’’مسجد‘‘خانۂ خدا، مرکزِ اسلام اور روئے زمین کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی جانب سے خصوصی عزت و شرف سے نوازا ہے، اور قرآن مجید میں جگہ جگہ مسجد اور اس سے منسوب افراد کا تذکرہ کیا ہے۔ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرتے ہوئے جب قباء نامی مقام پر پہنچے تو سب پہلے مسجد بنائی اور جب مدینہ طیبہ میں فروکش ہوئے تب بھی اولین فرصت میں مسجدِنبوی کی تعمیر کا قصد کیا اور صحابہ کرام ؓ کے ساتھ خود بھی بناء ِمسجد میں حصہ لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ نسبت کی بنیاد پر مراتب ودرجات میں غیر معمولی تفاوت ہوجاتا ہے، کوئی شیٴ فی نفسہ معمولی دکھائی دیتی ہے؛ مگر اس کی نسبت اللہ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے نزدیک محبوب چیزوں سے ہوجاتی ہے تو پھر اس کی عظمت میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور کلاہِ گوشہٴ دہقاں آفتاب تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی حال ائمہ،موذنین اور خدامِ مساجد کا ہے کہ یہ حضرات عام طور پر حافظِ قرآن، عالم دین اور عابد و متقی ہونے کی بنا پر ویسے بھی شرف و فضیلت کے حامل ہوتے ہیں؛ مگر مسجد کی نسبت سے ان کا مقام عالی اور ان کا مرتبہ بلند ہوجاتا ہے۔
اسلام میں منصبِ امامت کی بڑی اہمیت ہے، یہ ایک باعزت،باوقار اور قابلِ قدر دینی شعبہ ہے، یہ مصلّٰی درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصلّٰی ہے، امام نائبِ رسول ہے، نیز اللہ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی کی حیثیت رکھتاہے؛ اس لیے احادیث میں کہا گیا ہے کہ : ’’تم میں جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہیے۔‘‘ اسی طرح حدیث پاک میں ہے: ’’اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجۂ قبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو، وہ تمہاری امامت کر ے، کیوں کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے۔‘‘ (شرح نقایۃ، ج: ۱، ص:۶۸ ، والأولٰی بالإ مامۃ، الخ)
دوسری حدیث میں ہے کہ : ’’تم میں جو سب سے بہتر ہو، اس کو امام بناؤ، کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے۔‘‘ (حوالۂ بالا)
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو امورِ دین کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو) پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو، پھر وہ جو خوبصورت اور باوجاہت ہو، پھر وہ جو نسباً زیادہ شریف ہو، پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو، پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو۔‘‘ (حوالۂ بالا،ملخص از فتاویٰ رحیمیہ)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امامت کا منصب کوئی معمولی منصب نہیں ہے؛ بلکہ امام قوم میں سب سے افضل و برتر اور ان کی نمازوں کا ضامن و ذمہ دار ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد امرِخلافت کو لے کر صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف ہوا، تو بالاتفاق حضرت ابوبکرؓ کویہ کہہ کر خلیفہ منتخب کیا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مرضِ وفات میں قوم کی نماز کا امام بنایا تھا۔منصبِ امامت کے افضل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒلکھتے ہیں: ’’بعض سلف کا قول ہے:
’’انبیاء علیہ السلام کے بعد علماء سے افضل کوئی نہیں اور ان کے بعد نماز کے امام سے افضل کوئی نہیں؛ کیونکہ یہ تینوں فریق (انبیاء، علماء اور ائمہ) اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے مابین رابطے کا ذریعہ ہیں۔ انبیاء علیہ السلام تو اپنی نبوت کے باعث، علماء علم کی وجہ سے، اور ائمہ کرام دین کے سب سے زیادہ اہم رکن کے سبب۔‘‘ (احیاء العلوم)
اذان اسلام کا اہم شعار ہے،اس کی اہمیت اور عظمت مسلم ہے، اسی نسبت سے مؤذن کا بھی بہت اونچا مقام ہے، احادیث میں مؤذن کی فضیلت کے سلسلے میں متعدد روایتیں وارد ہیں، چند روایتیں ملاحظہ ہوں:
1- عبد الرحمٰن بن ابی صعصعہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا: ’’ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو، کیوں کہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔‘‘ (صحیح بخاری)
2- حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کتنی فضیلت ہے، پھر وہ اس پر قرعہ اندازی کیے بغیر کوئی چارہ نہ پائیں تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں اور اگر وہ جان لیں کہ (نماز کے لیے) اول وقت آنے میں کیا فضیلت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف دوڑ کر آئیں، اور اگر وہ جان لیں کہ نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ضرور ان میں شریک ہوں،اگر چہ انھیں سرین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔‘‘ (صحیح بخاری)
3- حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤذن کی گردن کو تمام مخلوق سے بلند فرمادیں گے۔‘‘( مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤذن کو قیامت کے دن بہت اونچا مقام عطا کریں گے۔) (صحیح مسلم)
4- حضرت عبد اللہ بن عمر r آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، جنہیں دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے، ایک ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقا کے حقوق ادا کرتا ہو، دوسرے وہ امام جس سے اس کے مقتدی راضی ہوں، تیسرے وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔‘‘ (مسنداحمد)
مختصر یہ کہ اذان دینا کوئی معمولی عمل نہیں ہے؛بلکہ اللہ کی بارگاہ میں اس کی بہت زیادہ قدر و قیمت ہے؛ کیوں کہ مؤذن جس طرح اذ۱ن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے اور اس کی وحدانیت کے گن گاتا ہے، اسی طرح اس کو اجر بھی اللہ رب العزت مرحمت فرمائیں گے۔
مسجد کی خدمت،اس کی صفائی و ستھرائی کا خیال اور مسجد سے تکلیف دہ چیزوں کا ازالہ شریعتِ مطہرہ میں اعلیٰ درجے کی نیکی اور کارِ ثواب ہے۔حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’جو آدمی مسجد سے کسی تکلیف دہ چیز (گندگی،کوڑا کرکٹ ،وغیرہ)کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھربناتے ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک حبشی عورت ام محجنؓ مسجد کی خدمت کیاکرتی تھی،مسجد کا کوڑا کرکٹ تنکے وغیرہ صاف کیا کرتی تھی،چنددن وہ نظرنہیں آئی، آپ علیہ السلام نے دریافت فرمایا: وہ عورت کہاں ہے؟حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس عورت کا انتقال ہوگیا اور ہم نے اس عورت کو دفن بھی کردیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھے اس کی موت کی خبرکیوں نہیں دی؟ حضرات صحابہ ؓ نے عر ض کیا: یارسول اللہ! رات کا وقت تھا،اس وجہ سے ہم نے آپ کو تکلیف دینا پسندنہیں کیا۔آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے اس عورت کی قبر بتاؤ!جب حضرات صحابہ ؓ نے اس خادمۂ مسجد کی قبربتائی، تو آپ علیہ السلام نے اس عورت کی قبر پر نمازِ جناز ہ ادافرمائی۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث سے ہم اندازلگاسکتے ہیں کہ آپ علیہ السلام خدام مسجد سے کس قدرمحبت فرماتے اور ان کی کس درجہ خبرگیری کرتے تھے۔ شارحینِ حدیث فرماتے ہیں کہ مسجد کی خدمت ہی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کی قبر پرنمازِ جنازہ ادافرمائی او راس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ اسی طرح حضرات صحابہؓ بھی مسجد کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے: ’’امیرالمومنین حضرت عمرؓ ایک مرتبہ مسجد قبا تشریف لائے اور دورکعت نماز پڑھی اور فرمایا:اے اوفی!کھجورکی چھڑی لے آؤ! جب اوفی کھجورکی چھڑی لے آئے،تواس میں اپنے کپڑے کو لپیٹا اورجھاڑوکی طرح بناکر مسجد کی صفائی فرمائی۔‘‘ (فتح الباری لابن رجب، باب کنس المسجد)
ائمہ،موذنین اور خدام مساجد کی اس درجہ اہمیت و فضیلت کے باوجود آج بہ کثرت دیکھنے میں آرہاہے کہ متولیان وذمہ داران کی جانب سے ان حضرات کی مسلسل توہین و تنقیص ہورہی ہے،ان کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و سستی برتی جا رہی ہے؛بلکہ ان کو ستانے اور تکلیف پہنچانے کے بہانے تلاشے جارہے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیاجارہاہے۔یہ نہایت افسوس ناک بات ہے۔
یادرکھیں!جب کسی عام مسلمان کی توہین کرنا،اسے حقارت کی نظر سے دیکھنااور اس پر الزام لگانا جائز نہیں تو امام، مؤذن اور خدام مساجدجو قابلِ قدردینی فرائض کی انجام دہی کے سبب معاشرہ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، ان کی توہین کرنا،انھیں ستانا اور ان پر جھوٹے الزام لگانا کیسے جائز ہوسکتاہے؟!
لہٰذا مساجد کی انتظامیہ کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنے آپ کوحاکم اعلیٰ اور مختارِکل سمجھنے کے بجائے خود کوخادمِ مسجد تصورکرے۔ائمہ،مؤذنین اور دیگر خدام کے ساتھ ہمدردی، خیر خواہی، محبت اور حُسن سلوک سے پیش آئے،ان کی عزتِ نفس کا خاص خیال رکھے، انھیں بھی اپنی طرح انسان و بشر جانے،جس سے غلطی اور بھول چوک ہوجاتی ہے اورموجودہ حالات کے مطابق ان کی دنیوی ضروریات کی تکمیل کے لیے سعی و کوشش کرے۔حدیث پاک میں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا،ا ن میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جو کسی کو اجیررکھے اور اس سے پور اکام لے لے؛ مگر اُجرت پوری نہ دے۔‘‘ (بخاری شریف، بحوالہ مشکوٰۃ شریف) اُجرت پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی تن خواہ مار لے اور پوری نہ دے؛ بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اُجرت اس کام کی ملنی چاہیے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاکر کم سے کم اجرت پر کام لے لے۔ فقہاء کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ متولی اور انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ خادمانِ مساجد کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتی رہے، باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے،جس پر عنداللہ مؤاخذہ ہوگا۔ (بشکریہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند)