’’اس وقت اُمتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم جس زبوں حالی اور کرب و بلا سے گزررہی ہے، اس کا شکوہ تو ہر طرف سنائی دیتا ہے، مگر اس کے اسباب اور تدارک کی تدابیر کی طرف دھیان دینے والے لوگ ہیں نہیں یا گوشۂ خموشی کاحصہ ہیں۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ بالعموم اور اہالیانِ پاکستان جن اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکارہیں، مثلاً: معاشی بحران، دہشت گردی، قومیت و عصبیت، گروہی مفادات، سیاسی انتشار، بے دینی اور فحاشی ، مال ودولت کی لامتناہی حرص اور ہوس وغیرہ، ان سب مسائل کے تدارک کے لیے آج سے تقریباً ۵۲ سال قبل محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریر میں ایک لائحہ عمل پیش کیا تھا، جس کی روشنی میں اُمتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم کی اَبتری ‘ بہتری اور زبوں حالی‘ خوش حالی میں بدل سکتی ہے۔ درج ذیل تحریر ہماری ایسی راہنمائی پر مشتمل ہے، گویا کہ وہ آج کے حالات کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے، اس لیے اُمت، زعماء اُمت، بلکہ خواص وعوام کے فائدہ عامہ کے لیے قندِ مکرر کے طور پر شاملِ اشاعت کیا جارہا ہے۔‘‘ (ادارہ)
تمام اُمتِ اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہو چکاہے، ہرجگہ اضطراب ہی اضطراب ہے۔ نہ حکمرانوں کو چین نصیب ہے نہ محکوم آرام کی نیند سوسکتے ہیں، مصیبت بالائے مصیبت یہ کہ کوئی بھی صحیح علاج نہیں سوچ رہاہے۔ جو زہر ہےاس کو تریاق سمجھ لیاگیاہے، جو تباہی وبربادی کا راستہ ہے اس کو نجات کا راستہ سمجھا جارہاہے، جو تدبیریں شقاوت کو دعوت دے رہی ہیں، انہی کو ذریعۂ سعادت خیال کیا جارہا ہے۔ ماسکو یا واشنگٹن تمام جہنم کے راستے ہیں۔ کوئی بھی سرورِکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ کا راستہ جو سراسر نجات اور سعادت کا اعلیٰ ترین وسیلہ ہے، نہیں سوچ رہا ہے۔ جو صراطِ مستقیم جنت کو جارہاہے، اس سے بھٹک گئے ہیں۔ نہ معلوم کہ اربابِ عقول کی عقلیں کہاں چلی گئیں؟ اربابِ فکر کیوں فکر سے عاری ہو گئے؟ آخر تاریخ کی یہ عبرتیں کس لیے ہیں؟ حقائق سے کیوں چشم پوشی کی جارہی ہے؟ خاکم بدہن ایسا تو نہیں کہ تکوینی طور پر اُمت پر تباہی وبربادی کی مہر لگ چکی ہے؟اس امت کا زوال مقرر ہوچکا ہے؟ عروج کا دور ختم ہوگیا ہے؟ حق تعالیٰ نے تو اسلام اور صرف اسلام کی نعمت کو آخری نعمت فرمایا تھا اور یہ صاف اور صریح اعلان ہوچکا تھا کہ اس کے سوا کوئی رشتہ ورابطہ، کوئی دین اور مسلک قابلِ قبول نہ ہوگا۔ نجات اسی دین اور اسلام میں ہے اور اسی دینی رابطہ میں فلاح وسعادت ہے، باقی تمام راستے شقاوت وہلاکت اور تباہی وبربادی کے راستے ہیں۔ اور یہ ابدی اعلان آج بھی حق تعالیٰ کے آخری پیغام میں کیا جارہا ہے:
’’وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۰ۚ وَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘
ترجمہ:’’اور جو کوئی چاہے سوا اسلام کی حکم برداری کے اور دین، سواس سے ہرگز قبول نہ ہوگا۔‘‘ (ترجمہ شاہ عبد القادرؒ)
اور سورۂ عصر میں تاریخِ عالم کو گواہ بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ جن لوگوں میں ایمان باللہ، عملِ صالح ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر، یہ چار باتیں نہیں ہوںگی، ان کا انجام تباہی وبربادی ہے۔ کیا اسی اسلام سے روگردانی کی اتنی بڑی سزا پاکستان اور پاکستانیوں کو نہیں ملی کہ چند لمحوں میں بارہ کروڑ آبادی کا عظیم ملک پانچ کروڑ کا چھوٹا سا ملک بن گیا؟ کیا بنگلہ دیش کے قضیہ سے دونوں طرف کے مسلمان عذابِ الٰہی میں نہیں مبتلا ہوئے؟ اسلامی رواداری، اتحاد واُخوت ختم کرکے کیا دولت کمائی؟ آخرت سے پہلے دنیاکی رسوائی اور خسران وتباہی بھی دیکھ لی۔ افسوس کہ وہی غیر اسلامی سبق پھر یہاں مغربی پاکستان میں دہرایا جارہا ہے۔ وہی سندھی، پنجابی، بلوچ اور پٹھان کے ملعون نعرے یہاں بھی اُبھررہے ہیں۔ ارحم الراحمین کے غضب کو دعوت دینے والی صورتیں اختیار کی جارہی ہیں۔ طاغوتی طاقتیں جن کا ڈورا باہر کے شیاطین کے ہاتھ میں ہے، اسلام اور مسلمانوں پر ایک اور کاری ضرب لگانے کی فکر میں لگ گئے ہیں، فإنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
نہ اربابِ حکومت مرض کا صحیح علاج سوچ رہے ہیں نہ اربابِ دین‘ دین کے تقاضوں کو پورا کررہے ہیں۔ نہ اربابِ قلم زورِ قلم اصلاحِ حال پر خرچ کررہے ہیں۔ غور کرنے سے یہی معلوم ومحسوس ہوتاہے کہ اس قوم کا آخرت پر یقین یا تو ختم ہوگیا ہے یا اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے، جنت وجہنم اور حیاتِ ابدی کے تصور سے دل ودماغ خالی ہوگئے ہیں، تمام نعمتیں وآسائشیں صرف دنیا کی چاہتے ہیں۔ جب مرض یہ ہے، یعنی دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت، تو اب رہنما یانِ قوم کا فرض یہ ہے کہ اسی کا تدارک کریں، اور اسی کا علاج سوچیں۔ گزشتہ چند سالوں کے تجربات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو طریقہ علاج کا سوچا گیا اور عملاً اس کو اختیار بھی کیا گیا، وہ صحیح قدم نہ تھا۔ اخبارات بھی جاری کیے گئے، جلوس بھی نکالے گئے، مظاہرے بھی کیے گئے، جھنڈے بھی اٹھائے گئے، نعرے بھی لگائے گئے، الیکشن بھی لڑے گئے، کچھ ممبر بھی منتخب ہوگئے، اسمبلی ہالوں میں پہنچ بھی گئے، کچھ تقریریں بھی کیں، کچھ تجویزیں بھی پاس ہوئیں، لیکن یہ سب نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئے، قوم سے چندے کیے گئے، کروڑوں روپے خرچ بھی کیے، لیکن قوم جہاں تھی کاش وہیں رہتی، ہزاروں میل پیچھے ہٹ گئی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تدابیر اختیار نہ کی جائیں اور یہ بالکل عبث اور ضیاعِ وقت ہے، لیکن اتنا توواضح ہوگیا کہ یہ پوری اصلاح نہیں، یا اصل علاج نہیں اور یہ نسخہ مفید ثابت نہ ہوا، مرض کا اِزالہ اس سے نہیں ہوسکا۔ بہرحال ان سیاسی تدبیروں کے ساتھ اب دینی سطح پر کام کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کاشوق اس بات کا متقاضی ہے کہ سیاسی تدبیریں اختیار کی جائیں اور سیاسی حربے بھی استعمال ہوں اور آپ کی طبیعت اور ذوق ان وسائل کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں، اگرچہ ہماری دیانتدارانہ رائے یہی ہے کہ ان کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں اور ’’کوہ کندن وموش برآوردن‘‘ والی مثال صادق آتی ہے، وقتی اور سطحی عوامی فائدے ہیں، لیکن تاہم اگر آپ کا ذوق تسلیم نہیں کرتا تو ترک نہ کیجئے، لیکن اصلی اور حقیقی وبنیادی کام اصلاحِ معاشرہ ہے، اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کو بھولاہوا سبق یاد دلائیں اور انبیاء کرام( علیہم السلام ) اور مصلحینِ اُمت کے طریقوں پر آسمانی ہدایات کی روشنی میں اصلاح کا بیڑہ اُٹھائیں اور اپنی پوری طاقت انفرادی واجتماعی اصلاحِ امت پر خرچ کریں۔ گھر گھر بستی بستی پہنچ کر دعوت الی الخیر کار بانی پیغام پہنچائیں، اجتماعات ہوں تو اسی مقصد کے لیے، جلسے ہوں تو اسی بنیاد پر، مجلات ہوں تو اسی کام کے لیے، اخبارات کے صفحات ہوں تو اسی مقصد کے لیے۔ اور کاش کہ اگر حکومت کے وسائل حاصل ہوں اور ریڈیو وغیرہ کی پوری طاقت بھی اس پر خرچ ہو تو چند مہینوں میں یہ فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔ بہرحال اس وقت یہ آرزو تو قبل از وقت ہے کہ حکومت کی سطح پر جو وسائلِ نشر واشاعت ہیں، وہ ایمان کی روح سے آراستہ ہوں اور ایمانی حرارت اور نور اُن میں جلوہ گر ہو، ان کے ذریعہ اصلاح ہو۔ اب ضرورت اس کی ہے کہ آج کی نسل خدا ترس بن جائے، ان کی اصلاح ہو، آج کی یہی نسل کل حکمران ہو تو تمام وسائلِ نشر واشاعت اور خبررساں ایجنسیاں سب کے سب اشاعتِ اسلام وتزکیۂ اخلاق کے سرچشمے ہوں۔ پوری قوم نہ سہی اکثریت یا قابلِ اعتبار اہم اقلیت کی ہی اصلاح ہوجائے، تو کل کرسیِ صدارت یا کرسیِ وزارت یا منصبِ سفارت ہو یا وسائلِ نشر واشاعت ہوں، سب کے سب تعلیمِ اسلام وتعلیمِ دین کے مراکز بن سکیں گے۔ اب تو حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پاسبان خود چور بن گئے ہیں، جو رہبر تھے وہ رہزن بن گئے ہیں۔ تفصیلات میں جانے کی حاجت نہیں ،’’عیاں راچہ بیان‘‘ جو صورت حال ہے وہ سامنے ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اس وقت دین کی اہم ترین پکار یہی ہے کہ خدا کے لیے اُٹھو اور خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور سفینۂ حیات کو ساحلِ مراد تک پہنچانے کی پوری جد وجہد کرو۔ نیز یہ چیز پیش نظر رہے کہ طاغوتی طاقتیں اور تمام فتنہ وفساد برسرکار ہیں اور نہایت تیزی سے سیلاب آرہاہے، کمزور ناتواں کوشش کافی نہیں، فساد معاشرے میں بم کی رفتار سے پھیل رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کیڑے مکوڑوں کی رفتار سے مقابلہ کیا گیا توکیونکر اصلاح ممکن ہوگی؟ خدارا یہ آگ جو لگ چکی ہے، جلد سے جلد بجھانے کی کوشش کرو، ورنہ تمام قوم وملک اس کے شعلوں کی نذر ہوجائے گا۔
افسوس وتعجب سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو وہ فوراً بجھانے کی تدبیر میں لگ جاتاہے،کوئی کوتاہی نہیں کرتا، لیکن دین اسلام کے گھر میںآگ لگی ہوئی ہے، صدیوں کا جمع کیا ہوا ذخیرہ نذرِ آتش ہونے کے قریب ہے، لیکن ہم اطمینان سے بیٹھ کرتماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو بحران دو ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے، وہ مشرقی پاکستان کو موت کی نیند سلا دینے کے بعد بھی تھمنے نہیں پایا، بلکہ اس کا سارا زور سمٹ کر اب نیم جان مغربی پاکستان پر لگا ہوا ہے۔ مریض کے حالات اتنے غیر یقینی اور مستقبل اتنا بھیانک ہے کہ اسے ضبطِ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔
ہم علماء سے، طلبہ سے، حکام سے، صحافیوں سے، وکیلوں سے، کسانوں سے، مزدوروں سے، اور ہر ادنیٰ اور اعلیٰ سے خدا کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اگر اس ملک کی اور خود اپنی زندگی کچھ دن اور مطلوب ہے، اگر ہمارے دل پتھر، ہمارے ذہن مفلوج، ہمارے دماغ ماؤف اور ہمارے اعضاء شل نہیں ہو گئے ہیں اور اگر ہمارے بدن میں زندگی کی کوئی رمق اور ہماری آنکھ میں عبرت وغیرت کا کچھ پانی ابھی موجود ہے تو سارے دھندے چھوڑ کر، سارے ضروری کام ملتوی کر کے اور سارے مشاغل سے ہٹ کر چند دن کے لیے دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہوگا، اس کے لیے سب کو نکلنا ہوگا، سب کے پاس جانا ہوگا، دربدر ٹھوکریں کھانی ہوں گی، اگر ملک کا معتدبہ حصہ اس فرض کو انجام دینے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوگا تو حق تعالیٰ اس ملک کی اور اس کے ساتھ ہماری بقاء کا فیصلہ فرمادیںگے اور پھر بھارت اور روس بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیںگے اور اگر ہم بدستور اپنی اپنی لَے میں مصروف اور اپنے کام میں مگن رہے اور دعوت الی اللہ کے کام کے لیے اپنے مال اور اپنی جان کو خرچ کرنے کی ہمت نہ کی تو خداہی جانتاہے کہ اس فرض ناشناسی کی پاداش کن کن شکلوں میں ظاہر ہوگی۔ ہماری تدبیریں، ہماری حکومتیں، ہماری وزارتیں، ہماری اسمبلیاں، ہمارے وسائل خدا کے فیصلے کو نہیں بدل سکتے۔ میٹنگیں بلانے، عمائد کو جمع کرنے، اتحاد کے نعرے لگانے اور مشترک لائحہ عمل تیار کرنے پر بہت وقت ضائع کیا جاچکا ہے، اب وقت ہمیں ایک لمحہ کی مہلت دینے کو بھی تیار نہیں، نہ دعوت واصلاح کے خاکے مرتب کرنے پر مزید اضاعتِ وقت کی ضرورت ہے۔ مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ والی تبلیغی تحریک ہی بس اُمید کی آخری کرن ہے۔ اپنے ذوق، اپنے تقاضوں اور اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیجئے، ملت کی شکستہ کشتی کے ٹوٹے ہوئے اس تختہ کو جس پر پانچ کروڑ نفوس سوار ہیں، اگر بچاناہے توبس یہی ایک تدبیر ہے کہ ہم سب اخلاص کے ساتھ خِفافاً وثِقالاً اس کام کے لیے نکل کھڑے ہوں اور دعوت کے کام کو سیکھیں اور کریں۔
ہم ایک بار پھر علماء اور دانشور طبقہ سے عرض کریںگے کہ خدارا مقتضائے حال کو سمجھو، ہمارے موجودہ مشاغل ہمارے پاؤںکی زنجیریں بن جائیںگے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے دعوت واصلاح کی محنت والا کام نہ سنبھالاگیا اور ہماری بے التفاتی، لاپروائی اور بے اعتنائی کی یہی کیفیت رہی جو اَب تک ہے تو وقت کا فیصلہ بڑا ہی شدید اور بھیانک ہوگا۔ مشرق والوں کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے، ہمیں اسی سے عبرت پکڑ لینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں اور ملتِ بیضاء کی حفاظت کی توفیق امت کو نصیب فرمائیں۔
کچھ دن ہوئے لاہور کے ایک صاحب کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ ہم اس مکتوب اور اس کے ساتھ منسلکہ خواب کو بصائر وعبر کی مناسبت سے یہاں پیش کرتے ہیں۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ! ۹،۱۰ جنوری کی درمیانی شب کو میں نے ایک خواب دیکھا، جس کی کاپی جناب کو روانہ کررہا ہوں، اس خواب میں میں نے کچھ علماء کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے دیکھا ہے، جن میں ایک آپ (مولانا محمد یوسف بنوری) بھی ہیں۔ پہلی صف میں مولانا مفتی محمد حسن، مولانا محمد یوسف دہلوی، مولانا عبد القادر رائے پوری، مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری اور جناب (مولانا محمد یوسف بنوری) تشریف فرما ہیں، پچھلے سے پچھلے رمضان المبارک کو ایک خواب دیکھا تھا جس میں دیکھا تھا کہ چاند اپنی گولائی میں موجود ہے، اس پر پاکستان کا نقشہ بناہوا ہے، مشرقی حصے کے نقشہ پر یہ حروف لکھے ہیں:
’’سنھلک الأرض وأھلھا۔‘‘
’’ہم اس سر زمین کو اور یہاں کے رہنے والوں کو عنقریب ہلاک کر دیں گے۔‘‘
اس خواب کے بعد جو یہاں نقل کیا جارہاہے‘ طبیعت خاصی پریشان ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس پیغام کا حق کیسے ادا ہو! اُمید ہے آپ کوئی تسلی بخش جواب دیں گے۔ والسلام
’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکان میں مشرق کی جانب رخ کیے ایک ممبر پرتشریف فرما ہیں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہوں اور ایک دُبلے پتلے گورے چٹے بزرگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب کھڑے ہیں۔ علماء کا ایک گروہ بھی حاضرِ خدمت ہے، ایک عالم دین کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پاکستان کے حالات بیان کررہے ہیں۔ واقعات سناتے ہوئے جب وہ یہ کہتے ہیں: ’’پھر یا رسول اللہ! ہندوستان کی فوجیں فاتحانہ انداز سے ہمارے ملک میں داخل ہوگئیں۔‘‘ تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی پیشانی تھام لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہنے لگتے ہیں۔ یہ دیکھ کر تمام محفل پر گریہ طاری ہوجاتا ہے اور بعض حضرات تو چیخیں مار مار کر رونے لگتے ہیں۔
کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم علماء کی جماعت کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس حادثۂ عظیم پر ملائکہ بھی غمزدہ ہیں، مگر اُن کو تمہارے اعمال کی بدولت تمہاری مدد کے لیے نہیں بھیجا گیا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور سرخ ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تمہیں معلوم ہے تمہاری اسی مملکت میں میری نبوت کا مذاق اُڑایا گیا، میرے صحابہؓ کو گالیاں دی گئیں اور میری سنت کی تضحیک و اِہانت کی گئی۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جماعت علماء! امت کو میرا پیغام پہنچا دو کہ جب تک حکام عیاشی، ظلم اور تکبر نہیں چھوڑیں گے، اغنیاء جب تک بخل ، حق تلفی اور بے حیائی ترک نہیں کریںگے۔ علماء جب تک کتمانِ حق، حرصِ دنیا اور ریاکاری وخود نمائی سے باز نہیں آئیں گے، عورتیں جب تک بدکاری، ناچ رنگ، فحش گانے، شوہروں کی نافرمانی اور عریانی وبے پردگی نہیں چھوڑیں گی اور پوری قوم جب تک جھوٹی گواہی، غیبت، زنا، لواطت، شراب نوشی، سود خوری، اور اعمالِ شرک سے توبہ نہیں کرے گی، خوب یاد رکھو! اس وقت تک عذابِ الٰہی سے نہیں بچ سکتی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم مجھے ان باتوں کے ترک کردینے کی ضمانت دو ، میں تمہیں دنیا وآخرت کی بھلائی کی ضمانت اور دشمن پر غلبہ کی بشارت دیتاہوں، لیکن اگر تم اب بھی ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو خوب یاد رکھو! عنقریب ایک سخت ترین عذاب بصورتِ نفاق آنے والا ہے، جس سے تمہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔‘‘ (العیاذ باللہ) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی:
’’وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاۗصَّۃً ۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘
’’اور تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص انہی لوگوں پر واقع نہیں ہوگا جو تم میں ان گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والے ہیں۔‘‘ (بیان القرآن)
اس آیت کے سنتے ہی ہم سب پر گریہ طاری ہوگیا، ہم رورہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ آیت دہراتے تھے:
’’وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔‘‘
’’ اور اے مسلمانو! (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی تو) تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (بیان القرآن)
اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔’’عذاب بصورتِ نفاق‘‘ کی تعبیر صوبائی عصبیت، گروہی مفادات کا وہ طوفان ہے جو ملک کے در ودیوار سے ٹکرا رہاہے، جس میں علماء ، صلحاء اور عوام وحکام سب بہے جا رہے ہیں اور جسے برپا کرنے میں اوپر سے نیچے تک تمام عناصر اپنی پوری قوتیں صرف کررہے ہیں۔ پورا ملک آتشِ نفاق کی مہیب لہروں کی لپیٹ میں ہے، جس پر توبہ واستغفار، تضرُّع وابتہال اور دعوت الی اللہ کے ذریعہ آج تو قابو پایاجاسکتاہے، مگر کچھ دن بعد یہ تدبیر بھی کارگر نہیں ہوگی اور پھر خداہی جانتا ہے کہ کیا حالات ہوں گے، کون رہے گا اور کس کی حکومت ہوگی اور انسان محکوموں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں اور پوری اُمت کو اپنی مرضیات کی توفیق عطافرمائیں۔
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ سیدنا محمد وعلی آلہٖ و أصحابہٖ وأتباعہٖ أجمعین