بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسلام آباد میں مندر کی تعمیراور مسجد کی تخریب

 

اسلام آباد میں مندر کی تعمیراور مسجد کی تخریب

 

ایک بار ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے کہا تھا کہ بیوروکریسی وقفے وقفے سے سانس لیتی ہے اور بعض اوقات کوئی ایسا پرانا ایشو اپنی فائلوں سے نکال کر لاتی ہے، جس سے پورا پاکستان اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے، کچھ ایسا ہی آج کل اسلام آباد میں مندر بنانے کے بارہ میں ہوا ہے۔ یہ بات تو حقیقت ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت اسلام اور مسلمانوں کے بارہ میں سوچنے اور ان کی فلاح میں پالیسیاں بنانے سے زیادہ غیرمسلموں کے بارہ میں عملی کام کرنے کے بارہ میں زیادہ رغبت رکھتی ہے ، چاہے وہ سکھوں کے لیے کرتارپورہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ ہو یا ہندؤں کے لیے مندر بنانے کی پالیسی یا قادیانیوں کو ہر سطح پر نوازنے کا معاملہ ۔ اور شاید یہ حکومت سمجھتی ہے کہ مغربی دنیا اس طرح کے اقدامات سے ہمیں زیادہ قابل قبول گردانے گی، لیکن یہ اُن کی بھول ہے، اس لیے کہ مغرب ہمیشہ اپنے مفادات کے تابع رہتا ہے، اسے کسی جماعت، یا شخصیت سے کوئی زیادہ دل چسپی نہیں ہوتی، لیکن اس سے قطع نظر آج کل اسلام آباد میں مندر بنانے کی مہم زوروں پر ہے، بعض اس کے حق میں ہیں اور بعض اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام غیرمسلموں کے حقوق کا ضامن ہے، لیکن اس کے کچھ حدود اور قیود ہیں۔
اسلام آباد میں مندر بنانے کی سوچ اور اس کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اخبارات کی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۷ فروری ۲۰۱۶ء میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی سینیٹر نسرین جلیل جب سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہ تھیں، انہوں نے یہ حکم جاری کیا کہ اسلام آباد میں موجود آٹھ سو ہندوؤں کے لیے شمشان گھاٹ اور مندر کی جگہ مختص کی جائے۔ اس کے لیے ہندؤوں نے نواز شریف دور میں چار ہزار گز کا پلاٹ حاصل کرلیا، حالانکہ اسلام آباد میں پہلے سے کئی مندر موجود ہیں اور وہ سب ویران پڑے ہیں اور سب سے قریب ترین مندر سید پورہ اسلام آباد میں ہے۔
حکومتی حلقوں سے سب سے پہلے اس مندر بنانے کے خلاف مؤثر آواز اسپیکر پنجاب اسمبلی جناب پرویز الٰہی صاحب نے بلند کی اور کہا:پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اس کے دارالحکومت اسلام آباد میں بنانا نہ صرف یہ اسلام کی روح کے خلاف ہے، بلکہ ریاستِ مدینہ کی توہین ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت اللہ شریف میں موجود تین سو ساٹھ بتوں کو توڑا تھا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ :’’حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا۔‘‘ ہم اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ ہیں، پہلے سے موجود جو مندر ہیں ان کی مرمت کی جانی چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے، اس میں کوئی بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے وہ شرعی وقانونی مجرم ہے۔ 
البتہ اسلام آباد ایسا شہر ہے جو زمانۂ قدیم سے مسلمانوں کی ملکیت چلاآرہا ہے اور اس کی بلدیاتی حیثیت بھی مسلمانوں نے قائم کی ہے، اس لیے اسلام آباد میں ہندوبرادری کے لیے نیا مندر بنانا شرعی لحاظ سے درست نہیںہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے پاکستان میں شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کا نظریہ بھی اس تعمیر کے مزاحم ہے، لہٰذا اسلام آباد میں حکومتی خرچے سے مندر بنانے کی بالکل گنجائش نہیں۔ بہرحال اچھا ہوا کہ عدالت نے اس معاملہ کو اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کیا، جو کہ ایک آئینی دارہ ہے، اس کا جو فیصلہ ہوگا وہ سب کو منظور ہوگا۔
دوسری جانب اسلام آباد میں ہی مسجدِ توحید کو جو کہ اہلِ حدیث مسلک کے زیرِانتظام تھی، اس مسجد کو انتظامیہ نے بغیر کسی نوٹس کے گرادیا، جس پر اسلام آباد کے تمام مسالک کے علماء نے اس کے خلاف احتجاج کیا، گرفتاریاں دیں اور پھر پورے ملک میں احتجاج ہوا کہ یہ ’’مسجد گراؤ اور مندر بناؤ‘‘ والی حکومتی پالیسی ہے ۔ اسلام آباد میں مندر بن رہا ہے اور مساجد گرائی جارہی ہیں۔ ادارہ بینات حکومت کے اس رویہ کی مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مسجد کو جتنا نقصان پہنچایا گیا ہے، نہ صرف یہ کہ اس نقصان کو پورا کیا جائے، بلکہ جو رقم دس کروڑ روپے مندر بنانے کے لیے منظور کی گئی ہے، وہ تمام رقم اس مسجد کی تعمیر پر خرچ کی جائے، تاکہ مسلمانوں کے قومی خزانے کی رقم صحیح مصرف میں خرچ ہوسکے،إن أرید إلا الإصلاح ماستطعت ، وماتوفیقي إلا باللّٰہ ، علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین