہ اور اس کے گمراہ قیاس کا نتیجہ ہے، یہ شخص ۱۸۱۷ عیسوی میں برطانیہ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا، اس کے آباء و اجداد مذہبی ہونے کی بنا پر کلیسا سے قریبی مراسم رکھتے تھے، اس لیے اس نے زمانۂ طفولیت سے ہی مذہبی لباس میں پوشیدہ کلیسائی درندوں کو غریب عوام کا خون چوستے اور مردوں کی ہڈیاں بھنبھوڑتے دیکھا تھا، پادریوں کے ان ہولناک مظالم کی بنا پر اس کا دل مذہب سے اتنا بیزار ہوگیا کہ۱۸۴۱ ء میں اس نے خدا کا انکار کرتے ہوئے عیسائیت سے کھلے عام بغاوت کردی۔ معاشرہ پر چونکہ کلیسائی گرفت مضبوط تھی، اس لیے اس کی تحریک کو نہ صرف ناکامی کاسامنا ہوا، بلکہ اس جرم کی پاداش میں اس کو مختلف ایذائیں، طرح طرح کی سزائیں اور قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں، مگر وہ شخص طویل مشقتوں کے باوجود عیسائیت کی جانب لوٹ کر نہ آیا، جس کا دل بچپن ہی میں مسیحیت سے کھٹّا ہوگیا تھا، لیکن ان تلخ تجربات کی بنا پر وہ یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگیا کہ ملحدوں کی طرح وہ بھی اگر خدا و مذہب کا بالکلیہ انکار کرتا رہا تو جہاں وہ مذہبی لوگوں کی حمایت سے محروم رہے گا، وہیں پاپاؤں کا طبقہ اس کی راہ کاروڑا بن جائے گا اور اسے منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا، اس منزل پر آکر اس نے نفاق کا چولا پہنا اور ۱۸۵۱ء میں سیکولرزم کی اصطلاح گھڑ کر مذہب و الحاد کے درمیان ایسی راہ نکالی جو بظاہرتو مذہب سے بیزار نہ تھی، لیکن حقیقۃً مذہب کو مٹانے کے لیے الحاد کی تمہید تھی اور اس کا فائدہ بالآخر تحریکِ الحاد کو پہنچنا تھا، کیونکہ مذہب کو جب پرائیویٹ زندگی میں محدود کردیا جائے تو تاریخ میں وہ دن ضرور آئے گا جب مذہب پرائیویٹ زندگی سے بھی رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہوگا:

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اس طرح جہاں وہ تحریکِ الحاد کو ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوا، وہیں مذہب کو پرائیویٹ زندگی میں جگہ دے کر ان پاپاؤں کے نزدیک بھی ہیرو بن گیا جو ملحدین کے حملوں کی تاب نہ لاکر شہرِ قیادت سے کوچ کرنے کی تیاری کرچکے تھے:

باغباں بھی خوش رہا راضی رہا صیّاد بھی

اس سے پہلے کہ ہم مزید آگے بڑھتے ہوئے سیکولرزم کے ہر ہر پہلو کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیں، ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک نظر ان کلمات پر بھی ڈالتے چلیں جو سیکولرزم پر ایمان رکھنے والوں نے اس کی تعریف میں نقل کیے ہیں:
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مصنف سیکولرزم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"Doctrine  that  the  morality  be  non  religious  policy  of excluding  religious  teaching  from schools  understate  control."                                             ( سیکولر تعلیم اور علاّمہ اقبالؒ، ص:۱۱۵) 

یعنی یہ اُصول کے اخلاق کی بنیاد غیر مذہبی ہو اور مملکت کی زیرِ نگرانی چلنے والے مدارس و یونیورسٹیوں سے مذہبی تعلیم کو خارج کردینے کی پالیسی پر سیکولرزم کا اطلاق ہوتا ہے۔
پھر لفظ ’’سیکولر‘‘ کے معنی بیان کرتے ہوئے مصنف رقم طراز ہے:
"Concerned  with  affairs  of  this  world."
  ( سیکولر تعلیم اور علاّمہ اقبالؒ، ص:۱۱۵)
’’ یعنی وہ نظریۂ حیات جس کا تعلق صرف اس دنیا کے معاملات سے ہو۔ ‘‘
مزید آگے بڑھ کر وہ سیکولرزم کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"Secularism  is  the  term  appliedingene  ralto  separation  of state  politios  or  administration  from  religious  or  church  matter."                                              ( سیکولر تعلیم اور علاّمہ اقبالؒ، ص:۱۱۶)
یعنی مملکت کے نظم و نسق کو اگر بالکلیہ مذہب سے جدا کردیا جائے تواس نظام کو سیکولرزم کہا جاتا ہے، جبکہ ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں سیکولر تعلیم کے متعلق یہ الفاظ درج ہیں:
"Secular  education  is  a  system  of  training  from  which definite  religious  education  is  excluded." ( انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، ج:۲۰، ص: ۲۶۴)
 یعنی سیکولر تعلیم وہ طریقۂ تربیت ہے جس سے مذہبی تعلیم خارج کردی گئی ہو ۔
سیکولرزم کے پسِ منظر، اس کے بانی کا فکر و شعور اور اس کی لغوی اور اصطلاحی تعریفوں کے پیشِ نظر ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ سیکولرزم کی عمارت مندرجہ ذیل چار ستونوں پر ٹکی ہوئی ہے:
۱:- دیگرنظاموں اور متعدد ازموں کی طرح وہ بھی عقلِ انسانی کو معیار قرار دے کر محض اس مادی دنیا پر نگاہ رکھتا ہے، اور اجتماعی طور پر ایسا ماحول بنانے پر زور دیتا ہے جو انسانوں کی توجہ غیبی دنیا سے پھیر کر اس مشاہداتی دنیا پر مرکوز کردے۔
۲:- وہ اخلاقیات وسماجیات کو مذہب سے جدا کر کے لا دینی بنانے کا متمنی ہے۔
۳:- مملکت و سلطنت اور سیاست سے مذہب کو دور رکھنا چاہتا ہے۔
۴:- طریقۂ تعلیم کو مکمل لادینی بنانے کا آرزومند ہے۔
سیکولرزم کی نقل کردہ تعریفوں سے یہ تو ہمارے اخذ کردہ اصول تھے، جبکہ اس نظریہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک ہندوستانی مفکر ’’راجیو بھارگوا‘‘ انگریزی جریدے (Frontline) میں اس کی مزید پانچ توجیہ نقل کرتا ہے:
۱:- حکومت محض نام کے اعتبار سے سیکولر ہو اور اس نظریہ کے مطابق تمام ملک میں پھیلے مذاہب کی سرپرستی کر کے اس مذہب کو غالب کرنے کی کوشش کرے جو ملک کی اکثریت کا مذہب ہو، لیکن اس کے ساتھ ہی اقلیت کے مذہب کا استحصال بھی نہ ہو۔
۲ :- ہر مذہب کے فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی جائے او رحکومت ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر مصالحانہ رویہ کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے۔ پچھلے بیس برس سے ہندوستان سیکولرزم کی تقریباً اس شق پرعمل پیرا رہاہے۔
۳:- سیکولرزم سے مراد وہ نظریہ ہے جس میں تمام مذاہب کا یکساں احترام ہو اور کسی کو دوسرے پر مذہبی حیثیت سے کوئی فوقیت نہ ہو، تمام لوگوں کو بلا تفریقِ مذہب و ملت کے یکساں مواقع حاصل ہوں ۔
ہندوستان کے سیکولر دانشور سیکولرزم کی اس توجیہ کو مناسب پالیسی اور ہندوستانی مزاج سے ہم آہنگ قرار دیتے ہیں ، آزاد ہندوستان کی معمار شخصیت اور مدراس کے پہلے وزیرِاعلیٰ ’’ سی راج گوپال اچاریہ ‘‘ نے بھی سیکولرزم کی بابت تقریباً ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔
۴:- حکومت کے سیکولر ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ غیر مذہبی تو ہو، مگر مذہب کی مخالف نہ ہو، اس نظریہ کے حامی لوگ عقلِ انسانی کے محدود ہونے اور معاشرتی احتیاج کے پیشِ نظر مذہبی اعتقاد و شعائر کے حامل تو ہوتے ہیں، لیکن وہ مذہب کو حکومت پر اثر نداز نہیں ہونے دیتے، بلکہ اس کو بالکلیہ لا دینی دیکھنا چاہتے ہیں۔
۵:- پانچویں توجیہ نقل کرتے ہوئے مصنف سیکولرزم کے چہرے سے نقاب ہٹا کر اس کے اصول و مبادی، مزاج و مقاصد اور اس کے دعویداروں کی پوری تصویر اس شق میں سمیٹ لیتا ہے اور کھل کر یہ کہتا ہے کہ سیکولرزم کے معنی ’’ لادینیت ‘‘ ہے اور اس کے حامی صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو خود کو روشن خیال تصور کر کے جہاں حکومت کو مذہب کے تیئں معاندانہ رویہ پر اُکساتے ہیں، وہیں اس کو تمام جھگڑوں کی بنیاد بتا کر ایک طرح کا ڈھکوسلہ قرار دیتے ہیں ۔
یہ تو ’’ راجیو بھارگوا ‘‘ کے اپنے خیالات تھے ، جب کہ جامعہ ملیہ کے مشہور مؤرخ اور عظیم دانشور پروفیسر ’’ مجیب ‘‘ اپنی کتاب ’’ ہندوستانی سماج پر اسلامی نقوش ‘‘ میں سیکولرزم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: سیکولرزم اس اعتقاد اور ایقان کو کہتے ہیں کہ ہم ساری توجہات اس مادی دنیا پر مرکوز کردیں۔
یہاں پہنچ کر ہم ان چار اُمور کی قدرے وضاحت کرنا چاہتے ہیں جو سیکولرزم کے بنیادی اصول کہے جاسکتے ہیں، جبکہ مندرجہ بالا توجیہات پر مقالہ کے دوسرے باب میں ہم تفصیل سے کلام کریں گے۔

دنیا پرستی و عقل پرستی

عیسائیت اپنے مزعومہ خیالات اور فرسودہ عقائد کی بنا پر عقل اور جدید علوم کی شدید دشمن ہے، کیونکہ عقل کو معیار تسلیم کرلینے کے بعد کلیسائی نظام کی پوری عمارت اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ زمین پر آگرتی ہے، اس لیے مسیحیت نے عقل کو مطعون و ملعون ٹھہرا کر ہر دور میں اسے محبوس کرنے کی انتھک کوشش کی ہے، جب کہ تحریکِ الحاد اس کی مخالف سمت کی پیروی کرتے ہوئے عقل کو اپنا امام قرار دیتی ہے۔ سیکولرزم جو مکمل غیر جانبداری کا دعویٰ کرتا ہے، یہاں مذہب کی راہ چھوڑ کر الحاد کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف عقل کو اپنے سر کاتاج بنا رہا ہے، بلکہ انسانی عقل کو عیوب و نقائص سے مبرّا قرار دے کر حسن و قبح کا معیار بتاتا ہے، اس کے نزدیک انسانی عقل اتنی صلاحیت و لیاقت رکھتی ہے کہ وہ حقیقت کے ساتھ ساتھ کائنات کے تمام اسرار و رموز کا مکمل طور سے ادراک کرسکتی ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسانی توجہات کا مرکز اور اس کی محنت و لیاقت کی تماشاگاہ صرف یہ دنیا ہونی چاہیے اور اس کی دنیاوی ترقی کے لیے تمام مادی وسائل کی افادیت و مضرت صرف عقل ہی سے جانی جاسکتی ہے، نیز وہ دلی طور سے اس بات کا بھی متمنی ہے کہ انسان اپنی صلاحیتیں اُس دنیا پر نہ لگائے جس کے وجود کو سیکولرزم تسلیم نہیں کرتا، اگر کبھی بادلِ ناخواستہ اس کے وجود کو ماننے پر آمادہ ہوتا ہے تو وہاں بھی یہ تصریح کرنے سے باز نہیں رہتا کہ اُس دنیا کا انسانی فلاح وبہبود اور اس کی خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں، تو اس طرح وہ انسانیت کو ظواہر کی پرستش کرنے اور لاشعوری طور پر اُمورِ غیبیہ کا انکار کرنے کی ترغیب دے رہا ہے، کیونکہ وہ صرف اِس مشاہداتی دنیا پر نظر رکھتا ہے۔

اجتماعی معاملات و معاشرہ کو لادینی بنانے کی کوشش

سیکولرزم دینی طبقہ کو مذہبی آزادی تو دیتا ہے، لیکن وہ اس آزادی کو دل کے نہاں خانوں اور عبادت گھروں کی چہار دیواری کے اندر اندر ہی دیکھنا چاہتا ہے اورجہاں اس آزادی نے انفرادیت سے نکل کر اجتماعی معاشرہ میں قدم رکھا، وہیں سیکولرزم کامزاج برہم ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ انسانوں کو اخلاقی ، سماجی اور معاشرتی طورپر لا دینی بنانے کاآرزو مند ہے، اس لیے ہر دور میں اس کی یہ کوشش رہی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان عقائد و اعمال کی ان تمام دیواروں کو توڑدے جو ان کے حاملین کے درمیان امتیازات و تشخُّصات کے خطوط کھینچتی ہیں، نیز وہ ایسی طرزِ معاشرت ، مخصوص لباس اور ان تمام علامتوں کا استحصال کرتا ہے جن کے ذریعے ایک مذہبی فرقہ دوسرے فرقوں سے الگ اور ممتاز ہونا چاہتا ہے، سیکولرزم جہاں قوموں کی تشکیل عقائد سے ہٹ کر وطن کی بنیاد پر کرتا ہے، وہیں ایک ملک میں رہنے والے تمام حاملینِ مذہب کو ایک دوسرے کے قومی تہواروں، تاریخی میلوں اور عبادتی رسوم میں شریک ہونے کی دعوت دے کر ملی جلی تہذیب اور مشترکہ ثقافت بنانے پر زور دیتا ہے۔

مذہب کو اقتدار و سیاست سے دور رکھنے کا عزم

سیکولرزم کا تیسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ حکومت کو لادینی بنانے کے ساتھ ساتھ مذہب و سیاست کے درمیان ایک آہنی دیوار کھڑی کردی جائے اور دین کو پرائیویٹ زندگی میں محدود کر کے جہاں وہ حکومت کا بلاشرکتِ غیر ے مالک ہو، وہیں اسٹیٹ میں عوام کو ایسا معاشرہ بنانے پر بھی مجبور کردے جس کا فرد ذاتی و نجی طور پر تو بھلے ہی مذہبی ہو، لیکن اجتماعی اور معاشرتی طورپر اس قید و بند سے آزاد ہو، کیونکہ وہ افراد کو حکومت میں محض وطن اور قوم کی بنیاد پر شریک کرتا ہے، مذہبی حیثیت سے اُنھیں کوئی حصہ نہیں دیتا ، اس لیے وہ سرکاری اور حکومتی سطح پر مذہب پسندوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، وہ مذہب کو سیاست سے جدا کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے چند خوش عقیدہ لوگوں کا نجی معاملہ قرار دے کر مواعظِ حسنہ یا اخلاقی ضابطہ کے طورپر برداشت تو کرتا ہے، لیکن اس کی دلی خواہش یہ ہے کہ ملک کی تمام مذہبی اشخاص چھپ چھپا کر خاموشی کے ساتھ پوجا پاٹ تو کرلیں، لیکن جب وہ عبادت خانوں سے باہر نکلیں تو مذہب کا چولہ اور دینی رنگ وہیں اُتاردیں، اور معاشرہ میں صرف ایک مذہب سے بے نیاز انسان کی طرح داخل ہوں۔
سیکولرزم مذہب کو ذاتی و انفرادی زندگی میں محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی تصریح کرتا ہے کہ عبادت کو چھوڑ کر بقیہ دنیاوی و سیاسی اُمور کا نہ صرف یہ کہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ انسان ان اُمور میں فطری طور پر بالکل آزاد ہے، وہ تجربات و عقل کی روشنی میں جیسا چاہے قانون بنائے، نیز طرزِ معاشرت، رہن سہن، عادات و اخلاق، اقتصادیات و معاش اور دیگرتمام اُمور میں مذہب سے الگ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

لا دینی طریقۂ تعلیم

سیکولرزم کی تعریف کرتے ہوئے ہم ’’انسائیکلو پیڈیا ‘‘ کے حوالے سے پیچھے نقل کر آئے ہیں کہ سیکولر تعلیم وہ طریقۂ تربیت ہے جس سے تمام مذہبی عناصر اور روحانی اثرات کو علیحدہ کردیا گیا ہو، مظاہرِفطرت، آثارِ کائنات اور واقعات و کوائف کا مطالعہ بے لاگ ہوکر کیا جائے اور محقّقانہ طور پر حقیقت کا متلاشی بن کر کائنات میں چھپے ان تمام اسرار و رموز کا پتہ لگایا جائے جو اس مادی زندگی میں مفید ہوسکتے ہیں ، تو دوسرے الفاظ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انکشافِ حقائق میں مذہبی رجحانات کو خارج کردینے کا نام ہی سیکولر تعلیم ہے، ا گرچہ معروضی طریقۂ تعلیم بھی یہی ہے کہ تمام داخلی و خارجی اثرات سے آزاد ہوکر کائنات کا مطالعہ کیاجائے ، لیکن یہ طریقہ ہرقسم کے اثرات کو علیحدہ کرنے کی بات کرتا ہے، جب کہ سیکولرزم دیگر تمام اثرات کو تو بہ خوشی گلے لگاتا ہے، لیکن مذہبی میلانات ‘ طریقۂ تعلیم میں اُسے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔

(جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین