بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

استاذ الحدیث حضرت مولانا غلام محمد تائبی رحمۃ اللہ علیہ   

استاذ الحدیث حضرت مولانا غلام محمد تائبی رحمۃ اللہ علیہ   


والد ماجد محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد و چچا سسر اور حضرت مولانا شیر محمدتائبی رحمۃ اللہ علیہ  (سکھر ) کے چھوٹے فرزند، جامعہ انوار العلوم سکھر کے استاذ الحدیث، راسخ عالمِ دین، درویش صفت، صوفی منش، زہد پسند شخصیت حضرت مولانا غلام محمد تائبی رحمۃ اللہ علیہ    ۱۶؍ رجب المرجب ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۷؍ جنوری ۲۰۲۴ء بروز جمعہ نمازِ جمعہ سے کچھ دیر قبل تقریباً ۷۸ سال کی عمر میں انتقال فرماگئے،إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی، وکل شيء عندہٗ بأجل مسمی۔
میں نمازِ جمعہ کی تیاری میں مصروف تھاکہ برادرم مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہٗ نے فون پر اطلاع دی کہ چچا جان مولانا غلام محمد تائبی صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہے، ہسپتال لائےہیں، پھر نمازِ جمعہ سے کچھ دیر پہلے دوبارہ اطلاع کی کہ حضرت کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ میرے نانا حضرت مولانا گل محمد  رحمۃ اللہ علیہ  کے چھوٹے بھائی اور میری والدہ ماجدہ دام ظلہا کے چچا تھے، رشتہ میں نانا ہونے کے ناطے مجھ سے نواسوں کی طرح مخلصانہ محبت فرماتے تھے، بچپن سے جہاں دیگر کئی حضرات نے بندہ کی سرپرستی فرمائی اور شفقت کا ہاتھ رکھا، انہی میں حضرتؒ بھی شامل ہیں۔ آپؒ کے والد ماجد استاذ العلماء حضرت مولانا شیر محمد تائبی  رحمۃ اللہ علیہ  ہمارے ننھیال کی وہ شخصیت ہیں جن سے والد ماجد محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کی سب سے پہلے ملاقات ہوئی اور وہی ملاقات ہمارے ننھیال سے والد ماجدؒ کے تعلق کا ذریعہ بنی ۔ حضرت مولانا غلام محمد تائبی رحمۃ اللہ علیہ  کی پیدائش ۱۹۴۸ء میں ’’گڑھی یاسین، تائب‘‘ میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد استاذ العلماء حضرت مولانا شیر محمد تائبی  رحمۃ اللہ علیہ  سے حاصل کی، بعد ازاں پاکستان کے مختلف مدارس میں زیرِ تعلیم رہے۔ دورہ حدیث کے لیے جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن تشریف لے آئے، یہاں انہوں نے والد ماجد حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی شاگردی میں علومِ دینیہ کا سفر مکمل فرمایا۔ سن فراغت ۱۹۶۹ء ہے۔ 
رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے جامعہ انوار العلوم سکھر میں اپنے بڑے بھائیوں: میرے نانا حضرت مولانا گل محمد رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت مولانا محمد انور تائبی دامت برکاتہم کے زیر سایہ مدرسے کا نظام سنبھالا۔ آپ اپنے  بڑے بھائی حضرت مولانا محمد انور صاحب کے دست راست تھے۔ نہایت ہی شفیق طبیعت کے مالک تھے اور طلباء و اساتذہ کے ساتھ بڑا ہی نرم رویہ اختیار کرتے تھے۔ انتظامی معاملات کے علاوہ آپ کی تدریسی خدمات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کو مختلف کتابوں پر مہارت حاصل تھی، جن میں ہدایہ ثالث اور ترمذی شریف سرِفہرست ہیں اور رحلت سے ایک دن قبل بھی آپ ان کے درس میں مشغول تھے۔ اس کے علاوہ آپ طریقت میں بھی بے مثال تھے، گویا بہت سے مریضوں اور حاجت مندوں کو یتیم کر کے چلے گئے۔ آپ کو جامعہ علوم اسلامیہ سے بھی بڑی وابستگی تھی، جوانی سے بزرگی تک جامعہ میں آتے اور اپنی بھتیجی میری والدہ محترمہ اور مجھ پر دست شفقت رکھتے ہوئے دعاؤں کی دولت سے نوازتے تھے۔ہمارے بہنوئی حضرت مولانا محمد انور بدخشانی رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی آپ کا خاص تعلق اور دوستانہ تھا۔ جامعہ سے تعلق کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ شروع سے تادمِ آخر مستقل ماہنامہ بینات کے قاری رہے، باقاعدہ خریدار تھےاور پابندی سے مطالعہ فرماتے تھے۔
آپ اپنے والد ماجد استاذ العلماء حضرت مولانا شیر محمد تائبی  رحمۃ اللہ علیہ  کی طرح صفتِ ابوذریؓ سے متصف، ’’کن في الدنیا کأنک غریب أو عابر سبیل‘‘ پر عمل پیرا قناعت وزہد کا پیکر تھے۔ کھانا بہت کم کھاتے تھے، خوراک قوت لایموت کی حد تک تھی۔ انتہائی سادہ کھانا کھاتے تھے اور عموماً مرغن غذاؤں سے پرہیز کرتے تھے۔ ہمارا ننھیال الحمد للہ علمی اور دینی خاندان ہے، اور ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ کا مصداق ہے۔ حضرت مولانا غلام محمد تائبی رحمۃ اللہ علیہ  کے والد ماجد استاذ العلماء حضرت مولانا شیر محمد تائبی رحمۃ اللہ علیہ  بھی بہت بڑے بزرگ، صوفی منش، درویش صفت راسخ عالمِ دین تھے، جس کی گواہی والد ماجد محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے اُن کی وفات پر لکھے گئے مضمون میں یوں دی ہے:
’’مغربی پاکستان کے علاقہ سندھ کے ایک مشہور اور معمر عالم دین مولانا شیر محمد صاحب نے ۲۵؍ رمضان المبارک۱۳۸۶ھ کی شب میں داعی اجل کو لبیک کہی،موصوف سندھ کے محقق عالم، متواضع درویش اور منکسر المزاج بزرگ تھے،باخدا شخصیت تھی، صرف ونحو کے امام تھے، مسائلِ صرف اور دقائقِ نحو سے شغف کیا عشق تھا، علم صرف میں ایک عمدہ کتاب کے مصنف تھے اور سکھر میں دینی درس گاہ کے مؤسس تھے،موت بھی عجیب واقع ہوئی،۲۴؍ رمضان کی صبح کو غسل کیا، نئے کپڑے زیب تن کیے، گو یا سفر کی تیاری ہے، دن بھر روزہ رہا، قبل افطار زیادہ طبیعت خراب ہوگئی، معمولی علالت کا سلسلہ پہلے ہی سے چلاآرہا تھا،کچھ وصیتیں فرمائیں،افطار کے وقت غنودگی بڑھ گئی، جس کی وجہ سے روزہ افطار نہ ہو سکا، بالآخر نصف شب ۲۵؍ رمضان کو روح قفس عنصری سے ’’اللہ! اللہ‘‘ کہہ کر پر واز کر گئی، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ سبحان اللہ! موت کیا تھی، گو یا زندگی کا رخ دنیا سے عالم آخرت کی طرف مڑ گیا اور طرفۃ العین میں عالم فانی سے کٹ کر عالم آخرت سے جڑگئے،راقم الحروف کے کرم فرما اور دعاگو تھے ۔‘‘        (یادِ رفتگاں، ص:۴۴،۴۵)
اسی طرح کی درویش صفت ہستی ہمارے نانا حضرت مولانا گل محمد صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  بھی ہیں، جن کی وفات پر والد ماجد محدث العصر حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’ماہنامہ بینات ‘‘ میں یوں تحریر فرمایا تھا:
’’یو م الجمعہ۲۱؍ذوالحجہ ۱۳۹۵ھ، دسمبر۷۵ھ کو میری دوسری اہلیہ کے والد ماجد مولانا گل محمد صاحب، سکھر میں واصل بحق ہوئے،إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ مرحوم کے اخلاص، کرمِ نفس، جودو سخا، ہمت ومردانگی، جفاکشی، غیرتِ دینی، مکارمِ اخلاق کا مجھے پہلے سے علم ہو چکا تھا، دو سالہ تعلق کے عرصہ میں اُن کے اوصافِ حمیدہ کامشاہدہ بھی ہوتارہا، طویل ترین علالت کے دوران اُن کی استقا مت وصبر کو دیکھ کر حیرت ہوئی، آخر میں دق وسل جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے، لیکن کیا مجال کہ ان کی خوش خلقی اور صبر وتحمل میں ذرا بھی فرق آیا ہو، کبھی اپنی تکلیف کی کسی سے شکایت نہیں کی،حکایتِ حال کے طور کچھ زبان پر کبھی آیا تو آیا۔ خو اص میں اس قسم کے کمالات ہوں تو زیادہ تعجب نہیں ہوتا، لیکن عوامِ امت میں ایسی قابل رشک صفات یقینا باعث تعجب ہیں ۔حق تعالیٰ کی اس مخلوق کے گمناموں میں نامعلوم کتنے اولیاء اللہ ہیں جن کا کسی کو علم نہیں، اگر مشاہیر میں یہ کمالات ومحاسن موجود ہوں جب بھی قابل قدر ہیں، لیکن غیر مشہور گمنام شخصیتوں میں اس قسم کے محاسن حیرت افزا ہیں  ۔۔۔۔۔ مر حوم انوار العلوم سکھر کے روحِ رواں تھے، اس کی ترقی کے لیے ہمیشہ کو شاں تھے۔ ۔۔۔۔۔ بیماری و علالت میں کبھی کوئی نماز فوت نہیں ہوئی، جس رات صبح کو وفات مقدر تھی اشارے سے تہجد پڑھی اور سورئہ رحمن وسورئہ یس کی تلاوت کی اورتبسم کیا، تیمارداروں کو الوداع کہا،سب کو صبر کی تلقین کی، جزع وفزع اور آہ وبکاء رو کنے کی وصیت کی، جمعہ کی صبح اذان کے بعد بھائیوں اور بیٹوں کو نماز کے لیے جانے کا حکم دیا اور اس دوران ان کی روح ملأِ اعلیٰ کی طرف پر واز کر گئی۔  إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔‘‘     (بصائر وعبر، ج:۲، ص:۵۲۳، طبع: مکتبہ بینات)
بہرحال حضرت مولانا غلام محمد تائبی رحمۃ اللہ علیہ    بھی اپنے اسلاف اور پیش رؤوں کی طرح کی ایک عظیم شخصیت تھے، جن سے ہم محروم ہوگئے، اس خلا کو تو کوئی پُر نہیں کر سکتا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور اُن کے دیگر اَخلاف کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین
۱۶؍ رجب المرجب ۱۴۴۶ھ  بروز جمعہ، خطبۂ جمعہ سے ذرا پہلے وضو کے دوران طبیعت ناساز ہوئی، اللہ ھُو کا ورد شروع کیا، ہسپتال لے جایا گیا، کلمہ شریف پڑھنے کے ساتھ روح پرواز کر گئی، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، پسماندگان میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی دینی خدمات کو قبول فرمائے، درجات بلند فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے،آمین بجاہ النبي الأمي الکریم، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ أجمعین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین