بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

استفادہ کی چند بنیادیں

استفادہ کی چند بنیادیں


انسان اپنی زندگی میں حضرات اکابرعلماءکرام اوراولیاءاللہ کےوجودکوغنیمت جانے، اوران سے استفادہ کی خوب کوشش کرے، چاہےوہ زیارت اورمصافحہ کےساتھ ہی کیوں نہ ہو، اوراس میں ہرگز سستی نہ دکھائے، تاکہ ان کےعلوم وتجربات، برکات اورفیوضات سے کچھ روشنی حاصل کرلےاورمحروم نہ رہ جائے، کیونکہ بسااوقات ان اکابرین سےانسان وہ رمز اوراشارہ حاصل کرلیتاہےجوزندگی بھرکتابوں سےحاصل نہیں کرسکتا، بصورتِ دیگر ان اکابرین کے جانے کے بعد انسان زندگی بھر افسوس اور پچھتاوے میں رہتاہے اور تمنا کرتا ہے کہ کاش سستی کی بجائے چستی، اور تاخیر کی بجائے تعجیل سےکام لے لیتا، اور یہ سلسلہ شروع سے چلتا آرہا ہے کہ جنہوں نےبھی اس معاملےمیں کچھ تاخیر کی، پھر وہ زندگی بھر استفادہ کرنےکی خواہش اور تمنا ہی کرتے رہے۔ 
چنانچہ خطیب بغدادیؒ نےاپنی تصنیف ’’الرِّحلۃ في طلبِ الحدیث‘‘ میں خاص طورپر ایک ایسی فصل قائم کی ہے، جس میں انہوں نےان حضرات کاذکرکیاہے، جنہوں نےاستفادہ اورطلبِ حدیث کے لیے کسی معیّن شیخ کی طرف رختِ سفرباندھا، اور پھر پہنچنےپرمعلوم ہواکہ شیخ دَاعیِ اَجل کو لَبّیک کہہ چکےہیں، اس پروہ نہایت افسردہ ہوئے۔ چنانچہ بطورِترغیب اورنصیحت چندحضرات کاذکر کیا جاتا ہے:
1- حمادبن سلمہؒ کہتےہیں کہ میں مکہ آیا جبکہ ’’عطاءبن ابی رباحؒ‘‘ حیات تھے۔ میں نےسوچاکہ افطار کرنے (رمضان گزارنے)کے بعد ان کےپاس جاؤں گا، لیکن ماہِ رمضان میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ( ۱)
2- عبداللہ بن داؤدالخریبیؒ کہتےہیں کہ میرابصرہ جانےکاسبب ابن عونؒ کی زیارت کرناتھا، چنانچہ جب میں بنی دارا کے پُلوں تک پہنچا توا بن عونؒ کی وفات کی خبر مجھےپہنچ گئی، اللہ ہی جانتاہےکہ کیاغم اورافسوس مجھےاس وقت پہنچا۔ ( ۲)
3- علی بن عاصم کہتےہیں کہ میں اورہشیم دونوں منصور کی زیارت (اور استفادہ) کی غرض سے شہر واسط سے کوفہ کی طرف نکلے، چنانچہ میں واسط سےنکل کر چندفرسخ ہی چلا تھا کہ ابومعاویہ یا کسی اور صاحب سےمیری ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سےپوچھا: آپ کہاں کا ارادہ رکھتےہیں؟ تو جواباً انہوں نےکہا کہ: میرےذمہ کچھ قرض ہے، اس کی ادائیگی کے لیے کچھ حیلہ کررہاہوں، علی بن عاصم کہتےہیں: میں نےان سے کہا:آپ میرےساتھ چلو، میرےپاس چار ہزار درہم موجود ہیں، ان میں سےدو ہزار درہم آپ کےحوالے کردیتا ہوں۔ فرماتےہیں کہ: میں وہاں سےلوٹا، اوردوہزاردرہم ان کےسپردکرکےوہاں سےنکل پڑا۔ ہشیم صبح کےوقت کوفہ پہنچ چکے تھے، جبکہ میں شام کےوقت پہنچا۔ ہشیم نےجاکرمنصورسےچالیس احادیث کاسماع کرلیا، لیکن میں حمام میں داخل ہوگیا، جب صبح ہوئی تومیں منصورکےدروازےپرگیا، تو سامنےسے ایک جنازہ دیکھا۔ میں نےپوچھا: یہ کیاہے؟ لوگوں نےبتلایاکہ یہ منصورکاجنازہ ہے۔ میں بیٹھ کر رونےلگا، وہاں ایک شیخ نے مجھ سے کہا: اےنوجوان! کون سی چیز آپ کو رلارہی ہے؟ میں نےعرض کیا کہ کوفہ سے اس غرض سے آیا تھا کہ اس شیخ سے احادیث کاسماع کرلوں، جبکہ وہ تو موت کی آغوش میں جاپہنچے۔ ( ۳)
ان واقعات سے انسان کوخوب سبق حاصل کرناچاہیے کہ اپنےاکابرین سےاستفادہ کرنےمیں ہرگز کاہلی اور غفلت کا مظاہرہ نہ کرے، ورنہ افسوس کا دامن ساتھ لگا رہتا ہے؛ لہٰذا اس کو چاہیےکہ ہمت اور چستی سے کام لےکر آگے بڑھے، اور کوئی چیز اس کے لیےاستفادہ کرنےسےرکاوٹ نہ بننےپائے۔ 

موانعِ استفادہ اوران کاعلاج

چند امور ایسےہیں جو طالب کے لیے استفادہ سےرکاوٹ بنتےہیں، ان سےاپنےآپ کوخوب بچائے، اگر اپنے اندر ان امورمیں سےکسی کےبھی اثرات محسوس کرے، تو فوراً ان کودورکرنےکی فکرکرے، ورنہ یہ اس کےلیے ترقی کی راہ میں خطرناک رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ صرف تین موانعِ استفادہ مع علاج ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں جو عام طور پر پائے جاتے ہیں:
1-تکبر        2-حیا        3-غفلت

1-تکبر

انسان مستفادمنہ کو اپنے سے علم میں کمتر خیال کرتا ہے، اس لیےاس سےاستفادہ نہیں کرتا، جبکہ مستفادمنہ کا مقام معتبر علماءکےہاںمسلّم ہو، اور ظاہر حال بھی اس کےخیال کی تکذیب کررہا ہو، لہٰذا یہ خیال تکبر ہوا، جواس کے لیےاستفادہ سےرکاوٹ ہے۔ اور تکبر کی دوسری صورت یہ ہےکہ مستفادمنہ مستفید سے عمر میں چھوٹا ہوتا ہے، جبکہ علم وفضل میں بلند مرتبہ کا حامل ہوتا ہے، لیکن مستفید اس سےاستفادہ کرنےمیں اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور مستفادمنہ کو چھوٹا سمجھنے کی بنیاد پر استفادہ چھوڑدیتا ہے۔ اور ہر انسان اپنے اندر کی کیفیت سے خود واقف ہے، اس لیے اگر وہ اس قسم کی کیفیت محسوس کرےتو اس کے علاج کی کوشش کرے، جو مختلف ہوسکتے ہیں، کچھ یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔ 

علاج

استفادہ سےمانع جب تکبرہوتواس کاعلاج یہ ہےکہ ہمت کرکےاورنفس کودباکروہی کام کرلے، جس سے تکبر مانع بن رہاہے، چند مرتبہ ایساکرنے سے تکبر کامرض بھی زائل ہوجائے گا، اور استفادہ کاراستہ بھی ہموار ہوجائے گا۔ 
امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں حضرت مجاہدؒ کاقول نقل فرمایاہے: ’’قال مجاہدؒ: لایتعلم العلم مستحي ولامستکبر۔‘‘(۴)  ۔۔۔۔ ’’حضرت ت مجاہدؒ نے ارشاد فرمایا:حیا کرنے والااورتکبر کرنے والادونوں علم حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘
اور اس سلسلےمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کاواقعہ رہنمائی وہدایت اور اس مرض کے علاج کےلیے نہایت سبق آموز ہے۔ حضرت موسیٰ m نبوت و رسالت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہونے کے مراتب پر فائزہیں، اور اس کے باوجود علم حاصل کرنے میں بالکل عار محسوس نہیں کی، اور استفادہ و حصولِ علم کے لیے طویل سفر کیا، بلکہ یہاں تک فرمایا کہ میں ’’مجمع البحرین‘‘ پہنچنے تک سفر کرتا رہوں گا، چاہے مجھے کئی حقب ہی کیوں نہ چلنا پڑے، کما قال تعالیٰ: 
’’وَإِذْ قَالَ مُوْسٰی لِفَتَاہُ لَا أَبْرَحُ حَتّٰی أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا۔‘‘ (الکہف: ۶۰)
حافظ ابن عبد البر ؒ نےسند کے ساتھ ابن ابی غسانؒ کاقول ذکرفرمایا ہے:
’’قال عبید بن محمد الکشوري: سمعت ابن أبي غسان یقول:لا تزال عالـمًا ماکنت متعلمًا، فإذا استغنیت کنت جاہلًا۔‘‘(۵)
’’ عبید بن محمد کشوریؒ فرماتے ہیں: میں نے ابن ابی غسانؒ کوفرماتے ہوئےسنا : جب تک آپ حصولِ علم میں لگے رہیں گےتو عالم شمار ہوں گے، لیکن جب استغنا اور بے پرواہی پر اُتر آئے تو اس وقت آپ جاہل شمار ہوں گے۔ ‘‘
بہرحال مستفید کو چاہیے کہ ان باتوں سے خوب نصیحت حاصل کرےاوراستفادہ کو تر ک نہ کرے، چاہے وہ کتنےہی بلند مقام و مر تبہ پر فائز ہو، استفادہ سے اس کےمرتبہ میں کمی نہیں بلکہ ترقی ہوگی۔ 
جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ، وَمَنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللہُ۔‘‘ (۶)
’’جو اللہ کے لیےجھکتاہے اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کردیتے ہیں، اور جو تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا مقام پست کردیتے ہیں۔ ‘‘
اور اگر استفادہ سے مانع مستفادمنہ کی کم سنی ہوتو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کامبارک فرمان ہے:
’’الْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُـؤمِنِ حَیْثُ مَا وَجَدَہَا فَہُوَ أحَقُّ بِہَا۔‘‘ (۷)
’’حکمت کا کلمہ مؤمن کی گم شدہ میراث ہے، جہاں بھی وہ اس کو پائے وہ اس کا زیادہ مستحق ہوتا ہے۔‘‘
اس حدیث شریف سےامام ابوبکر ابن سنیؒ استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’وینبغي للمتعلم أن یتلقف العلم من کل من وجد عندہٗ وان کان أصغر منہ إذا کان قد سبقہ بالعلم۔‘‘ (۸)
’’اور طالب علم کے مناسبِ شان یہ ہے کہ وہ جس کے پاس بھی علم پائے اس کو حاصل کرے، اگرچہ وہ (معلم) اس (طالب) سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، بشر طیکہ وہ چھوٹاعلم وکمال میں اس (طالب) سے آگے نکلنے والا ہو۔ ‘‘
شیخ عوامہ - حفظہ اللہ- ’’معالم ارشادیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
 ’’سئل الإمام أبوحنیفۃ: بم نلت ما نلت؟ فقال: ما بخلت بالإفادۃ، ولم أستنکف عن الاستفادۃ۔‘‘(۹)
’’امام ابوحنیفہؒ سے پوچھا گیا کہ اتنا علم آپ نے کیسے حاصل کیا ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: میں نے کبھی فائدہ پہنچانے میں بخل نہیں کیا، اور فائدہ حاصل کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ ‘‘
مستفید اگر ان باتوں میں غور کرے گا، تو ان شاء اللہ! اس کےلیے کم سن اہلِ علم حضرات سے استفادہ کرنا آسان ہوگا۔ اور اس سلسلہ میں اکابرین کے بہت سارے واقعات موجود ہیں کہ انہوں نے اپنے سے کم سن حضرات سے کیسے بلا جھجھک استفادہ کیا، اور بالکل عار محسوس نہیں کی، حتیٰ کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے تابعین سے روایات لی ہیں، اور اس کو بلا جھجھک آگے بیان کرتے تھے۔ 

2- حیا

مستفید مستفاد منہ کو حقیر تو نہیں سمجھتا، اوراس کے علم وفضل کا معترف ہوتا ہے، لیکن یہ خیال کرتا ہے کہ اگرمیں ان سے سوال کروں، یا ان کی مجلس میں بیٹھوں تو لوگ کہیں گے کہ یہ بھی ان سے استفادہ کررہا ہے، تو وہ لوگوں سے حیا کرتے ہوئے استفادہ ترک کردیتا ہے۔ حیا کا دوسرا رُخ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان مستفاد منہ سے حیا کرتا ہے کہ اگر میں ان سے یہ سوال کروں تو وہ کہیں گے کہ اس کو اس بات کابھی علم نہیں ہے، یا بسا اوقات سوال اس قسم کا ہوتا ہے جس کو پوچھنے سے انسان شرم محسوس کرتاہے۔ بہرحال اس قسم کی حیا کی وجہ سے بھی انسان استفادہ نہیں کرپاتا۔ 

علاج 

اگر استفادہ سے مانع حیا ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ مستفید اس بات کو سوچے کہ استفادہ سے حیا کرنے والا ہمیشہ جاہل رہتا ہے، جیسے ابھی ما قبل میں حضرت مجاہدؒ کا قول ذکر کیاہے: ’’لا یتعلم العلم مستحي ولا مستکبر۔‘‘
 حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کا قول بھی اس کی تائید کرتا ہے: 
’’قال عمر بن عبد العزیز : ما من شيئ إلا وقد علمت منہ إلا أشیاء کنت أستحیي أن أسئل عنہا فکبرت وفيّ جہالتہا۔‘‘(۱۰)
’’حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے متعلق میں نے علم حاصل نہ کیا ہو، سوائے چند اشیاء کے کہ میں ان کے متعلق سوال کرنے سے حیا کرتا تھا، چنانچہ میں بڑا ہوگیا اور اب بھی میرے اندر ان اشیاء کی جہالت باقی ہے۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حیا (بے جا ) کبھی علم سے مانع ہوا کرتی ہے۔ اور دوسری طرف انسان اگر حیا کو نظر انداز کرکے دین کے متعلق استفادے کےلیے تیار ہوجاتا ہے اور سوال کرتاہے تو یہ انتہائی قابل تعریف چیز ہے۔ چنانچہ ابن عبد البرؒ نے ’’جامع بیان العلم‘‘ میں سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓکاقول ذکر کیا ہے:
’’عن عائشۃؓڤ قالت: نعم النساء نساء الأنصار لم یکن یمنعہن الحیاء أن یسالن عن الدین ویتفقہن فیہ۔‘‘ (۱۱)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، دین کے متعلق سوال کرنے اور اس میں فقاہت حاصل کرنے سے ان کو حیا مانع نہیں ہوتی۔ ‘‘
مستفید میں یہ مرض جو اس کو استفادہ سے منع کررہا ہے ان باتوں کے استحضار سے ان شاء اللہ! ختم ہوجائے گا۔ 

3-غفلت 

مستفید مستفاد منہ کو نہ حقیر سمجھتا ہے اور نہ ہی استفادہ سے اس کو حیا مانع ہوتی ہے، بلکہ وہ استفادہ کودرست سمجھتا ہے، لیکن جاننے کے باوجود محض غفلت و سستی کی وجہ سے استفادہ نہیں کر پاتا، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان حضرات کے علوم وفیوض اور تجربات سے محروم ہوجاتاہے۔ 

علاج

استفادہ سے مانع جب سستی ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ سستی کا علاج چستی ہے، اور چستی پیدا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے اکابرین کی زندگیاں، ان کا حصولِ علم میں اپنے آپ کو کھپانا، طلبِ علم کا ذوق و شوق، اور بالخصوص محدثین نے حصولِ علمِ حدیث میں کس طرح مشقتیں برداشت کیں، ان کو عمل کی نیت کے ساتھ پڑھنے اور مطالعہ کرنے سے ان شاء اللہ! سستی دور ہوجائے گی، اور ان حضرات کی راہوں پر چلنے کا جذبہ پیدا ہوگا، اور استفادہ کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ 

خلاصہ

خلاصہ یہ کہ انسان اپنی زندگی میں موجود اکابر ہستیوں کے علم اور تجربات سے فائدہ اُٹھالے، اور اس میں ہرگز کوتاہی نہ کرے، ورنہ زندگی بھر کفِ افسوس ملتا رہے گا، اور اگر موانعِ استفادہ میں سے کوئی مانع اپنے اندر محسوس کرے تو اس کا فوری علاج کرکے اس مانع کودور کرے اور اپنے لیے استفادہ کاراستہ ہموار کرے۔

استفادہ کرنے کے طریقے 

عام طور پر جن طریقوں سے استفادہ کیا جاتاہے، وہ تین ہیں:
۱:استفادہ بالصحبۃ    ۲: استفادہ بالسوال    ۳:استفادہ بالخط والکتابۃ

۱:استفادہ بالصحبۃ

استفادہ کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ انسان حضرات اکابرین کی صحبت میں کچھ وقت گزارکر فائدہ حاصل کرے، تاکہ جو علم حاصل کرے، اس کو عملی شکل میں بھی اچھی طرح دیکھ لے، اور شیخ کے کردار، اخلاق، حسنِ سیرت، تقویٰ، اور للہیت پر خوب واقفیت حاصل کرلے۔ چونکہ ان تمام چیزوں پر اطلاع‘ دیکھنے اور صحبت اختیار کرنے کے بغیر نہیں ہو سکتی، اس لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ شیخ کی صحبت میں کچھ وقت رہ کر استفادہ کرے۔ 
۲:دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ان اکابرین کے پاس جاکر زیارت، مصافحہ، اجازتِ حدیث، اورجس فن میں وہ مہارت رکھتے ہوں اُس کے متعلق سوال کرے، اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائے، کیونکہ ہر آدمی کے لیے ہر شیخ کی صحبت اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ 
۳:استفادہ کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ان حضرات سے خط وکتابت کے ذریعے تعلق قائم کرے اوراس طریقہ سے ان سے استفادہ کرتا رہے، اور استفادہ کو کسی حال میں بھی ترک نہ کرے۔ 

تنبیہ:

استفادہ کے کچھ آداب مشترکہ ہیں جن کی رعایت رکھنا ہر مستفید کے لیے ضروری ہے، چاہے وہ جس طریقہ سے بھی استفادہ کرنا چاہتا ہو۔ ان میں سے چند ایک کاذکر درج ذیل ہے:

استفادہ کرنے کے مشترکہ آداب

وہ آداب جن کا لحاظ رکھنا ہر مستفید کے لیے ضروری ہے، اور ان کے بغیر علم کے نور کاحصول مشکل ہے، وہ درج ذیل ہیں: 

1- اخلاصِ نیت

اللہ تعالیٰ کے ہاں حصولِ علم کا اجر پانے، علم کانور حاصل کرنے، اور وبال سے بچنےکےلیے اخلاصِ نیت ازحد ضروری ہے، اور یہ صرف حصولِ علم کےلیے ہی نہیں، بلکہ ہرنیک کام کا اجر اخلاصِ نیت پر موقوف ہے، جیساکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’إنما الأعمال بالنیات۔‘‘ (۱۲) ’’تمام اعما ل کا دار ومدار نیتوں پر ہے‘‘ اور اگر کسی نیک کام میں کوئی دنیوی غرض شامل ہو تویہ عمل ثواب کی بجائے وبال کا سبب ہوسکتا ہے، اور بالخصوص تعلیم وتعلم کے معاملے میں دنیوی غرض تو بہت بڑے وبال کاسبب ہے۔ جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِیُجَارِيَ بِہِ الْعُلَمَاءَ أوْ لِیُمَارِيَ بِہِ السُّفَہَاءَ أوْ یَصْرِفَ بِہٖ وُجُوْہَ النَّاسِ إِلَيْہِ أدْخَلَہُ اللہُ النَّارَ۔‘‘ (۱۳)
’’جو شخص علم اس نیت سے حاصل کرے کہ اس کے ذریعے علماء کے پڑوس میں بیٹھے، یا جاہلوں سے جھگڑا کرے، یا لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں داخل کریں گے۔ ‘‘ 
اس لیے ہر طالب ومستفید کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی نیت کوخالص کرے، اور باربار اس کا استحضار کرتا رہے۔ حضرت لقمان حکیم ؒ نے اپنے بیٹے کو نصیحتیں فرمائی تھیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے، جیسا کہ زید بن اسلم ؒ نے نقل فرمایا: 
’’ عن زید بن أسلم، أن لقمان قال لابنہٖ: یا بني لا تتعلم العلم لثلاث، ولا تدعہ لثلاث: لا تتعلمہ لتماري بہ، ولا لتباہي بہ، ولا لترائي بہ، ولا تدعہ زہادۃ فیہ، ولا حیاءً من الناس، ولا رضًا بالجہالۃ۔‘‘ (۱۴)
’’زید بن اسلمؒ کہتے ہیں کہ لقمان حکیمؒ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! علم تین چیزوں کی خاطر حاصل نہ کرنا، اور نہ تین چیزوں کی وجہ سے چھو ڑنا، جھگڑا کرنے، فخر کرنے، اور اپنا آپ دکھلانے کے لیے علم حاصل نہ کرنا، اور اس سے اعراض کرنے، لوگوں سے حیا کرنے، اور جہالت پر راضی رہنے کی وجہ سے اسے مت چھوڑنا۔ ‘‘

2- تواضع اختیار کرنا 

طالب علم ومستفید کےلیے لازم ہے کہ شیخ کی موجودگی و عدم موجودگی میں، اور ظاہراً وباطناً ہر اعتبار سے تواضع کے ساتھ پیش آئے، کیونکہ تواضع کے بغیر علم نافع کا حصول مشکل ہے:
’’عن الشعبي قال: رکب زید بن ثابت فأخذ ابن عباسؓ برکابہٖ، فقال لہٗ: لاتفعل یا ابن عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فقال:ہٰکذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا۔۔۔۔ الحدیث‘‘(۱۵)
امام شعبیؒ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  سوار ہوئے، توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کی سواری کی لگام پکڑلی، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  نے ان سے فرمایا: اے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا کے بیٹے! ایسا نہ کرو۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا کہ ہمیں علماء کے ساتھ ایساہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  کے شاگرد ہیں، انہوں نے اپنی جلالتِ شان کے باوجود اپنے استاذ کے ساتھ تواضع کا معاملہ فرمایا۔ 
جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی طلباء کو اساتذہ کے ساتھ تواضع کا معاملہ اختیار کرنے کا حکم دیا:
’’عَنْ أبِيْ ہُرَیْرَۃؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، وَتَعَلَّمُوْا لِلْعِلْمِ السَّکِیْنَۃَ وَالْوَقَارَ، وَتَوَاضَعُوْا لِمَـنْ تَعَلَّمُوْنَ مِنْہُ۔‘‘(۱۶)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : علم حاصل کرو، اور علم کےلیے اطمینان ووقار حاصل کرو، اور جن سے تم علم حاصل کرو ان سے تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔‘‘

3- صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا
 

طالب ومستفیدکو چاہیے کہ طلبِ علم واستفادہ میں استقامت وصبرکا مظاہرہ کرے، کسی مسئلہ کی طلب میں وقت کے زیادہ لگنے سےدل کو تنگ نہ کرے اور اُکتائے نہیں، بلکہ مسلسل تلاش وجستجو میں میں رہے۔ یونس بن یزیدؒ کو ابن شہاب ؒ نے اسی قسم کی نصیحت فرمائی تھی:
’’عن یونس بن یزید قال: قال لي ابن شہاب: یا یونس! لا تکابر العلم، فإن العلم أودیۃ، فأیہا أخذت فیہ قطع بک قبل أن تبلغہ، ولکن خذہ من الأیام واللیالي، ولا تأخذ العلم جملۃ، فإن من رام أخذہ جملۃ ذہب عن جملۃ، ولکن الشيء بعد الشيء مع اللیالي والأیام۔‘‘ (۱۷)
’’یونس بن یزید ؒ سے مروی ہے،انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے ابن شہاب ؒ نے فرمایا: اے یونس! علم کو بڑا مت خیال کرو، اس لیے کہ علم کے کئی میدان ہیں، جس میدان میں تو داخل ہوگا اس کی انتہا تک نہیں پہنچ پائے گا، لہٰذا علم کو روزانہ تھوڑا تھوڑا کرکے لینے کی کوشش کرو، اور ایک ہی مرتبہ لینے کی خواہش مت کرو، اس لیےکہ جو علم کوایک ہی مرتبہ لینے کی کوشش کرتاہے تو وہ بالکل حاصل نہیں کرپاتا۔ ‘‘
اسی طرح فارسی کا ایک جملہ ہے: ’’ہرچہ زود برآید دیر نپاید‘‘ ... ’’جوچیز جلدی آتی ہے وہ دیر تک نہیں رہتی۔‘‘ 

4-استاذ کے لیے دعا کرنا

 طالب علم اور مستفید کو چاہیے کہ اپنے استاذ اور شیخ کے لیے ہمیشہ دعا کرتا رہے، اس سے اس کا علم بابرکت اور نافع بھی بنے گا، اور نورانیت بھی نصیب ہوگی۔ حضرات اکابرین اس بات کا بہت اہتمام کرتےتھے، چنانچہ چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں: 
’’قال الإمام أبو حنیفۃ رحمہ اللہ: ’’ما مددت رجلي نحو دار أستاذي حماد إجلالاً لہ، وکان بین داري ودارہٖ سبعُ سِکک، وما صلیت صلاۃ منذ مات حماد إلا استغفرتُ لہ مع والدي، وإني لأستغفر لمن تعلمت منہ أو علمني علمًا۔‘‘(۱۸)
’’امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا: میں نے اپنے استاذ امام حمادؒ کی تعظیم میں کبھی ان کے گھر کی طرف اپنے پاؤں کو لمبا نہیں کیا، جبکہ میرے اور ان کے گھر کےدرمیان سات گلیوں کا فاصلہ تھا، اور امام حمادؒ کی وفات کے بعد سے جب بھی میں نے نماز پڑھی ہے تو اپنے والدین کے ساتھ امام حمادؒ کےلیے بھی بخشش کی دعا کی ہے، اور بلا شبہ میں ان سب کےلیے بخشش کی دعاکرتا ہوں جن سےمیں نے علم حاصل کیا، یا انہوں نے مجھے کوئی علم سکھایا۔ ‘‘
’’وقال أبو یوسفؒ تلمیذ أبي حنیفۃؒ: إني لأدعو لأبي حنیفۃؒ قبل أبويَّ، ولقد سمعت أبا حنیفۃؒ یقول: " إني لأدعو لحمادؒ مع أبويَّ۔‘‘ (۱۹)
’’امام ابو حنیفہؒ کےشاگرد امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ: میں امام ابو حنیفہؒ کے لیے اپنے والدین سے پہلے دعا کرتا ہوں، اور بلا شبہ میں نے ابو حنیفہؒ سے یہ فرماتے ہو ئے سنا کہ میں امام حمادؒ کے لیے اپنے والدین کے ساتھ دعا کرتا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اساتذہ ومشایخ سے استفادہ کرنے اورآداب کی رعایت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

حواشی وحوالہ جات

۱- الرحلۃ في طلب الحدیث، لأبي بکر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد الخطیب البغدادي (ت: ۴۶۳ھ)، ذکر من رحل إلی شیخ یبتغي علو إسنادہٖ، فمات قبل ظفر الطالب منہ ببلوغ مرادہٖ، ص:۱۷۱، ط: دار الکتب العلمیۃ.
۲- نفسہ، ص: ۱۷۶.
۳- المصدر السابق، ص: ۱۷۳.
۴- صحیح البخاري، لأبي عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاري الجعفي، (ت:۲۵۴)، کتاب العلم، باب الحیاء في العلم: ۱/۶۰، ط: دار ابن کثیر.
۵- جامع بیان العلم وفضلہ، لیوسف بن عبد اللہ بن عبد البر القرطبي، باب: الحض علی استدامۃ الطلب والصبر علی اللأواء والنصب: ۱/۱۹۳، ط: مؤسسۃ الریان.
۶- المعجم الأوسط، لسلیمان بن أحمد الطبراني (ت:۳۶۰ﻫ)، من اسمہ عیسی: ۵/۱۳۹، رقم: ۴۸۹۴، ط: دار الحرمین.
۷- السنن، لابن ماجۃ محمد بن یزید القزویني (المتوفی:۲۷۳ھ)، أبواب الزہد، باب الحکمۃ: ۵/۲۶۹، رقم: ۴۱۶۹، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ.
۸- ریاضۃ المتعلمین، لأحمد بن محمد بن إسحاق المعروف بـ ’’ابن السُّنِّي‘‘ (ت: ۳۶۴ھ)، الجزء الرابع، ص:۲۳۵، ط: دار النوادر.
۹- معالم إرشادیۃ لصناعۃ طالب العلم، للشیخ محمد عوامۃ، المعلم العاشر الصحبۃ مع الأستاذ، ص: ۲۱۷، ط: دار الکتب بشاور.
۱۰- جامع بیان العلم وفضلہ، لابن عبد البر، باب: حمد السؤال والإلحاح في طلب العلم وذم ما منع منہ: ۱/ ۱۸۱۔
۱۱- نفسہ ۱ /۱۷۷۔
۱۲- صحیح البخاري، باب کیف کان بدء الوحي: ۱ /۳، رقم:۱۔
۱۳- الجامع الکبیر-سنن الترمذي، للإمام أبي عیسی محمد بن عیسی الترمذي (ت:۲۷۹)، أبواب العلم، باب ما جاء فیمن یطلب بعلمہ الدنیا: ۴/ ۳۲۹، رقم: ۲۶۵۴، ط: دار الغرب الإسلامي، بیروت.
۱۴- جامع بیان العلم، لابن عبد البر، باب: ما روي عن لقمان الحکیم من وصیۃ ابنہ وحضہ إیاہ علی مجالسۃ العلماء والحرص علی العلم: ۱/ ۲۱۲۔
۱۵- المجالسۃ وجواہر العلم، لأبي بکر أحمد بن مروان بن محمد الدینوري القاضي المالکي، (ت:۳۳۳)، الجزء التاسع، ص: ۲۸۸، ط: دار ابن حزم.
۱۶- المعجم الأوسط، للطبراني، من اسمہ محمد: ۶/ ۲۰۰، رقم: ۶۱۸۴۔
۱۷- جامع بیان العلم وفضلہ، لابن عبد البر، باب: کیفیۃ الرتبۃ في أخذ العلم: ۱/ ۲۰۶۔
۱۸- الإِعلام بـحرمۃ أہل العلم والإِسلام، لمحمد بن أحمد بن إسماعیل المقدم، الفصل الثاني، وتجلي ہٰذا الولاء في حزنہم لموت الواحد منہم، ص: ۱۹۵، ط: دار طیبۃ.
۱۹- نفسہ.

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین