بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آیاتِ صیام کی روشنی میں علمی فوائد اور تقدّسِ رمضان

آیاتِ صیام کی روشنی میں علمی فوائد اور تقدّسِ رمضان 


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’يَا أَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ أَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِيْضًا أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْکِيْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَ خَيْرٌ لَّہٗ وَأَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔۔۔ الخ‘‘  (۱)
لائقِ ستائش ومستحقِ حمد وہ ذات ہے جس نے ہمیں ماہِ رمضان کی گراں قدر دولت سے نوازا، اس مہینہ کے روزے، تراویح، قیام اللیل، تلاوت واذکار جیسی معظم بالشان عبادات کی ادائیگی کے شرف سے نوازا۔ ذکر کردہ سورۂ بقرہ کی پانچ آیات روزے اور اس کے متعلق فقہی واستنباطی فوائد پر مشتمل ہیں، جن کے استخراج واستنباط سے حق تعالیٰ شانہٗ کے خصوصی فضل وامتنان کی بدولت تقریباً سو فوائد تک رسائی میسر ہوئی، ان فوائد کو قارئین کی سہولت کی خاطر مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا گیا ہے، جو ہدیۂ قارئین پیش خدمت ہیں:

آیات کا باہمی ربط و مناسبت:

اس رکوع کی سب سے پہلی آیت روزے کی فرضیت کو بیان کرتی ہے: ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ‘‘، دوسری آیت میں اس کی کمیت وتعداد کو بیان کیا گیا: ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘، تیسری آیت میں ان محدود ایام کی تفصیل و تفخیم کی طرف اشارہ کیا گیا: ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ..‘‘، چوتھی آیت میں روزے جیسی نفس پر شاق و گراں معلوم ہونے والی عبادت کی کما حقہ بجاآوری کے واسطے بارگاہِ الٰہی میں الحاح و تضرع کی ترغیب دی گئی : ’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَـنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘(۲) پانچویں آیت میں روزے سے متعلق احکام میں امتِ محمدیہ -علیٰ صاحبہا الصلوات والتسلیمات- کو تخفیف و سہولت کی جس گراں قدر نعمت سے نوازا گیا، ان کو بطور احسان ذکر کیا گیا: ’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاۗءِکُمْ‘‘
ان آیات کی ابتدا و انتہا دونوں تقویٰ و خشیتِ الٰہی کے جلی عنوان سے مربوط ہیں، ابتدائی آیات: ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَـمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘، اختتامی آیات: ’’کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ۔‘‘
اس رکوع کی اختتامی آیت ’’وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘ کا سابقہ آیاتِ صوم سے تین طرح ربط کو ذکر کیا جانا ممکن ہے: 
۱: روزہ میں محدود مدت تک خورد و نوش کی پابندی عائد کی گئی، جس کی بنا پر کسی دوسرے کے مال پر دست درازی جو مطلقاً حرام ہے، اس کے ترک کا مؤثر ترین علاج تجویز کیا گیا۔ 
۲: سابقہ آیات میں حلّیت سے متعلق احکامات کو بیان کیا گیا: ’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ‘‘ جبکہ اس آیت میں محرّمات کو بیان کیا گیا۔
۳: سابقہ آیات میں خورد ونوش کی اجازت مرحمت کی گئی: ’’وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا‘‘، جبکہ اس آیت میں  غیر کے مال کو نگلنے سے متعلق نہی وارد ہوئی۔(۳)

ماہِ رمضان سے متعلق عبادات:

۱ :روزہ: ’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘ اس عبادتِ جلیلہ کی انجام دہی سے متعلق حکم میں سحری و افطاری داخل ہے۔
۲:صدقہ: ’’فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘ 
۳:تراویح: ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘
۴:کلامِ الٰہی کی بکثرت تلاوت کا اہتمام: ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘ نیز اس مبارک مہینہ میں کلامِ پاک کی تلاوت وحفظ کا عمل قدرے آسان ہوجاتا ہے۔
۵: اللہ کی یاد و ذکر : ’’وَلِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ‘‘ بدن دنیاوی خورد ونوش کی لذتوں سے معدہ کو یکسر فارغ رکھنا ذکر و مراقبہ میں یکسوئی کا باعث ہے۔
۶:دعا کا اہتمام: ’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَـنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘، آیتِ بالا کو صوم سے متعلق احکام کے درمیان میں ذکر فرماکر دعا کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔
۷:توبہ و انابت کی قدردانی: ’’عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘ اس آیت میں اشارہ ہے کہ اس مبارک مہینہ کے قیمتی لمحات میں توبہ قبول کی جاتی ہے۔
۸:عشرۂ اخیرہ میں اعتکافِ مسنون کی عبادت: ’’وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ‘‘

رمضان اور روزے میں پنہاں اَسرار اور حکمتیں:

۱: سلف صالحین کی اتباع کا درس: ’’کَـمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ‘‘
۲:تقویٰ کا حصول: ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘
۳:دوسروں کے ساتھ غم خواری و ہمدردی کے جذبات کا اظہار: ’’وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘(۴) اس کے تحت فقراء و مساکین کو افطار کرانا سب شامل ہے۔
۴:تعظیمِ قرآنی: ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘ اس میں یہ واضح کردیا گیا کہ روزوں کی مشروعیت کے لیے اس مہینہ کا انتخاب اس میں نزولِ قرآنی کا سبب ہے۔(۵)
۵:اللہ رب العزت کی تعظیم و تکبیر: ’’وَلِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ‘‘(۶)
۶: حسّی و معنوی نعمتوں کے حصول پر شکر بجالانا: ’’لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘، یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ بھوک وپیاس کی شدت میں مبتلا شخص ہی اس نعمتِ عظمی کی قدر وقیمت سے آشنا ہوتا ہے، اسی طرح معنوی نعمت مثلاً دین و ذکر وعبادات کی ادائیگی پر شکر بجا لانا۔
۷: رمضان المبارک کی تعظیم: ’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘
۸:ربِ کائنات کے قرب کا حصول: ’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَـنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘
۹:امتِ اسلامیہ کو توحید و اتحاد کی دعوت: ’’اٰمَنُوْا، اَتِمُّوْا،  لِتُکْمِلُوْا ، لِتُکَبِّرُوْا‘‘ ان میں سب کو بصیغۂ جمع تعبیر کیا گیا، اس طور پر کہ معنوی لحاظ سے امتِ مسلمہ کا اس مقدس مہینہ کی آمد پر صوم ودیگر عبادات کا امتثال اجتماعی طور پر ہوتاہے، جیسا کہ حج بیت اللہ میں حسی و معنوی، زمانی ومکانی ہر اعتبار سے مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے۔
۱۰: اسلامی و قمری تاریخ اور تقویم کے اہتمام کی مشق و تمرین: ’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘، ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘، ’’وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ‘‘ ، ’’اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ‘‘ ، ’’یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ‘‘ (۷)، ’’وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۔‘‘ ان سب آیات میں وقت کی تعیین کی طرف اشارہ ہے۔
۱۱: طبی فائدہ: روزہ مفطراتِ ثلاثہ (اکل وشرب وجماع) کے ترک کا نام ہے، اس سے متعلق ایک عمومی تجربہ و مشاہدہ ہے کہ ایک ماہ معدہ کا خورد ونوش کی لذتوں سے خالی رکھا جانا انسانی صحت ومزاج میں صفتِ اعتدال، جبکہ قوتِ بالیدگی میں خوش آئند اثرات مرتب کرنے کا باعث ہوتا ہے، نیز ظاہری و باطنی ہر قسم کے امراض سے خلاصی ونجات کا بہترین ذریعہ ہے۔
رمضان میں تخفیف و نرمی کا معاملہ:( ’’یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ‘‘)(۸)
۱:سال کے صرف ایک مہینہ میں روزے کا وجوب : ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘(۹)
۲:صرف دن کے اوقات میں روزے کی مشروعیت: ’’اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ‘‘(۱۰)
۳: تندرست وصحیح شخص پر فوری ادائیگی کا لزوم، جبکہ مرض کی بنا پر تاخیر کی رخصت: ’’فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘
۴:مقیم پر فی الحال روزے کا وجوب، مسافر کے واسطے رخصت: ’’اَوْ عَلٰی سَفَرٍ‘‘
۵: روزے پر عدمِ قدرت کی صورت میں فدیہ کی گنجائش: ’’وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ  ،الخ‘‘
۶:منکوحہ کے ساتھ رمضان کی راتوں میں حکمِ ممانعت کے بعد مباشرت کی اجازت: ’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاۗئِکُمْ‘‘(۱۱)
۷:صبح صادق تک سحری میں تاخیر کی رخصت: ’’وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ‘‘(۱۲)
۸: افطار میں تعجیل : ’’اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ‘‘
۹:ان حِکم و اسرار کا ذکر جن کی بنا پر روزے جیسی نفس پر شاق وگراں گزرنے والی عبادت کا برضا ورغبت ادا کیا جانا۔

ماہِ رمضان سے وابستہ مختلف حقوق:

۱:فقراء ومساکین کا حق: ’’وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘
۲:کلامِ الٰہی کا حق: ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘ تراویح اور بکثرت تلاوت کا اہتمام۔
۳:خالقِ کائنات کا حق: ’’وَلِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ‘‘ ، اسی طرح فریضۂ صوم کی ادائیگی اللہ کا حق ہے۔
۴:مخلوق کا حق: ’’یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ‘‘
۵:نفس و ذات کا حق: ’’وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ‘‘ ؛ چونکہ سحری کا ترک شریعت کی نظر میں قابلِ مدح نہیں، بلکہ اس میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔
۶:مسجد کا حق: ’’وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ‘‘(۱۳)
۷:روزے کا حق: ’’ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ‘‘
۸:ماہِ رمضان کا حق : ’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘‘، ’’تِلْکَ حُدُوْدُ اللہ فَلَا تَقْرَبُوْھَا‘‘
۹:زوجین کے حق: ’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاۗیِٕکُمْ ‘‘ ... ’’فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ‘‘

بابِ صوم سے متعلق رکوع میں موجود ثلاثیات:

۱:فرضیتِ صوم سے متعلق پہلی آیت تین امور کو متضمن ہے، جن سے صاحبِ ایمان کو قلبی تسکین واطمینان کی بیش بہا دولت میسر ہوتی ہے، جو صاحبِ ایمان کو ادائیگیِ عبادت پر آمادہ کرتی ہیں: 1 :’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ چونکہ ایمان طاعتِ الٰہی پر برانگیختہ کرتا ہے۔ 2 ::’’کَـمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ‘‘ چونکہ اصولِ فقہ کا یہ ضابطہ ہے کہ مصیبت جب عام ہو تو نفس پر خفیف و ہلکی معلوم ہوتی ہے (عمومِ بلویٰ موجبِ خِفّت ہے) (۱۴) 3 : ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘:جب ہدف ومنزل متعین ہو تو اس راہ میں حائل ہر رکاوٹ ہیچ معلوم ہوتی ہے، اور اس کا تحمل نفس کے لیے قدرے آسان ہوتا ہے۔
۲:دوسری آیت تین امور پر مشتمل ہے، جس سے تخفیف و تیسیر کا اظہار ہوتا ہے: 1 : تعدادِ ایام کی قلت ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘، 2 :عذر کی صورت میں رخصت: ’’فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘ 3 : فدیہ کی ادائیگی کی صورت میں روزوں کا بالکلیہ سقوط: ’’وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘
۳:وہ افراد جن کو قرآن مجید نے اصحابِ عذر تسلیم کیا، وہ تین ہیں: 1 :مریض:’’ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا‘‘ 2 :مسافر: ’’اَوْ عَلٰی سَفَرٍ‘‘،3 :شیخ فانی ’’وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘
۴:کلمہ ’’کُتِبَ‘‘ یہ مادہ اس رکوع میں تین مرتبہ آیا ہے: 1 : ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ‘‘ ، 2:’’کَـمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ‘‘ ، 3 : ’’وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘
۵:’’الصِّیَامُ‘‘ کا کلمہ تین بار وارد ہوا ہے: 1 : ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ‘‘، 2 :’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ‘‘ 3 : ’’ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ‘‘
۶:کلمہ ’’خَیْر‘‘ ایک ہی آیت میں تین دفعہ واقع ہوا ہے: ’’فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَخَیْرٌ لَّہٗ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔‘‘
۷: ادائیگیِ صوم کا تین دفعہ حکم دیا گیا: 1 : ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ‘‘ ، 2 : ’’وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ‘‘، 3 : ’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘
۸:رمضان کا بابرکت مہینہ تین عشروں پر مشتمل ہے، پہلا عشرہ: رحمت، دوسرا: مغفرت، تیسرا: جہنم سے خلاصی ونجات کا ہے۔
۹:ماہِ رمضان سے متعلق ایک ہی آیت میں تین علتوں اور حکمتوں کو یکجا کیا گیا ہے:1 : ’’وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ‘‘، 2 : ’’وَلِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ‘‘ 3 : ’’وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘(۱۵)
۱۰:کلمہ ’’لَعَلَّ‘‘ اپنے مدخول سمیت تین دفعہ واقع ہوا ہے: 1 :تقویٰ کے ساتھ: ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘، 2 :شکر کے ساتھ: ’’لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘، 3 :رشد کے ساتھ: ’’لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ‘‘
۱۱:کلمہ ’’ایام‘‘ تین دفعہ استعمال ہوا ہے: 1 : ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘ 2 : ’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘ 3 : ’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘ ( یہ ایک طرح دو دفعہ آیا ہے)
۱۲:جملہ ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰ۭ‘‘ پورے قرآن میں تین دفعہ واقع ہوا ہے: 1 : ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ الخ‘‘ (البقرۃ:۱۸۴) 2 : ’’وَاذْکُرُوْا اللہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ الخ‘‘ (البقرۃ: ۲۰۳) 3 :’’ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘ (آلِ عمران:۲۴) 
۱۳:کلمہ ’’مَعْدُوْدَۃ‘‘ قرآن مجید میں تین اسماء کی صفت واقع ہوا ہے: 1 : اليوم: أيام معدودۃ. 2 : الأمۃ: أمۃ معدودۃ. e : الدرہم: دراہم معدودۃ۔
۱۴:قرآن مجید میں تین آیات نزولِ قرآنی کے عرصے کو اُجاگر کرتی ہیں: 1 : ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘. 2 : ’’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ‘‘. 3 : ’’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ‘‘(۱۶)
۱۵:کلمہ ’’عِدَّۃ‘‘ بابِ صوم سے متعلق رکوع میں تین دفعہ وارد ہوا: 1 : ’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘، 2:’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘ ، 3 : ’’وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ‘‘.
۱۶:بابِ صوم سے متعلق آیت ’’ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ‘‘ میں تین تفسیری احتمالات ہیں: 1 : –زوجین کو لباس سے تشبیہ دی گئی، بایں معنی کہ لباس سے اعضاء کو ڈھانکا جاتا ہے، اسی طرح زوجین ایک دوسرے کو معصیت و نافرمانی کے ابتلاء سے محفوظ رکھتے ہیں، جو دنیا و آخرت میں موجبِ خسران و ہلاکت ہے۔ 2 :زوجین آپس کے راز کو کسی تیسرے پر افشاء و ظاہر نہیں کرتے، بلکہ لباس کی مانند اُسے ڈھانکے رکھتے ہیں۔ 3 : زوجین میں سے ہر ایک دوسرے کے جسم سے منتفع ہوتا ہے، جیسا کہ لباس بدنِ انسانی سے مَس ہوتا ہے۔ 
۱۷: روزے کی تین قسمیں ہیں: 1 :فرض، 2 :واجب، 3 :نفل۔
۱۸:بابِ صوم میں مختلف احکام میں تین مرتبہ نسخِ شرعی وارد ہوا ہے۔
۱۹: ایامِ بیض تین ہیں، جن میں ہر ماہ روزہ رکھنا مسنون ہے۔

آیاتِ کریمہ سے متعلق فقہی مسائل: 

۱:فرضیتِ صوم: ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَـمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘
۲:مریض ومسافر کے واسطے رخصت: ’’فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ‘‘.
۳:شیخ فانی کے حق میں بالکلیہ سقوط اور فدیہ: ’’وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ‘‘
۴:رمضان کی ہتکِ حرمت کی صورت میں تعزیر وتنبیہ اور کفارہ کا حکم:’’تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَاتَقْرَبُوْھَا‘‘ اس میں قریب پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا، جو عقوبتِ مالی اور تعزیر کا موجب ہے۔
۵:بابِ صوم میں سحری و افطاری سے متعلق تیقن و تأکد کا حکم، اور قلبی خلجان و وساوس سے اجتناب کا حکم: ’’حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ‘‘(۱۷)
۶:ادائیگیِ صوم سے متعلق دو قسموں کا بیان: اداء و قضاء ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘، ’’فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ‘‘
۷:محذوراتِ اعتکاف ممنوعاتِ صوم کی بنسبت زیادہ ہیں: ’’وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ‘‘
۸:اعتکاف صرف مسجدِ شرعی میں درست ہے: ’’وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ‘‘
۹:اعتکافِ واجب و مسنون کی حالت میں روزہ شرط ہے،بایں طور کہ اعتکاف کو احکامِ صوم کے سیاق  میں ذکر کیا گیا ہے۔
۱۰:عید کے دن تکبیراتِ تشریق کا ثبوت: ’’وَلِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ‘‘
۱۱:ماہِ رمضان اور عید کے واسطے رؤیتِ ہلال کی اہمیت واہتمام: ’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘ نیز ارشاد فرمایا: ’’وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ‘‘.

آیاتِ صوم میں ذکر کردہ ضمنی وعمومی فوائد: 


اللہ رب العزت کے خصوصی امتنان و فضل کی بنا پر خاص عناوین کے تحت فوائد کو ذکر کیے جانے کے بعد اب ہم ان آیات سے مستنبط عمومی فوائد کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں:
۱:کلامِ مجید میں فرضیّتِ صوم سے متعلق احکام کا اس قدر تفصیل کے ساتھ بجز اس آیت کے اور کسی آیت میں تذکرہ نہیں ملتا۔
۲:کلمہ ’’کتب‘‘ آیاتِ کریمہ میں دوعلیحدہ معنوں میں استعمال ہوا ہے: بمعنی ’’فرض‘‘: ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ‘‘ بمعنی ’’قدّر‘‘ـ: ’’وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘ (فائدہ لغویہ)
۳:اللہ رب العزت کا بے انتہا احسان ہے کہ اپنے بندوں پر صلاح و تقویٰ کے حصول کے واسطے روزوں کو فرض کیا، البتہ اس کی انجام دہی میں ایک گونہ مشکل ومشقت ہے، لہٰذا اس کو بصیغۂ مجہول ذکر کیا: ’’کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ‘‘؛ چونکہ صیغۂ معلوم میں بدگمانی کے اعتقاد کا خطرہ تھا، جس کا واضح انداز میں ازالہ فرمایا: ’’یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ‘‘، بہرحال جب پہلی آیت میں صیغۂ مجہول کا اسلوب اختیار کیا تو آئندہ آیات میں بھی اسی کی رعایت کی گئی: ’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ‘‘
۴:آیتِ کریمہ ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ سے اشارہ ملتا ہے کہ وجوبِ صوم کے لیے قبولیتِ ایمان شرط ہے، اسی طرح روزہ کا بارگاہِ خداوندی میں قبول ہونا ضروری ہے، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے: ’’من صام رمضان إيمانًا واحتسابًا غفر لہ... الخ‘‘.
۵:ابتداء آیت میں جب روزے کی فرضیت کو بیان کیا تو فرمایا :’’ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘ پھر ان محدود ایام کی وضاحت فرمادی کہ وہ رمضان کا مہینہ ہے، اس میں درحقیقت عملی طور پر احکامِ تکلیفیہ میں تدریجی پہلو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ ابتداء امر میں منزلِ مراد کا حصول نفس پر شاق وگراں معلوم نہ ہو۔
۶: آیتِ کریمہ ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘ سے اشارہ کردیا کہ روزہ کی مشروعیت کے لیے اس مہینہ کا خصوصی انتخاب اس مہینہ میں نزولِ قرآنی کے باعث ہوا ہے۔
۷:ان آیاتِ کریمہ سے یہ فائدہ معلوم ہوتا ہے کہ راہِ حق کی طرف داعی و مصلح کو احکامات سے وابستہ علل و معارف سے اُمت کو روشناس کرانا چاہیے، خصوصاً ان فوائد سے جن سے کم و بیش ہر انسان کا شب روز واسطہ پڑتا ہے، جیساکہ خود ربِ کائنات نے ارکانِ اسلام کو بیان فرما کر ان میں پنہاں حقائق و لطائف سے بندوں کو روشناس کیا، مثلاً روزے کی حکمت‘ تقویٰ کو ذکر فرمایا، نماز کی حکمت‘ بے حیائی کے امور سے اجتناب کو ذکر کیا: ’’اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْکَر‘‘، اسی طرح زکوٰۃ کو اموال کی تطہیر و تزکیہ کے ساتھ معلول کیا: ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا‘‘ ، رکنِ اسلام حج کو مشاہدۂ صنعتِ الٰہی کی حکمت سمیت واضح کیا: ’’لِّیَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ‘‘  إلي  ’’وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ‘‘
۸: اسی طرح توحید کے علمبردار ہر واعظ کو ترغیب دی ہے کہ لوگوں کے ساتھ نرمی وحسن سلوک سے پیش آئے، احکامات کو اُمت کے روبرو سخت وگنجلک بناکر پیش کرنے سے احتیاط برتی جائے : ’’یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘، اور حدیث شریف میں ہے: ’’يسروا ولا تعسروا‘‘.
۹:اللہ تعالیٰ مخلوق پر نہایت مہربان ہیں: ’’یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘(۱۸)
۱۰:علمِ الٰہی کا بیان، جس پر ذرہ بھر بھی کوئی چیز مخفی نہیں: ’’عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘.
۱۱:اللہ رب العزت کا اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرنا : ’’فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ‘‘.(۱۹)
۱۲:اعمالِ صالحہ میں نیت کی اہمیت، اور نیت کی بنا پر مباح عمل کا مستحب بن جانا: ’’فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ‘‘
۱۳:روزہ نفسانی وشہوانی لذات کے ترک کا نام ہے: ’’فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ‘‘ مذکورہ آیت میں تینوں کی اجازت وقتِ معین کی تحدید کے ساتھ دی گئی ہے۔
۱۴:قرآن فہمی کے واسطے حدیث نبوی- صلی اللہ علیہ وسلم - کی طرف احتیاج: جیسا کہ مذکورہ آیت سے متعلق ایک واقعہ وابستہ ہے، جس کا بیان روایات میں ملتا ہے کہ ایک صحابی ؓ نے آیتِ قرآنی کے ظاہر کے پیش نظر اپنے تکیہ کے نیچے سفید وسیاہ دھاگہ رکھا، مگر رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی حقیقت کو واشگاف کیا اور فرمایا کہ سفید دھاگہ سے مراد صبح صادق کی سفیدی ہے۔
۱۵: قرآن مجید میں مجازی معنی واستعارہ کا استعمال: ’’ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ‘‘، ’’حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ‘‘ ،’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘ 
۱۶: انسان کو اس کی قدرت وبساط کے مطابق احکامِ تکلیفیہ کا مامور بنایا جاتا ہے: ’’فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ‘‘ ، ’’عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ‘‘. 
۱۷: اس سے تنبیہ ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کے استعمال سے احتراز برتنا چاہیے جو فحش امور پر دالّ ہوں، جیسا کہ جماع وغیرہ کے کلمات، بلکہ ان میں کنائی اسلوب کی رعایت کرنا اولیٰ ہے: 1 : ’’الرَّفَثُ‘‘ ، 2:’’بَاشِرُوْھُنَّ‘‘، 3 : ’’تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘.  (۲۰)
۱۸:ماہِ رمضان میں کثرت سے نوافل کا اہتمام: ’’فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَخَیْرٌ لَّہٗ۔‘‘
۱۹:عملِ صالح کی تکمیل و تتمیم پر رغبت: ’’وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ‘‘ اور حدیث میں ہے: ’’إنما يوف الأجير أجرہٗ إذا وفّٰی عملہ‘‘.
۲۰:رمضان المبارک کا مہینہ باعثِ خیر و فلاح ہے: ’’وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ‘‘، اسی مضمون کو متضمن حدیث وارد ہے: ’’الأمۃ في خير ما عجلوا الفطر‘‘.
۲۱:ماہِ رمضان برکت کا مہینہ ہے: ’’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ‘‘، اور فرمایا: ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ‘‘ جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’تسحروا فإن في السحور برکۃ۔‘‘
۲۲:رمضان المبارک توبہ و انابت کا مہینہ ہے: ’’عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ۔‘‘
۲۳:خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کی فضیلت ومنقبت: آپ کے ایک عمل کی بنا پر پوری اُمت کے حق میں تخفیف کا فیصلہ سنا دیا گیا: ’’عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ‘‘
۲۴: اواخرِ آیات کا یکساں طریق پر ورود: ’’تَتَّقُوْنَ‘‘، ’’تَعْلَمُوْنَ‘‘، ’’تَشْکُرُوْنَ‘‘، ’’یَرْشُدُوْنَ‘‘
۲۵: آیتِ کریمہ: ’’وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَـنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ میں یاء متکلم کو چھ مرتبہ مکرر ذکر کیا گیا: ’’عِبَادِیْ، عَـنِّیْ، فَاِنِّیْ، دَعَانیْ ، لِیْ ، بِیْ ۔‘‘
۲۶: اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ‘‘ سے متعلق بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ بندوں کو مجھ سے اجابت (دعا کو قبول کرنے ) کا سوال کرنا چاہیے، تاکہ میں انہیں اجابت سے نوازوں، جیسا کہ امام قرطبیؒ نے بحوالہ ابن عطیہؒ ذکر کیا ہے۔(۲۱)
۲۷: راقم اس پر عرض خواہ ہے کہ اگر اس تفسیر کو درایۃً درست تسلیم کیا جائے تو اس سے دعا کے بعد آمین کا ثبوت ملتا ہے، چونکہ آمین بمعنی ’’اسْتَجِبْ‘‘ ہے۔
۲۸: اسی طرح اس سے جماعت کے ساتھ دعا کا ثبوت ملتا ہے، بایں طور کہ ایک دعائیہ کلمات کہے اور باقی سب آمین کہیں، یہی وجہ ہے کہ کلمہ ’’الداع‘‘ کو مفرد اور ’’فَلْیَسْتَجِیْبُوْا‘‘ کو صیغۂ جمع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
۲۹: اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ’’الدَّاعِ‘‘ سے مراد امام ہو، اور اس کو نماز میں قراءتِ فاتحہ کی حالت تصور کیا جائے، چونکہ سورۃ الفاتحہ کا مضمون دعا پر مشتمل ہے، اور مقتدی اس کے بعد آمین کہیں، جیسا کہ باری تعالیٰ نے اجابتِ دعا سے متعلق وعدہ فرمایا ہے، اسی مضمون سے منسلک حدیث ہے: ’’قسمت الصلاۃ بيني وبين عبدي ... الحديث.‘‘
۳۰: اس بات میں ہرگز استبعاد نہیں کہ ’’وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ‘‘ سے مراد قبولیتِ دعا سے متعلق پختہ اعتقاد ہو، جس کا وعدہ آیت کے دوسرے ٹکڑے میں فرمایا: ’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ‘‘
 

ھٰذا ما وصلتُ إلیہ في ھٰذا الباب، فما أصبتُ فیہ فھو من اللہ وما أخطأت فیہ فمنّي ومن الشیطان واللہ تعالٰی ورسولہٗ بریٔ منہ

اخیر میں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دست بستہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس ماہِ مقدس تک صحت وعافیت کے ساتھ پہنچائے، اس میں کی جانے والی عبادات کو اپنے دربارِ عالی میں شرفِ قبولیت سے نوازے،آمین۔

حوالہ جات

۱:سورۃ البقرۃ : ۱۸۳ إلی ۱۸۷            ۲:التفسير الکبير ، ج:۵، ص:۲۶۰
۳:التفسير المنير ، ج:۲، ص:۱۶۴            ۴:التفسير المنير ، ج:۲، ص:۱۳۱
۵:تفسير ابن کثير                             ۶:التفسير الکبير ، ج:۵، ص:۲۵۹
۷:التفسير المنير ، ج:۲، ص:۱۷۲            ۸:تفسير ابن کثير ، ج:۲، ص:۴۴۱
۹:تفسير ابن کثير ، ج:۲، ص:۴۳۶        ۱۰:التفسير للقرطبي ، ج:۳، ص:۱۹۸
۱۱:التفسير للقرطبي ، ج:۳، ص:۱۸۶        ۱۲:التفسير المنير ، ج:۲، ص:۱۵۶
۱۳:تفسير ابن کثير ، ج:۲، ص:۴۵۶         ۱۴:التفسير الکبير ، ج:۵، ص:۲۴۳
۱۵:التفسير الکبير ، ج:۵، ص:۲۵۹        ۱۶:تفسير ابن کثير ، ج:۲، ص:۴۴۰
۱۷:تفسير الدر المنثور                         ۱۸:تفسير ابن کثير ، ج:۲، ص:۴۴۱
۱۹:التفسير للقرطبي ، ج:۳، ص:۱۹۱     ۲۰:التفسير الکبير ، ج:۵، ص:۲۶۹
۲۱:التفسير للقرطبي ، ج:۲، ص:۳۰۹

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین