بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اَمانت کی حِفاظت کرنا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ

اَمانت کی حِفاظت کرنا

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ

 

ودیعہ یعنی امانت اُس مال یا سامان کو کہتے ہیں جو کسی کے پاس بطور امانت رکھا جائے۔ جس کے پاس امانت رکھی جائے، اُس کو مودَع یعنی امانت دار یا امین کہتے ہیں۔ مال یا سامان کے مالک کو مودِع یعنی امانت دہندہ یا امانت گزار کہتے ہیں، مثلاً اگر زید نے عبد اللہ کے پاس ایک ہزار روپے بطور امانت رکھے تو زید امانت دہندہ یا امانت گزار، عبد اللہ امانت دار یا امین اور ایک ہزار روپے امانت کہلائیں گے۔ اسلام نے ہر عملِ خیر کے کرنے کی ترغیب اور ہر عملِ شر سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔ عملِ خیر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا مال یا سامان کسی شخص کے پاس بطور امانت رکھنا چاہے تو امین کو چاہیے کہ اگر وہ اُس مال یا سامان کی حفاظت کرسکتا ہے تو ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق اُس مال یا سامان کو بطور امانت رکھ کر اپنے بھائی کی مدد کرے۔ غرضیکہ شریعتِ اسلامیہ نے ہمیں اپنے پاس امانت رکھنے اور امانت دہندہ کے مطالبہ پر واپس کرنے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، کیونکہ اس کے ذریعہ آپس میں میل جول، محبت اور ایک دوسرے پر بھروسہ پیدا ہوتا ہے جو ایک اچھے معاشرہ کے وجود کا سبب بنتا ہے۔ 
 حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس صحابۂ کرامؓ حتیٰ کہ کفارِ مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا کرتے تھے، چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت داری کو دیکھ کر نبوت سے قبل ہی آپ کو امین کے لقب سے نوازا گیا۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لوگوں کی جو امانتیں رکھی ہوئی تھیں، حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو امانت دہندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری عطا فرمائی اور مدینہ منورہ کے لیے ہجرت فرما گئے۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بستر پر ہی سوئے، تاکہ صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نیابت میں ساری امانتیں لوگو ں کو واپس کردیں ا ور کسی شخص کو یہ شبہ بھی نہ ہو کہ نعوذ باللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  امانتیں لے کر چلے گئے۔
قرآن وحدیث میں امانت اور اس کے احکام کے متعلق متعدد مرتبہ ذکر آیا ہے۔ چند آیات واحادیث کا ترجمہ پیش ہے: 
’’یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔‘‘    (سورۃ النساء: ۵۸) 
’’ہاں! اگر تم ایک دوسرے پر بھروسہ کرو تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، وہ اپنی امانت ٹھیک ٹھیک ادا کردے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ :۲۸۳) 
’’اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے بے وفائی نہ کرنا اور نہ ہی جان بوجھ کر اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا۔‘‘    (سورۃ الانفال: ۲۷) 
’’اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جنتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔‘‘   (سورۃ المعارج: ۳۲) 
اسی طرح حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: ’’امانت کے طور پر رکھی شئے کو واپس کرنا چاہیے۔‘‘  (ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ) 
قرآن وحدیث کی روشنی میںامتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کسی کا مال یا سامان بطور امانت اپنے پاس رکھنا باعثِ اجر وثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
’’نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔‘‘  (سورۃ المائدۃ: ۲) 
نیز حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: 
’’اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔‘‘   (مسلم) 
قرآن وحدیث میں وضاحت اور اجماعِ امت کے ساتھ انسانی زندگی کا تقاضا بھی ہے کہ امانت رکھنے اور لینے کی اجازت دی جائے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگر ہمارا کوئی بھائی یا دوست یا پڑوسی اپنا مال یا سامان بطور امانت ہمارے پاس رکھنا چاہتا ہے اور ہم اس ذمہ داری کو انجام دے سکتے ہیں تو ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کے مال یا سامان کو اپنے پاس بطور امانت رکھ لینا چاہیے اوران شاء اللہ! اس عملِ خیر پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجرِ عظیم ملے گا۔
عمومی طور پر کسی کا مال یا سامان اپنے پاس بطور امانت رکھنا ایک مستحب عمل ہے جو باعثِ اجر وثواب ہے۔ البتہ بعض حالات میں امانت رکھنا واجب ہوجاتا ہے، مثلاً کسی شخص کا مال غیر محفوظ ہے اور آپ کی امانت میں اس کے مال یا سامان کی حفاظت ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا ذمہ دار شخص موجود نہیں ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کے مال وسامان کو اپنے پاس بطور امانت رکھ لیں، تاکہ اس شخص کا مال یا سامان محفوظ ہوسکے۔ اگر آپ امانت کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھیں۔ اگر کوئی سامان یا رقم بطور امانت رکھ دی گئی تو اس پر متعدد احکام مرتب ہوں گے، ان میں بعض اہم حسب ذیل ہیں:
1:    مال یا سامان امین کے پاس بطور امانت رہے گا۔ 
2:    امین کو حتی الامکان امانت یعنی ودیعہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ 
3:   امانت دہندہ اپنا مال یا سامان کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے۔
4:   امین امانت کو کسی بھی وقت واپس کرسکتا ہے۔ 
5:   امین امانت کی حفاظت یا اس کی بقاکے لیے جو رقم خرچ کرے گا، وہ امانت دہندہ کو برداشت کرنی ہوگی، مثلاً جانور امانت میں رکھا گیا تو جانور کے چارہ وغیرہ کا خرچہ، نیز اگر مکان امانت میں رکھا گیا تو اس کی بجلی، پانی وغیرہ کے مصارف اور اسی طرح اگر مکان کی حفاظت کی غرض سے کچھ کام کروایا گیا تواس کے مصارف امانت دہندہ کو برداشت کرنے ہوں  گے ۔
6:    امین کے لیے جائز ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کے لیے اپنی اُجرت کی شرط لگائے۔ اگر اُجرت طے ہوئی ہے تو امانت دہندہ کو اجرت ادا کرنی ہوگی۔ ہاں! اگر اجرت طے نہیں ہوئی، لیکن امانت کی حفاظت کے لیے امین کو اپنی زمین کا قابلِ ذکر حصہ استعمال کرنا پڑ رہا ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ وہ اس کا کرایا لے سکتا ہے، لیکن امانت رکھنے میں اصل اپنے بھائی یا پڑوسی یا دوست کی خیر خواہی اور بھلائی مطلوب ہوتی ہے، لہٰذا شروع ہی میں یہ معاملہ طے ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے، تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف رونما نہ ہو۔ 
اجرت لینے کی صورت میں بھی جمہور علماء کی رائے ہے کہ بطور امانت رکھا ہوا مال یا سامان اگر امین کی خیانت کے بغیر ضائع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ امین کو چاہیے کو وہ امانت سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے، ہاں! اگر امین نے امانت دہندہ سے امانت میں رکھی ہوئی شئے سے استفادہ کرنے کی اجازت لے لی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت میں نقصان ہوا ہے توامین اس کا ذمہ دار ہوگا۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصرِ حاضر تک پوری اُمتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ امانت میں رکھا ہوا مال یا سامان امین کے پاس بطور امانت ہوگا، چنانچہ اگر مال یا سامان امین کی کوتاہی کے بغیر ضائع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان آگیا تو امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’اگر کسی شخص کے پاس امانت رکھی گئی تو وہ اس پر لازم نہیں ہوگئی، یعنی اگر امین کی کوتاہی کے بغیر امانت ضائع ہوگئی یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امین پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔‘‘    (سنن ابن ماجہ)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’اگر امانت ضائع ہوجائے یا اس میں نقصان ہوجائے اور امین نے کوئی خیانت بھی نہیں کی ہے تو امین پر اس کا کوئی تاوان نہیں ہے۔‘‘  (ابن ماجہ، بیہقی، دارقطنی)
اسی طرح حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’امانت دار پر امانت کے تلف یا اس میں نقصان ہونے پر کوئی تاوان نہیں ہے۔‘‘  (بیہقی)
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت عبداللہ بن مسعود اورحضرت جابر رضی اللہ عنہم  سے بھی یہی منقول ہے کہ امانت امین کے ہاتھوں میں بطور امانت ہوا کرتی ہے، یعنی اگر وہ امین کی کوتاہی کے بغیر ضائع ہوجائے یا اس میں کوئی نقصان ہوجائے تو امین پر اس کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے اور اس نے لوجہ اللہ امانت اپنے پاس رکھی ہے تو نقصان کی صورت میں امین کیوں ذمہ دار بنے گا؟! اگر امین کو ذمہ دار بنادیا گیا تو کوئی بھی امانت رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوگا، پھر سارے لوگ اس خیر خواہی کے عمل سے محروم ہوجائیں گے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں مشہور ومعروف چاروں ائمہ اور دیگر محدثین ومفسرین وعلماء کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ اگر امانت دہندہ یہ دعویٰ کرے کہ امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت ضائع ہوئی ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ امین سے قسم لی جائے گی کہ اس نے امانت میں کوئی زیادتی یا کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور امین کے قسم کھانے پر اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا، اس لیے کہ وہ امین ہے، اللہ تعالیٰ نے ودیعہ کو امانت سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا اصل میں اس کو بری الذمہ ہی قرار دیا جائے گا، الا یہ کہ متعدد شواہد اس کے جھوٹ پر واضح طور سے دلالت کریں۔ 
خالقِ کائنات کے حکم سے رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا حکم صادر فرمایا ہے جس میں معاشرہ کی خیر خواہی ہے، کیونکہ امین خدمتِ خلق کے لیے امانت کو اپنے پاس رکھتا ہے۔ اگر امین کو ضامن قرار دیا جائے تو لوگ امانت رکھنے سے ہی اجتناب کریں گے جس میں عام لوگوں کا ضرر ہے، نیز یہ عمومی مصلحتوں کے خلاف بھی ہے۔ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ امانت میں رکھی ہوئی شئے کے منافع امانت دہندہ کو ہی ملیں گے، مثلاً جانور امانت میں رکھا تھا، بچہ کی ولادت ہوگئی، اسی طرح امانت میں رکھے ہوئے باغ کے پھل، نیز زمین امانت میں رکھی تھی اس کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا، وغیرہ، وغیرہ۔
امانت دہندہ (امانت گزار) اور امانت دار (امین) میں چند شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، جس میں بنیادی دو شرطیں یہ ہیں کہ دونوں عاقل اور بالغ یا باشعور ہوں۔ اگر امین کا انتقال ہوگیا تو اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ امانت یعنی ودیعہ امانت دہندہ کو واپس کریں۔ امین کے کسی لمبے سفر پر جانے کی صورت میں امین کو چاہیے کہ وہ امانت امانت دہندہ کو واپس کرکے جائے، اگر اس وقت امانت دہندہ نہ ملے تو کسی شخص کو مکلف کردے کہ وہ امانت کو امانت دہندہ کے حوالہ کرے، کیونکہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو ان تمام امانتوں کو ان کے مالکین تک واپس کرنے کی ذمہ داری دی تھی۔ ہاں! اگر امانت دہندہ امین کے سفر کے باوجود امانت کو اس کی امانت میں رکھنے پر راضی ہے تو کوئی حرج نہیں۔
امانت دہندہ کو چاہیے کہ امانت کی واپسی پر امین کا شکریہ ادا کرے، کیونکہ اس نے لوجہ اللہ یہ خدمت انجام دی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: 
’’جو انسانوں کاشکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا کیاشکر ادا کرے گا؟!‘‘  (ترمذی) 
اگر امانت دہندہ‘ امین کو کوئی ہدیہ بھی پیش کردے تو بہتر ہے۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’اگر تمہارے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ کرے تو تم اس کو کچھ اپنی طرف سے پیش کردو۔ اگر تمہارے پاس ہدیہ دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے تو تم اس کے لیے خوب دعائیں کرو۔‘‘         (ابوداود) 
دوسری جانب امانت دار کو اُس پر کوئی احسان نہیں جتانا چاہیے، بلکہ اس نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نقشِ قدم پر چل کر یہ عملِ خیر کیا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے اس عملِ خیر کے قبول ہونے اور اس پر اجر وثواب کی دعا کرنی چاہیے۔
جس طرح امانت میں رکھی شئے کی حفاظت کرنا امین کی ذمہ داری ہے، اسی طرح یہ دنیاوی فانی زندگی، مال واولاد ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانتیں ہیں، لہٰذا ہمیں ہمیشہ ان عظیم امانتوں کی صحیح ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: 
’’ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو ا نہوں نے اس کے اُٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کا بوجھ اُٹھالیا۔‘‘  (سورۃ الاحزاب: ۷۲) 
اپنی اُخروی زندگی کی تیاری کے ساتھ اپنے بچوں اور ماتحتوں کے مرنے کے بعد کی زندگی کی بھی تیاری کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جس کے متعلق قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا۔ اگر ہم ملازمت کررہے ہیں تو کام کے اوقات ہمارے لیے بطور امانت ہیں، لوگوں سے جو ہم عہد وپیمان کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے پاس بطور امانت ہیں۔ اگر کسی شخص نے اپنے راز کی باتیں ہمیں بتائی ہیں تو وہ بھی ہمارے پاس بطور امانت ہیں، ان کا پورا کرنا ہماری شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو۔ (بخاری) اسی طرح حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’منافق کی تین علامتیں ہیں: ۱: جھوٹ بولنا۔ ۲: وعدہ خلافی کرنا۔ ۳: امانت میں خیانت کرنا۔‘‘  (بخاری ومسلم)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو امانتوں کی حفاظت کرنے والا بنائے اور ہمیں امانت دہندہ تک صحیح سالم امانت لوٹانے والا بنائے، آمین 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین