بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اُمت یا ریاست؟

اُمت یا ریاست؟


چندروز قبل ایک مذاکرہ میں ملک کے ممتاز دانشور شریک تھے۔ مذاکرے میںسامعین کی طرف سے ایک سوال کیا گیا کہ ــاگر ریاست اور اُمت کے مفادات ٹکراجائیں تو فوقیت کس کو حاصل ہوگی؟
ایک معروف دانشور نے جواب دیا کہ اُمت کے مفادات بہرحال مقدم و محترم رہیں گے اور انہوں نے اپنے موقف کے حق میں دلائل بھی دئیے۔
بعض دیگر دانشوروں نے ان سے اختلاف کیا، ایک صاحب نے فرمایاکہ: خلافتِ راشدہ کے بعد سے اُمت کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ایک اور فاضل مفکرنے اُمت کو محض لسانی بنیاد وں پر عربوں کی میراث کہا اور غیرعرب مسلمانوں کے اُمت ہونے کو جذباتیت قرار دیا۔ ایک بزرگ دانشور نے کہا: گزشتہ ڈیڑھ ہزار سالوں میں ملوکیت کے باعث اُمت کا وجود کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ اور ایک صاحب نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے فرمایا کہ: صرف ہندوستانی اور پاکستانی مسلمان ہی اپنے آپ کو اُمت کا حصہ سمجھتے ہیں، باقی پوری دنیا کے کلمہ گو صرف اپنی قوم پرستی میں مبتلا ہیں۔ ان سب حضرات نے اپنے اپنے موقف کے حق میں بہت دلائل بھی دئیے اور نتیجہ نکالا کہ اگر ریاست اور اُمت کے مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے تو اُمت کو پس پشت ڈال کراپنی قوم،اپنا ملک،اپنی نسل اور اپنی ذریت کے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔
ہمیں ان کی نیت پر قطعاًبھی شبہ نہیں، ان کی شخصیتیں قابلِ احترام اور ان کے دلائل قابلِ غور و فکر ہیں، لیکن ہم ان کے موقف سے علمی و تجزیاتی اختلاف کرتے ہوئے اس بات کے حق میں دلائل دینا چاہتے ہیں کہ اُمت کسی حادثے کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی اور نہ ہی کسی سانحے کے بعد ختم ہو چکی ہے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوتِ مقدسہ سے اس کی تاسیس ہوئی، صحابہؓ و اہلِ بیت مطہرینؓ نے اپنے خون سے اس کی آبیاری کی،ائمہ اُمت نے اپنی مجتہدانہ کاوشوں سے اس کو جلا بخشی، محدثین نے روایت و درایت کے اصولوں سے اُمت کا علمی و تحقیقی قد اس قدر بلند کر دیا کہ دوسری قومیںاپنے بلندوبالا پہاڑوں پر چڑھ کر بھی اس کے عروج کو نہیں پہنچ سکتیں اور مجددینِ اُمت نے وقتاً فوقتاً کبھی اس کی بنیادوں کو مضبوط تر کیا توکبھی اس کی بلندی وپختگی میں مزید اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فرڈی ننڈ کی توپوں سے مغرب کے میزائلوں تک اور یہود کی سازشوں سے ہنود کی مکاریوں تک کوئی بھی اس کے وجود کو عنقا نہ کرسکا اور آج غلامی کے اندھیر غار سے نکل کر یہ اُمت ایک بار پھر اپنے شاندار ماضی کو مستقبل کے آئینہ میں تلاش کیا چاہتی ہے۔
اُمت یا ریاست ؟ یہ سوال اسلامی نظریۂ حیات کے اس باب سے تعلق رکھتا ہے جس کے ڈانڈے اسلام کے سیاسی نظام سے ملتے ہیں۔ سیاسی نظام کا سہرا حکمران کے سر پر ہوتا ہے اور قبیلۂ بنی نوع انسان نے ماضی سے تاحال حکمرانوں کے چناؤ سے مشکل کام نہیں دیکھا۔ کشتوں کے پشتے اور خون کی ندیاں وہ بھاری قیمت ہے جو حکمرانوں کی تبدیلی کا نتیجہ بنتی ہے یا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ مسلمانوںنے بعد از نبوت ہی اس بالغ نظری کا ثبوت دیا جو اسی اُمت کے شایانِ شان ہے کہ صرف مشاورت کے نتیجے میں ہی خلافتِ راشدہ کے حکمران اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی معاملات کے نگران مقرر ہوئے۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب خواص کی محفل میں ہوا اور عوام نے اس کی تائید کی۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نامزدگی شورائیت کے ذریعے عمل میں آئی۔ خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور خلیفۂ چہارم حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے لیے ایک کمیٹی کو مینڈیٹ سونپا گیا، جس نے دونوں کو ترجیحاً اولیت اور ثانویت دی، جس کے مطابق اقتدار کی باگ ڈور اُن کے سپرد کی گئی۔ پہلے دو خلفاء راشدینؓ کے وقت تو صرف عرب علاقے ہی زیرِاسلام تھے، اگر اُمت کا وجود نسل یا زبان کا مرہونِ منت ہوتا تو عجم کی فتوحات غلامی کے خاتمے کا مقدمہ کبھی نہ بن پاتیںاور خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ حکمرانی میں ہی غیراقوام کے گلے میں عربوں کی غلامی کا طوق ڈال دیا جاتا، لیکن یہ اُمت صرف ایک کلمہ کے باعث ہی اپنا وجود رکھتی ہے، چنانچہ تاریخ نے جہاں اس زمانے کا ایک ایک لمحہ اپنے سینے میں محفوظ کیا ہے، وہاں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ اُمت کے کسی حصہ سے عرب قومیت کے خلاف یا اپنی مقامی قومیت کے حق میں آواز اُٹھی ہو اورمہینوں کی مسافت کے علاقے بھی مرکز سے دور ہونے کے باوجود کبھی اپنے بارے میں اس احساسِ کمتری کا شکار نہ رہے کہ عربوں کو ہمارے اوپر حقِ حکمرانی حاصل ہے یا وہ ہمارے وسائل سمیٹ کر تو ہمارا استحصال کر رہے ہیں۔
ممکن ہے ان حقائق کو جذباتیت سمجھ لیا جائے، جیسا کہ ایک فاضل دانشور نے اپنی گفتگو میں اس کا تذکرہ بھی کیا، لیکن کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ فاتح اقوام جہاں بھی گئیں انہوں نے غلاموں پر اپنی ثقافت اور تہذیب کے جھنڈے اس مضبوطی سے گاڑے کہ صدیوں تک اس کے اثرات باقی رہے؟! اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ غلاموں نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کس کس طرح کی غداریاں کیں اور اپنی ہی قوم کا سر نیچا کر کے آقاؤں کی آشیر باد حاصل کی؟! برِصغیر پاک و ہند اس کی زندہ مثال ہے کہ اکیسویں صدی کی دہلیز پر چکاچوند روشنیوں اور ’’روشن خیالی‘‘ کے باوجود غلامی کی زنجیریں آج بھی پو ری شدومد سے باقی ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کے لیے اُمت ہو نے کا ثبوت ہے۔ ایک ہزار سال کے دورانیے میں مشرق سے مغرب تک حکومت کرنے والے مختلف النسل، مختلف اللسان اور حتیٰ کہ مختلف الخیال مسلمان حکمرانوں نے کسی قوم کو خواہ وہ غیرمذہب سے بھی تعلق رکھتی تھی، اپنا تہذیبی و ثقافتی ومعاشی غلام نہیں بنایا۔ کتاب اﷲ تعالیٰ اور سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے ہر علاقے میں پہنچے، لیکن عربی تہذیب و تمدن عرب سے باہر نہ نکل سکا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد ہر مسلمان کی فرائض کی فہرست میں شامل ہیں، لیکن عربی زبان کو کسی مسلمان نے اپنے آقاؤں کی زبان سمجھ کر قبول نہیں کیا اور فقہی مذاہب عرب کے علاقوں سے ہی نکل کر پوری اُمت میں پھیلے اور آج تک موجود ہیں، لیکن کوئی مسلمان اِن مسالک کی پیروی کرتا ہوا اپنے آپ کو عربوں کا ذہنی غلام تصور نہیں کرتا۔ عربی چغہ، عربی کھانے، عرب شعائر اور عرب رسوم و رواج کو کبھی کسی مسلمان معاشرے نے جاری نہیں کیا۔ یہ اظہر من الشمس ثبوت ہیں کہ مسلمان ایک قوم نہیں، بلکہ ایک اُمت ہیں اور اس اُمت میں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔
مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار میں اس بات کے بے شمار ثبوت ہیں کہ کل مسلمان ایک سیاسی وحدت میں پروئے ہوئے تھے اور اُمت کا تصور ہر حال میں موجود تھا۔ جنگِ صفین کے موقع پر رومی حکمران نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مدد کی پیشکش کی، حضرت نے اسے واضح طور پر باور کرا دیا کہ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے اور اس معاملے میں کوئی خارجی مداخلت قبول نہ کی جائے گی۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا جواب اس قدر شدید تھا کہ اس حکمران کو پھر کبھی ایسی بات کی جرأت نہ ہوئی۔ عباسیوں کے دورِ خلافت میں پوری اسلامی دنیا میں جہاں کوئی حکمران تخت پر بیٹھتا تھا، اس وقت تک اس کی تاج پوشی نہ کی جاتی تھی جب تک مرکزِ خلافت میں امیرالمؤمنین اس کی سندِ اجازت پر اپنے دستخط نہ ثبت کردیتا، حتیٰ کہ اندلس میں جہاں عباسیوں کے جانی دشمن اُموی حکمران اقتدار میں تھے، وہ بھی ایک طویل عرصے تک مرکزِخلافت کی سیاسی قیادت کے عنوان کے باعث صرف امیر کا لقب ہی اختیار کیے رہے۔ ریاست اگر اُمت سے برتر ہوتی تو صلیبی جنگوں میں پوری اسلامی دنیا کی نمائندگی کبھی نہ ہوتی اور ہر ریاست یہ سوچتی کہ قبلہ اول جاتا ہے تو جائے، بس ہماری مملکت ہی محفوظ رہے۔ اور اگر ریاست کے مفادات اُمت سے بالاتر ہوتے تو افریقہ کے مسلمان اُندلسی مسلمانوں کی مدد کو کبھی نہ آتے اور اگر ریاست اور اُمت کے ٹکراؤ میں ریاست اول نمبر پر گردانی جاتی تو مصر سے مسلمان نکل کر صحرائے گوبی سے اُمڈتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لیے عراق و شام کا سفرِصعوبت طے نہ کرتے۔ بھلا سمرقندوبخارا، ترمذ، نساء اور خراسان کا حجاز سے کونسا نسبی، نسلی، علاقائی، لسانی یا سیاسی تعلق ہے کہ آج تک ان علاقوں سے نکلنے والے علماء کی کتب حجازیوں سمیت پوری عرب دنیا کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ کیا کبھی عرب علماء اسلام نے صحیح بخاری یا صحیح مسلم یا سنن نسائی یاجامع ترمذی کو اس نظر سے دیکھا ہے کہ یہ عجمیوں کی کتب ہیں؟! اوراس لیے درجہ دوم میں شمار کیا جائے؟! امام ابوحنیفہؒ سمیت فقہاء کی ایک لمبی فہرست ہے جو عجم کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے، لیکن انہیں عرب سمیت پورے عالم اسلام میں جو پزیرائی حاصل ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ یہ وہ اَن مٹ ثبوت ہیں جو یہ باور کراتے ہیں کہ مسلمانوں کا خمیر ایک کلمہ کی بنیادپر قائم ہے اور یہی خمیر اُمت کا سرمایہ ہے، جس کا ایک ایک فرد ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر ایک عضو بیمار ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جائے۔
مسلمان کسی علاقے کے رہنے والے ہوں،کوئی زبان بولنے والے ہوں، کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں، کوئی سا رنگ ان کے جسموں پر نظر آئے،غریب ہوں، امیر ہوں،پڑھے لکھے ہوں،جاہل اَن پڑھ ہوں،کسی تہذیب و تمدن کے حامل ہوں، ان کی بستیوں میں ایک ہی اذان گونجے گی، ان کی مساجدکا رخ ایک ہی قبلے کی طرف ہو گا،ان کی نمازیں ایک ہی زبان میں ادا کی جائیں گی،ان کا قرآن ایک ہی ترتیب کا حامل ہو گا،ان کی عقیدتوں،محبتوں،اطاعتوں،فرمانبرداریوں اور وفاداریوں کا مرکزو محور ایک ہی ذات بابرکات صلی اللہ علیہ وسلم ہو گی اور وہ ایک ہی معبودکے عبادت گزار ہوںگے۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تاریخ کے کسی دور میں یہ ترجیحات بدل گئی ہوں یاکسی صدی میں مسلمانوں نے ان سے اجتماعی روگردانی کر لی ہو یاکسی خاص مدت کے بعد ان میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہوں۔ یہ نشانیاں ہیں ایک اُمت کی جو تاریخ کے ہر دور میں اُمت رہی ہے،آج بھی اُمت ہے اور تاقیامت اُمت ہی رہے گی۔ کم و بیش تین سو سال کا عرصہ اُمت پر غلامی مسلط رہی، لیکن اس دوران بھی اُمت اپنی حیثیت کو فراموش نہ کر پائی اور ایک نظریاتی وعلامتی وجود باقی رہا۔ اس کی شاندار مثال ہندوستان کے مسلمانوں کی تحریکِ خلافت ہے۔ یہ اس تحریک کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے، تاہم ترکی جو بالکل ایک الگ براعظم میں واقع ہے، اس کے مسلمانوں کے دکھ کو ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی تکلیف سمجھااور ۱۹۱۷ء میں جب سلطان ایک مختصرمدت کے لیے تخت نشین ہوا تو ہندوستان کے طول و عرض اور دوردراز جزیروں سے پہاڑی دروں، وادیوں اورچوٹیوں تک ہر جگہ پر آنے والے پہلے جمعے کے خطبے میں علماء نے سلطان کا نام پڑھا، جس سے تاجِ برطانیہ اندر تک کانپ گیا۔سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنی کتاب’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ میں دورِ غلامی کے دوران مسلمان زعماء کے باہمی رابطوں پر اجمالی روشنی ڈالی ہے۔
تبلیغی جماعت کے بزرگ کاندھوں پر بستر اُٹھائے بعض اوقات ہفتوں کے سفر کے بعد منزلِ مقصود پر پہنچتے ہیںاور ایسی ایسی جگہوں پر پہنچتے ہیںجہاں اُن کی زبان نہیں سمجھی جاتی، وہاں کا پانی انہیں راس نہیں آتا، وہاں کے کھانے انہیں ہضم نہیں ہوتے اوروہاں کے لوگ انہیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے تماشا بھی نہیں دیکھا جاتا، لیکن ان سب کے باوجود اُن غیر مسلم بستیوں کے مسلمان انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ان کی اتنی قدرکرتے ہیں کہ قیام کا دورانیہ پورا ہو جاتا ہے، لیکن وہ گھرابھی باقی ہوتے ہیں جہاں سے ان مبلغین کے لیے کھانا آنا ہوتا ہے،اور جب رخصت کا وقت آتا ہے تو سگے بھی اس طرح جدا نہیں ہوتے جس فرطِ محبت سے یہ مسلمان مبلغین کو جدا کرتے ہیں، ان سے گلے مل مل کر روتے ہیں اور پھر کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ ان اَنجان مسلمان بھائیوں کے لیے دامن اُٹھا اُٹھا کر دعائیں کرنا’’ اُمت ‘‘ کا وہ سرمایہ ہے، جسے اس زمین کے سینے پر دنیا کاکوئی پیمانہ ناپ نہیں سکتا اور زمانے کا کوئی ترازو اس کا وزن نہیں کر سکتا۔
ہم واشگاف الفاظ میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں، ریاست کواُمت سے برترقرار دینا اور اُمت کے مفادات کو قربان کر کے ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی تاریخ سے بغاوت ہو گی، بلکہ شریعتِ اسلامیہ کے قوانینِ سیاسی کی صریح خلاف ورزی گردانی جائے گی۔ اسلام نے مسلمانوں کوایسی کسی ریاست کا تصور نہیں دیا جو رنگ، نسل، علاقہ، زبان یا کسی خاص تہذیب کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتی ہو۔ ان سب تعصبات کے قدآور بتوں کو توڑ کر ہی ایک مسلمان اُمت کا فرد بنتا ہے، پھر کسی ایسی ریاست کے مفاد کو اُمت کے مفاد سے عزیز تر رکھنا چہ معنی دارد؟ قائداعظم محمد علی جناح ؒنے یہ الفاظ اس وقت کہے تھے جب وہ خیبرپختونخواہ کے دورے کے موقع پر پاک افغان سرحد پرموجود افغان سپاہی سے ہاتھ ملا رہے تھے کہ یہ سرحدیں شیطانی ہیں اور ہم دراصل دینِ اسلام کے ناطے سے سب بھائی بھائی ہیں۔ ستاون اسلامی ممالک کے حکمران آپس میں جو بھی جذبات رکھتے ہوں، لیکن پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں جب ہم اپنے ایک صحافی ساتھی کے ہمراہ مرحوم نسیم حجازیؒ سے ملنے گئے تو ان کا کمرہ ہسپتال کے کمرے کے مشابہ ہو چکا تھا اور پیرانہ سالی کے باعث ان کی گفتگو بعض اوقات ناقابلِ فہم ہو جاتی تھی،باتوں میں جب مسلمانانِ بوسنیا کا ذکر آیا تو وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، ان کی سسکیاں آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں۔اگر یہ تکلیف اُمت کا درد نہیں ہے، دنیا کا کونسا طبیب اس کی مرض شناسی کرے گا؟! کشمیر اور شیشان کے لیے دعا کرتے ہوئے اگر امامِ کعبہ کی ہچکی بندھ جاتی ہے اور کئی لمحوں تک وہ بولنے سے قاصررہتے ہیں اور ان کے عقب میں کھڑے مسلمانوں کی آہیں اور سسکیاں لاؤڈ اسپیکرسے پھوٹ نکلتی ہیں تو کیا یہ جذبہ اُمت کے وجود کے لیے ناقابلِ تردید شہادت فراہم نہیں کرتا؟
 اُمت کے کل مسلمان کتنے ہی کمزور ایمان کے مالک ہوں، کیسے ہی بے عمل ہوں، خوردونوش اور بودوباش میں حرام و حلال کی پابندی کریںیا نہ کریں، فرائض وواجبات کے پابندہوں یا ان سے غافل ہوں، ان کے سینے اگر نورِ ایمان سے منورہیں تو وہ بذاتِ خود اُمت کا حصہ ہیں اور ۹/۱۱کے بعد تو اُمت کا تصور بعض علاقوں میں تعصب بن کر اُبھرا ہے ۔گویا طوفانِ مغرب نے مسلمان کو مسلمان کر دیا ہے۔ دنیاکے دوردراز کونوں کھدروں میں بسنے والے مسلمان جو اپنی حقیقت سے غافل تھے اور اُمت کے وجود سے کٹ سے گئے تھے، آج پھر اپنی اصل کی طرف گامزن ہیں۔ جہادِ افغانستان کے بعد عام طور پر اور گزشتہ چند سالوں سے خاص طور پر ایسے ایسے علاقوں سے حجاج کرام سفر کر کے اس مقدس فریضہ کے لیے آتے ہیں جہاں کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہاں بھی مسلمان کبھی موجود تھے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر میں دوقومی نظریہ پیش کیا گیا کہ تہذیب و تمدن اور زبان و بیان کی ہم آہنگی کے باوجود مذہب کا فرق اُمت کو دیگر اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔بالشویک انقلاب کے وقت یہ نظریہ غلط ثابت ہو گیا، کیونکہ مذہب کے فرق کے باوجود کئی اقوام نے مل کر کیمونسٹ نظریۂ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔قیامِ پاکستان کے وقت یہ نظریہ پھر صحیح ثابت ہوا کہ ایک قوم ہونے کے باوجود مذہب کے فرق نے ایک ریاست کے درمیان خونی لکیر کھینچ دی۔ سقوطِ ڈھاکہ سے اس نظریہ کی تردید مکرر ہوگئی کہ ایک مذہب ہونے کے باوجودقومیت کے فرق نے ایک ملک کو دولخت کر دیا، لیکن اس دوقومی نظریہ کاقطعی ثبوت گزشتہ صدی کے آخر میں اس وقت میسر آیا جب ماسکو کے سب سے بڑے لینن گراڈ چوک پرلینن کے مجسمے کوکرین کے ذریعے اُٹھا کر انتہائی بلندی سے زمین پر پھینک کر چکنا چور کر دیا گیا۔ وسطی ایشیائی ریاستیں سترسالہ ظلم واستبدادسے آزاد ہوئیں اور کسی دیگر کیمپ کی بجائے انہوں نے بالاجماع اُمت کی ٹھنڈی چھاؤں میں آکرخاکِ کاشغر کو ایک بار پھر راہِ حجاز کا مسافر بنا دیا۔
سوال یہ ہے کہ تقلیدِ مغرب کے نتیجے میں کیا ہم اپنی حقیقت فراموش کر دیں گے؟ کیا اپنی ذات میں اس قدر محو ہوکر خود غرض بن چکیں گے کہ آنے والی نسلوں کو بھلا بیٹھیں؟ اور کیا تاریخ سے کبھی سبق نہ سیکھ پائیں گے؟ کم و بیش ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ترکی جب یورپی یونین کا رکن بننے کی درخواست کرتا تھا تو جواب ملتا تھا کہ نہیں ابھی ایمان کی کچھ رمق تم میں باقی ہے۔ فلسطینیوںکے ایک گروہ نے اپنے آپ کو مکمل طور پر مغربیت میں ڈھال لیا تو کیا ان پر اہلِ مغرب بہت مہربان ہوگئے اور ان کے مسائل ختم ہوگئے؟ ماضی نہیں تو حال سے ہی سبق لے لیا جائے کہ یورپی اقوام کو صرف پاکستان کا اسلامی بم نظر آتا ہے۔ یہودی، ہندو، عیسائی اور سیکولر بم تو کہیں بھی انہیں دکھائی نہیں دیتے اورمشرقی تیمور کے دو عیسائیوں کا قتل انہیں چبھتاہے، کشمیرسمیت دنیا بھر کے کتنے ہی مسلمان علاقوں میں مسلمانوں کا خون بہہ رہاہے، وہ اُنہیں نظر نہیں آتا۔ اُمتِ مسلمہ کے حکمران کسی انتخاب کے ذریعے حکومت میں نہیں آئے، اس لیے اُمت ان کے اعمال سے بری ہے، لیکن یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں کی پالیسیوں میں ان کے عوام براہِ راست ذمہ دار ہیں کہ وہاں جمہوریت ان کی مرضی کی شکل میں موجود ہے۔
بچپن سے یہ سبق پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ ’’اتحاد میں برکت ہے۔‘‘ فرد کو خاندان کی خاطر اپنا مفاد قربان کرنا پڑتا ہے، خاندان کو قبیلے کی خاطر اپنا مفاد قربان کرنا پڑتا ہے،قبیلے کو جرگہ کی خاطر اپنا مفاد قربان کرنا پڑتا ہے،جرگے کو ریاست کی خاطر اپنامفاد قربان کرنا پڑتا ہے اور ریاست اگراُمت کی خاطراپنا مفاد قربان کرے گی اسی میں اُمت ،ریاست،جرگہ،قبیلہ،خاندان اور فرد کا بھلا ہوگا، بصورتِ دیگر آج عراق کے شیعہ اور سنی فرقوں کے راہنماؤں نے پریس کے سامنے اس بات کو بیان کیا ہے کہ دشمن نے اُنہیںباہمی لڑائی کے لیے الگ الگ اوربھاری بھرکم رقومات فراہم کیں، دشمن ہمیں اُچک لے گا،جداجداکرکے ہمیں شکار کرے گا،ہمارے درمیان آگ لگائے گا اور ہمیں جلتا دیکھ کر خوشیوں کے گل چھڑے اُڑائے گا۔
اُمت کے دانشوردراصل اُمت کے امین ہیں، انہیں صبحِ روشن کی نوید اُمت کو دینی ہے۔ اہلِ فکرودانش سرمایۂ بے بہا ہوتے ہیں، ان کی بات کو سنا جاتا ہے، ان کے اقوال کو محفلوں میں دہرایا جاتا ہے،وہ ایک معتبر حوالہ ہوتے ہیں، یہ لوگ وہ روشن دان ہیں جہاں سے شب تاریک کے اندھیرے چھٹنے کی خبر داخل ہوتی ہے، بادِصبا انہیں لوگوں کے نفیس خیالات کا استعارہ ہے اور شبنم کے موتی انہیں کی شب خیزیوں سے عبارت ہیں، عوام ان کے ہاتھوں میں یوں ہوتے ہیں جیسے مردہ بدستِ زندہ۔ہم اُمید کرتے ہیں یہ طبقہ اُمت کوصحیح راستہ دکھائے گا،غلامی کی باقی ماندہ زنجیریں بھی توڑنے کاباعث بنے گا،اپنے جزو کواُمت کے کل کی طرف لے کر بڑھے گا ۔قرآن و سنت اور اسلاف کے طریقہ کو تھامے صراطِ مستقیم پر اُمت کی قیادت کرتا ہوا نظر آئے گا اور ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق سے ایک بار پھر اُمت کے عروج کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے اور انسانیت کی آسودگی کے دن قریب سے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں، جب نفسانیت،خودغرضی،خوں ریزی اور جنسیت کی بجائے پیار، محبت، امن و آشتی، خودآگاہی و خدا آگاہی کا دوردورہ ہوگا، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔ علامہ اقبالؒ فرما گئے ہیں:

 

یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمزِ مسلمانی
اُخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
میانِ شاخساراں صحبتِ مرغِ چمن کب تک
ترے بازو میں ہے پروازِ شاہینِ قہستانی
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین