بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اخلاص وخیر خواہی

اخلاص وخیر خواہی

    آج کل ہر جگہ نفسا نفسی اور کشا کشی ہے، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، ہرایک اپنے مفادات اور مقاصد کے پیچھے دوڑ رہا ہے، دین ومذہب اور اسلامی اخوت کو پس پشت ڈال دیاگیا ہے، مسلمان کے دل سے مسلمان کی خیر خواہی کا تصور مٹ گیا ہے، حالانکہ آنحضرت a نے تین بار دُہرا کر فرمایا: ’’دین اخلاص اور خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ چنانچہ ترمذی شریف میں ہے: ’’حضرت ابوہریرہq سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے تین بار دُہرا کر فرمایا کہ :’’دین اخلاص وخیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ صحابہ کرامs نے عرض کیا: یارسول اللہ! کس کی خیرخواہی؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کی، اس کی کتاب کی، مسلمانوں کے حکام اور عام مسلمانوں کی۔‘‘     ’’نصیحت‘‘ عربی زبان میں بڑا جامع لفظ ہے جس کا ترجمہ اردو میں کسی مفرد لفظ سے کرنا مشکل ہے۔ اس کا مفہوم خلوص اور خیر خواہی کے الفاظ سے ادا کیاجاتاہے، یعنی جس کے ساتھ جو معاملہ ہو خلوص اور خیرخواہی پر مبنی ہو، اس میں کھوٹ اور ملاوٹ کا شائبہ نہ ہو۔     امام نوویv شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس سے شرک کی نفی کرنا، ا س کی صفات میں کجروی اختیار نہ کرنا، اس کو تمام صفاتِ کمال وجلال کے ساتھ ماننا، اس کو تمام نقائص سے پاک اور منزہ سمجھنا، اس کی طاعت وبندگی بجالانا، اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنا، کسی سے صرف اس کی خاطر محبت اور بغض رکھنا، اس کے فرمانبرداروں سے دوستی اور اس کے نافرمانوں سے دشمنی رکھنا، اس کے ساتھ کفر کرنے والوں کے مقابلہ میں جہاد کرنا، ا س کی نعمتوں کا اقرار کرنا اور ان پر شکر بجالانا، تمام امور میں اس سے اخلاص کا معاملہ کرنا، تمام اوصاف مذکورہ کی دعوت اور ترغیب دینا اور تمام لوگوں سے ملاطفت کرنا۔     امام خطابی v فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص وخیرخواہی کا معاملہ کرنا درحقیقت خود بندے کا اپنی ذات سے خیرخواہی کرنا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کسی خیرخواہ کی خیرخواہی سے غنی ہیں۔     کتاب اللہ کے ساتھ خلوص وخیرخواہی کا مطلب ہے اس بات پر ایمان رکھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کا نازل فرمودہ کلام ہے، مخلوق کا کوئی کلام اس کے مشابہ نہیں، مخلوق میں کوئی اس کی مثل لانے پر قادر نہیں، قرآن کریم کی تعظیم کرنا، خوب اچھی طرح اس کی تلاوت کرنا، تلاوت کے وقت خشوع اختیار کرنا، تلاوت میں حروف والفاظ کو صحیح صحیح ادا کرنا، تحریف کرنے والوں کی غلط تأویلات اور طعنہ کرنے والوں کے طعن کا جواب دے کر قرآن کریم کی مدافعت کرنا، قرآن کے تمام مضامین پر ایمان رکھنا، اس کے احکام کو قبول کرنا، اس کے علوم وامثال کو سمجھنا، اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرنا، اس کے عجیب مضامین اور پہلوؤں پر غور کرنا، اس کے محکم پر عمل کرنا، اس کے متشابہ کو تسلیم کرنا، اس کے عموم وخصوص اور ناسخ ومنسوخ کی تفتیش کرنا، اس کے علوم کا پھیلانا اور اس کی دعوت دینا۔     رسول اللہ a کے ساتھ اخلاص وخیرخواہی کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت a کی رسالت ونبوت کی تصدیق کی جائے اور جو کچھ آپ a حق تعالیٰ شانہٗ کی جانب سے لائے ہیں اس پر ایمان لایا جائے، آپ a کے امر ونہی کی اطاعت کی جائے،آپ a کی حیات میں بھی اور بعد از وفات بھی آپ a کی نصرت ومدد کی جائے، آپ a کے دوستوں سے دوستی اور آپ a کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے، آپ a کی تعظیم وتوقیر کی جائے، آپ a کے طریقہ وسنت کو زندہ کیا جائے، آپ a کی دعوت کو پھیلایا اور آپ a کی شریعت کی نشر واشاعت کی جائے، اس پر کیے گئے اعتراضات کی نفی کی جائے، علوم شرعیہ کی تحصیل کو شعار بنایاجائے، ان میں تفقہ حاصل کیا جائے، ان کی دعوت وترغیب دی جائے، ان کی تعلیم وتعلم میں شفقت ولطف سے کام لیا جائے، ان کی عظمت وجلالت کو ملحوظ رکھا جائے، ان کی قراء ت کے وقت ان کا ادب بجالایا جائے اور بغیر علم کے ان میں گفتگو کرنے سے رُکا جائے، علوم شرعیہ کے حاملین کا علم کی نسبت سے احترام کیاجائے، آپ a کے اخلاق وآداب کو اپنایاجائے، آپ a کے اہل بیتs اور صحابۂ کرامs سے محبت رکھی جائے، جو شخص آنحضرت a کی سنت کے مقابلہ میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا آپ a کے صحابہ کرامs پر نکتہ چینی کرے اس سے کنارہ کشی کی جائے اور اس نوعیت کے دیگر امور۔     ائمۃ المسلمین (مسلمانوں کے حکام) کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق میں ان کی معاونت واطاعت کی جائے، ان کو حق کا حکم کیا جائے، لطف ونرمی کے ساتھ ان کو تنبیہ اور یاددہانی کرائی جائے، مسلمانوں کے جن حقوق سے وہ غافل ہوں یا ان کے علم میں نہ آئے ہوں ان امور کی ان کو اطلاع دی جائے، ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے اور لوگوں کے قلوب کو ان کی اطاعت کی طرف مائل کیا جائے۔ امام خطابیv فرماتے ہیں کہ ان کی خیرخواہی میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے، ان کی قیادت میں جہاد کیا جائے، ان کے پاس صدقات جمع کرائے جائیں اور اگران کی جانب سے ظلم وبے انصافی کا مظاہرہ ہو تب بھی ان کے مقابلہ میں تلوار سونت کرنہ نکلا جائے، ان کی جھوٹی تعریفیںاور خوشامدیں کرکے ان کا دماغ خراب نہ کیا جائے اور ان کے لیے صلاح وفلاح کی دعا کی جائے۔     امام خطابیv فرماتے ہیں کہ یہ تمام تقریر ا س صورت میں ہے جبکہ ائمۃ المسلمین سے خلفاء وحکام مراد لیے جائیں، یہی معنی زیادہ مشہور ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے ائمہ دین اور علمائے دین مراد لیے جائیں، اس صورت میں ان کی خیرخواہی کے معنی یہ ہوں گے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے، احکام شرعیہ میں ان کی پیروی اور تقلید کی جائے اور ان کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے۔     عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا وآخرت کے مصالح میں ان کی راہنمائی کی جائے، ان کی ایذاء رسانی سے بچاجائے، پس دین ودنیا کی جس چیز سے وہ ناواقف ہوں، اس کی ان کو تعلیم دی جائے اور اس میں قول وفعل کے ذریعہ ان کی اعانت کی جائے، ان کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے، ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کیا جائے، ان سے نقصان دہ چیزوں کو دفع کیا جائے، ان کے منافع کی تحصیل میں کوشش کی جائے، نرمی، اخلاص اور شفقت کے ساتھ ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جائے، بڑوں کی عزت کی جائے،چھوٹوں پر شفقت کی جائے، عمدہ نصیحت کے ذریعہ ان کی نگہداشت کی جائے، ان سے کینہ اور حسد نہ کیا جائے، ان کے لیے خیر کی انہی باتوں کو پسند کیا جائے جن کو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اور ان کے لیے ان تمام چیزوں کو ناپسند کرے جن کو اپنے حق میں ناپسند کرتا ہے، ان کے مال وآبرو کی حفاظت کی جائے، خیرخواہی کی جو انواع اوپر بیان ہوئی ہیں ان کو ان کے اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے اور طاعات وعبادات میں ان کی ہمت افزائی کی جائے۔     یہ وہ شمائل وخصائل ہیں جن کو اپنانے سے معاشرہ رشک ملائکہ بن سکتا ہے، مگر ہماری اس طرف توجہ نہیںـ، اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان مسلمان کے ہاتھوں قتل ہورہا ہے اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔     اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص وخیر خواہی عطا فرمائے اور حدیث نبوی(l) کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین