بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ائمہ مساجد اور اصلاحِ معاشرہ  اہمیت، ضرورت 

ائمہ مساجد اور اصلاحِ معاشرہ 

اہمیت، ضرورت 
 

 ائمہ مساجد ہمارے معاشرے کا اہم کردار ہیں اور وہ لوگ ہیں جن کو ہم اپنے معاشرے کا مقدس ترین ادارہ یعنی ’’مسجد‘‘ حوالہ کرتے ہیں اور مسجد دیگر عبادت خانوں کی طرح صرف مذہبی رسوم و عبادت ادا کرنے کی جگہ نہیں ہے، بلکہ مسجد کا ایک اسلامی معاشرے میں بہت وسیع کردار ہے جو صوم و صلاۃ سے بڑھ کر ہماری زندگی کے بہت سے زندہ مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔

مسجدِ نبوی کا کردار

معاشرے میں مسجد کا کردار سمجھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک دورمیں ’’مسجدِ نبوی‘‘ کی سرگرمیوں پر غور کیا جائے تو بہت سے سوالات کا جواب مل جائے گا، مثلاً آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے معمولات میں دیکھا جائے تو آپ صرف پنج وقتہ امامت کے لیے مسجد نبوی نہیں جاتے تھے، بلکہ قضاء کی مجالس، تعلیمی سرگرمیاں، سوال و جواب کی نشستیں، تزکیہ کی مجالس وغیرہ سب کچھ مسجد نبوی میں ہوتا تھا، یہاں تک کہ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  جس تفصیلی تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزرے ہیں، اس کا بیشتر حصہ مسجدِنبوی ہی میں انجام دیا گیا ہے۔
 یہی مساجد آج ہمارے آس پاس موجود ہیں، بلکہ ہر کچّی پکّی گلی میں مسجد موجود ہے، شہر، قریہ، ملک، آباد، ویران، خشکی، تری، جنگل، بیابان ہر جگہ آپ کو مسجد ملے گی۔ تمام مساجد میں آج بنیادی سہولیات بھی موجود ہیں، مثلاً امام، مؤذن، خادم، انتظامیہ، نمازی (اگرچہ تھوڑے) ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو کوئی عالم دین بغیر مسجد کے ملے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی مسجدآپ کو بغیر امام کے ملے۔

مسجد: ایک وسیع ذریعۂ ابلاغ
 

اس پہلو کو بہت سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مساجد ہمارے معاشرے کے لیے ایک Media Cell کا درجہ رکھتی ہیں،ایک ایسا میڈیا اور ذریعۂ ابلاغ جو اس کے متعلقین تک دین کا پیغام پہنچا سکے۔ قابلِ غور پہلو ہے کہ ہماری ہر گلی میں مسجد ہونے کے باوجود ہم اس مسجد کے آس پاس رہنے والوں تک دین کا پیغام نہیں پہنچا رہے اور یہ لوگ مسجد کی تمام ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں، اس کے بدلے ہم مسجد کا امام ہونے کی حیثیت سے ان کی دینی ضرورت کا کتنا خیال رکھ رہے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا پنج وقتہ مقتدی جب اپنے گھر جاتا ہے اور آج کے مروج ذرائع ابلاغ: ٹی وی، موبائل، انٹرنیٹ، اخبار وغیرہ کی طرف بڑھتا ہے تو اس دجالی میڈیا کا نہ ختم ہونے والا جال جو اس کی طرف بڑھتا ہے اور اسے ضروری غیر ضروری ہر عنوان سے با خبر رکھتا ہے، جس میں علاقہ، شہر، ملک، بین الاقوامی، سیاست، صحت، کاروبار غرض ہر عنوان کی معلومات فراہم کرتا ہے، جو اس گھر بیٹھے نمازی تک با آسانی پہنچ جاتی ہیں اور وہ انتہائی دلچسپی کے ساتھ اس دجالی میڈیا سے با خبر ہونے کا شوق پورا کرتا ہے۔ اسی طرح میڈیا اس کے ذہن، عادات، گھر اور آس پاس کے ماحول میں جگہ بنا تا رہتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب اس نمازی مقتدی کے نظریات، تعلیم، اخلاق، گھر، معاشرت اور معاملات غرض زندگی کے ہر حصے میں میڈیا کی محنت کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہم سے اتنا قریب رہنے کے با وجود دور کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ اور غیروں سے اجنبیت کا تعلق ہونے کے با وجود اُن کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتا جا رہا ہے؟مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہم اپنے مقتدی کو کچھ دینا ہی نہیں چاہتے، حالانکہ اگر ہم خلوصِ دل اور محنت کے ساتھ دین کا پیغام اس تک پہنچانا چاہیں تو وہ شخص ہم سے آسانی اور بہت خوبی کے ساتھ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور ہم ذیل میں وہ عوامل ذکر کرتے ہیں جن کے سبب ایک عام شخص میڈیا سے کئی گنا زیادہ مساجد سے مستفید ہوسکتا ہے۔
 مثال کے طور پر آپ ایک انداز ہ لگا لیں کہ آپ کے شہر کراچی میں دس ہزار مساجد ہیں اور ان دس ہزار مساجد میں ہر جمعہ تقریباً ۱۰۰ نمازی(کم از کم اندازہ )جمعہ پڑھنے آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہر ہفتہ کم از کم دس لاکھ لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں اور مزید یہ کہ یہ سب کے سب عقیدت، طہارت اور آداب کی حد درجہ رعایت کے ساتھ امام مسجد کے مخاطب بنتے ہیں۔ یہ صرف نمازِ جمعہ کی مثال ہے، جب کہ روزانہ پانچ مرتبہ تقریباً ہر گلی سے کچھ نہ کچھ لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں (جس میں نو جوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے) تو کیا اس سلسلے میں ہماری یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم ان تمام لوگوں کی تعلیم و تربیت کا مضبوط انتظام کریں، تاکہ ان تمام نمازیوں کا مسجد آنا جانا‘ ان کے اپنے لیے اور اس معاشرے کے لیے اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر خلوص اور بھرپور توجہ سے محنت کی جائے تو ان کی ایمانی، اخلاقی، معاشرتی اور تجارتی زندگی میں ایک دینی رنگ چھا سکتا ہے۔

دس نکاتی ایجنڈہ
 

ائمہ مساجد اصلاحِ معاشرہ کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ اس پروگرام کو ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ بنیادی باتیں ذکر کی جائیں، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی مشن پر جانے والا شخص اپنے مشن اور منزلِ مقصود کی تمام بنیادی ضروریات کا خیال رکھتاہے اور اس بات کی بھر پور تسلی کرتا ہے کہ میں نے اپنی کوئی تیاری ادھوری نہ چھوڑی ہو، ٹھیک اسی طرح چونکہ ائمہ مساجد کا اصل مقصد مسجد اور اس مسجد کے آس پاس کے ماحول کو صالح ماحول میں بدلنا ہوتا ہے، امام مسجد کا کردار اس ماحول میں موجود تمام لوگوں کے لیے مثالی بن جائے، اس کے لیے ضروری ہے کہ:
۱: امام کا تعلق علاقہ کے لوگوں کے ساتھ صرف مصافحہ کی حد تک نہ ہو، بلکہ ان کے احوال کی بھرپور فکرمندی جیسا رویہ ہو۔
۲:جنازہ اور نکاح نہ پڑھانا ہو، تب بھی شرکت کا اہتمام کیا جائے۔
۳: موقع بموقع اپنے مقتدیوں کی دعوت کی جائے، جس سے لوگوں کے دلوں میں امام صاحب کا وقار بڑھے گا۔
۴: ضرورت مند ساتھیوں کی امدادکی جائے، ورنہ کم از کم ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کا اہتمام کیا جائے۔
۵: مقتدیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی تعلق رکھا جائے اور مل جل کر بیٹھنے کا اہتمام کیا جائے اوراس میں امیر، غریب، صاحبِ استطاعت اور بے روزگار میں امتیاز نہ برتا جائے۔
۶: جتنا زیادہ ہو سکے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے کو فروغ دیا جائے، ورنہ فرقہ واریت کے خدشات بڑھ جائیں گے۔
۷: نوجوانوں کے پوچھے گئے سوالات کو بالکل بھی نظر انداز نہ کیا جائے، بلکہ چھوٹے بڑے تمام سوالات کو اہمیت دی جائے، چاہے وہ سوالات کسی بھی حوالے سے ہوں، جن میں خاص کر موجودہ میڈیائی فتنے شامل ہیں جن کو دیکھ کر ان نوجوانوں کے ذہنوں میں دین، ایمان، توحید، رسالت اور آخرت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ ان سوالات کا اگر بر وقت تسلی بخش جواب نہ دیا گیاتو اُن کا ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔
۸: نوجوانوں کو ان کے مسائل میں ائمہ مساجد رہنمائی نہیں کریں گے تو وہ اپنے مسائل و اشکالات کو بھلا بیٹھنے والے نہیں، بلکہ وہ انہی مسائل کے ساتھ جب مختلف تجدُّد پسند یا گمراہ فکر کے حامل لوگوں تک پہنچتے ہیں تو وہ انھیں اپنے طور پران مسائل کا حل پیش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ علماء اور تمام تر روایتی فکر سے منحرف ہو جاتے ہیں۔
۹: ائمہ مساجد اس بات کے حریص ہوں کہ ان کے وجود سے علاقہ کے لوگوں کو جتنا زیادہ دینی فائدہ ہو سکے‘ ہوتا رہے۔
۱۰: جو بھی بات کہی جائے وہ لوگوں کی ذہنی سطح، ماحول اور ضرورت کے اعتبارسے کہی جائے۔

مقاصدِ بعثت :ایک بہترین لائحہ عمل
 

ائمہ مساجد چونکہ علماء ہیں اور علماء انبیاء ( علیہم السلام ) کے وارث ہیں اور سیدالانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی تمام ائمہ کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے اور ان کی زندگی کا جو مشن تھا، وہ قرآن کریم میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے:
’’لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (آلِ عمران)
 ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اﷲنے مؤمنوں پر بڑا اِحسان کیا کہ اُن کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن کے سامنے اﷲکی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلاتھے۔‘‘
 اس آیت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد تلاوت، تعلیمِ کتاب وحکمت اور تزکیہ بیان کیا گیا ہے، جس کی توضیح کی آسان صورت یہ ہے:

1 :تلاوت: تجوید، ناظرہ اور حفظِ قرآن

2 :تعلیمِ کتاب: قرآن کی تفسیر
3 :تعلیمِ حکمت: حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 
4 : تزکیہ: اخلاقیات اور تربیتی نظام
 یہی چار کام در اصل ائمہ مساجد کی اصل ذمہ داری ہیں، یہ قرآن کریم کا تیار کردہ بہترین لائحہ عمل ہے، جس پر محنت کر کے ائمہ مساجد آس پاس کے ماحول میں موجود ہر فرد کی دینی ضرورت پوری کرسکتے ہیں، نیز ائمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مقتدی کے دل میں مذکورہ امور کی اہمیت کا بیج بونے میں کامیاب ثابت ہوں، یہ بات ذہن و قلب میں راسخ کی جائے کہ ہماری تمام ضرورتوں میں دین سیکھنا اور اس سیکھے ہوئے دین کو اپنے ماحول میں اس طرح نافذ کرنا کہ دین زندگی میں فقط اقوال کی حد تک نہ ہو، بلکہ افعال و اعمال میں دین کی روشنی چھاجائے۔اگر ایسا نہیں ہے تو قابلیت کی بہت سی ڈگریاں جمع کرنے کے باوجود قرآن کریم کی نظر میں ہم پر گمراہی کی مہر لگی رہے گی، جیسا کہ سورۃ الجمعہ میں مقاصدِ بعثت ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔‘‘  (سورۃ الجمعہ)
 ترجمہ: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں ایک رسول انھیں میں سے بھیجا، جو اُن کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘

مسجد: ایک بہترین میدانِ عمل
 

الغرض اس طریقے سے ائمہ مساجد کے لیے کام کرنے کا ایک بہترین فورم تیار ہو جاتا ہے۔ اس وقت ائمہ کے پاس اُمت کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک بہترین میدان میسر ہے، جس میں :
 ۱- مسجد کی صورت میں ایک منظم ادارہ
 ۲- ائمہ و فضلائے مدارس کی صورت میں قابل اساتذہ
 ۳- نمازیوں کی صورت میں طلبہ
 ۴- پنج وقتہ نمازوں کی صورت میں اوقاتِ تعلیم
 ۵- قرآن و حدیث کی صورت میں ایک بہترین نصابِ تعلیم کی سہولیات موجود ہیں۔
 ضرورت صرف متحرک اور فکرمند ہونے کی ہے، جس کا نتیجہ ان شاء اللہ! اصلاحِ معاشرہ کی صورت میں نظر آئے گا۔ ذیل میں قرآن کریم کے ذکرکردہ اس لائحہ عمل کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے : ۱-تلاوت، ۲-تعلیمِ کتاب، ۳- تعلیمِ حکمت، ۴- تزکیہ۔

1 : تلاوت
 

ائمہ مساجد سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیں کہ ان کے مقتدی قرآن کریم پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر پڑھ سکتے ہیں تو اُن کو بہت شوق و محبت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کے مستقل معمول کا عادی بنایا جائے، تاکہ اسے بلاناغہ معمول بنالیں، جس کے نتیجے میں ان کے گھر، دفتر، دکان، مسجد، ہر جگہ تلاوتِ قرآن کریم کی گونج عام ہو جائے۔

تجوید و ناظرہ قرآن
 

اگر قرآن کریم نہیں پڑھاتوتجوید سیکھنے کے لیے ان کو تیار کیا جائے۔تجویدِ قرآن ایک بہت مشکل عنوان ہے، لیکن حقیقت میں بہت آسان اور معمولی محنت کے ساتھ ہاتھ آنے والا فن ہے۔ مقتدیوں کو سہولت دی جائے کہ آپ فجر سے عشاء تک کسی بھی نماز کے بعد اپنی سہولت دیکھ کر کوئی بھی وقت متعین کر لیں اور روزانہ صرف ۲۰ منٹ نکال کر تجوید کے بنیادی قواعد سیکھ لیں (اس کام کے لیے قرّاء حضرات کی خدمات لی جاسکتی ہیں) اور جب ان کی تجوید درست ہو جائے توکلمہ، نماز، تسبیحات، آیۃ الکرسی، دعائے قنوت اور دعائیں وغیرہ سکھائی جائیں۔(ان بنیادی امور کے سکھانے میں بالکل بھی دیر نہ کی جائے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے دروس میں مستقل حاضر مقتدی سے جب اس کا کلمہ سنا جاتا ہے تووہ بھی درست نہیں ہوتا، جب کہ اسے واقعات و مسائل کی بڑی تفصیلات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے) اس کے بعدقرآن کریم ناظرہ پڑھایا جائے اور ہوسکے تو فضائل کی مختلف سورتیں مثلاً یٰسین، رحمٰن، کہف اور عم پارہ وغیرہ حفظ کرایا جائے۔ اس طرح ایک عام شخص کا دینیات اور قرآن کریم کی بنیاد کے ساتھ ایک مضبوط تعلق پیدا ہوجائے گا، ان شاء اللہ!

2 : تعلیمِ کتاب
 

تعلیمِ کتاب دراصل قرآنی اصطلاح میں اس وسیع تعلیم کا نام ہے، جس میں قرآن کریم کے پیغام کا ذکر آتا ہے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ قرآن کریم کے پیغام سے کوسوں دور ہو چکی ہے، نہ قرآن کے الفاظ کی اہمیت کا اندازہ ہے اور نہ ہی اس کے معانی کی ضرورت کا ادراک۔ جس طرح قرآن کے الفاظ (تفصیل گزر چکی)کی محنت ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح ان الفاظ کے معانی و مفاہیم جن میں رب العالمین اپنے بندوں سے مخاطب ہیں، اس محنت کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔
 یہ امر مسلّم ہے کہ امت کا قرآن کریم کے ساتھ تعلق کمزور ہونے کا سب سے بڑا فائدہ ان مختلف گمراہ متجددین کو ہوا ہے جو امت کو اسی قرآن کے نام پر اپنی تاریخ و ملت سے کاٹنے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک عام شخص کو اپنے مخصوص فریبی انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن سے متنفّر اور غیروں کے طرزِ فکر سے قریب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
 ضرورت اس امر کی ہے کہ ائمہ کرام مساجد میں قرآنی فکر کو بہت آسان اور معیاری انداز میں اُمت تک پہنچائیں، مدارس میں قرآن کریم کو جس محنت کے ساتھ ہمیں سکھایا گیا ہے، ضروری ہے کہ ہم بھی اس محنت کے بدلے قرآن کے پیغام کو پھیلانے کی سعی کریں۔ قرآن کریم کے ذریعے عقائد و نظریات پر خاص طور پر محنت کی جائے، یہ ایسا دور ہے کہ جس میں باطل عقیدہ‘ فکر پر ہر پل حملہ آور ہے، آزادی، مساوات اور ترقی کے نام پر تابڑ توڑ حملے کیے جارہے ہیں، کثیر تعداد میں افراداور وسائل صرف کیے جارہے ہیں، میڈیا، تعلیم ہر طرح سے کوشش کی جارہی ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کسی نہ کسی طرح کمزور یا مشکوک بنایا جائے۔ ایسے موقع پر امام مسجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام مقتدیوں کی فکر کرے اور کسی نہ کسی طرح انہیں باطل کے اس منظم شکنجے سے نکال کر ان کے عقیدے کی اصلاح کرے، اس حوالے سے نوجوان اور خاص کر بے روزگار ساتھیوں کی بھرپور نگرانی کی جائے کہ کہیں وہ کسی NGO کے جھانسے میں آکر اپنا معاش حاصل کرنے کی کوشش میں اپنے ایمانی سرمائے کو داؤ پر نہ لگادے۔
 ان تمام مسائل کے حل کے لیے قرآن کریم بہترین اور دوٹوک رہنمائی فراہم کرتا ہے، جس سے ایمان و فکر میں پختگی، عزائم میں حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور الحادی ومادّی تمام فتنوں کا سدّباب ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی مساجد میں دروسِ قرآن کی منظم ترتیب بنائی جائے۔
 

۱- درسِ قرآن

درسِ قرآن کی وقت، ماحول اور ضرورت کے مطابق روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں :
 ۱- موضوعاتی درسِ قرآن
 ۲- سلسلہ وار درسِ قرآن (فاتحہ تا ناس)
 ۳- درسِ مضامینِ قرآن (خلاصہ)
 ۴- درسِ احکام القرآن
 ۵- درسِ قصص القرآن
 ۶- درسِ تفسیر

۲- درسِ تفسیر

درسِ تفسیر کا اصل طریقہ کار یہ ہے کہ اس کے لیے مستقل کچھ ساتھیوں کا انتخاب کیا جائے اور ان مقتدی حضرات کو شریک کیا جائے جو تجوید و ناظرہ کے مراحل سے گزر چکے ہوں، جس کے بعد ان کو چند ماہ بنیادی عربی گرامر سکھلائی جائے اور اس کے بعد باقاعدہ قرآن کی تفسیر ایک فنی انداز میں پڑھائی جائے، اس کے نتیجے میں وہ قرآن کے مباحث کو ایک مضبوط انداز میں سمجھنے کے اہل بن سکیں گے۔

3 : تعلیمِ حکمت
 

مقاصدِ بعثت میں ایک اہم مقصد حکمت کی تعلیم ہے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے گرانقدر اور قیمتی ارشادات مراد ہیں، جس میں قرآن کریم کی تشریح و توضیح فرمائی گئی ہے۔ حدیث در اصل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس مکمل طرزِ زندگی کا نام ہے، جسے قرآن ’’اُسوۂ حسنہ‘‘ کا نام دیتا ہے، جس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں گود سے گور تک تمام تفصیلات موجود ہیں۔

حدیثِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور مکمل نظامِ حیات

قرآن کریم کے نام پر جو مختلف گمراہ تحریکیں اُٹھی ہیں، ان کے مختلف مقاصد میں ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ امت کو کس طرح حدیث کے اس وسیع علمی ذخیرے سے دور کیا جائے، جس میں زندگی گزارنے کی چھوٹی بڑی تمام تفصیلات موجود ہیں اور یہ کام مختلف حربوں سے کیا گیا، جس میں حدیث کے تاریخی اور حفاظتی استناد، حدیث کی معیار ی حیثیت وغیرہ پر سوال اُٹھانا اور کفایتِ قرآن کے نعروں کا بلند کرنا شامل ہے۔
 اس کے علاوہ دورِ حاضر میں مغربی تہذیب نے ہمیں جو سیکو لرازم اورلبرل ازم کا تحفہ دیا ہے، اس میں بھی در اصل یہی خواہش پنہاں ہے کہ کس طرح اُمت مسلمہ کو اس کے اصل دھارے سے ہٹایا جائے، جس کی آسان تدبیر ان کو یہ سوجھی کہ ذخیرئہ حدیث کے مجموعے ہی کو مشکوک ٹھہرایا جائے، تاکہ اُمت فقط قرآن کا نعرہ لگالگا کر تھک جائے اور ان کی تمام تر زندگی اور طرزِ زندگی مغربی دجالی تہذیب کے مطابق بن جائے۔
 حدیث در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان قرآنی اصولوں کی تشریح ہے جو ہماری زندگی کے ہرموڑ پر ہاتھ پکڑ پکڑ کر رہنمائی کا کام دیتی ہے اور ہمیں ایک آزاد، مادیت اور خواہش پرست انسان بننے کی بجائے عبدیت کے تقاضے سمجھاتی ہے۔ کتبِ حدیث کی فہرست دیکھ کر اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ حدیث ہمیں زندگی کے تمام ہی نشیب و فراز سے باخبر رکھتی ہے، جن میں ’’کتاب الإیمان، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الصوم، کتاب الحج، کتاب الدعوات، کتاب الجنائز، کتاب الزکوٰۃ، کتاب الآداب، کتاب الأخلاق، کتاب المعاشرۃ، کتاب المعاملات، کتاب المناقب، کتاب الفتن‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اس مختصر سی فہرست سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ احادیث کا مجموعہ صرف عقائد اور عبادات تک محدود نہیں، بلکہ حدیث کا ذخیرہ ہمیں اپنی مکمل زندگی میں مکمل دین پر عمل کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے اور یہی پہلو آج کی سیکولر فکر کے لیے کاٹ کا درجہ رکھتا ہے، جسے وہ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔
 ائمہ مساجد اپنے ہاں تجوید و قرآن کے ساتھ ساتھ اپنے مقتدیوں کو حدیث کے اس تفصیلی رنگ میں رنگا نے کا موقع ضائع ہونے نہ دیں، بلکہ پیغامِ رسول کو اپنے ماحول و حالات کی مناسبت سے خوب عام کریں اور اس کے لیے درج ذیل تجاویز پر غور کیا جاسکتا ہے:

درسِ حدیث تفصیلی
 

اس درس کا اصل مقصد عوا م الناس کے سامنے دین کی مکمل اور تفصیلی ہدایات کو پیش کرنا ہے، جس سے ان کو اپنی مکمل زندگی دین کے مطابق گزارنے کا طریقہ سیکھنے کو ملے جو اُن کو نظریات، عبادات، (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج)، اخلاقیات، معاشرت، معاملات اور تعلیمی، قانونی، سماجی، سیاسی، اخلاقی، تجارتی، گھریلو، معاشی وغیرہ ہر طرح سے تفصیلی رہنمائی پیش کرتا ہو۔ اس درس میں شریک ہوکر اس بات کا احساس و فکر بیدار ہو جائے کہ مجھے اس مکمل دین کو سیکھ کراس پر عمل کرنا ہے جو میری ذات سے شروع ہو کر معاشرہ اور معاشرے سے لے کرریاست تک مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے، یعنی میں اپنی زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کا پابند بن جاؤں۔
 آپ حدیث کے صرف ایک پہلو کو سمجھ لیں تو اس کی وسعت کا اندازہ ہو جائے گا، مثلاً حقوق اللہ کی بیشتر تفصیلات ایمان اور صلاۃ، زکوٰۃ، حج، اور صوم کے ابواب میں ذکر کی جاتی ہیں اور حقوق العباد کی تفصیل ’’کتاب المعاشرۃ‘‘ میں رکھی گئی ہیں، جس میں والدین، رشتہ دار، پڑوسی، یتیم، مسکین، میاں، بیوی اور بچے شامل ہیں۔ ان تمام کے حقوق کا خیال رکھنے سے ہی ایک ذمہ دار فرد اور صالح معاشرے کا قیام ممکن ہو جاتا ہے۔

درسِ حدیث موضوعاتی
 

اس میں احادیث کے ان پہلوؤں کو اُجاگر کیا جائے جو اس وقت کی مخصوص ضرورت کی طرف متوجہ کرتی ہوں، جیسے میڈیا میں ٹاک شوز رکھے جاتے ہیں اور ان میں کسی ایک عنوان پر تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے، جسے عام لوگ بہت ہی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ سنتے ہیں اور میڈیا ہمیشہ ایسے مسائل کی طرف متوجہ کرتا ہے، جن سے عام لوگوں کا واسطہ زیادہ پڑتا ہے اور افسوس ہے کہ اس عنوان پر کی جانے والی مکمل بات مادی تناظر میں کی جاتی ہے اور اس سے متعلق کوئی شرعی رہنمائی کا گمان بھی نہیں کیا جاتا۔ ایسے موقع پر ائمہ حضرات عوام الناس کو ان مسائل سے متعلق شرعی رہنمائی فراہم کریں۔

درسِ فقہ
 

فقہ، قرآن و حدیث کے فہم کا نچوڑ اور فقہ میں ان تمام عملی پہلو ئوں کا تفصیلی تذکرہ ہے، جن کا تعلق ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہے، جس میں طہارت سے لے کر جنائز اور خرید و فروخت سے لے کر وصیت تک کی تفصیلی ہدایات ہیں، جن سے آج ہماری قوم بے خبر ہے اور وہ ائمہ سے دو چار مسائل پوچھ کر بقیہ تمام تفصیلات کے لیے رسم و رواج اور عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، جو اُن کی درست رہنمائی تو دور اُلٹا ان کو مالی بحران کا شکار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں ائمہ مساجد دردِ دل کے ساتھ ان کے سامنے ان تفصیلات کو حکمت، بصیرت اور ضرورت کے مطابق پیش کریں۔

درسِ سیرت
 

سیرت کتبِ حدیث کا ایک دلچسپ اور تاریخی پہلو ہے، جس کی آج کے مادّی دور میں ضرورت بڑھتی جارہی ہے، کیونکہ تاریخ ایک ایسا فن ہے جو اقوام کو اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر زندگی گزارنے کا درست راستہ سمجھاتا ہے اور اپنی تراث سے جڑے رہنے کا حوصلہ پیداکرتا ہے۔ ضروری ہے کہ اُمت کو اس کی عظیم اور لاثانی تاریخ سے جوڑا جائے، تاکہ بدگمانی اور مایوسی کا موقع ہی پیدا نہ ہوسکے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے درج ذیل ترتیب بہت مفید رہے گی:
 ۱- درسِ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم 
 ۲- درسِ سیرتِ خلفائے راشدین  رضی اللہ عنہم 
 ۳- درسِ سیرت محدثین و فقہاء
 ۴- درسِ سیرت اصحابِ دعوت و عزیمت

درسِ حفظِ حدیث
 

چونکہ احادیث کے کلمات نہایت بابرکت ہوتے ہیں، لہٰذا ’’جوامع الکلم‘‘ کے اسلوب میں جتنی احادیث ہیں ان کے حفظ کا اہتمام کرایا جائے، تاکہ احادیث کے ساتھ والہانہ شوق و محبت کے تار مزید مضبوط ہوجائیں۔ اس کے لیے حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ کی ’’جوامع الکلم‘‘ نامی کتاب سے خوب مدد لی جاسکتی ہے، جس سے روزانہ ایک حدیث بہ آسانی یاد کر کے سنائی جاسکتی ہے۔

درسِ حدیث مختصر
 

اس طرح کے دروس بہت مختصر مگر بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں اور بہت جلد ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے نہ زیادہ وقت صرف ہوتا ہے نہ زیادہ محنت، جب کہ نتائج کے اعتبار سے یہ درسی انداز نہایت مؤثرثابت ہوتا ہے۔

دروس کی تیاری

 ۱- دروس کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ دروس کی تیاری میں بھرپور مطالعہ اور تحقیق سے کام لیا جائے، کوئی بات بلا تحقیق بیان نہ کی جائے۔
 ۲- وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھا جائے، اگر آپ کا وقت ۸؍بجے شروع ہوتا ہے تو یہ نہ دیکھا جائے کہ مجمع کتنا ہے، بلکہ اگرصرف دو مخلص نمازی موجود ہوں تب بھی درس پورے ۸؍بجے شروع کیا جائے اور درس کے ختم ہونے کا وقت۳۰-۸ہے تو بروقت ختم کیا جائے (چاہے اس دوران جمِ غفیر ہی جمع کیوں نہ ہو) اس طرح سامعین کوہمیشہ اس بات کا اطمینان رہے گا کہ ہم سے زیادہ وقت نہیں لیا جارہا اور اس طرح وہ درس میں بروقت حاضری کا اہتمام کرپائیں گے اور مستقل شرکت کے خواہش مند رہیں گے اور اگر اوقات کی پابندی نہ کی گئی تو بہت سے شائقین بھی مستقل شرکت کے اہل نہیں بن سکیں گے، بلکہ وہ ہمیشہ شش وپنج کا شکار رہیں گے کہ نہ جانے ہمیں کس وقت تک مصروف رکھا جائے گا اور اس طرح اگلی بار اُن کی مجبوری اُن کے جذبے پر غالب آجائے گی اور وہ غیر حاضر رہے گا، اس طرح سے نہ وہ اپنا معمول ترتیب دے پائے گا اور نہ ہی دروس میں جاری مستقل سلسلوں کو ٹھیک سے سمجھ پائے گا۔
 ۳- جو ساتھی درس میں غیر حاضر ہوں ان سے حا ل احوا ل کے ساتھ درس میں غیر حاضری سے متعلق بھی پیار سے تنہائی میں پوچھا جائے، کیونکہ اس طرح کے درس میں بر وقت اور مستقل حاضری ضروری ہوتی ہے، ورنہ ادھوری بات ادھوری سمجھنے سے نقصان رہے گا۔
یہ تمام کام یقیناً وقت طلب اور دیرپاہیں اور بھر پور مستقل مزاجی اورعزیمت کا راہی بنے بغیر بہت مشکل ہے، البتہ ائمہ کرام اس کام کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے علاقے میں موجود دیگر فضلاء کی خدمات بھی لے سکتے ہیں، اس طرح ان میں تجربہ، مطالعہ، تحقیق اور دعوت کا جذبہ پیدا ہوگا۔

4 : تزکیہ
 

مقاصدِ بعثت میں سے ایک اہم اور تمام مقاصدپر اثر انداز ہونے والی شق ’’تزکیہ کا عمل‘‘ ہے، جسے ہم اپنی زبان میں تربیت کا نام دیتے ہیں اور تزکیہ کا عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ کام کو درست نیت اور درست جگہ، بروقت اور درست طریقے سے انجام دینے کا کیا طریقہ ہے؟
انسانی جسم چونکہ ظاہری گوشت پوست کا نا م نہیں، بلکہ اس کی تکمیل روح سے مل کر ہوتی ہے اور یہ تکمیل انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو اصلاح کے عمل سے گزارتی ہے، جس طرح ظاہر بیمار ہوتا ہے، اسی طرح باطن کو بھی بیماری لگتی ہے۔ اگر باطن بیمار ہے تو ظاہر کی درستگی کسی کام نہیں آتی۔ تزکیہ دراصل انسانی جسم میں موجود اسی روح کی تربیت کا عمل ہے اور اسی کے ذریعہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم  کے قلوب کو مجلّیٰ و مصفیٰ فرمایا، جس کے بعد اُن کے لیے دنیا کی حقیقت اور آخرت کی اہمیت کو سمجھنا آسان ہوگیا تھا۔ تربیت کا یہ عمل اُمت میں طویل زمانہ تک جاری رہا، جس کے ذریعے علماء و صلحاء کی ایک بڑی جماعت تیار ہوئی جس نے اپنے معاشرے کے عام فرد سے لے کر وقت کے حکمرانوں تک اصلاح کا پیغام پہنچایا۔ اسی فارمولے کو استعمال فرما کر ریاستی ظلم و جبرکو قابو کیا اور یہی اصحابِ عزیمت تھے جنہوں نے وقت کی جابر تحریک تاتاریوں کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح مجدد الفِ ثانی  ؒ اور شاہ ولی اللہ ؒ کی مساعی بھی ہمیں اسی جانب متوجہ کرتی ہیں، جنہوں نے اپنے وقت کی بڑی بڑی طاقتوں پر محنت فرمائی، جس کا صلہ آج تک ہم دیکھتے آرہے ہیں۔
 بہت افسوس کے ساتھ ماننا پڑے گا کہ اُمت میں تزکیہ کا عمل جب تک ترجیحی بنیادوں پر جاری رہا، تب تک ہمارے معاشرے کے ہر فرد میں امانت و صداقت کے آثار موجود رہے، لیکن جب سے ہماری ترجیحات بدل گئیں اور ہم نے نہ اپنی اصلاح کی جانب توجہ کی اور نہ ہی اپنے معاشرے کی، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج معاشرہ بدترین صورت حال سے دوچار ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اُمت اس تصورِ دین کو ماننے کو ہی تیار نہیں جودینِ اسلام کا اہم تصور ہے۔ تزکیہ کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے، والدین، اساتذہ، سرپرست اور حکمران سب کے سب مادی وسائل کے جمع کرنے پر زور دے رہے ہیں، حالانکہ آپ علیہ السلام  کا واضح فرمان ہے: ’’ کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔‘‘ (مسلم)
 ترجمہ: ’’تم میں سے ہر شخص حکمران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘
 جس کاتقاضہ یہ تھا کہ یہ تمام ذمہ داراپنے ماتحتوں کی نگرانی و تربیت کا خاص اہتمام کرتے۔

تزکیہ اور اصلاحِ معاشرہ
 

ضرورت ہے کہ ائمہ مساجد اپنے تمام مقتدیوں کا تزکیہ اور ان کی تربیت کے لیے فکر مندی کا مظاہرہ فرمائیں اور اس کے لیے ’’کتاب الأخلاق‘‘ سے خاص طور پر مدد لی جائے، کیونکہ اس میں آپ  علیہ السلام  نے تمام اخلاقی اقدارکو نہایت ہی خوبی اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے اور اخلاقیات کی تمام تفصیلات نہایت حسین پیرائے میں ذکر فرمائی ہیں، جن کی آج اُمت کے ہر فرد کو ضرورت ہے۔

اخلاقی جرائم اور اصلاحِ معاشرہ
 

اخلاقی برائیوں کی طرف نظر کی جائے تو جھوٹ، فریب، دھوکہ، خیانت، تکبر، ظلم، فحاشی، حسد، بدگمانی اور غیبت وغیرہ ان میں سے بیشتر عیوب ہمارے اندر موجود ہیں۔ ان مہلک بیماریوں کے شکار ہرجگہ موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خیانت کے مرض کا شکارکسی فرد کو ادارے کا رکن یا سربراہ بنایا جا سکتا ہے؟ رشوت کا عادی ملازم لوگوں کی خدمت کرے گا یا ان کا جینا دوبھرکردے گا؟ انصاف سے عاری جج صاحب اور جھوٹا وکیل ہمارے کس کام کا؟ والدین کے حقوق سے ناواقف بگڑی ہوئی اولاد کیا گل کھلائے گی ؟ فحاشی میں مبتلا نوجوان قوم کو کیا مستقبل فراہم کرے گا؟ حسد، بد گمانی اور غیبت میں مبتلا لوگ دفاتر کا کیا ماحول بنائیں گے؟ تکبر میں مبتلا حکمران اپنی رعایا کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے؟ یہ وہ گنتی کی چند اخلاقی برائیاں ہیں جس کا ہمیں قدم قدم پر سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لہٰذا جب تک تزکیہ اور تربیت کے عمل میں تیزی لاکر ان کو دور نہ کیا گیا تو یہ برائیاں بڑھتی چلی جائیں گی، اللہ نہ کرے ا گر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمارے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں جینا مشکل ہوجائے گا۔
 لہٰذا ائمہ کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اُمت کی تربیت کریں، ان کا نمازی کسی ایک طبقے سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ ان کے نمازیوں میں مزدور، طالب علم، وزیر، حکمران، اساتذہ، سرکار ی وغیر سرکاری ملازمین، افسر، پولیس، فوجی، قانون دان، سیاست دان، دکاندار، تاجر، اور بے روزگار سب شامل ہیں۔ جب ان کے سامنے قرآن و حدیث کی واضح ہدایات پیش کی جائیں اور ساتھ ساتھ انھیں فکرمند کیا جائے کہ وہ ان ہدایات کو اپنے عملی ماحول میں اپنانے کی کوشش شروع کریں۔ اس طرح وہ ایک صاحبِ ایمان کا کردار ادا کر سکیں گے اوراپنے قول و فعل میں صداقت و امانت کے ساتھ ایک مثالی گھرانہ، مثالی معاشرہ اور ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کریں گے، ان شاء اللہ!

دیر، نہ کہ اندھیر
 

اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ یہ تمام باتیں اس وقت اثر انداز ہوں گی جب ائمہ مساجد اپنی اصلاح کا عمل بھی مستقل جاری رکھیں گے، نیز اپنے مقتدیوں کی بھر پور نگرانی کریں گے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ فقط وعظ سنا کر مصافحہ پر خاتمہ نہ کریں، ورنہ ’’نشستند، گفتند، بر خاستند‘‘ کا مصداق بن جائیں گے، بلکہ انفرادی طور پر احوال لیے جائیں، مثلا ً ایک وکیل سے پوچھا جائے کہ جھوٹ پر کتنا قابو پایا؟ ملازم سے پوچھا جائے کہ رشوت پر کتنا کنٹرول ہوا؟ وغیرہ۔ ائمہ مساجد جب مذکورہ بالا اُمور کا اہتمام کریں گے تو ان کے فکر و عمل اور محنت کے ثمرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے ایک بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بعض اوقات ہم ایک مہینہ جان توڑ محنت کرتے ہیں اور نتیجہ ہاتھ نہ آنے کی صورت میں مایوسی کا شکار ہو کر محنت کم کر دیتے ہیں، یہ جلدبازی والی بات ہوجائے گی۔ دنیا میں آج تک جتنے بھی کامیاب تجربات ہوئے ہیں، وہ طویل المیعاد رہے ہیں، لہٰذا کم ازکم تین سال محنت کرنے کے بعد آپ کو کچھ آثار دکھائی دیں گے۔ اس دوران مختلف طرح کے نشیب و فراز کا سامنا رہے گا، جس میں مقتدیوں کی عدمِ توجہ، عدمِ دلچسپی، بے کسی، وسائل کی کمی، کبھی بہت کثرت کے ساتھ مجمع اور کبھی گنتی کے دو چند ساتھی، کبھی حوصلہ افزائی کی بھرمار اور کبھی اعتراض کے تیر وغیرہ، غرض ان تمام حالات میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، ایسے وقت میں نہ جذباتیت سے کام چلے گا اور نہ ہی ہتھیار پھینک کر ایک طرف ہونے سے بلکہ بہت حکمت، سوچ بچار اور ہمت کے ساتھ معاملات کو قابو کرنا پڑے گا۔

نتیجہ
 

انبیاء کرام  علیہم السلام  کی مشترکہ سنت ہے کہ وہ نتائج سے بالاتر ہوکر اپنی اُمتوں میں دعوت کا کام کرتے رہے ہیں، اسی لیے ائمہ مساجد نتائج کی فکر توکریں، لیکن نتائج نہ ملنے پر پریشان نہ ہوں۔ آپ اندازہ لگائیں جب تمام ائمہ مساجد اپنی اپنی مساجد میں یہ کام اس فکر کے ساتھ شروع کریں کہ میرے اس کام کا مقصد فرد، معاشرہ اور ریاست کی اصلاح ہے۔ اسی طرح یہ کام ہرعلاقہ، شہراور ملک میں ہونے لگے تو بعید نہیں کہ بیس سے تیس سال کے اندر اندر اُمتِ مسلمہ کی تقدیر ہی بدل جائے، ان شاء اللہ!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین