بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسرائیل نامنظور ملین مارچ

 

اسرائیل نامنظور ملین مارچ

 

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے، اس دن سے ملحدین، مرتدین کے علاوہ وطن دشمن قزاقوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔ نعرہ تو مدینہ کی ریاست کا لگایا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف قومی اسمبلی اور میڈیا شوز میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، اسی طرح ایک اسرائیل کے ایجنٹ کی جانب سے اسلام آباد میں کیمپ کے اوپر اسرائیل کا جھنڈا لگاکر پاکستانیوں کا ردِ عمل چیک کیا جاتا ہے اور کبھی خاموشی سے حکومتی نمائندہ کو اسرائیل کا دورہ کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ عوام میں اسرائیل کے خلاف جب غم وغصہ کا اظہار کیا جاتا ہے، تو جناب وزیرِاعظم صاحب کہتے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کریں۔ موجودہ حکومت کی اس دو رُخی پالیسی اور ان کے مخفی عزائم کو بھانپتے ہوئے قائدِ ملتِ اسلامیہ ، جمعیت علمائے اسلام کے امیر اور پی ڈی ایم کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے اپنی جماعت کے زیرِاہتمام ۲۱ جنوری ۲۰۲۱ء بروز جمعرات نیو ایم اے جناح روڈ نزد مزارِ قائد کراچی پر ’’اسرائیل نامنظور ملین مارچ‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ اس ملین مارچ میں اخبارات کے مطابق لاکھوں لوگ اُمڈ آئے، جمعیت علمائے اسلام کے زیرِاہتمام اس ملین مارچ میں مسلم لیگ نون، پی پی پی، جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان کے وفود اور نمائندوں کی شرکت کے علاوہ جناب محمود خاں اچکزئی نے اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے اس میں شرکت کی۔ 
اس ملین مارچ میں مسجدِ اقصیٰ کے امام وخطیب جناب شیخ عکرمہ صبری صاحب اور غزہ سے حماس کے راہنما ڈاکٹر اسماعیل ہانیہ صاحب نے بھی خطاب کیا۔ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے اس اسرائیل نامنظور ملین مارچ میں عربی اور اردو دونوں زبانوں میں خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے عرب دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے عقیدے کی سرخ لکیر فلسطین ومسجد اقصیٰ ہے، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کبھی بھی کسی بھی صورت آپ کی آزادی کے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ فلسطینی بھائیوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستانی قوم خون کے آخری قطرے تک آپ کے ساتھ کھڑی ہے، فلسطین کو جب تک آزادی نہیں ملے گی، جب تک مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے پنجے سے آزادی نہیں ملے گی، تب تک ہم کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ اجتماع اُمتِ مسلمہ کی نمائندگی کررہا ہے، شاہ فیصل مرحوم نے فرمایا تھا کہ: تمام عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیں، پھر بھی ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ بانیِ پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ: اسرائیل نے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے، ہم اس کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ۱۹۴۰ء میں جب پاکستان نہیں بنا تھا اور اسرائیل بھی نہیں بنا تھا، قرار داد میں بانیِ پاکستان نے کہا تھا کہ: یہودی فلسطینی بستیوں میں آبادیاں بنا رہے ہیں اور ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ۱۹۴۰ء کی قرارداد‘ پاکستان کے وجود کا سبب بن سکتی ہے تو اس بات کی بھی یہی قرار داد ثبوت بن سکتی ہے۔ جب اسرائیل بنا تھا تو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم نے تقریر میں کہا تھا کہ اسرائیل کی پہلی تر جیح نوزائد ملک کو ختم کرنا ہے، ان کی خارجہ پالیسی ہی پاکستان کے خاتمہ کے لیے ہے، ہم بانیِ پاکستان کو پاکستان کی اساس قرار دیتے ہیں تو انہوں نے اقوامِ متحدہ میں جو موقف دیا تھا، وہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ قادیانی سر ظفر اللہ نے وزیر خارجہ ہونے کے باوجود پاکستانی موقف کے بجائے اس وقت بھی قادیانی موقف کو اپنایا تھا۔ مولانافضل الرحمٰن نے خطاب میں نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: وہ جمہوریت پریقین رکھتے ہیں، کشمیری اور فلسطینیوں کی جمہوری آزادی اور اُن کی رائے کا احترام کیا جائے اور امریکا فوری طور پر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ واپس لے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ:  اسرائیل کے خلاف میری تقریرکولائیو دکھانے پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن میری آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے، اسرائیل کو تسلیم کسی صورت نہیں کرنے دیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ: حرمین شریفین کا تحفظ ہمارا فریضہ ہے، سعودی عرب اور وہاں کی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کا بچہ بچہ تحفظ کے لیے تیار ہے۔ جنہوں نے فلسطین پر قبضہ کرایا ہے، وہی حرمین پر قبضے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
اس اسرائیل نامنظور ملین مارچ میں جہاں اخبارات کے مطابق عوام کا سمندر اُمڈ آیا، وہاں پاکستانی میڈیا سے اس ملین مارچ کا بلیک آؤٹ کیا گیا، ٹی وی چینلوں کو براہِ راست اس کی کوریج سے روکا گیا، لیکن دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام سے نکالے گئے دو تین افراد نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں پریس کانفرنس کرنا چاہی تو حکومتی افراد نے تمام ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کیں کہ اس پریس کانفرنس کو کوریج دی جائے۔ کیا کہا جائے کہ وزیراعظم کا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا بیان حقیقت پر مبنی ہے یا عوام کو دھوکا دے کر مخفی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے؟! فیصلہ عوام کریں۔
لہٰذا دین اور وطن کی خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے آئین پر مکمل عمل کیا جائے، پاکستان کے نظریہ کی حفاظت کی جائے اورجن بنیادوں اور نظریات پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا، ان بنیادوں کو مزید مستحکم اور ان نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین