بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اِک دیا اور بُجھا!! (ناصح الامت مولانا ابرار الحق کلیانویؒ )

اِک دیا اور بُجھا!!

آنسو بار بار گوشۂ چشم سے چھلک پڑتے ہیں،بہت بڑی خیرسے محروم ہوجانے کا احساس دل کو کچوکے لگاتاہے۔ویرانی،افسوس اورحسرت نے ذہن وقلب کو مائوف کررکھاہے، حادثہ ہی کچھ ایسا قیامت خیز ہے۔ ڈاکٹر عبد الحئی عارفی قدس سرہ کے خلیفہ اجل اورنارتھ کراچی کی عظیم دینی وروحانی شخصیت ناصح الامت مولانا ابرار الحق کلیانویؒ بھی بقضائے الٰہی راہی آخرت ہوگئے۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شئی عندہٗ بأجل مسمیٰ۔أللھم لاتحرمنا أجرہ ولاتفتنا بعدہ۔ اس پُرآشوب وپُرفتن دور میں جب ہر طرف ظلمتوں اورمعصیتوں نے چادر تان رکھی ہے، حضرت کی ذات صرف محلے یا علاقے کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے باعثِ برکت ورحمت تھی۔بندے نے جب سے شعور میں قدم رکھا حضرت کی صحبتوں، مجلسوں اور برکتوں سے فیض یاب ہوتارہا۔خود نمائی کے اس زمانے میں اپنے آپ کو گوشۂ گمنامی میں رکھنا،آپ کا خاص وصف تھا۔آپ ہر قسم کی ناموری، شہرت اور نمود ونمائش سے کوسوں دور تھے۔ قدرت نے آپ کو خدمت دین کا وہ عظیم جذبہ عطا فرمایا تھا جو آج خال خال ہی کسی کو نصیب ہوتاہے۔ آپ کی اس سچی تڑپ، لگن اور جذبہ کا اثر اولاد واحفاد پر خوب خوب نظر آتاہے۔ماشاء اللہ! سات بیٹے جو جید حافظ، عالم، مفتی، مدرس، خطیب اور صاحب نسبت بزرگ ہیں، آپ کی باقیاتِ صالحات ہیں۔ آپ کے بیانات ومواعظ رغبت ورہبت کا مجموعہ تھے۔عشق الٰہی اور حبّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قلوب میں راسخ کرنا،توحید وسنت پر کاربند رہنے کی تلقین کرنا اور حکمت وتدبر سے عامۃ الناس کی اصلاح کرنا آپ کا شب وروز کا معمول تھا۔آپ کا طرز کلام ایسا شیریں اوردل نشیں ہوتا تھا کہ غفلت میں ڈوبا انسان کچھ دیر کے لئے اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہوجاتا۔ یہ آپ کا فیض پُر اثر تھا جس نے سیکڑوں زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا۔ہزاروں ایسے تھے جو صرف آپ کی مستجاب دعائوں میں شریک ہونے کو باعث سعادت سمجھتے تھے۔رمضان المبارک کی پچیسویں اور ستائیسویں شب کو جامع مسجد حبیبیہ اورجامع مسجد قبا سیکٹر: 10نارتھ کراچی میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی، بالخصوص مسجد قبا میں ختم قرآن کے موقع پر شہر کے اطراف واکناف سے لوگ پروانہ وار ٹوٹ پڑتے تھے۔ اوروں کی خبر نہیں،لیکن اپنا حال یہ تھا کہ وقفے وقفے سے حضرت کی مسجد میں استفادے اوراستفاضے کی نیت سے حاضری دیا کرتاتھا۔کبھی بیان جمعہ میں حضرت کے نصائح وارشادات سے دل کی دنیا آباد ہوجاتی توکبھی جمعے کے دن عصر کے بعد اصلاحی مجلس میں حکمت ومعرفت کے موتیوں سے دامن بھرلیتا۔اورسچ بات یہ ہے کہ ہرحاضری پر یہ احساس پوری شدت کے ساتھ مستحضر رہتا تھا کہ نہ معلوم کب یہ ’’چراغ سحر‘‘بجھ جائے اورہم کف افسوس ملتے رہ جائیں،اس لئے قربت کے لمحات کو قیمتی سمجھ کر زیادہ سے زیادہ جذب واخذ کی کوشش کی جاتی۔ اللہ رب العالمین نے آپ کو مخلوق سے محبت وشفقت بھی خوب عطافرمائی تھی،جوملتانہال فرمادیتے۔افراد خانہ ہوں یا محلے کے پڑوسی،مریدین ومتوسلین ہوں یا محبت وچاہت رکھنے والے احباب ہر کوئی حضرت کی محبتوں،شفقتوں اور عنایتوں سے برابر بہرہ ور ہوتاتھا۔انتہایہ کہ دمِ واپسیں سے چند لمحے قبل بھی گھر کے باہر ملاقاتیوں کو کمالِ شفقت سے نوازتے رہے اوروہیں جان جان آفریں کے سپرد کردی    ؎ چاہت بھرے وہ لفظ ہر لفظ میں دعا ہے مقروض کردیا ہمیں تمہارے خلوص نے اپنے پیرومرشدکے فیض کو پھیلانا،آپ کی زندگی کا خاص مشن تھا،چنانچہ گزشتہ چھبیس سال سے مسجد قباء نارتھ کراچی میں امامت وخطابت اور اصلاح خلق کا عظیم الشان فریضہ بڑی خاموشی کے ساتھ سر انجام دے رہے تھے۔راقم نے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدھم کی زبانی سنا ہے کہ حضرت عارفی قدس سرہ کے انداز تربیت میں رجائیت غالب تھی۔یہی وصف حضرت کی ذات بابرکت میں دیکھنے کو ملتاتھا۔موقع بہ موقع اپنے شیخ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات وحکایات سنایا کرتے تھے۔ حضرتؒ کی شان عبدیت وفنائیت، تواضع وخاکساری، صبر وشکر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آپ نے اپنی وصیت میں بطور خاص یہ بات بھی درج کی تھی کہ’’ جب میرا خاتمہ ایمان پر ہوجائے تو میری اہلیہ اورتمام اولاد اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں چارگانہ نماز شکرانے کے طور پر ادا کردیں کہ اس خالق نے ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنے پاس بلالیا‘‘۔حضرتؒ اکثر اپنی دعائوں یہ بات دہرایا کرتے تھے کہ’’ یا اللہ !لمحے بھر کے لئے مخلوق کا محتاج نہ فرمائیے اوربغیر کسی محتاجی کے اپنے پاس بلائیے۔‘‘اللہ کی شان آپ کی یہ دعا اس انداز میں پوری ہوئی کہ انتقال سے چند روز قبل تک ضعف ونقاہت کی وجہ سے مسجد تشریف نہیں لارہے تھے۔بقول فرزندگرامی مولانا افضال الحق اس کا بہت زیادہ قلق وافسوس تھا کہ خدمت دین سے محرومی ہورہی ہے،لیکن انتقال کے دن عشاء کی نماز میں ہمت مجتمع فرماکر تشریف لے گئے،خود امامت فرمائی اورنماز سے فراغت کے بعد شاگردوں سے فرمایا کہ آج گھر جلدی چلتے ہیں ،طبیعت میں بے چینی محسوس ہورہی ہے۔کسے معلوم تھا کہ یہ ’’حاضری ‘‘دین کی آخری خدمت کا عنوان بننے جارہی ہے۔اسی طرح حضرت رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین حاضری کا بھی خاص ذوق عطا فرمایاتھا،گاہے بہ گاہے عمرے پر تشریف لے جاتے، امسال بھی سفر حج کی تیاری مکمل تھی اور وفات کے دن ہی اپنے لئے ایک نئی وھیل چیئر اور عصا خرید کر لائے تھے۔(حضرت تادمِ وفات سہارے کے لئے کوئی چیز استعمال نہیں فرماتے تھے۔)  انتقال کی خبر سنتے ہی بندہ حضرت کے گھر پہنچا تووہاںعشاق کا جم غفیر اپنے محبوب شیخ کی جدائی پر غمگین وحزین تھا۔خاص طورپر حضرت کے بڑے فرزند، گرامی قدر مولانا افضال الحق کلیانوی سراپا الم وحزن دکھائی دے رہے تھے۔چشم تر سے حضرت کا ذکر خیراورعاشقانہ انداز میں حضرت کے معمولات، ارشادات اورنصائح بیان کرکے خود بھی روتے رہے اور مجمع کو بھی رُلاتے رہے۔ انہوں نے ہی ایک واقعہ سنایا کہ چند دن قبل ایک تقریب میں شرکت سے واپسی ہورہی تھی کہ سہراب گوٹھ پر بنے انڈرپاس سے گاڑی گزرنے لگی،فرمایا کہ’’ یہاں روشنی کا انتظام نہیں ہے،بہت اندھیرا ہے،دل گھبرارہاہے۔‘‘تھوڑے توقف کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’ اس سے کہیں زیادہ اندھیرا قبر میں ہوگا، اللہ تعالیٰ وہاں روشنی کا انتظام فرمائیں۔‘‘ یوں لگتا ہے جیسے حضرت ناصح الامت رحمہ اللہ اپنے متعلقین ومحبین سے ،امام العارفین حضرت سید نفیس الحسینی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان میں کہہ رہے ہوں     ؎     خدا آباد رکھے بزم یاراں، ہم نہیں ہوں گے غزالاں!ہم نہیں ہوں گے، نگاراں! ہم نہیں ہوں گے ہمارے بعد یارانِ طریقت کس کو دیکھیں گے بہت ہوگا ہجوم بادۂ خواراں، ہم نہیں ہوں گے جو اس دنیا میں آیا ہے،وہ جانے کو ہی آیا ہے نفیس اب حشر تک ہے ہجر یاراں،ہم نہیں ہوں گے صمیم قلب سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام پس ماندگان کو صبر جمیل واجر جزیل عطافرمائیںاورحضرت کافیض چار دانگ عالم میں پھیلائیں۔آمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین