بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا ۔۔۔ جذباتیت ہے یا حقیقت پسندی؟

اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا ۔۔۔ جذباتیت ہے یا حقیقت پسندی؟


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

۱۳؍ اگست ۲۰۲۰ء بروز جمعرات عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات گانٹھنے کی غرض سے اُسے بطور ملک تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں بھی یہ بحث چل پڑی ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلینا چاہئیں یا نہیں؟ اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے عرب امارات معاہدے کے نکات پر نظر ڈال لینا چاہیے، جس کے مندرجات درج ذیل ہیں:
۱:- اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کا منصوبہ معطل کردے گا۔
۲:- دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملکوں میں اپنے اپنے سفارت خانے قائم کریں گے۔
۳:- سیکورٹی، توانائی، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔
۴:- دونوں ممالک میں براہِ راست پروازیں چلائی جائیں گی۔
۵:- متحدہ عرب امارات باقی مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے تیار کرے گا۔
۶:- اسرائیل سے امن معاہدے کرنے والے ممالک کے مسلمان مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھ سکیں گے۔
اس معاہدے پر تبصرہ اور گزارشات سے پہلے اسرائیل کے قیام کے پس منظر کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ صہیونیوں کا مکمل خفیہ منصوبہ ہے کہ ساری غیریہودی دنیا کو اپنا غلام بنا لیا جائے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اپنی عمل داری میں شامل کیا جائے۔ مسجدِ اقصیٰ کو تباہ کرکے اسی مقام پر ہیکل دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ ایک عظیم عالمی حکومت قائم کی جائے اور زمین پر یہودیت کے سوا کسی دوسرے مذہب کو زندہ باقی نہ رہنے دیا جائے۔ انہی مقاصد کے لیے انہوںنے عیسائیوں کے درمیان دو جنگیں کرائیں، سلطنتِ عثمانیہ کو تارتار کردیا، عیسائیوں کو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دو فرقوں میں تقسیم کرایا، دنیا کی معیشت کو اپنی مٹھی میں جکڑااور عیسائی قوم کو ناکارہ بنانے کی خاطر کھلی بے حیائی اور شہوت کو ان کے مردوں اور عورتوں کے لیے پسندیدہ ترین مشغلہ بنایا، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:یہودیت اور نصرانیت کی آپس میں چپقلش ، لڑائی اور تصادم ایک طویل عرصہ تک رہا ہے، وہ اس لیے کہ یہودیوں نے اپنے تئیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے، حتیٰ کہ بزعمِ یہود اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا۔ اس بنا پر عیسائی ہمیشہ یہودیوں کے دشمن رہے۔ طیطس رومی بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفعِ آسمانی کے تقریباً پون صدی بعد بیت المقدس پر قبضہ کرکے یہودیوں کو نکال دیا تھا، ان کا معبد ختم کرکے ان کے داخلہ پر پابندی لگادی تھی، حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے قبلہ اول کو فتح کیا اور عیسائی پادریوں نے اس کی چابیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیں اور اس وقت جو دستاویز تیار کی گئی، اس میں بطور خاص عیسائیوں نے یہ شرط لکھوائی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کا حق حاصل نہیں ہوگا، وہ یہاںپر کوئی پراپرٹی نہیں خریدسکیں گے، کوئی مکان نہیں بناسکیں گے، بس مقاماتِ متبرکہ کی زیارت کریں گے اور واپس چلے جائیں گے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔
یہودی جلاوطنی کے دور میں دنیا کے مختلف ممالک میں منتشر رہے، جلاوطنی کے اس دور میں یہودیوں نے اولاً اسلامی اندلس میں پناہ لی، جہاں جاکر انہیں کچھ چین اور آرام نصیب ہوا۔ اسپین پر جب اسلامی حکومت تھی اور وہ علم وعرفان کا مرکز کہلاتا تھا تو ہر طرف سے لوگ وہاں علم حاصل کرنے آتے تھے، حصولِ علم کے لیے اسپین آنے والوں میں عیسائی بھی تھے، جن کو یہودیوں نے آزاد خیالی اور حریتِ فکر کے نام پر بائبل سے برگشتہ کرنا شروع کردیا اور ان خیالات کے ذریعہ عیسائیت میں تفرقہ پیدا کیا، چنانچہ عیسائیوں کے دو فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ بن گئے۔ کیتھولک میں پوپ کی حیثیت ایک دینی سربراہ کی ہے ، جو اپنی قوم کی راہنمائی کرتا ہے اور قوم اس کی باتوں کو لیتی اور اس پر عمل کرتی ہے، جبکہ پروٹسٹنٹ فرقہ آزاد خیالی کا علم بردار اور حقوقِ انسانی کا دعوے دار بن گیا، جس کے نتائج آج پورا یورپ اور مغرب بھگت رہا ہے۔
جب اندلس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو ان پر سخت تشدد کیا گیا اور وہاں سے بھی ان کو نکالا گیا، یہی وہ زمانہ تھا جب نئی دنیا امریکہ دریافت ہوا تو یہودیوں کو وہاں جانے کا موقع ملا اور دوسری طرف عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے کے حامیوں نے بھی جن کو یہودیوںنے اپنی سازشوں سے دینِ عیسوی سے برگشتہ کیا ہوا تھا، امریکہ کی جانب رُخ کیا، عیسائیوں کا یہی فرقہ آج تک امریکہ میں غالب اکثریت میں چلا آرہا ہے اور اسی فرقہ نے پوپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ: ہر ایک کو کتابِ مقدس براہِ راست پڑھنے کا حق حاصل ہے۔ کتاب سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں پوپ کا کوئی کردار نہیں۔ اس تحریک کا بانی مارٹن لوتھر ہے، جس نے کتابِ مقدس کا ترجمہ انگریزی اور جرمنی زبان میں کیا، اس کی تحریک کے اثر سے کلیسا کے کردار سے برگشتہ عیسائیوں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ فلسطین یہودیوں کی سرزمین ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عرب قبائل تقریباً تین ہزار سال سے یہاں آباد ہیں، اور یہودیوں کو بہت کم یہاں رہنا نصیب ہوا ہے، اس لیے یہ کہنا کہ فلسطین یہودیوں کی زمین ہے، یہ اہلِ فلسطین اور عرب قبائل کے حق میں بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے۔
یہود نے عیسائیوں کو اپنے حق میں رام کرنے اور اپنا ہم نوا بنانے کے لیے چند ایک اقدامات کیے، جن میں یہودیوں نے اپنے مکروفریب ، چالاکی ودھوکا بازی اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی ناسمجھی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں اپنا یوں ہم نوا بنالیا کہ ہم ایک کتابِ مقدس یعنی عہد نامہ قدیم (جو تورات کے نام سے منسوب ہے) اورعہد نامہ جدید (جو اناجیلِ اربعہ پر مشتمل ہے) کے ماننے والے ہیں اور ہم دونوں گویا ایک ہیں۔ 
۲:- یہودیوں نے عیسائیوں کو باور کرایا کہ ہم ایک مسیح کی آمد کے منتظر ہیں، جو آکر دنیا میں امن برپا کرے گا، (اگرچہ مسلمانوں کے نزدیک امن برپا کرنے والے مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے، جن کا نزول قربِ قیامت آسمان سے ہوگا، نہ کہ یہودیوں کا مسیح ’’دجال‘‘ ہوگا، اور صحیح العقیدہ عیسائی بھی اس کو مانتے ہیں) لیکن نام نہاد عیسائیوں کی اکثریت یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ سے اسی مسیح (دجال) پر ایمان رکھتی ہے۔
۳:- یہودیوں نے عیسائی حکمرانوں پر غلبہ پانے کے لیے ایک اور چال چلی کہ عیسائیوں کے راہبوں اور پوپوں سے سود کی اجازت حاصل کرلی اور سود کے ذریعے اُن کی پوری معیشت پر چھاگئے۔ آج تمام یورپی حکومتیں ان یہودی بینکرز کی مقروض ہیں۔ ان کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ پہلے حکومتوں کو آپس میں لڑاتے، ان حکومتوں کو اسلحہ اور ہتھیار خریدنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی تو یہ اُن کو سود پر سرمایہ فراہم کرتے اور جب وہ ملک مقروض ہوجاتا تو اس ملک سے جو چاہتے منوالیتے۔ آج امریکہ اور پاکستان سمیت کئی ممالک اس یہود کے بچھائے ہوئے سودی جال میں پھنس چکے ہیں اور اس سودی لعنت میں گرفتار ہیں۔
۴:- یہود اور عیسائی دونوں اہلِ کتاب تو ہیں، مگر ان دونوں میں قدرِ مشترک اُمتِ محمدیہ(علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) سے ان کا بغض وعناد اور حسد ہے جو اُن کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے، اسی لیے اسپین میں جب ان یہودیوں کو تحفظ حاصل ہوا تو انہوں نے عیسائیوں کی نفرت اور دشمنی کا رخ یہودیوں کی بجائے مسلمانوں کی طرف پھیردیا، جس کے نتیجے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تین سو سال بعد عیسائیوں نے مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے صلیبی جنگیں شروع کردیں۔
بہرحال ایک عرصہ بعد عیسائیت اور یہودیت کا گٹھ جوڑ ہوگیا، جس کی بدولت یہودیت پس پردہ رہ کر عیسائیت کے نام لیواؤں سے ہر ہر وہ کام کروارہی ہے جو ان کے اپنے مفاد میں ہے، اس لیے کہ امریکہ ہو یا یورپ تمام کے تمام یہودیوں کے بینکوں اور ان کے اداروں کے مقروض اور مرہونِ منت ہیں، جس کی بناپر وہ مجبور محض بن کر یہود کے کٹھ پتلی اور ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں، حالانکہ پہلی جنگِ عظیم میں عالمِ عرب کے مسلمانوں نے اتحادیوں کا ساتھ دیا، لیکن ان سے کیے گئے وعدے سب ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ شام جو پہلے عثمانی خلافت کا ایک صوبہ تھا، اس کو تقسیم کرکے چار ملکوں اُردن، لبنان، سوریا اور فلسطین میں بانٹ دیا گیا۔ حجاز اورجزیرۃ العرب کو بھی کئی ممالک میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک طرف عرب کے مسلمان دوستی گانٹھنے میں انگریزوں سے مل کر ان کے دشمنوں اور مخالفین سے برسرپیکار تھے اور دوسری طرف اہلِ عرب کے خلاف انگریزوں کے اشاروں سے اعلان بالفور پر عمل درآمد ہورہا تھا۔ 
پہلی جنگ عظیم میں ’’اتحادی عصبیت‘‘ اور دوسری جنگ عظیم میں ’’اقوامِ متحدہ کے منشور‘‘ اور ’’حقوقِ انسانی‘‘ کے خوشنما نعروں کا راگ الاپا گیا، جس سال حقوقِ انسانی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا، ٹھیک اسی سال اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا، تاکہ دنیا پر ثابت کیا جائے کہ حقوقِ انسانی سے کیا مراد ہے؟ اور ان کا مستحق کون ہے؟
بہرحال یہودیوں نے برطانیہ سے معاہدہ کرلیا اور برطانوی وزیرخارجہ بالفور نے ۱۹۱۶ء میں ’’بالفورڈیکلیریشن‘‘ کے نام سے یہ اعلان کیا کہ سلطنتِ عظمیٰ برطانیہ ’’فلسطین‘‘ کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتی ہے اور ان کا یہ حق تسلیم کرتی ہے کہ جب بھی اُسے موقع ملا، وہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔
جنگِ عظیم اول کے نتیجے میں کچھ علاقے فرانس کے قبضہ میں چلے گئے اور کچھ برطانیہ کے پاس آگئے، فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے پاس آیا اور اس نے یہاں اپنا وائسرائے مقرر کیا اور اعلان کیا کہ یہودی جہاں بھی آباد ہیں، وہ یہاں آکر آباد ہوسکتے ہیں اور پھر جب یہودی اس حد تک یہاں آباد ہوگئے کہ ایک علاقہ ان کے لیے ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا جاسکتا تھا تو ۱۹۴۵ء میں وہ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کا کیس لے کر گئے‘ جسے منظور کرلیا گیا اور پھر برطانیہ اس علاقہ سے چلا گیا اور ۱۴مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قراردادِ تقسیم منظور کرتے ہوئے ساڑھے بارہ لاکھ فلسطینی عربوں کے لیے تو فلسطین کا ۴۵ فیصد رقبہ مخصوص کیا، مگر ۶ لاکھ یہودیوں کے لیے ۵۵ فیصد علاقہ دے دیا۔۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے ۷۵ فیصد رقبہ پر قبضہ کرلیا اور پھر دوسری عرب اسرائیل جنگ ۱۹۷۳ء میں پورا فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے تسلُّط میں آگیا۔ آج کا اسرائیل ۱۹۴۸ء کے اسرائیل سے تین گنا بڑا ہے اور وہ اپنی ریاست کی جغرافیائی سرحدات اور حدودِ اربعہ کا قائل ہی نہیں ہے۔ اسرائیل محض فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کرنے پر قانع نہیں ہے،بلکہ اسرائیل کی اپنی پارلیمنٹ میں صہیونی عزائم پر مشتمل جو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا نقشہ ہے، اس میں اُردن، مصر، شام، عراق، سوڈان اور آدھا سعودی عرب جس میں مدینہ منورہ بھی ہے ‘ شامل ہے، یہ سارا علاقہ اسرائیل اپنی گرفت میں لینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ 
عالمِ اسلام نے اس تقسیم کو بالکل قبول نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے اصل باشندوں کو ان کی زمین سے محروم کرکے وہ زمین یہود کو دے دی گئی، دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مقامی اور اصل حق داروں کوبے دخل کرکے ان کے علاقے پر مختلف ملکوں سے آنے والوں کو بسادیا جائے، اور پھر اُن کی ریاست بھی قائم کردی جائے۔
۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے مصر کے صحرائے سینا، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور بیت المقدس کے علاقہ پر قبضہ کرلیا، جو کہ اس وقت اُردن کے پاس تھا۔ اقوامِ متحدہ نے ۱۹۶۷ء کے بعد اسرائیل کے قبضہ شدہ علاقہ پر اس کے حق کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی ابھی تک یہ قراردادیں چلی آرہی ہیں کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن میں چلے جانا چاہیے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کوئی ملک کسی ملک کی زمین کو طاقت کی بنیاد پر قبضے میں نہیں لے سکتا۔
اس کے بعد کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ہوا، جس میں عربوں سے کہا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر جانے کے لیے ہم مجبور کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں مصر، شام اور چند دیگر عرب ممالک نے اسے تسلیم کیا، لیکن آج تک اقوامِ متحدہ اسرائیل سے یہ علاقے آزاد کرانے اور اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر لے جانے میں ناکام رہی۔اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں: ’’اے اسرائیل! تیری حدیں نیل سے فرات تک ہیں۔‘‘یہودی پروٹوکول کے مطابق یہودی ریاست اپنے سفارتی تعلقات میں کسی معاہدہ کی پابند نہیں رہ سکتی۔ ہاں! دوسرا اگر کوئی عہد کی خلاف ورزی کرے تو وہ اُسے سزا دے سکتی ہے، بلکہ یہودی ریاست اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق اپنے مفادات کی راہ میں آنے والے تمام پڑوسی ممالک پر جنگ بھی مسلط کرسکتی ہے۔
اس عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ پر سب سے جرأت مندانہ بیان عمان کے مفتی صاحب کا سامنے آیا کہ مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین کی آزادی اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے۔ اگر کوئی اس واجب کو پورا نہیں کرسکتا تو اُسے خاموش رہ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا چاہیے۔ اللہ کا کوئی بندہ اُٹھے گا اور اس ذمہ داری کوپورا کرے گا، مگر کسی حال میں بھی کسی کو اس واجب کو کمزور کرنے والے کسی اقدام یا مسجدِ اقصیٰ کی سودے بازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ظاہر ہے عرب امارات کے اس فیصلے سے قضیۂ فلسطین کمزور ہوجائے گا۔
اب اس معاہدے کی شق اول میں ہی دیکھ لیا جائے جس میں لکھا ہے کہ: ’’ اسرائیل مقبوضہ غرب اُردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کا منصوبہ معطل کردے گا۔‘‘
یعنی اسرائیل مزید علاقے بھی اپنے اندر لینے کا منصوبہ رکھتا ہے، جو وقت پر پورا کرے گا اور فی الحال کچھ وقت کے لیے اسے معطل اور مؤخر کرے گا۔ کیا صاحبِ بصیرت لوگوں کی اس سے آنکھیں نہیں کھل جانی چاہئیں؟ اور کیا یہ عظیم تر اسرائیل کی طرف پیش قدمی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اور مزید یہ کہ اس معاہدہ کی شق نمبر۵ میں کہا گیا کہ:
’’متحدہ عرب امارات باقی مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے تیار کرے گا۔‘‘
 گویا اب عرب امارات اس کے بے دام خادم اور ملازم کی حیثیت سے دوسرے ممالک کو بھی اسرائیل کے ماننے کی طرف مائل اور آمادہ کرے گا۔ افسوس ہے ان حضرات کی سوچ اور فکر پر جو ایسے معاہدہ پر آنکھیں بند کرکے دستخط کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔
معاہدہ کی شق نمبر۶ میں کہا گیا کہ:
 ’’ اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے والے ممالک کے مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھ سکیں گے۔‘‘ 
مطلب یہ کہ اول اسرائیل کے وجود کو بطور ملک دنیا کے تمام مسلمان تسلیم کرلیں۔ ۲:- تمام مسلم ممالک بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اس کا قبضہ یہودیوں کو دے دیں۔ ۳:- یہ کہ مسلمانوں کو بھی صرف بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہوگی اور کسی قسم کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ۴:- دوسرے مسلمانوں کے علاوہ بطور خاص جو فلسطینی باشندے اپنے ملک فلسطین کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں قربانیاں دے رہے ہیں، وہ بیت المقدس کی تولیت تو کجا ان کو اس میں نماز پڑھنے کا بھی حق نہیں ہوگا۔ یہ کیسا معاہدہ ہے جو فلسطین کے حقیقی وارثوں اور باشندوں کو ان کے ملک سے بے دخل اور روحانی مرکز سے محروم کررہا ہے۔
اب اسرائیل عرب ممالک کو ’’ایران‘‘ کا ڈراؤنا خواب دکھاکر اپنے حق میں رام کرنے میں لگا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایک عرب ملک اپنی اپنی حکومتوں اور ریاستوں کو خطرے میں جاتا دیکھ کر اسرائیل کی آغوش میں پناہ لینے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج عرب امارات ہے، کل کوئی دوسرا ملک ہوگا، پرسوں تیسرا ملک ہوگا، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ یہودی اور عیسائی گٹھ جوڑ صرف کسی ایک ملک کے خلاف نہیں، بلکہ یہ تو اُمتِ مسلمہ کے وجود کے خلاف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اہلِ پاکستان کو کیا اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہئیں یا اس پر کچھ اور موقف ہے؟ اس کے لیے عرض ہے کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ: ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور یہ مسلمانوں کے دل میں خنجر گھونپنے والی بات ہے، جسے ہم تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘ 
۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوامِ متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کی قرارداد منظور کی تو قائد اعظم نے ۸؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کو امریکی صدر ٹرومین کے نام خط بھیجا اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ فلسطین کے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں۔
اسی طرح علامہ اقبالؒ نے ۳ جولائی ۱۹۳۷ء کو ایک بیان جاری کیا، جس میں فلسطین کی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے عربوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے بادشاہوں پر اعتماد نہ کریں، کیونکہ یہ بادشاہ فلسطین پر کوئی درست فیصلہ کرنے کے قابل نہیں۔ (بحوالہ مکاتیبِ اقبال، مرتب شیخ عطاء اللہ)
۷؍ اکتوبر کو علامہ اقبالؒ نے قائد اعظم کے نام خط میں اصرار کیا کہ مسلم لیگ کے اجلاس میں فلسطین کے لیے قرارداد منظور کی جائے۔ کچھ دن بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے لکھنؤ میں اپنے ۲۵ویں سالانہ اجلاس میں فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی۔ ایسی ہی ایک قرارداد ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں منظور کی گئی۔ جب اسرائیل نے پاکستان سے سفارتی تعلقات کی درخواست کی تو قائد اعظم نے یہ درخواست نظر انداز کردی۔ الحمد للہ! شروع دن سے آج تک پاکستان اپنے اسی موقف پر قائم ہے اور وزیراعظم عمران خان صاحب نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ: ’’جو چاہے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے، پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘‘ وجہ یہ ہے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کا کوئی بھی زور آور ملک کمزور ملک پر چڑھائی کرکے اس کے علاقے کو ہتھیا سکتاہے۔اور مزید یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد ہم اخلاقی اور سیاسی طور پر بھارت سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ: تمہیں عربوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے، تمہیں خطرہ صرف پاکستان سے ہے، پاکستان کے وجود کو مٹانا ہوگا، یعنی پاکستان بھلے اسرائیل کو تسلیم بھی کرلے اور اس سے سفارتی تعلقات بھی قائم کرلے‘ اسرائیلیوں کے لیے پاکستان کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ اسی لیے اسرائیل نے ہر فورم پر ہمیشہ سے پاکستان کی مخالفت کی۔ ۱۹۶۵ء پاک بھارت جنگ میں اسرائیل نے بھارت کی کھل کر ہر طرح کی مدد کی۔ اسرائیل پاکستان کوواحد اسلامی جوہری ریاست ہونے کی بنا پر اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نیوکلئیر پاور کو اسرائیل نے ’’اسلامی بم‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ اسرائیلی قیادت پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے ہمیشہ ناپاک منصوبے بناتی رہی ہے۔ اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی مرکز کہوٹہ کو تباہ کرنے کی مکروہ منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔ کشمیر میں اسرائیل بھارتی فوج کے ساتھ مل کر حریت پسندوں پر ظلم ڈھارہا ہے، اسی لیے پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا یہ جذباتیت نہیں، بلکہ حقیقت پسندانہ موقف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین