بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

احادیث قدسیہ !ایک تعارف

 

احادیث قدسیہ !ایک تعارف

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے دو سلسلے جاری فرمائے: ایک کتاب اللہ اور دوسرا رجال اللہ، جس میں دوسرا درحقیقت پہلے ہی کی تشریح و توضیح کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، یعنی رسول اللہ a کا کلام ،اللہ تعالیٰ کے کلام کی وضاحت کے لیے ہے اور رسول اللہ aکا ہر کلام وحی الٰہی ہی ہوتا ہے ،اس کی شہادت خود اللہ پاک نے اپنے کلام میں دی ہے: ’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی إِنْ ھُوَإِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘۔               (النجم:۳،۴) ترجمہ:’’یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔‘‘ رسول اللہ a کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ آپ aکو صاحب جوامع الکلم بنا کر بھیجا گیا، یعنی ایسی احادیث جو معانی کثیرہ پر مشتمل ہوں،چناچہ حدیث میں وارد ہے: ’’عن أبی ہریرۃ أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:’’ فضلت علی الأنبیاء بستٍ:أعطیت جوامع الکلم۔۔۔۔۔‘‘۔                           (مسلم، ج:۱،ص:۹۹۱) ترجمہ:رسول اللہ a کا ارشاد ہے:مجھے تمام انبیاء oپر چھ وجوہات سے فضیلت دی گئی :مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ۔ آپ a کے انفاس و الفاظ مبارکہ کی ایک اعلیٰ و ارفع قسم وہ احادیث ہیں جن کے معانی‘ اللہ تعالیٰ کے ہوں اور حضور a اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔اس قسم کی احادیث کو’’احادیث قدسیہ‘‘یا’’احادیث الٰہیہ‘‘یا’’احادیث ربانیہ‘‘کہا جاتا ہے۔ شیخ محمد عوامہ نے اپنی کتاب’’من صحاح الأحادیث القدسیۃ‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ: حدیث قدسی کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں دو نور جمع ہیں:ایک نور الٰہی اور دوسرا نور نبوی ،چونکہ یہ احادیث ایک حیثیت سے اللہ ہی کا کلام ہیں، اس لیے ترغیب و ترہیب کی زیادہ تاثیر رکھتی ہیں،ان احادیث میں عموماً اللہ تعالیٰ کی صفات جلالیہ و جمالیہ یا اس کے مقربین فرشتے یا اللہ تعالیٰ کے اس کے بندوں کے ساتھ تعلق کا بیان ہوتا ہے۔ (ص:۶، ۷، مکتبہ دار الیسر) حدیث قدسی کی تعریف ۱:…علامہ سید شریف جرجانی v المتوفیٰ۸۱۶ھ نے اپنی کتاب ’’التعریفات‘‘میں حدیث قدسی کی تعریف یوں لکھی ہے: ’’الحدیث القدسی ھو من حیث المعنی من عند اللّٰہ تعالٰی ومن حیث اللفظ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فھو ما أخبر اللّٰہ تعالٰی بہ نبیہ بإلھام أو بالمنام فأخبر علیہ السلام عن ذٰلک  المعنی بعبارۃ نفسہ  فالقرآن مفضل علیہ لأن لفظہ منزل أیضًا۔‘‘                                   (باب القاف،ص:۸۴، ط: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت) ’’حدیث قدسی وہ حدیث ہے جس کے معانی و مفہوم اللہ کی طرف سے ہوں اور الفاظ آنحضرت a کے دل میں بصورت خواب یا الہام‘ اللہ نے القاء کیے ہوں اور پھر آپa نے انہیں اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو،البتہ قرآن کا درجہ اس سے بلند ہے کہ اس کے الفاظ بھی اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں۔‘‘ ۲:…علامہ مناویv فرماتے ہیں: ’’الحدیث القدسی إخبار اللّٰہ تعالٰی نبیہ علیہ الصلاۃ والسلام معناہ بإلہام أو بالمنام، فأخبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن ذٰلک المعنی بعبارۃ نفسہ۔‘‘                   (الإتحافات السنیۃ بالأحادیث القدسیۃ للمناوی،مقدمہ، ص:۲، ط: دار المعرفۃ بیروت ،لبنان) ’’حدیث قدسی وہ خبر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کریم a کو الہام یا خواب کے ذریعہ دی ہو اور آپ a نے اس کو اپنے الفاظ میں بیان کیاہو۔‘‘ ۳:…ملا علی قاریv حدیث قدسی کی تعریف میں فرماتے ہیں: ’’وقال ملا علی القاریٔ علیہ رحمۃ الباری: الحدیث القدسی: مایرویہ صدر الرواۃ وبدر الثقات علیہ أفضل الصلوات وأکمل التحیات عن اللّٰہ تبارک وتعالٰی تارۃً بواسطۃ جبرائیل علیہ السلام وتارۃ بالوحی والإلہام والمنام مفوضًا إلیہ التعبیر بأی عبارۃٍ شاء من أنواع الکلام ‘‘۔                              (أیضا،ص:۳) ’’حدیث قدسی اسے کہتے ہیں جسے راویوں کے سردار اور ثقات کے منبع و اصل نبی اکرمa نے اللہ تعالیٰ سے روایت کیا ہو، خواہ حضرت جبرئیل mکے واسطے سے، یا وحی،الہام یا خواب کے ذریعہ، جس کی تعبیر کا اختیار حضور a کو ہوتا ہے، وہ جن الفاظ سے چاہیں بیان کریں۔‘‘ ۴:…اور شیخ محمد عوامہ نے اس تعریف کو اختیار کیا ہے: ’’حدیث قدسی وہ صریح قول ہے جو کہ نبی کریم a  اللہ جل شانہ سے روایت کریں‘‘۔ شیخ کی اس تعریف کو راجح قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تعریف دیگر تعریفات کے مقابلے میں زیادہ اختصاص کی حامل ہے، اس لیے کہ اس میں حدیث قدسی کا قول باری تعالیٰ ہونا ضروری ہے،فعل باری کی حکایت اس سے خارج ہے ،اور قول بھی صریح ہو،ورنہ حدیث قدسی نہ ہوگی ، جیسے نبی کریم a کا ارشاد ہے: ’’أوحی إلیّ أنکم تفتنون فی قبورکم مثل أو قریب من فتنۃ المسیح الدجال‘‘۔                                                                   (بخاری،ج:۱،ص:۴۴۱،قدیمی کتب خانہ) ترجمہ:’’مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو تمہاری قبروں میں دجال کے فتنے جیسی سخت آزمائش ہوگی‘‘۔ اس جیسی احادیث شیخ محمد عوامہ کے نزدیک حدیث قدسی نہیں۔ کیا حدیث قدسی کے الفاظ و معنی دونو ں منجانب اللہ ہیں یا الفاظ آنحضرت a کے اپنے استعمال کردہ ہیں؟ گزشتہ تعریفات سے ظاہر ہے کہ اکثر علماء کا رجحان دوسرے قول کی طرف ہے اور بعض علماء کے نزدیک حدیث قدسی کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں، گویا یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حجر ہیثمی v اپنی کتاب’’الفتح المبین فی شرح الأربعین‘‘میں فرماتے ہیں: ’’اعلم أن الکلام المضاف إلیہ تعالٰی أقسام ثلاثۃ‘‘۔ ان کی مکمل عبارت کا خلاصہ : جس کلام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو، اس کی تین اقسام ہیں: ۱:-قرآن کریم: یہ سب سے اعلیٰ ہے اور صفت اعجاز سے متصف ہے۔ ۲-انبیاء سابقین o کی کتب تحریف سے قبل۔ ۳:-احادیث قدسیہ:یہ نبی a سے مروی اور غیر متواتر ہیں اور آپ a نے اس کی نسبت اللہ کی طرف کی ہے،لہٰذا یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے۔ (الحدیث الرابع و العشرون، ص:۲۳۴، مکتبہ دار المنہاج) اور ’’الإ تحافات السنیۃ‘‘ کے خاتمہ میں امیر حمید الدین کے فوائد میں قرآن کریم اور احادیث قدسیہ کے درمیان کئی فروق کے ضمن میں منقول ہے کہ: ’’پانچواں فرق قرآن کریم اور احادیث قدسیہ کے درمیان یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ لازمی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں ،برخلاف حدیث قدسی کے کہ اس میں جائز ہے کہ اس کے الفاظ نبی کریم a کی طرف سے ہوں‘‘۔ گویا حدیث قدسی کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے بھی ہوسکتے ہیں اور نبی کریم a کے بھی۔ (خاتمہ، ص:۱۹۰، الإتحافات السنیۃ لعلامہ محمد المدنی الحنفی v، ط: دائرۃ المعارف عثمانیہ،حیدرآباد دکن،۱۳۵۸ھ) بہر حال جمہور کا مذہب یہ ہے کہ الفاظ نبی اکرم a  کے ہی ہوتے ہیں، چنانچہ علامہ طیبیv ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: ’’والحدیث القدسی:إخبار اللّٰہ تعالٰی نبیہ علیہ الصلاۃ والسلام معناہ بإلہام أو بالمنام فی خبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن ذٰلک المعنی بعبارۃ نفسہ‘‘۔ (ج:۱،ص:۱۴۸-۱۴۹) ’’حدیث قدسی وہ حدیث ہے جس کے معنی اللہ تعالیٰ نے نبی کریمa کو الہام یا خواب کے ذریعے بتائے اور پھر آپa نے اپنی امت کو تعبیر میں خبر دی۔ اور ملا علی قاریv ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں یہ فرماتے ہیں کہ: ’’الفرق بین  القرأٰن و الحدیث القدسی أن الأول یکون بإلہام أو منام أو بواسطۃ ملک بالمعنی، فیعبرہ بلفظہ و ینسبہ إلی ربہ والثانی لا یکون إلا بإنزال جبریلؑ باللفظ المعین۔‘‘                                      (ج:۱،ص:۹۵) ’’حدیث قدسی اور قرآن میں فرق یہ ہے کہ حدیث قدسی کے معانی  الہام یا خواب یا فرشتہ کے ذریعہ سے حضورaکو بتائے جاتے ہیں اور حضور a اپنے الفاظ سے اس کو بیان کرتے ہیں اور نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے،اور قرآن معین الفاظ کے ساتھ جبریل m کے واسطے سے ہی نازل ہوتا ہے۔‘‘ اور علامہ سید شریف جرجانی v کی تعریف سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔(کما مر) جمہور کے نزدیک احادیث قدسیہ کی نسبت اللہ کی طرف ایسی ہی ہے جیسے کہ کسی شعر کی وضاحت کرتے ہوئے یوں کہا جاتا ہے کہ شاعر کہتا ہے،اور قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر و معانی بیان کرتے وقت یوں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ نہیں ہوتے،اسی طرح احادیث قدسیہ میں معانی و مضمون تو اللہ کی جانب سے ہے اور تعبیر نبی اکرم a کی جانب سے ہے۔      احادیث قدسیہ اور قرآن کریم میں فرق گزشتہ تعریفات اور علما کے اقوال کے نتیجہ میں قرآن اور حدیث قدسی میں چند فرق ظاہر ہوتے ہیں: ۱:…قرآن کریم کے الفاظ معجز ہیں اور حدیث قدسی میں اعجاز نہیں۔ ۲:…قرآن کریم: جبریل m کے واسطے سے نازل ہوا ،جبکہ احادیث قدسیہ بلا واسطہ بھی نازل ہوئیں ہیں۔ ۳:…قرآن کریم متواتر نقل ہوتا ہوا آیا ہے اور ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ ہے، جبکہ حدیث قدسی میں تواتر شرط نہیں۔ ۴:…قرآن کریم کی روایت بالمعنی جائز نہیں اور حدیث قدسی کی جائز ہے۔ ۵:…قرآن کریم کو بلاطہارت چھونا جائز نہیں، نیز جنبی اور حائض کے لیے اس کی تلاوت جائز نہیں، جبکہ حدیث قدسی کے لیے یہ احکام علی اللزوم نہیں۔ ۶:…نماز میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے،حدیث قدسی کی تلاوت نماز میں جائز نہیں۔ ۷:…احادیث قدسیہ کی نسبت رسول اللہ a کی جانب بھی ہوتی ہے ، جبکہ قرآن کریم کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔ ۸:…قرآن پاک کی کتابت دور نبوی میں ہوئی اور احادیث قدسیہ کی بعد میں ہوئی۔ ۹:…جمہور علماء کے نزدیک حدیث قدسی کے الفاظ نبی اکرمaکے ہیں، جبکہ قرآن کریم  میں الفاظ اور معانی دونوں منجانب اللہ ہیں۔ (الإتحافات السنیۃ للعلامۃ محمد المدنی،خاتمہ،ص:۱۸۷ تا۱۹۰) احادیث قدسیہ اور احادیث نبویہ میں فرق ۱:…حدیث قدسی کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف ہی ہوتی ہے،جبکہ حدیث نبوی کی نبی کریم a کی ہی طرف ہوتی ہے۔ ۲:…حدیث قدسی کے موضوعات عموماً خوف خدا،اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام پر مبنی ہوتے ہیں، اور احکام تکلیفیہ شاذ و نادر ہی بیان ہوتے ہیں، جبکہ احادیث نبویہl میں احکام تکلیفیہ کا بیان زیادہ ہے۔ ۳:…احادیث قدسیہ کی تعداد احادیث نبویہ کی بنسبت بہت کم ہے۔ ۴:…احادیث قدسیہ محض قولیہ ہی ہوتی ہیں،جبکہ احادیث نبویہ قولیہ اور فعلیہ دونوں ہوتی ہیں۔ احادیث قدسیہ کے چند اہم مجموعے ۱:…’’المقاصد السنیۃ فی الأحادیث الإلٰہیۃ‘‘یہ کتاب علامہ علاء الدین علی بن بلبان(المتوفیٰ:۶۸۴ھ)کی تصنیف ہے ، جو ۱۴۰۸ ھ میں مکتبہ دار التراث مدینہ منورہ اور دار ابن کثیر بیروت نے چھاپی ہے، اس میں کل سواحادیث جمع کی ہیں اور چند احادیث مناقب صحابہؓ اور حلیۂ رسولؐ کے متعلق جمع کی ہیں۔ ۲:…علامہ ابن عربی الطائی المتوفیٰ ۶۳۸ھ نے اپنی کتاب ’’مشکوٰۃ الأنوار‘‘ میں ۱۰۱؍ ۱حادیث قدسیہ نقل کی ہیں۔ ۳:…علامہ جلال الدین سیوطیv المتوفیٰ ۹۱۱ھ نے اپنی کتاب ’’الجامع الصغیر‘‘ میں۶۶؍ اور ’’جمع الجوامع ‘‘میں ۱۳۳؍ احادیث قدسیہ جمع کی ہیں ۔ ۴:…’’ الأحادیث القدسیۃ الأربعینۃ‘‘اس رسالے میں ملا علی قاری vنے ۴۰؍ احادیث جمع کی ہیں،یہ ۱۴۲۴ھ میں دار البشائر الاسلامیہ بیروت سے، نذیر محمد مکتبی کی شرح’’ الروضۃ البہیۃ ‘‘کے ساتھ چھپی ہے،تمام احادیث کو مختلف اجزا میں تقسیم کیا ہے۔ ۵:…’’ الاتحافات السنیۃ فی الأحادیث القدسیۃ‘‘یہ علامہ محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفین المناوی v المتوفی۱۰۳۱ ھ کی تصنیف ہے، اس میں ۲۷۲ ؍احادیث ہیں اور صحیح و غیر صحیح ہر قسم کی احادیث ہیں۔مکتبۃ التراث الاسلامی نے اس کو شیخ محمد منیر دمشقی کی شرح ’’النفحات السلفیۃ ‘‘کے ساتھ چھاپا ہے۔ ۶:… ’’الاتحافات السنیۃ فی الأحادیث القدسیۃ ‘‘ یہ محمد المدنی الحنفی المتوفیٰ۱۲۰۰ھ کی تصنیف ہے، اس میں کل ۸۶۳‘ احادیث قدسیہ جمع کی گئی ہیں ،جو کل ۳؍ ابواب پر مشتمل ہیں: ۱:-لفظ ’’قال ‘‘سے شروع ہونے والی احادیث۔ ۲:-لفظ ’’یقول‘‘ سے شروع ہونے والی احادیث۔ ۳:-ان کے علاوہ دیگر احادیث۔ ۷:… ’’الأحادیث القدسیۃ‘‘یہ کتاب المجلس الاعلی للشئون الإسلامیہ مصر کے ارکان نے مرتب کی ہے،اس کتاب میں تقریباً ۴۰۰ ؍احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور صحاح ستہ اور موطا امام مالک کی تخریج کی ہے ،لیکن شیخ محمد عوامہ نے ان کی تالیف پر کئی اعتراضات کیے ہیں۔ ۸:…مقدس باتیں،ترجمہ’’ الأحادیث القدسیۃ ‘‘لأرکان المجلس الاعلیٰ۔ یہ ترجمہ ہمارے استاذ الاساتذۃ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار v نے کیا ہے اور دار التصنیف جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے۱۹۹۰ء میں چھپی ہے۔ ۹:…’’الصحیح المسند من الأحادیث القدسیۃ‘‘یہ مصطفی عدوی کی تالیف ہے ،اس میں ۱۸۵؍ احادیث قدسیہ صحیحہ کو جمع کیا ہے ،دار الصحابہؓ  للتراث نے چھاپی ہے۔ ۱۰:…’’من صحاح الأحادیث القدسیۃ‘‘ للشیخ محمد عوامہ۔مؤلف نے اس میں اپنی سخت شرط کے ساتھ ۱۰۰؍احادیث کو جمع کیا ہے، جو اکثر صحیحین کی روایتیں ہیں۔شیخ نے تخریج اور شرح کے ساتھ ساتھ غریب الحدیث پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ ۱۱:…’’جامع الأحادیث القدسیۃ‘‘ جو عصام الدین الصبابطی کی تالیف ہے،مؤلف نے تبویب کے ساتھ۱۱۵۰؍ احادیث جمع کی ہیں۔ ۱۲:…’’خدا کی باتیں‘‘ مولانا سعید احمد دھلویvکی تالیف ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین