بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلافِ اُمت کا رمضان میں تلاوتِ قرآن کا معمول

اسلافِ اُمت کا رمضان میں تلاوتِ قرآن کا معمول

قرآن کریم کی تلاوت ایک عظیم الشان اور اہم عبادت ہونے کے ساتھ پُرکیف وپُرلذت عبادت بھی ہے۔ متعدد آیات اور کئی احادیثِ مبارکہ میں مختلف طریقوں سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی ترغیب وتاکید کی گئی ہے، اور تلاوتِ قرآن سے بےاعتنائی اور غفلت برتنے پر وعید سنائی گئی ہے۔ دوسری طرف رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کی اور زیادہ اہمیت وفضیلت ہے؛ کیونکہ قرآن پاک کو رمضان کے ساتھ خصوصی تعلق ہے کہ اس کا نزول اسی ماہِ مبارک میں ہوا، جیساکہ سورۂ بقرہ (آیت:۱۸۵) میں ہے:
’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْآنُ۔‘‘
ترجمہ: ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ ‘‘
چنانچہ ہر رمضان میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت جبرائیل  علیہ السلام  کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرتے تھے، جیساکہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے:
’’وکان جبريل يلقاہ في کل ليلۃ من رمضان، فيدارسہ القرآن۔‘‘ (۱)
ترجمہ: ’’جبرائیل  علیہ السلام  رمضان کی ہر رات حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملا کرتے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔‘‘
لہٰذا قرآن کریم کے رمضان المبارک کے ساتھ اس خصوصی تعلق کی وجہ سے ہمارے اسلاف اور اکابرین کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ رمضان میں تلاوتِ قرآن کثرت سے کرتے تھے، اور عام مہینوں کی بنسبت رمضان میں تلاوت زیادہ کرتے تھے، بلکہ بعض اکابرین کا تلاوتِ قرآن کے سلسلے میں ایسا معمول رہا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے، اور اسلاف کی قرآن شریف کے ساتھ انتہائی محبت اور شغف کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ذیل میں انہی اسلاف کے رمضان میں تلاوتِ قرآن سے متعلق معمولات اور واقعات ذکر کیے جارہے ہیں۔

کثرتِ تلاوت سے متعلق ضروری وضاحت

کثرتِ تلاوت سے متعلق دو باتوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:
(الف) بعض احادیث میں تین دنوں سے کم میں قرآن پاک ختم کرنے سے ممانعت آئی ہے۔(۲)
لیکن حضرات فقہائے کرام اور ائمہ محدثین نے قرآن پاک کی عمومی آیات اور دیگر احادیث وآثار وغیرہ پر نظر کرتے ہوئے اس بات کی تصریح کی ہے کہ یہ ممانعت مطلقاً عدمِ جواز کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں ہے کہ اگر زیادہ تیز تلاوت کرنے سے الفاظ کی ادائیگی درست طریقے سے نہ ہوتی ہو یا غفلت سے تلاوت کی جائےوغیرہ۔ لیکن اگر تلفظ کی درستگی اور تجوید کا لحاظ رکھتے ہوئے، شوق ونشاط کے ساتھ تین دنوں سے کم میں ختمِ قرآن کیا جائے تو یہ ممنوع نہیں ہوگا۔(۳) چنانچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  بھی تین دنوں سے کم میں ختمِ قرآن کرتے تھے، چنانچہ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
’’وأما الذين ختموا القرآن في رکعۃ، فلا يحصون لکثرتہم، فمنہم عثمان بن عفان وتميم الداري۔‘‘ (۴)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ایک رکعت میں ختمِ قرآن کیا ہے، زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں شمار کرنا مشکل ہے۔ ان میں سے حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت تمیم داریؓ بھی ہیں۔‘‘
(ب) تقویٰ وطہارت اور دیگر وجوہ کی بناپر اللہ تعالیٰ نے ہمارے اسلاف کے وقت میں برکت ڈالی تھی، اسی طرح ان کی ہمت اور قوتِ ارادی بھی زیادہ تھی، جس کی وجہ سے وہ تھوڑے سے وقت میں زیادہ کام انجام دیتے تھے، اور مختصر وقت میں زیادہ تلاوت کرتے تھے۔ اور وقت میں برکت پیدا ہونے کا ثبوت بعض احادیث سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ علامہ ابن حجرؒ رقم طراز ہیں:
’’وفي الحديث أن البرکۃ قد تقع في الزمن اليسير حتی يقع فيہ العمل الکثير۔‘‘ (۵)
ترجمہ: ’’حدیث میں ہے کہ بسااوقات تھوڑے سے زمانے میں برکت ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس میں زیادہ عمل ہوجاتا ہے۔‘‘
اور علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ  ایک روایت ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
’’وفيہ: الدلالۃ علی أن اللہ تعالیٰ يطوي الزمان لمن يشاء من عبادہ۔‘‘ (۶)
ترجمہ: ’’اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے زمانہ لپیٹ دیتا ہے۔‘‘
لہٰذا موجودہ زمانے کے لوگوں پر اسلاف کو قیاس کرکے ان کے تلاوتِ قرآن سے متعلق حیرت انگیر واقعات کا انکار کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔

سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ  ایک بڑے محدث ہونے کے ساتھ نڈر اور بہادر مجاہد بھی تھے، اور ظلم وستم کے خلاف بَرسرِپیکار رہتے تھے۔ دیگر دینی خدمات انجام دینے کے باوجود وہ رمضان المبارک میں ہر روز مغرب وعشاء کی نماز کے درمیان ایک قرآن پاک ختم کرتے تھے، اور لوگ ان کی رعایت میں عشاء کی نماز عام وقت سے کچھ مؤخر کرکے پڑھتے تھے، چنانچہ تراجم وطبقات وغیرہ کی کتب میں ان سے متعلق لکھا ہے:
’’کان سعيد بن جبير يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء في شہر رمضان۔‘‘ (۷)
ترجمہ: ’’سعید بن جبیرؒ ماہِ رمضان میں مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان قرآن مجید ختم کرتے تھے۔‘‘

قتادہ بن دعامہ رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

حضرت قتادہ بن دعامہ رحمۃ اللہ علیہ  کو علم حدیث میں بلند مقام حاصل تھا۔ بڑے بڑے محدثین ان سے روایتِ حدیث کرتے تھے، اگرچہ ظاہری بصارت سے محروم تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین حافظہ عطا کیا تھا۔ تلاوتِ قرآن کے سلسلے میں ان کا معمول یہ تھا کہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کرتے تھے، لیکن رمضان المبارک میں اور زیادہ تلاوت کرتے تھے، اور ہر تین دنوں میں قرآن پاک کا ختم فرماتے تھے، اور آخری عشرے میں ہر روز ختمِ قرآن کا معمول تھا، جیساکہ علامہ ذہبیؒ نے ذکر کیا ہے:
’’کان قتادۃ يختم القرآن في سبع، وإذا جاء رمضان ختم في کل ثلاث، فإذا جاء العشر ختم کل ليلۃ۔‘‘ (۸)
ترجمہ: ’’حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  ہر ہفتے قرآن پاک ختم کرتے تھے، اور جب رمضان آتا تو ہر تین دنوں میں ختم کرتے، پھر جب آخری عشرہ آتا تو ہر رات ختمِ قرآن کرتے تھے۔‘‘

منصور بن زاذان رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

منصور بن زاذانؒ تابعی اور حدیث کے رواۃ میں سے ہیں۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے انہیں دیگر اوصاف کے ساتھ ’’ثقۃ حجۃ‘‘ بھی کہا ہے (۹)، جو کہ تعدیل کے اعلیٰ مراتب میں سے ہے، حضرت منصور بن زاذان رحمۃ اللہ علیہ  انتہائی عبادت گزار بھی تھے، یہاں تک کہ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اتنے زیادہ نیک اعمال کرتے تھے کہ : ’’لو قيل لمنصور بن زاذان إن ملک الموت علی الباب ما کان عندہٗ زيادۃ في العمل۔‘‘ (۱۰) یعنی اگر منصور بن زاذان رحمۃ اللہ علیہ  کو بتایا جائے کہ حضرت عزرائیل  علیہ السلام  دروازے پر کھڑے ہیں تو اس سے بھی ان کے عمل میں اضافہ نہیں ہوسکے گا۔
ان کو قرآن پاک سے خصوصی لگاؤ تھا، چنانچہ رمضان المبارک میں ان کا تلاوتِ قرآن کا معمول یہ ہوتا تھا کہ روزانہ مغرب اور عشاء کے درمیان ایک ختم کرتے تھے، چنانچہ ہشام بن حسان ان کے بارے میں کہتے ہیں:
’’وکان إذا جاء رمضان ختم القرآن العظيم فيما بين المغرب والعشاء۔‘‘ (۱۱)
ترجمہ: ’’جب رمضان کا مہینہ ہوتا تو وہ مغرب اور عشاء کے درمیان ختمِ قرآن کرتے تھے۔‘‘
بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت منصور بن زاذان رحمۃ اللہ علیہ  ماہِ رمضان میں ہر روز دو مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے۔(۱۲)

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

امام ابوحنیفہؒ کے علمی مرتبے سے کون ناواقف ہوگا؟ ان کے فقہی مقام کا موافقین کے ساتھ مخالفین کو بھی اعتراف ہے۔ تدوینِ فقہ کی مشغولیت، اور تعلیم وتدریس وغیرہ کی مصروفیت کے باوجود رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کرتے تھے، اور رمضان میں ہر دن اور رات کو ایک ایک ختمِ قرآن کرتے تھے، اور یہی معمول عید الفطر کی رات اور دن کو بھی رہتا تھا۔ اس طرح کل ملا کے باسٹھ (۶۲) مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے، چنانچہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’کان أبو حنيفۃ يختم القرآن کل يوم وليلۃ ختمۃ، فإذا کان شہر رمضان ختم فيہ مع ليلۃ الفطر ويوم الفطر اثنتين وستين ختمۃ۔‘‘ (۱۳)
ترجمہ: ’’امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ہر دن اور رات کو ختمِ قرآن کرتے تھے، اور جب ماہِ رمضان ہوتا تو عیدالفطر کی رات اور دن ملاکر باسٹھ (۶۲) ختم کرتے تھے۔‘‘

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ایک عالی مقام فقیہ اور بلند پایہ محدث تھے۔ علم کی نشر واشاعت میں ہمہ وقت لگے رہتے تھے، لیکن اس کے باوجود تلاوت ِقرآن بکثرت کرتے تھے، اور رمضان المبارک میں یہ معمول بڑھ جاتا تھا کہ دن کو ایک ختم اور رات کو دوسرا ختم کرتے تھے، اس طرح ماہِ مبارک میں ساٹھ (۶۰) مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے، جیساکہ ربیع بن سلیمان کہتے ہیں:
’’کان الشافعيؒ يختم في کل ليلۃ ختمۃ، فإذا کان في شہر رمضان ختم في کل ليلۃ منہا ختمۃ وفي کل يوم ختمۃ، فکان يختم في شہر رمضان ستين ختمۃ۔‘‘ (۱۴)
ترجمہ: ’’امام شافعیؒ ہر رات ختمِ قرآن کرتے تھے، اور جب رمضان ہوتا تو رات کو ایک ختم اور دن کو دوسرا ختمِ قرآن کرتے تھے، لہٰذا ماہِ رمضان میں ساٹھ (۶۰) ختمِ قرآن کرتے تھے۔‘‘

حارث بن اسد رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

حضرت حارث بن اسد رحمۃ اللہ علیہ  امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے مشہور تلامذہ میں سے ایک ہیں۔ تحصیلِ علم کے بعد وہ اور امام مالکؒ کے دوسرے دو مشہور شاگرد یعنی ابنِ وہبؒ اور ابن قاسم ؒ رخصت ہونے لگے تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے ابنِ وہبؒ اور ابن قاسمؒ کو تقویٰ اور علم کی نشر واشاعت وغیرہ کی وصیت کی، لیکن حارث بن اسدؒ کو تلاوتِ قرآن کی نصیحت کی۔ چنانچہ وہ فرماتے تھے: ’’لم يرني أہلاً للعلم‘‘ یعنی امام مالکؒ نے مجھے علم کا اہل نہیں دیکھا ہوگا، اس لیے علم سے متعلق نصیحت نہیں کی۔ بہرحال امام مالکؒ کی اس نصیحت کو انہوں نے اپنی زندگی کا اہم مقصد بنا لیا، اور بہت زیادہ تلاوتِ قرآن کرتے تھے، چنانچہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ  ان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’کان ثقۃ خياراً مستجاباً يختم القرآن في کل ليلۃ من رمضان۔‘‘ (۱۵)
ترجمہ: ’’وہ ثقہ، نیک اور مستجاب الدعوات تھے، رمضان میں ہر رات ختمِ قرآن کرتے تھے۔‘‘

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  جیسی جلیل القدر ہستی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ احادیث کی نشر واشاعت میں مشغولیت اور انہماک کے باوجود رمضان المبارک میں کئی مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ سحری کے وقت تقریباً تہائی قرآن کے بقدر تلاوت کرتے، اور ہر تین دنوں میں بوقتِ سحری ایک مرتبہ ختمِ قرآن کرتے۔ اسی طرح ہر روز دن کو بھی ختمِ قرآن کرتے تھے، اور قرآن کی تکمیل بوقتِ افطار کرتے تھے؛ کیونکہ ایک تو افطاری کا وقت قبولیتِ دعا کا وقت ہے، اور دوسرا ختمِ قرآن کے موقع پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس طرح دونوں کو جمع کرتے تھے، جیساکہ خطیب بغدادیؒ امام بخاریؒ کے حالات میں لکھتے ہیں:
’’وکان يقرأ في السحر ما بين النصف إلی الثلث من القرآن، فيختم عند السحر في کل ثلاث ليال، وکان يختم بالنہار کل يوم ختمۃ، وتکون ختمۃ عند الإفطار کل ليلۃ ويقول: عند کل ختم دعوۃ مستجابۃ۔‘‘ (۱۶)
ترجمہ: ’’امام بخاریؒ سحری کے وقت آدھے یا تہائی کے بقدر قرآن کی تلاوت کرتے، اور ہر تین راتوں میں بوقتِ سحر قرآن پاک ختم کرتے تھے، اور ہر دن کو بھی ختمِ قرآن کرتے تھے، اور یہ ختم افطار کے وقت ہوتا تھا، اور وہ فرماتے تھے کہ ہر ختم کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘

محمد بن محمد تیونسی رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

محمد بن محمدبن عبد الرحمٰن تیونسی رحمۃ اللہ علیہ  اپنے وقت کے مشہور بزرگ اور عبادت گزار تھے، ابتدا میں تجارت کرتے تھے، اور بڑی دولت کے مالک تھے، لیکن پھر تمام مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا، اور ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہنے لگے۔ قرآن پاک سے بہت محبت تھی، چنانچہ رمضان المبارک میں ایک سو مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے، جیساکہ علامہ ابن الخطیبؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وکان يختم القرآن في شہر رمضان مائۃ ختمۃ۔‘‘ (۱۷)
ترجمہ: ’’وہ ماہِ رمضان میں ایک سو (۱۰۰) مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے۔ ‘‘

ابوبکر محمد بلاطنسی رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

ابوبکر محمد بن محمد بلاطنسی رحمۃ اللہ علیہ  اپنے وقت کے مشہور عالم دین تھے۔ مختلف علوم میں ان کو مہارت حاصل تھی، لیکن علمِ فقہ میں ان کا بہت بلند مقام تھا کہ وقت کےفقہاء بھی مشکل مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ علم کے حصول اور اس کی نشر واشاعت میں گزارا، اور آخری عمر میں دیگر دینی اور علمی مصروفیات کم کرکے تلاوتِ قرآن کثرت سے کرنے لگے۔ رمضان المبارک میں ان کا تلاوتِ قرآن کے سلسلے میں یہ معمول تھا کہ ہر رات دو مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے، جیساکہ علامہ نجم الدین غزیؒ ان کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں:
’’وکان يختم في رمضان في کل ليلۃ ختمتين وأکب في آخر عمرہٖ علی التلاوۃ، فکان لا يأتيہ الطلبۃ لقراءۃ الدرس إلا وجدوہ يقرأ القرآن۔‘‘ (۱۸)
ترجمہ: ’’وہ رمضان میں ہر رات دو مرتبہ ختمِ قرآن کرتے تھے، اور آخری عمر میں تلاوتِ قرآن میں انہماک کے ساتھ مشغول ہوئے، جب بھی طلبہ سبق پڑھنے آتے تو انہیں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئےپاتے۔‘‘

محمود بن ابی بکر جزری رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

محمود بن ابی بکر جزری رحمۃ اللہ علیہ  کا تعلق شافعی مسلک سے تھا۔ متعدد علوم وفنون میں کمال اور مہارت حاصل کی تھی، لیکن بعد میں سلوک وتصوف کی طرف زیادہ مائل ہونے لگے، اور زیادہ وقت عبادات وغیرہ میں خرچ کرتے تھے، تلاوت ِقرآن کے ساتھ انہیں بہت شغف تھا، اور ماہِ رمضان میں اور زیادہ ذوق وشوق سے تلاوت کرتے تھے، چنانچہ ماہِ مبارک میں ہر روز دو ختمِ قرآن کرتے تھے، جیساکہ سوانح نگار اُن سے متعلق لکھتے ہیں:
’’وکانت لہ مناقب کثيرۃ وأشياء عجيبۃ في ذٰلک وکان يصوم يوماً ويفطر يوماً ويختلي في رمضان في مکان يختم القرآن مرۃً بالليل ومرۃً بالنہار۔‘‘ (۱۹)
ترجمہ: ’’ان کے بہت مناقب اور اس سلسلے میں حیرت انگیز اشیاء ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اور رمضان میں ایک مکان میں خلوت اختیار کرتے، جہاں وہ ایک مرتبہ دن کو اور ایک مرتبہ رات کو ختمِ قرآن کرتے تھے۔‘‘

محمد زاہد بن عمر رحمۃ اللہ علیہ  کا معمول

شیخ محمد زاہد بن عمر رحمۃ اللہ علیہ  حرمین شریفین کے علماء میں سے تھے، ان کو مسجدِ نبوی میں درس وتدریس کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ علمی مشغولیات کے باوجود رمضان میں کثرت سے تلاوت کرتے تھے، اور ہر رات نماز میں ختمِ قرآن کرتے تھے، ان کے مضبوط حفظِ قرآن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے کے حفاظ کی ایک جماعت نے ان پر اعتراض کیا کہ ایک ہی رات میں ختمِ قرآن کرنے سے الفاظ کی درست ادائیگی نہیں ہوتی ہوگی، لہٰذا انہوں نے اپنا ایک آدمی شیخ محمد زاہدؒ کے پیچھے کھڑا کیا کہ اگر شیخ کی تجوید وترتیل، الفاظ یا کسی دسرے اعتبار سے کوئی بھی غلطی ہو تو وہ بیان کرے، ہر ایک غلطی بیان کرنے پر اس کو ایک مخصوص رقم دی جائے گی، چنانچہ وہ شخص شیخ محمد زاہدؒ کے پیچھے کھڑا ہوا، شیخ نے رات کو مکمل قرآن پاک ختم کیا، لیکن ان کی ایک غلطی بھی وہ شخص نہ نکال سکا۔(۲۰)
خلاصہ کلام یہ ہےکہ ہمارے اسلاف کو تلاوتِ قرآن کے ساتھ خصوصی شغف تھا، اور رمضان المبارک میں تو تلاوت کا معمول اور بڑھ جاتا تھا، اور دیگر نفلی عبادات پر تلاوتِ قرآن کو ترجیح دیتے تھے، لہٰذا ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ تلاوتِ قرآن کا معمول بنائیں، اور بالخصوص رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوت کریں۔

حواشی وحوالہ جات

۱: صحيح البخاري، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلی اللہ عليہ وسلم، (۴/۱۸۸)، رقم الحديث: ۳۵۵۴، الناشر: دار طوق النجاۃ، ط:۱۴۲۲ھ
۲: صحيح البخاري، کتاب الصوم، باب صوم يوم وإفطار يوم، (۳/۴۰)، رقم الحديث: ۱۹۷۸
۳: البرہان في علوم القرآن للزرکشي، (۱/۴۷۱)، الناشر: دار إحياء الکتب العربيۃ، مصر
۴: الأذکار للنووي، (ص:۱۰۲)، الناشر: دار الفکر- بيروت، ط:۱۴۱۴ھ- ۱۹۹۴م
۵: فتح الباري لابن حجر، (۶/۴۵۵)، الناشر: دار المعرفۃ، بيروت
۶: عمدۃ القاري للعيني، (۱۶/۷)، الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت
۷: تہذيب الکمال في أسماء الرجال للمزي، (۱۰/۳۶۳)، تحقيق: بشار عواد معروف، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط:۱۴۰۰ھ- ۱۹۸۰م
۸: سير أعلام النبلاء للذہبي، (۵/۲۷۶)، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط:۱۴۱۳ھ- ۱۹۹۳م
۹: تذکرۃ الحفاظ للذہبي، (۱/۱۰۷)، الطبقۃ الرابعۃ، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۱۹ھ- ۱۹۹۸م
۱۰: تہذيب الکمال في أسماء الرجال للمزي، (۲۸/۵۲۵)
۱۱: إکمال تہذيب الکمال للعلامۃ مغلطاي، (۱۱/۳۶۹)، رقم الترجمۃ: ۴۷۴۳، الناشر: الفاروق الحديثۃ للطباعۃ والنشر، ط:۱۴۲۲ھ- ۲۰۰۱م
۱۲: تاريخ الإسلام للذہبي، (۳/۷۴۰)، تحقيق: الدکتور بشار عواد معروف، الناشر: دار الغرب الإسلامي- بيروت، ط:۲۰۰۳م
۱۳: أخبار أبي حنيفۃ وأصحابہ للصيمري، (ص:۵۵)، الناشر: عالم الکتب- بيروت، ط:۱۴۰۵ھ- ۱۹۸۵م
۱۴: تاريخ دمشق لابن عساکر، (۵۱/۳۹۲)، الناشر: دار الفکر- بيروت، ط:۱۴۱۵ھ- ۱۹۹۵م
۱۵: ترتيب المدارک وتقريب المسالک للقاضي عياض، (۳/۳۲۲)، الناشر: مطبعۃ فضالۃ –المحمديۃ، المغرب
۱۶: تاريخ بغداد للخطيب، (۲/۳۳۱)، الناشر: دار الغرب الإسلامي- بيروت، ط:۱۴۲۲ھ- ۲۰۰۲م
۱۷: الإحاطۃ في أخبار غرناطۃ لابن الخطيب، (۳/۲۰۵)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۲۴ھ
۱۸: الکواکب السائرۃ بأعيان المائۃ العاشرۃ للغزي، (۲/۸۹)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۱۸ھ- ۱۹۹۷م
۱۹: سلک الدرر في أعيان القرن الثاني عشر، أبو الفضل محمد خليل، (۴/۱۲۷)، الناشر: دار البشائر الإسلاميۃ، ط:۱۴۰۸ھ- ۱۹۸۸م
۲۰: أعلام من أرض النبوۃ، أنس يعقوب کتبي، (۲/۱۰۴)، الناشر: المملکۃ العربيۃ- المدينۃ النورۃ، ط:۱۴۱۴ھ- ۱۹۹۳م

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین