بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلام اور ریاست

اسلام اور ریاست

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی نبیہ الکریم وعلی آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین وعلٰی کل من تبعہم بإحسان إلٰی یوم الدین أمابعد:

غیر منقسم ہندوستان میں قائد اعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کی جو تحریک چلی، اس کی بنیاد مسلم قومیت کے نظریے پر تھی، انگریزوں اور ہندوؤں کے مقابلے میں جو تمام ہندوستانیوں کوایک قوم قرار دے کر اکھنڈ بھارت کے حق میں تھے ، قائد اعظم نے پورے زوروشور اور دلائل کی روشنی میں یہ نعرہ لگایا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں: ایک مسلم اور دوسری غیر مسلم۔ مسلمان رہنماؤں، اہل فکر اور علماء کرام نے اس کی بھر پور تائید کی، اور میرے بچپن میں ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا إلٰہ إلا اللّٰہ ‘‘ کی جو صدائیں گونجتی تھیں ، ان کی دلکش یاد آج بھی کانوں میں محفوظ ہے۔ آخر کار مسلم اکثریت نے قائد اعظم کی اس پکار پر لبیک کہا اور ناقابل فراموش قربانیوں کے بعد ہمالیہ کے دامن میں ارضِ پاک ایک حقیقت بن کر اُبھری۔ نظریۂ پاکستان کی بنیاد تو واضح تھی، لیکن ایک چھوٹا سا حلقہ پاکستان بننے کے بعد اس کی فکری بنیاد سے محروم کرکے اس کے سیکولر ریاست ہونے کا نظریہ ظاہر کرتا رہا، یہاں تک کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے دستورِ پاکستان کے لیے وہ قراردادِ مقاصد باتفاق منظور کی جس نے ملک کا رُخ واضح طورپر متعین کردیا کہ حاکمیت ِاعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اپنے اختیارات قرآن وسنت کی حدود میں رہ کر استعمال کرسکیں گے، اور یہ قرارداد ۱۹۵۴ء ،۱۹۵۶ئ، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے تمام دستوری مسودوں کا الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ لازمی جزء بنی رہی اور آج بھی وہ ہمارے دستور کی وہ دستاویز ہے جس پر ہم فخر کرسکتے ہیں۔ چوتھائی صدی تک بنتی ٹوٹتی اسمبلیوں میں بھی اورباہر بھی اس پر کھلے دل سے بحث ومباحثہ بھی ہوا اور بالآخر اس پر پورے ملک کا اتفاق ہوگیا۔ پھر اس کی بنیادپر دستور کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو یہ دفعہ بھی تمام مسوداتِ دستور میں کسی قابل ذکر اختلاف کے بغیر موجود رہی کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکے گا اور موجودہ قوانین کو بھی ان کے سانچے میں ڈھالا جائے گا۔ سن۱۹۷۳ء کا دستور جو آج بھی نافذ ہے، اس وقت کے تمام سیاسی اور دینی حلقوں کے اتفاق سے منظور ہوا اور اس پر بفضلہ تعالیٰ آج بھی تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں اور اس کا مکمل تحفظ چاہتی ہیں جس کا مظاہرہ اور اس کی مزید تاکید حال ہی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تاریخی اتفاق سے دوبارہ ہوگئی ہے ، اعلیٰ عدالتوں نے بھی اُسے دستور کی بنیادی روح کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ اب کچھ عرصے سے کچھ آوازیں پھر گونجنے لگی ہیں کہ ملک کو اس دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اُسے سیکولر بنانا چاہیے، یعنی نصف صدی سے زائد جو فکری، سیاسی اور عملی جدو جہد ملک کا صحیح رخ متعین کرنے کے لیے ہوئی ہے ، اس کی بساط لپیٹ کر پھر الف با سے آغاز کرنا چاہیے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک کے تمام طبقات دہشت گردی کے عفریت کو مل کر شکست دینے کے لیے کمر بستہ ہیں، ملک کی بنیاد، اس کے قیام کے نظریے اور اس کے متفقہ رُخ کو تبدیل کرنے کی کوشش اس فضا میں جو پنڈورا بکس کھول سکتی ہے اور اس سے جو انتشار جنم لے سکتا ہے، اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی فضا میں سیکولرازم کے حامی حضرات جو کچھ فرمارہے ہیں، اس کی بازگشت مذہب کے نام پر ایک ’’مذہبی بیانیہ ‘‘ کے عنوان سے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی طرف سے سامنے آئی ہے جو روزنامہ جنگ کے ۲۲؍ جنوری کے شمارے میں ’’اسلام اور ریاست، ایک جوابی بیانیہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے، جس میں انہوں نے ’’سیکولر ازم کی تبلیغ‘‘ کے بجائے اپنے افکار کو ’’ مذہبی بیانیہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس ’’بیانیہ‘‘ کا مقصد انہوں نے شروع ہی میں یہ بیان فرمایا ہے کہ: ’’سیکولرازم کی تبلیغ نہیں ، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کرسکتا ہے۔‘‘ اس جوابی بیانیے (Counter narrative) کے جو نکات انہوں نے بیان فرمائے ہیں، ان کو بار بار پڑھنے کے باوجود مجھے شاید اپنی کم فہمی کی وجہ سے وہ ایک عجوبے سے کم نہیں لگتے اور ان کے باہمی تضادات سے مجھے بہت سی تاویلات کے باوجود چھٹکارا نہیں مل سکا۔ اس مضمون میں یوں تو بہت سی باتیں قابلِ تبصرہ ہیں، لیکن ان تمام نکات پر تبصرہ بہت طول چاہتا ہے، جس کا یہ مضمون متحمل نہیں، لیکن ان میں سے چندمتضاد نکات اور ان کے مضمرات کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ وہ نکات نہ صرف پاکستان کے قیام کے نظریے ہی کی نفی کرتے ہیں، بلکہ ملک کو ایک ایسے ڈھیلے ڈھالے نظام اجتماعی کی طرف دعوت دیتے ہیںجن کے عملی اطلاق کی کوئی معقول صورت کم ازکم مجھ کم فہم کی سمجھ میں نہیں آسکی۔ سب سے پہلے نکتے میں انہوں نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قراردادِ مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طورپر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔‘‘ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں جو قراردادِ مقاصد درج ہے یا اس میں جو پابندی عائد کی گئی ہے کہ کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، یہ قطعی طورپر نہ صرف غیر ضروری، بلکہ بے بنیاد خیال پر مبنی ہے۔ قراردادِ مقاصدکا بنیادی تصور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ کا اقرار ہے اور اُسے غیر ضروری اور بے بنیاد قرار دینے کا نتیجہ ریاست کے لیے اس حاکمیت ِاعلیٰ کے اقرار کو بے بنیاد قرار دینے کے سواور کیا ہے؟ یہ بیانیہ وہ ’’سیکولر ازم کی تبلیغ‘‘ کے مقابلے میں یا اس کے متبادل کے طورپر پیش کررہے ہیں، لیکن اول تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ’’سیکولرازم کی تبلیغ‘‘ اور ’’ مذہبی بیانیہ‘‘ کے اس نکتے میں کیا فرق ہوا؟ سیکولرازم بھی یہی کہتا ہے کہ ’’ریاست کا دین سے کو ئی تعلق نہیں، کیونکہ دین ایک خالص انفرادی معاملہ ہے۔‘‘ وہ بھی یہی کہتا ہے کہ ’’پارلیمان پر کسی دین کی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، لہٰذا قراردادِ مقاصد کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ اور یہی باتیں جناب غامدی صاحب کے اس نکتے میں بھی ارشاد فرمائی گئی ہیں، کیا عنوان بدل دینے سے حقیقت میں کوئی فرق آجاتا ہے؟ پھر یہ عجیب بات ہے کہ اس کے بعد آگے خود جناب غامدی صاحب نکتہ نمبر:۸ میں فرماتے ہیں کہ: قرآن کریم کے ارشاد ’’أَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘‘ کا تقاضا ہے کہ ملک میں ایک پارلیمان قائم ہونی چاہیے، اور علما ہوں یاریاست کی عدلیہ، پارلیمان سے کوئی بالاتر نہیں ہوسکتا۔ ’’أَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘‘ کا اُصول ہر فرد اورادارے کوپابندکرتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں سے اختلاف کے باوجود عملاً اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں، اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے، اس سے ہٹ کر جو حکومت قائم کی جائے گی، وہ ایک ناجائز حکومت ہوگی۔‘‘ ان دونوں باتوں کے مجموعے سے مطلب یہی نکلتا ہے کہ پارلیمان وجود میں تو قرآنی حکم  ’’أَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘‘ کے تحت آئے گی، مگر اس کے بعد اُسے اس بات کا پابند نہیں کیا جاسکتا کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہ بنائے، البتہ ملک کے افراد اور ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ پارلیمان کے ہر فیصلے پر سرتسلیم خم کردیں۔ یہاں پہلا سوال تویہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، اور نہ پارلیمان کے فیصلوں کو قرآن وسنت کا پابند کیا جاسکتا ہے، تو ’’أَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘‘ کا قرآنی اصول اس کے لیے کس بنیادپر لازم ہوگیا؟ اور یہ بات کس بنیاد پر کہی جارہی ہے کہ:’’اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے‘‘ جبکہ ریاست کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمان مغربی ممالک کی طرح ہم جنس شادیوں کا قانون نافذ کردے تو کیا قرآن کریم کاباہمی مشاورت کا یہ اصول پھر بھی ’’ہر فرد اورادارے کو پابند کرتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں سے اختلاف کے باوجود عملاً اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں؟‘‘ اگر نہیں تو کیوں؟ جبکہ پارلیمان پرکوئی پابندی نہیں کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی نہ کرے؟ پھر جناب غامدی صاحب نے آگے اپنے نکتہ نمبر:۹ میں فرمایا ہے کہ :’’ دین کے ایجابی احکام میں سے یہ صرف نماز اور زکوٰۃ ہے جس کا مطالبہ مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی اگر چاہے تو قانون کی طاقت سے کرسکتا ہے‘‘۔ ’’نظم اجتماعی‘‘ سے ان کی مراد غالباً حکومت ہی ہے ، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کو بزورِ قانون لازمی قرار دے کر بے نمازیوں پر سزا جاری کرے؟ اگر یہ واقعی کوئی قرآن کریم کا حکم ہے کہ نماز کا مطالبہ قانون کی طاقت سے کیا جائے، جیساکہ جناب غامدی صاحب نے فرمایا ہے، تو پھر ’’اگر چاہے ‘‘ کی جوشرط انہوں نے لگائی ہے، اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اس قرآنی حکم پر عمل حکومت کی چاہت پر موقوف ہے، لہٰذا اگر وہ نہ چاہے تو اس حکم پر عمل نہ کرے۔ اس صورت میں سورۂ احزاب کی اس آیت (نمبر:۳۶) کا کیا مطلب ہوگا؟ جس میں فرمایا گیا ہے کہ :’’ اور جب اللہ اور اس کا رسول (a) کسی بات کا فیصلہ کردیں تو کسی مؤمن مرد یاعورت کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ انہیں اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔‘‘ آگے معاشرتی احکام کے حوالے سے اپنے نکتہ نمبر:۱ میں جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں: ’’حکومت ان کی (عوام کی) رضامندی کے بغیر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس ان پر عائد نہیں کرسکے گی، ان کے شخصی معاملات، یعنی نکاح، طلاق، تقسیم وراثت، لین دین اور اس نوعیت کے دوسرے امور اگر ان میں کوئی نزاع ہو تو اس کا فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہوگا۔ ‘‘ یہاں پھر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جب ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور اس پر قرآن وسنت یا شریعت کے مطابق قانون سازی کی کوئی پابندی نہیں، تو عدلیہ پر ان احکام میں شریعت ہی کے مطابق فیصلے کرنے کی پابندی کس بنیاد پر ہوگی؟ اور اگر ان معاملات میں پارلیمان شریعت کے بجائے کسی اور قانون کی پابندی کا حکم دے تو اس کے سامنے نکتہ نمبر:۸ کے تحت سر تسلیم کیوں خم نہ کیا جائے؟  دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ: ’’ان کی رضامندی کے بغیر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی۔‘‘ظاہر ہے کہ اس میں عوام کی رضامندی سے مراد پارلیمان کی مرضی ہے، لہٰذا مذکورہ جملے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کے لیے تو پارلیمان کی منظوری درکار ہے، لیکن زکوٰۃ حکومتی سطح پر عائد کرنے کے لیے پارلیمان کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہی مقصود ہے تو حکومت پارلیمان کے کسی قانون کے بغیر زکوٰۃ کس بنیادپر وصول کرے گی؟ اور اس کی اس اتھارٹی کا سرچشمہ کیا ہوگا؟ اگر وہ سرچشمہ قرآن کریم ہے تو کہنا ہوگا کہ قرآن کریم پارلیمان پر بالا دستی رکھتا ہے، پھر ریاست کا کوئی مذہب نہ ہونے کا اصول کہاں گیا؟ آگے جناب غامدی صاحب نے فرمایا ہے :’’ ریاست کا کوئی مسلمان شہری اگر زنا، چوری، قتل، فساد فی الارض اور قذف کا ارتکاب کرے گا اور عدالت مطمئن ہوجائے گی کہ اپنے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں، تو اس پر وہ سزائیں نافذ کی جائیںگی جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دعوت کو پورے شعوراور شرح صدر کے ساتھ قبول کرلینے کے بعد ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اپنی کتاب میں مقرر کردی ہیں۔‘‘ یہاں دو سوال پھر پیدا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ کیا ایسی صورت میں پارلیمان اور حکومت پر لازم ہے کہ وہ ایسے مسلمانوں پر یہ قرآنی سزائیں جاری کرے؟ اگر قرآن کریم کے حکم کے تحت لازم ہے تو جب پارلیمان پر قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی کی کوئی پابندی نہیں ہے تو اس پر یہ پابندی کیسے لازم ہوگی کہ وہ قرآنی سزائیں ہی جاری کرے، اور ان معاملات میں اپنی طرف سے کوئی اور سزا تجویز نہ کرے، یا ان میں سے کسی جرم ( مثلاً زنا بالرضا) کو جائز قرار نہ دے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سزائیں قرآن کریم ہی کی بنیاد پر دی جائیں گی تو کیا قرآن کریم میں کوئی ایسی تفریق ہے کہ یہ سزائیں صرف ان مسلمانوں کے لیے ہیں جو شعور کے ساتھ اسلام کی دعوت کو قبول کریں، اور غیر مسلم چوروں، قاتلوں اورفساد فی الارض پھیلانے والوں کو ان سے مستثنیٰ رکھا جائے؟ جیسا کہ جناب غامدی صاحب نے فرمایا ہے کہ’’ یہ سزائیں صرف مسلمانوں ہی کے لیے ہوں گی۔‘‘ جناب غامدی صاحب نے اپنے اس ’’بیانیے‘‘ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ :’’اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح کہ عام طورپر سمجھا جاتا ہے،قرآن وحدیث میں کسی جگہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں، یا اُنہیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔‘‘ یہ وہی دو قومی نظریہ کا مسئلہ ہے، جس کی بنیاد پر قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ یہاں مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں پر لغت یا عرفِ عام کے مطابق لفظ ’’قوم ‘‘ کا اطلاق درست ہے یا نہیں ؟ مسئلہ یہ ہے کہ مستقل سیاسی اور اجتماعی وحدت کے لحاظ سے تمام مسلمانوں کو (چاہے وہ کسی رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں) غیر مسلموں سے الگ سمجھنا اور اس بناپر ان کے لیے الگ خطۂ زمین کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟ قائد اعظم نے پاکستان کا مطالبہ کرتے ہوئے جو دو قومی نظریہ پیش کیا تھا اور جس کی بنیادپر آج ہم ایک الگ ملک کی حیثیت سے بیٹھے ہیں، اس کا مطلب یہی تھا۔ اس دو قومی نظریے پر بھی یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ’’قوم‘‘ کا لفظ استعمال کرنا لغت اور عرفِ عام کے اعتبار سے درست نہیں ہے، لیکن ان کا مقصد ’’مستقل سیاسی وحدت‘‘ تھا، جس کی بنیادپر اپنے اختیار سے کوئی حکومت قائم کی جائے۔ لغوی اعتبار سے تو تمام انبیاء o کی مخاطب ان کی قومیں ہی تھیں، لیکن انہوں نے ان کی بنیاد پر کوئی مستقل سیاسی وحدت قائم نہیں کی اور اگر کوئی ریاست قائم ہوئی تو وہ وطن اور رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اسلام کی بنیاد پر ہوئی، جیسے: حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد و سلیمان o کی حکومتیں اور خود رسولِ کریم a کی مدنی حکومت، البتہ اس میں غیر مسلموں کو تمام شہری اور مذہبی حقوق برابر حاصل تھے۔ جناب غامدی صاحب نے ایک اور بات اپنے نکتہ نمبر:۲ میں یہ ارشاد فرمائی ہے کہ :’’نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے، اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔‘‘ قرآن کریم نے سورۂ ’’بقرہ‘‘ آیت نمبر:۳۰ میں حضرت آدم m کے تذکرے میں ارشاد فرمایا ہے: ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ اورسورۂ ’’ص‘‘ آیت نمبر:۲۶ میں حضرت داؤدm سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔‘‘ نیز سورۂ ’’نور‘‘ آیت نمبر:۵۵ میں ارشاد فرمایا ہے :’’ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں خلافت عطا فرمائے گا، جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلافت عطا فرمائی تھی اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کو جو خوف لاحق رہاہے اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا فرمائے گا۔ وہ میری عبادت کریں ، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘ اس کے علاوہ متعدد احادیث ہیں جن میں اسلامی ریاست کے امیر کو خلیفہ کہا گیا ہے اور اس کی حکومت کو خلافت سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ قرآن و حدیث کے ان ارشادات کی بنا پر اسلامی لٹریچر اس اصطلاح سے بھرا ہوا ہے۔ فلسفہ و تاریخ کے عبقری عالم ابن خلدون v ’’خلافت ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو شرعی طرزِ فکر کے مطابق چلانا جس سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوں اور وہ دنیوی مصلحتیں بھی جن کا نتیجہ آخرکار آخرت ہی کی بہتری ہوتا ہے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون : باب :۳، فصل :۲۵، ص:۱۸۹) قرآن وحدیث کے ان ارشادات اور چودہ سوسال سے اس اصطلاح کے معروف ومشہور بلکہ متواتر ہونے کے باوجود یہ فرمانا کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے ، اس پر تبصرے کے لیے میرے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں۔ جناب غامدی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ: ان کا یہ ’’مذہبی بیانیہ‘‘ دہشت گردی کے موجودہ مسائل کی اصلاح کر سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دستورِ پاکستان کو تلپٹ کرکے ان متضاد نکات کی بنیاد پر نئے سرے سے دستور بنایا جائے تو دہشت گرد اپنی دہشت گردی سے باز آجائیں گے یا ان کا خود بخود قلع قمع ہوجائے گا۔ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ الحمد للہ! ہمارے موجودہ دستور میں چند جزوی باتوں کے سوا کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے جوہری احکام پر ٹھیک ٹھیک عمل نہیں ہورہا ہے، ہمارے دستور میں جو بنیادی حقوق دئیے گئے ہیں، وہ لوگوں کو پوری طرح حاصل نہیں ہیں، پالیسی کے جو اصول بنائے گئے ہیں، ان پر ایک دن عمل نہیں ہوا، صوبوں کو جو حقوق ملنے چاہئیں، وہ نہیں مل رہے، عوام کو قدم قدم پر مشکلات، رشوت ستانی اور ظلم وستم کا سامنا ہے، معیشت کے میدان میں اونچ نیچ حد سے بڑھی ہوئی ہے، سرکاری دفتروں سے کام کرانا جوئے شیر لانے کے مرادف ہے، عدل وانصاف کے دروازے غریبوں کے لیے تقریباً بند ہیں۔ دستور میں یہ لکھا ضرور ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور اس کے لیے دستور نے ایک میکنزم بھی تجویز کردیا ہے جس پر اگر ٹھیک ٹھیک عمل ہو تو وہ فرقہ واریت کا بھی سد باب کرسکتا ہے، لیکن اُسے برسر کار لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی۔ یہ مجموعی صورت حال عوام میں مایوسی اور چڑ چڑاہٹ پیدا کرتی ہے اور شرپسند لوگوں کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا ہے کہ یہ اصلاحات پرامن ذرائع سے نہیں ہوسکتیں اور حکومتوں کے اس طرزعمل نے اس بات کو مزید ہوا دی ہے کہ جو مطالبہ شریفانہ طورسے وعظ ونصیحت اور مشورے کے طورپر کیا جائے ، حکومت اُسے درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتی اور لوگوں کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ کوئی مطالبہ اسی وقت قابل سماعت ہوسکتا ہے جب وہ ہڑتال اور جلاؤ گھیراؤ کے ساتھ کیا جائے اور اسی کا آخری حل یہ ہے کہ حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے جائیں۔ ملک کے دشمن مسلسل اس فکر کو ہوا دے رہے ہیںاور اسی بنیادپر جذباتی نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ لہٰذا مسئلہ دستور میں کسی جوہری تبدیلی کا نہیں، مسئلہ اس پر ٹھیک ٹھیک عمل کا ہے۔ اگر اس پر سنجیدگی سے عمل ہونے لگے ، عوام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف میسر ہو اور اسلام کے عادلانہ قوانین ان کی روح کے ساتھ نافذ کیے جائیں، مجرموں کو انصاف کے تمام تقاضوں کے ساتھ عبرت ناک سزائیں دی جائیں تو یہ مسلح تحریکیں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔  خدا کے لیے نیا انتشار پھیلانے کے بجائے متحد ہوکر اس جہت میں کام کریں۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین