’’۲۴؍ شعبان ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۳؍ فروری ۲۰۲۵ء بروز اتوار جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مساجد سے متعلق شعبہ علامہ بنوری ٹرسٹ/ ایسوسی ایشن کے تحت جامعہ سے ملحق مساجد کے ائمہ کرام اور ارکانِ کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں جامعہ کے اکابر اساتذہ اور شعبہ کے ذمہ داران نے متعلقہ موضوعات پر مختلف نصائح اور گزارشات ارشاد فرمائیں، جامعہ کے ناظم تعلیمات واستاذِ حدیث، اور جنرل سیکرٹری علامہ بنوری ٹرسٹ/ ایسوسی ایشن ، ناظم وفاق المدارس العربیہ صوبہ سندھ حضرت مولانا امداد اللہ صاحب مدظلہٗ نے بھی چند نصائح ارشاد فرمائیں، افادۂ عام کے لیے ان نصائح کو تحریری صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔‘‘ (ادارہ)
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلی اٰلہٖ وصحبہٖ أجمعین، أما بعد: فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: ’’وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘ وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من یرد اللہ بہٖ خیرا یفقھہ في الدین۔‘‘ صدق اللہ العظیم
قابلِ صد احترام علماء کرام! معزز مہمانانِ گرامی! سب سے پہلے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن آمد پر آپ سب حضرات کو تہہ دل سے خوش آمدید، أہلا وسہلا ومرحبا۔ علامہ بنوری ٹاؤن ٹرسٹ کی طرف سے ایک عرصہ بعد پہلی مرتبہ آپ حضرات کو زحمت دی گئی ہے۔ اس مجلس کے اغراض و مقاصد ان شاءاللہ العزیز حضرت مولانا سید احمد یوسف بنوری صاحب بیان فرمائیں گے، میں اتنی گزارش کروں گا کہ آپ جتنے حضرات تشریف فرما ہیں، آپ اپنے محلے کی مسجد کے وہ لوگ ہیں جن کا انتخاب تکوینی طور پر اللہ نے اپنی مسجد کے لیے کیا ہے: ایں سعادت بزور بازو نیست۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، کیونکہ آپ کی سوچ اور اُٹھنا بیٹھنا‘ اللہ کے گھر کی تعمیر اور ترقی کے لیے ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے:’’ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے گھر کی دیکھ بھال کے لیے منتخب کیا ہے تو یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خیر وبھلائی کا ارادہ کیا ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں، جس کی بدولت وہ دین کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ پوری دنیا میں کتنے انسان ہیں؟! ہمارے پاکستان اور بالخصوص کراچی میں کتنے مدارس ہیں، کتنی مساجد ہیں اور دین کے ساتھ وابستہ کتنے لوگ ہیں؟! اور اس کے باوجود دین سے وابستہ لوگوں میں سے آپ لوگوں کا انتخاب ہوا ہے۔ ائمہ‘ منصبِ امامت پر فائز ہیں۔
جس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اس نعمت کو بڑھا دیتا ہے، جب کہ نافرمانی اور ناشکری کی صورت میں وہ نعمت چھن جاتی ہے۔ نعمتیں کس وقت چھنتی ہیں؟ اس پر مجھے اور آپ کو سوچنا چاہیے، اللہ کی طرف سے نعمتیں بارش کی طرح یکساں برستی ہیں، قدردان لوگ قدر کرتے ہیں، نعمت ان کے ہاں باقی رہتی ہے اور جب بے قدری پر آتے ہیں تو آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو اُٹھا لیتا ہے، چاہے درس و تدریس کا منصب ہو، امامت کا ہو، یاتحریر کا ہو۔
معزز ائمہ کرام! جو مقدر میں ہے وہ آپ کو ملے گا، ہمارے مفتی نظام الدین شامزی شہید رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ایک جملہ فرماتے تھے کہ: ’’ دنیا جتنی مقدر میں ہے آتی رہے گی، دین پر مر مٹنا سیکھو۔‘‘ آپ دیکھیے! اللہ تعالیٰ دنیا ان کو بھی دیتے ہیں جن کو پسند فرماتے ہیں اور ان کو بھی دیتے ہیں جن کو پسند نہیں فرماتے، مگر اللہ تعالیٰ دین اُن کو دیتے ہیں جن کو پسند فرماتے ہیں۔ دین کا کام کرنے والے جس شعبے سے بھی وابستہ ہوںمحبوب ترین لوگ ہیں۔ آپ جتنے لوگ یہاں تشریف فرما ہیں اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں، اس لیے کہ آپ حضرات کا منبرو محراب کے ساتھ تعلق ہے، محراب والوں کے ساتھ تعلق ہے۔
ائمہ کرام سے تو میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا رزق محراب سے جوڑ رکھا ہے: ’’وَوَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا‘‘ (آل عمران: ۳۷) یہ بہت پاکیزہ رزق ہے، پاکیزہ چیزیں زیادہ نہیں ہوتیں کم ہوتی ہیں۔ آپ کو بھی پاک صاف چیزیں کتنی اچھی لگتی ہیں، آپ حضرات خوب سمجھدار ہیں، ائمہ کرام ہیں، مقتدیوں کی پاکیزگی صحیح نہ ہو تو امام پر اثر پڑتا ہے یا نہیں پڑتا؟ اور اگر امام پاکیزگی کا اہتمام نہ کرے تو پورے محلے پر اثر پڑتا ہے۔میری پہلی گزارش یہ ہے کہ ائمہ ہوں، مقتدی ہوں، طہارت کا اہتمام کریں۔
میں خود امام نہیں رہا،باقی جن حضرات کے بیانات ہونے ہیں (یعنی مولانا محب اللہ صاحب اور مولانا عبدالرؤف غزنوی صاحب ) ان کی زندگی امامت کا منصب نبھانے میں گزر گئی، میں تو امامت سے ڈرتا ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ: ’’فلاں شاخ جاؤ ، گاڑی لے کر جائے گی اور گاڑی لے کر آئے گی، مگر صرف جمعہ پڑھایا کرو۔‘‘ میں نے ایک فاضل کو بدل کے طور پر پیش کردیا، میں نے کہا: حضرت بہترین امام لے کر آیا ہوں، بہترین خطیب ہے، فرمایا: اپنی جان چھڑا رہے ہو نا ؟!میں نے کہا: نہیں پڑھا سکتا، بہت مشکل کام ہے۔ میری نظر میں چار بیویوں کو سنبھالنا اور ایک امامت کرنا دونوں برابر ہیں۔
آپ حضرات سے کچھ کڑوی باتیں ضرور کروں گا، ناراض نہ ہوں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کچھ حضرات گئے کہ ہمیں ایسے ایسے اوصاف کا حامل امام دے دیں، حضرت نے فرمایا: اپنے بچے دے دو، میں ان شاءاللہ! ان کو عالم بنا دوں گا، پھر آپ کو امام بن کر مل جائیں گے۔ شرائط تو ایسی لگائی جاتی ہیں جو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی کتابوں کو منتخب کرنے میں لگائی ہیں اور جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تنخواہ کیا دو گے؟ جواب ملتا ہے: دس ہزار۔ میرے پاس جو قضیہ آتا ہے، میں پہلی بات کیا پوچھتا ہوں؟ ایک مرتبہ دفتر میں بیٹھا ہوا تھا، ایک کمیٹی والے آئے اور کہا کہ: یہ ہے آپ کافاضل! میں نے کہا: آپ کیا چاہتے ہو؟ کہا کہ یہ یہاں سے جائے، میں نے کہا: ٹھیک ہے ، چلا جائے گا، ہمارا فاضل ہے، ہماری بات مانے گا ، لیکن یہ بتاؤ کہ تنخواہ کیا دیتے ہو؟ کہاکہ: آٹھ ہزار، یہ آج سے چار پانچ سال پہلے کی بات ہے، میں نے کہا: آپ کے صبح کے ناشتہ کا ماہانہ خرچہ کیا ہے؟ ایک دوسرے کو دیکھ کر سر جھکالیے ،میں نے کہا: اللہ کا خوف کرو، امام کو اللہ تعالیٰ نے عزت دے رکھی ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے عزت دے رکھی ہے، لیکن اگر آپ لوگوں کی نظروں میں کوئی برا ہے تو وہ امام ہے ۔
امام کو مستغنی رکھا جائے، اس کی معیاری تنخواہ مقرر کی جائے اور تقرر کرتے وقت ان سے یہ بات کریں کہ آپ کو دروس بھی دینے ہیں، فقہ اور حدیث کا درس بھی دینا ہے۔ نماز تو وہ بھی پڑھا سکتا ہے جو چلہ لگا لے، امام سے کام لو اور امام کو مستغنی کرو، تاکہ امام کی نظر مقتدیوں کی جیبوں پر نہ ہو۔ میں دورہ کے طلبہ کو آخری نصیحت کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ: اللہ کا وصف کیا ہے؟ اَللہُ الصَّمَدُ،اللہ بےنیاز ہے، اللہ تعالیٰ کے اوصاف اپناؤ۔ امام آخر انسان ہے، جب اس کی تنخواہ اتنی ہوگی کہ دن کا کھانا بھی نصیب نہ ہو تو مقتدیوں کی جیب پر تو نظر ہوگی ۔
میں کمیٹی والوں سے درخواست کروں گا اپنی ذات پر قیاس کرو کہ میرے گھر کا خرچہ کتنا ہے؟ امام کو خالی اور فارغ مت چھوڑو، دروس رکھو، محلہ میں مکتب قائم کرو۔ ڈیفنس میں ایک مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ امام چاہیے، میں نے بہترین نماز پڑھنے والاامام بھیج دیا، میں وہاں گیاتو میں نے کہا: جگہ تو بہت اچھی ہے ؟کہا کہ: ہاں! میں نے کہا: مجھ سے ایک وعدہ کرو، کہنے لگا: جی استاذ جی فرمائیے! میں نے کہا: کسی کے گھر پر جا کر بچوں کو مت پڑھایا کرو۔ یہ ائمہ بھی سنیں، کسی کے گھر پر جاکر بچوں کو مت پڑھایا کرو، اس لیے کہ جب آپ جاؤ گے تو گھر سے آواز آئے گی: قاری صاحب آیا ہے، اس سے علم کی بے توقیری ہوتی ہے۔ علم کی توقیر ہونی چاہیے، تحقیر نہیں ۔ مسجد میں بیٹھ جاؤ اور اعلان کرو کہ میں مفت پڑھاؤں گا، بچوں کو مسجد بھیجو ، اب اس مسجد کا یہ حال ہے کہ اس میں قدم رکھنے کی جگہ نہیں ہے، میں نے ذمہ دار سے کہہ دیا کہ یہ کسی کے گھر پر نہیں جائے گا، مگر اسے تنخواہ صحیح دو ۔ موجودہ دور میں معاملہ جانبین سے خراب ہے، امام ٹکتا نہیں اور کمیٹی والے خیال نہیں رکھتے۔
اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں، اختلاف کے نقصانات کتنے سنگین ہوتے ہیں ؟ دل میں کدورتیں آتی ہیں، برکتیں ختم ہوتی ہیں، آپ اداروں کو دیکھیں، کتنے دینی ادارے ہیں، اگر اختلافات کا شکار ہوجائیں تو تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں ،امام اور کمیٹی کے درمیان اختلافات واقع ہو جائیں تو برکتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ سامعین پر نصیحت کیا اثر کرے گی، جب سامنے والا سنے گا اور اس کے دل میں امام کے متعلق عجیب و غریب تصورات آئیں، نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کمیٹی کا فرد اس تلاش میں ہوتا ہے کہ امام کی کوئی غلطی مجھے مل جائے اور میں اسے اس منصب سے ہٹادوں۔ ایک دوسرے کے لیے برداشت کا مادہ ہونا چاہیے۔
مفتی احمد الرحمٰن صاحب رحمۃ اللہ علیہ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دوسرے نمبر کے مہتمم ہیں، ایک دن نصیحت فرما رہے تھے، عجیب جملہ فرمایا: کہا کہ یہ کوئی کمال کی بات نہیں کہ آپ کے رفقائے کار سارے عقل مند ہوں، سمجھدار ہوں اورآپ اس تنظیم کو چلائیں، آپ کے رفقاء ہر نوع کے ہوں، کوئی سمجھدار ہو، کوئی نا سمجھ ہو، ایسے نظم کو چلانا کمال، دانشوری اور عقلمندی ہوتی ہے۔
کمیٹی میں بھی ہر قسم کے افراد ہوتے ہیں ، لہٰذا حکمت عملی اپنائی جائے، اس لیے ادارے نے جو نظام بنا کر آپ کے سامنے پیش کرکے رکھا ہے، اس کا بھی ایک مقصد اور پس منظر ہے۔ اس سلسلے میںہم نے لڑائیاں بھگتی ہیں، گولیاں کھائی ہیں، مساجد کے جو جھگڑے ہوتے تھے ،وہ فائلیں ابھی تک میرے دماغ میں گھومتی ہیں، اس لیے ادارہ نے اس طرف توجہ دی، جس کی بدولت ہزاروں مساجد کو تحفظ ملا، اب تو الحمدللہ! وہ مرحلے نہیں رہے،لیکن جو امام اور کمیٹی کے درمیان تنازعات کی جو شکایات آتی ہیں، اس کے لیے ہم بیٹھے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس محبت و اُلفت کو قائم دائم رکھے۔ اس لیے میرے دوستو! میری درخواست یہی ہے کہ آپس کے اختلاف سے بچو، آپس میں محبت کے ساتھ رہو ،ان شاء اللہ! دین کی اشاعت ہوتی رہے گی ،برکتیں بھی آئیں گی۔
ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے، ہمارے ہاں کوئی فیس یا چندہ نہیں ہے، یہ ذہن میں رکھ لیںکہ ہم نے بنوری ٹرسٹ قائم کیا ہے، جتنے افراد ہیں ادارہ ان کو تنخواہ دیتا ہے، آج بھی ہماری شاخ گلشن عمر میں پورے پاکستان سے مدارس والے حضرات تشریف لاتے ہیں، کیونکہ جب وہ کسی کے پاس چندے کے لیے جاتے ہیں تو وہ ان سے کہتے ہیں کہ بنوری ٹاؤن کی تصدیق لاؤ، ایک نہیں دو نہیں، پندرہ بیس استاذ اور خدام اس وقت مقرر ہیں، مدارس کے ساتھ تعاون کرنے کو اپنا کام سمجھتے ہیں۔ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ کھالیں اگر کسی دینی مدرسہ میں اکٹھی ہوتی ہیں، وہ بنوری ٹاؤن ہے۔ اور کامیابی کا راز کیا ہے؟ ہمارے ذمہ دار بیٹھے ہوئے ہیں، ایک روپیہ بھی اساتذہ کو بطور اجرت کے نہیں دیا جاتا ہے، نہ اساتذہ لیتے ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ دین کا یہ اہم کام مفت ہو، اس لیے پیسے کی لالچ کا الحمدللہ! ہمارے ہاں تصور نہیں ہے۔
الحمد للہ! اس وقت پورے ملک میں ایک ادارے سے سب سے زیادہ وفاق المدارس میں امتحان دینے والے طلبہ ہمارے ادارے بنوری ٹاؤن کے ہیں، جو تقریباً ساڑھے چار ہزار ہیں : ’’ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ‘‘ یہاں جو آرام فرمارہے ہیں(حضرت بنوریؒ، مفتی احمد الرحمٰنؒ، مولانا حبیب اللہ مختارؒ، مولانا محمد بنوریؒ، ڈاکٹر مولانا عبدالرزاق اسکندرؒ) ان کے اخلاص کی برکت ہے، مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ ، مولانا بدیع الزمان صاحب رحمہ اللہ ،حضرت سید مصباح اللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ،ان تمام اکابر کی برکات سے الحمدللہ! یہ ادارہ چل رہا ہے۔
آپ حضرات سے بھی درخواست ہے کہ دعاؤں میں یاد رکھا کریں۔ اللہ تعالیٰ اس ادارہ کو مزید ترقی عطا فرمائے، نظرِبد سے بچائے اور تمام رفقائے کار کو اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین