بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

بینات

 
 

ارضِ مقدس پریہود کے حقِ تملیک  کے قرآنی استدلال کا جائزہ


ارضِ مقدس پریہود کے حقِ تملیک  کے قرآنی استدلال کا جائزہ


یہود کا دعویٰ ہے کہ ارضِ مقدس ان کا قومی وطن ہے،وہ اپنے دعوی کی سچائی کے لیے تاریخی ،سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کے ساتھ نظریاتی دلائل بھی بروئے کار لاتے ہیں ،چونکہ ان کے عزائم میں بڑی رکاوٹ اسلام ہے، اس لیے مسلمانوں کو زیر کرنے کی لیے مصادرِ شرعیہ میں سے بھی استدلال کیا جاتا ہے ،یہود کی یہ فکری خدمت مستشرقین نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ ہمارے برّصغیر میں جو حلقہ مستشرقین کے زیرِ اثر رہ کر ان کے دعاوی کو مقبول بنانے کی سعی میں مصروف ہے ،ان کی طرف سے اس دعوی کو تقویت پہنچانے کے لیے قرآن کریم کی دو آیتوں سے بھی استدلال پیش کیا جاتا ہے ،ذیل کے مضمون میں انہی استدلالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام  عراق سے ہجرت فرما کر فلسطین تشریف لائے اور یہیں سکونت پذیر ہو گئے، یہیں ان کے صاحب زادے حضرت اسحاق علیہ السلام   اور پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام  بھی پلے بڑھے، جب حضرت یعقوب علیہ السلام  کے صاحب زادے حضرت یوسف  علیہ السلام  مصر میں منصبِ اقتدار پر پہنچے تو اپنے پورے خاندان کو جو ستّر افراد کے کنبے پر مشتمل تھا‘ مصر بلالیا۔ ۴۳۰ سال تک یہ خاندان مصر میں پھیلتا پھولتا رہا، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ  علیہ السلام  ان میں پیدا ہوئے اور انہیں مصریوں کی غلامی سے نکال کر صحرائے سینا میں لے آئے، ان کے متروکہ شہر فلسطین پر کافر قوم آباد ہو چکی تھی،اسرائیلیوں کی تعداد تورات کی روایت کے مطابق لاکھوں میں تھی، مگر فلسطین میں بغیر مزاحمت کے نہیں بس سکتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فلسطین کی کافر قوم کے ساتھ قتال فی سبیل اللہ کا حکم فرمایا، لیکن اسرائیلیوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا،چنانچہ سزا کے طور پر چالیس سال تک ان پر ارضِ مقدس حرام کر دی گئی،یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام   کا اسی صحرائے سینا میں وصال ہوگیا۔اس کے بعد حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے جانشین حضرت یوشع  علیہ السلام  کی سرپرستی میں یہودیوں نے قتال فی سبیل اللہ کا فریضہ انجام دیا تو یہ شہر ان کے قبضے میں آگیا۔یہودیوں نے اسی بنیاد پر ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ ارضِ مقدس ہماری آبائی سر زمین ہے، ہم اس میں سکونت اور قومی اقتدار کا استحقاق رکھتے ہیں۔ عالمی استعمار کے سہولت کار اور نمائندہ جماعت اقوامِ متحدہ نےاپنی سرپرستی میں ایک قرارداد پاس کی، جس کی روشنی میں ۱۹۴۸ء میں اعلان بالفور کے مطابق دو ریاستی فارمولے کے تحت اسرائیل نامی مملکت وجود میں آگئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں کا فلسطین پر اقتدار اور قبضہ کے دعوی کا استحقاق کس بنیاد پر ہے؟ تاریخی بنیاد پر یا مذہبی بنیاد پر؟ اگر تاریخی بنیاد پر ہے تو بھی درست نہیں ہے، تمام مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس شہرکو کنعانیوں اور یبوسیوں نے آباد کیا تھا، چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کے رکن عبداللہ بن صالح بن العبید لکھتے ہیں:
’’اس زمانے میں یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ القدس ایک عبرانی شہر ہے، یہ دعویٰ ان تاریخی دستاویزات کو نظر انداز کرنے پر مبنی ہے جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ القدس شہر کے طور پر برونزی عہد کی ابتدا میں آباد ہونا شروع ہوا تھا اور اس کی تعمیر کنعانیوں نے کی تھی۔ آثارِ قدیمہ کے انکشافات اور تاریخی مآخذ کے مطابق فلسطین میں عربوں کی تاریخ ۶؍ ہزار سال پرانی ہے ۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے فلسطین میں عربوں کا وجود اسرائیلی حملے سے ۲۶۰۰  سال مقدم ہے۔ اس سے یہودیوں کی القدس پر ملکیت کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، حالانکہ قدیم تاریخ کے مطابق یہودیوں کی القدس پر حکومت مسلسل ۷۰سال سے زیادہ نہیں رہی۔ (ہفت روزہ العالم الاسلامی، خلاصہ، ص:۱۵ تا ۲۱۔ ۱۹۹۹ء)
اس سے زیادہ عرصہ تو مغل اور افغانستان کے مسلمانوں نے متحدہ ہندوستان پر اور عرب مسلمانوں نے ہسپانیہ پر حکومت کی ہے۔ اگر ستر سال کی مسلسل حکومت سےملکیت ثابت ہوتی ہےتو مسلمانوںکو حق ہے کہ وہ ہندوستان اور ہسپانیہ پر اپنا دعوائے استحقاق جتلائیں، اسے کیوں خاطر میں نہیں لایا جاتا؟ اس دو غلے رویہ پر احتجاج کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟

لیکن یہاں سرِ دست اس قرآنی استدلال کا جائزہ لینا ہے جو استشراقی فکر سے متاثرہ حلقے کی طرف سے یہود کے دعوائے استحقاق میں پیش کیا جاتا ہے۔

یہود کے حقِ تملیک پر قرآنی استدلال کا جائزہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کا خطاب نقل فرمایا ہے، جس میں آپ نے اپنی قوم کو کہا ہے: ’’یٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ ۔۔۔ ’’اے میری قوم! ارضِ مقدس میں داخل ہوجاؤ جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔‘‘ (اس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ: ’’پس اللہ تعالیٰ نے ’’کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ کے ذریعے یہ مقدس سر زمین یہودکے حق میں مقدّر فرمادی ہے، جس پر اقتداروسکونت اور تملیک کا ابدی استحقاق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملا ہے،کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خدا کی عطاکردہ سر زمین سے ان کو بے دخل کرے۔‘‘

پہلا جواب 

جب سے یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ہے، اس وقت سے آج تک کسی صحابیؓ ،تابعی، مفسر، محدث، مجتہد نے ’’کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ سے یہ مراد سمجھی ہے، نہ یہ مفہوم اخذکیا ہے کہ اس سے یہود کی مقدس سر زمین پر ابدی حقِ تملیک ثابت ہوتی ہے۔ اگر یہ مراد اتنی واضح تھی تو سلف ِصالحین اس پر کلام فرماتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ سے جلاوطن کردہ یہودیوں کو ان کی آبائی استحقاقی سر زمین یاددلاتے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ   ارضِ مقدس کو فتح کرنے کے بعد اس آیت پر عمل کرتے ہوئے در بدر بھٹکتے یہودیوں کو یہ سر زمین حوالہ کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے، لیکن اس آبائی حقِ تملیک پر نہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا، نہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے غلبہ پاکر یہ سر زمین یہودیوں کے حوالہ کی، نہ کسی صحابیؓ نےانہیں قرآنی آیت سنا کر یہ حکمِ الٰہی یاد دلایا۔ یہ نادر خیال اور استدلال آیا تو صرف اور صرف استشراقی فکر سے فیض یاب ہونے والے محققین کو آیا۔

دوسرا جواب

قرآن کریم میں ’’کَتَبَ‘‘ کا لفظ کئی معنی میں آیا ہے :
۱-’’کَتَبَ‘‘ بمعنی ’’قَضٰی‘‘ فیصلہ کرنا، (جیسے ’’کَتَبَ اللہُ لَأَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ‘‘ (تفسیر طبری، المجادلۃ، ذیل آیت :۲۱)
۲-’’کَتَبَ‘‘بمعنی ’’أمر‘‘ (تفسیر طبری، المائدۃ، ذیل آیت:۲۱)
۳- ’’کَتَبَ‘‘بمعنی ’’وعد‘‘ (تفسیر ابنِ کثیر،المائدۃ، ذیل آیت :۲۱)
۴-’’کَتَبَ‘‘بمعنی ’’وھب‘‘ (تفسیر طبری،المائدۃ، ذیل آیت :۲۱)
۵-’’کَتَبَ‘‘یعنی ’’کتب في اللوح المحفوظ‘‘ (تفسیر الآلوسی، ذیل آیت: ۲۱)
۶-’’کَتَبَ‘‘یعنی ’’قدّرھا وقسمھا لکم‘‘ (تفسیر الآلوسی، ذیل آیت: ۲۱)
ان معانی میں سے کوئی ایک معنی بھی ابدی حقِ تملیک اور دائمی حقِ استقرار پر دلالت نہیں کرتا، ’’کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ کے ذریعے جو وعدہ یہود سے کیا گیا تھا، اس وعدہ کی تکمیل ایک مرتبہ یہود کے ارضِ مقدس میں داخل ہونے سے پوری ہوجا تی ہے، چنانچہ امام طبری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس آیت کی تفسیر میں یہ نکتۂ اعتراض اٹھایا کہ جب ’’فَإِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ‘‘ کے ذریعے ارضِ مقدس یہود پر حرام کر دی گئی ہےتو پھر لوحِ محفوظ میں لکھا کیسے ثابت ہوگا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اسرائیلیوں کے لیےجو مقامِ سکونت مقدر میں لکھا گیا تھا، وہ بعد میں ارضِ مقدس میں داخل ہونے اور اسے جائے سکونت بنانے سے پورا ہوگیا۔‘‘ (اس میں تسلسل اور دوام کا پایا جانا ضروری نہیں ہے، لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہونا دلیلِ ابدیت نہیں ہے)۔
مزید برآں لوحِ محفوظ کے مندرجات میں تغیّر وتبدل جاری رہتا ہے، محض مقدّر اور لوحِ محفوظ میں درج ہونے سے کسی امر کو دوام وابدیت کی دلیل نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’لِکُلِّ أَجَلِ کِتَابٌ یَمْحُوْ اللہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ‘‘ (الرعد :۳۸،۳۹) ’’ہر ایک وعدہ ہے لکھا ہوا، مٹاتا ہے اللہ جو چاہے اور باقی رکھتا ہے، اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے متعلق آتا ہے آپ دورانِ طواف روتے ہوئے دعا کرتے تھے: 
’’اللّٰھم إن کُنْتَ کَتَبْتَنِي في أھل السعادۃ فأثبتني فیھا، وإن کنت کتبتني في أھل الشقاوۃ والذنب فامحُني وأثبتني في أھل السعادۃ والمغفرۃ، فإنّک تمحو ما تشاء وتثبت وعندک أمّ الکتاب۔‘‘ 
’’اے اللہ! اگر آپ نے مجھے (لوحِ محفوظ میں) اہلِ سعادت میں لکھ رکھا ہے تو اسے ثابت رکھیے اور اگر آپ نے مجھے (لوحِ محفوظ میں ) بد بخت اور گناہگاروں میں لکھا ہے تو یہ لکھا مٹا دیجئے اور اہلِ سعادت و مغفرت میں ٹھہرا دیجئے، بے شک آپ جو چاہتےہیں‘ مٹاتے ہیں اور جسے چاہے ثابت رکھتے ہیں اور آپ ہی کے پاس لوحِ محفوظ ہے۔‘‘ (تفسیر القرطبی، الرعد، ذیل آیت :۳۹)
اسی طرح کی دعا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے بھی مروی ہے۔
حضرت مالک بن دینارؒ نے ایک خاتون کو دعا دیتے ہوئے فرمایا:
’’اللّٰھم إن کان في بطنھا جاریۃ فأبدلھا غلامًا، فإنّک تمحو ما تشاء و تثبت و عندک أم الکتاب ۔‘‘
’’اے اللہ! اگر اس کے پیٹ میں لڑکی ہے تو اسے لڑکے سے بدل دے ،بے شک تو مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے اور آپ کے پاس ہی لوحِ محفوظ ہے ۔‘‘( تفسیر القرطبی، الرعد، ذیل آیت : ۳۹ )
لہٰذا معلوم ہوا کہ محض لوحِ محفوظ میں لکھے جانے سے کسی چیز کا دوام ثابت نہیں ہوتا اور لوحِ محفوظ کے مندرجات میں تغیّر وتبدل بھی رہتا ہے، ہاں! علمِ الٰہی ازل سے اور ابد تک تغیّر وتبدل سے پاک اور محفوظ ہے۔

تیسرا جواب

اگر ’’کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ کی بنا پر ارضِ مقدس یہود کے حق میں مقدّر ہو چکی تھی تو پھر ’’فَإِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ‘‘ کے ذریعے چالیس سال تک یہود کو ان کے حق سے کیوں محروم کر دیا گیا؟ اس کے جواب میں استشراقی حلقۂ فکر کے احباب کہتے ہیں: محرومیت کی یہ مدّت محدود تھی، حالانکہ سوال یہ نہیں کہ محرومیت کی مدّت محدود تھی یا غیرمحدود؟ بلکہ سوال یہ ہےکہ مقدّر میں لکھے حکم سے محروم کیا ہی کیوں کیا گیا؟
اس کا حقیقی جواب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے انہیں ارضِ ِمقدس سے محروم کر دیا گیا، کیونکہ جب انہوں نے قتال کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا : ’’فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے علمِ ازلی کی بنا پر اطلاع فرما دی کہ چالیس سال کے بعد اسرائیلی قتال کا حکم بجا لاکر ارضِ مقدس میں سکونت اختیار کریں گے، تب تک ارضِ مقدس سے محروم رہیں گے، چنانچہ چالیس سال کے بعد جب اسرائیلی حکمِ الٰہی بجا لائے‘ تب ارضِ مقدس کے فاتح بنے۔ محض چالیس سال کی در بدری کی مدت مکمل کرنے سے ارضِ مقدس کے مالک نہیں بنے، گویا ارضِ مقدس کا انعام اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے ساتھ مشروط تھا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زبور کا حوالہ دے کر فرمایا ہے کہ ارضِ مقدس کی وراثت کا استحقاق اپنے نیک بندوں کو بخشتا ہے: ’’وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ‘‘ (الانبیاء:۱۰۵) ترجمہ: ’’اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔‘‘
یہودنے جس طرح قتال فی سبیل اللہ کا انکار کر کے اپنے استحقاق کو ختم کر دیا تھا اور چالیس سال کے بعد قتال کا حکم بجا لا کر ارضِ مقدس کے مالک بنے تھے، اسی طرح خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تکذیب کرکے ارضِ مقدس کے اعزاری استحقاق سے محروم ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تکذیب کی وجہ سے یہ امتِ کافرہ بن چکی ہے اور ارضِ مقدس سے ان کی محرومی مندرجہ بالا نص سے ثابت ہے ۔ اس استدلال کو قیاسی بتلاناصریح مغالطہ ہے۔یہود کے ابدی استحقاق پر کوئی صریح نص نہیں ہے، مگر بالفرض اسے تسلیم کر بھی لیا جائے تو ان کے عزلِ استحقاق پر صریح نص موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ہے کہ وہ کسی قوم کو محض اس لیے اعزاز واکرام سے نوازے کہ وہ برگزیدہ لوگوں کی اولاد ہے۔ سنتِ الٰہیہ میں اعزاز و اکرام کے وعدے ایمان کی بنیاد پر ہوتے ہیں، نیز ’’کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ کے ذریعے امرِ تکوینی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ یہود کے لیے امرِ تشریعی نہیں ہے کہ وہ کفر کی حالت میں بھی اس سرزمین کو حاصل کرنے کے مکلف ہوں، کیونکہ’’کَتَبَ‘‘ امرِ تشریعی کے لیےاس وقت ہوتا ہے جب اس کے صلہ میں ’’عَلٰی‘‘ ہو، جیسے ’’کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ‘‘ (فرض کیا گیا تم پر روزہ) (البقرۃ:۱۸۳) ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ‘‘ (فرض ہوئی تم پر لڑائی) (البقرۃ:۲۱۶) بالفرض امرِ تشریعی مان لیا جائے، تب بھی یہ قابلِ استدلال نہیں، کیونکہ شریعتِ محمدیہ شریعتِ موسویہ کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتی ہے۔

چوتھا جواب

اللہ تعالیٰ نے حصولِ اولاد کے لیے فرمایا :’’وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ (اس اولاد کی کوشش کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں لکھ دی ہے، لیکن اس مقدر کے لکھے کو حاصل کرنے کے لیے تشریعی امور کا التزام ضروری ہے، وہ ہے شرعی نکاح کرنا جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص امرِ تکوینی سے استدلال کرتے ہوئے کسی اجنبیہ سے حصولِ اولاد کی کوشش کرے گا تو اس کی قسمت میں کوڑے اور سنگساری کی سزا ہے ،اسی طرح یہود کے لیے ’’کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ سے ارضِ مقدس کا حصول‘ ایمان اور عملِ صالح کے تشریعی امور کے اہتمام پر موقوف ہے، اگر یہود محض امرِ تکوین سے استدلال کر کے ارضِ مقدس کوحاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کی قسمت میں ذلت و مسکنت کے عذاب کے علاوہ کچھ نہیں ہے،جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دیتے ہوئے فرمایا: ’’وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ  وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ‘‘
یہود کی شامتِ اعمال سے جب رومی حملہ آور طیطوس(ٹائی ٹس) نے ارضِ مقدس پر حملہ کرکے یہود کو جلا وطن کر دیا ، اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’وَإنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا‘‘ (اگر تم پھر کفر وعصیان کی روش پر لوٹ آئے تو ہم تمہیں اسی طرح پھر عذاب میں دو چار کریں گے۔ )یہود نے ان واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی بجائے تکذیب اور مخالفت پر اُتر آئے، اس لیے امّتِ محمدیہ ان کے لیے قہرِ الٰہی بن کر نازل ہوئی ،اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے ذریعے بھی کافروں کو عذاب دیتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللہُ بِاَیْدِیْکُمْ‘‘ (التوبۃ:۱۴) ’’لڑو ان سے، تاکہ عذاب دے اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے۔‘‘ پس یہود کا کفر و عصیان ارضِ مقدس سے محروم ہونے کی بنیاد ہےاور اس سے ان کو بے دخل کیا جانا وعدۂ الٰہی کا تقاضا ہے،جس کی تکمیل تشریعی طور پر اہلِ ایمان کے ذمہ ہے۔

پانچواں جواب 

اگر ارضِ مقدس پر یہود کا ابدی استحقاق ہوتا تو پھر شام کی کنجیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دی جاتیں، اللہ تعالیٰ نے وہ کنجیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر اس کا مالک امّتِ محمدیہ کو بنادیا، چنانچہ عہدِ فاروقی میں اس سر زمین نے مسلمانوں کےفاتحانہ قدموں کا استقبال کیا۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزؤہ خندق (کی کھدائی) کے موقع پر ایک سخت چٹان آڑے آگئی، جس پر کدال اچٹ جاتی اور چٹان ٹوٹتی نہ تھی، ہم نے آپ سے شکوہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، کدال لی اور بسم اللہ کہہ کر ایک ضرب لگائی (تو ایک ٹکڑا ٹوٹ گیا) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اکبر! مجھے ملکِ شام کی کنجیاں دی گئی ہیں، واللہ! میں اس وقت وہاں کے سنہرے محلوں کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یہ بشارت عہدِ فاروقی میں مکمل ہوئی، قرآن و سنت کی ان نصوص کو نظر انداز کر کے کتابِ مقدس کے محرفہ مندرجات کو سامنے رکھ کر یہود کے دعوائے استحقاق کی فکری عمارت کھڑی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسرے استدلال پر ایک نظر 

ارضِ مقدس پر قومِ یہود کے حقِ تملیک کے لیے دوسرا استدلال اس آیتِ کریمہ سے پیش کیا جاتا ہے: 
’’وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا‘‘   (الاعراف :۱۳۷) 
’’اور وارث کر دیا ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے اس زمین کے مشرق اور مغرب کا کہ جس میں برکت رکھی ہے ہم نے۔‘‘
آیتِ کریمہ کے لفظِ وراثت سے یہود کے دعوائے حقِ تملیک کا استدلال کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ لفظ آیتِ کریمہ میں فقہی اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں ہوا، بلکہ یہ تعبیر محض عطاء الٰہی اور بلا مشقت نوازنے کے لیے استعمال ہوئی ہے، اس لفظ سے ابدی حقِ تملیک کی نکتہ آفرینی درست نہیں ہے، کیونکہ یہی لفظ فرعون کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، جسے اللہ نے ارضِ مصر کی وراثت سے نوازا تھا، پھر اس سے چھین بھی لی تھی ،چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے اپنی قوم کو فرعون کے ظلم وستم پر تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ’’قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللہِ وَاصْبِرُوْا  اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ  یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ  وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘ (الاعراف : ۱۲۸) 
’’موسیٰ  ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا :اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، ساری زمین اللہ کی ملکیت میں ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے وارث بنا دیتا ہے اور اچھا انجام ایمان والوں کا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ اپنے امرِ تکوینی سے دنیاوی جاہ ومنصب سے جسے چاہے نوازتا رہتا ہے، خواہ وہ کافر ہو یا مؤمن ،ہا ں حسنِ انجام صرف اہل ایمان کا ہے۔حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے ایک طرف اقتدار کے تکوینی ہونے کی طرف اشارہ فرمایا اور دوسری طرف اسرائیلیوں کو اُمید دلائی کہ یہ تکوینی فیصلہ تمہارے حق میں بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہیں اس کا وارث بنا کر اس کا اقتدار تم میں بھی منتقل کرسکتا ہے۔
چنانچہ سورۂ اعراف کی آیتِ کریمہ ’’وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا‘‘ (الاعراف :۱۳۷) میں اور سورۂ دخان کی آیتِ کریمہ’’ وَأَوْرَثْنَاھَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ‘‘ (الدخان:۲۸) میں اسی انتقالِ وراثت کا اعلان ہے۔ وراثت کا لفظ تو تبدیلیِ ملک پر دلالت کرتا ہے، چہ جائیکہ اس سے کسی قوم کی ابدی ملکیت کا حق ثابت ہو ۔
نیز اگر حقِ ملکیت فرض کر بھی لیا جائےتو یہود کے لیے ارضِ مقدس کا استحقاق ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ مشروط تھا۔ قرآنی بیان کے مطابق یہ شرط زبور میں بیان کی گئی تھی :
 ’’وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ‘‘ (الانبیاء:۱۰۵) 
’’اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔‘‘
یہود نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کو جھٹلایا اور آپ کی جان کے درپے رہے، آپ سے دشمنی رکھی ،یہود کے یہ سارے کفریہ اعمال ان کو ارضِ مقدس کے اعزازی استحقاق سے محروم کرنے کے لیے کافی ہیں ۔
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد واضح ہوا کہ ان دو آیات میں کسی بھی طرح یہود کا حقِ تملیک ثابت نہیں ہوتا، ہاں! یہود کے لیے یہ مقامِ فرحت ضرور ہوگا ان کے من کی بات‘ اُن سے بہتر طریقے سے کرنے والے لوگ مسلمانوں میں پیدا ہو چکے ہیں،  فَإِلَی اللہِ الْمُشْتَکٰی۔

غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم 
اے جانِ وفا! یہ ظلم نہ کر 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین