بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آثار السنن پر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے گراں قدر حواشی وتعلیقات ’’الإتحاف لمذھب الأحناف‘

آثار السنن پر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے گراں قدر حواشی وتعلیقات

’’الإتحاف لمذھب الأحناف‘‘

ایک بیش بہا علمی تحفہ

’’فقہائے احناف کے فقہی مستدلّات کے متعلق علامہ ظہیر احسن نیموی ؒ کی مفید تر کتاب ’’آثار السنن‘‘ ہمارے دینی مدارس کے درسی نصاب کا حصہ ہے، کتاب کی تالیف کے دوران مصنف کا علامہ کشمیری ؒ سے رابطہ واستفادہ بھی اہلِ علم کے درمیان معروف ہے۔ کتاب کی پہلی طباعت کے بعد علامہ کشمیری ؒ نے اپنے ذاتی نسخے میں حواشی لکھنا شروع فرمائے تھے، جو بعد ازاں پھیلتے پھیلتے مستقل حیثیت اختیار کرگئے۔ اس قیمتی ذخیرہ کی حفاظت کی غرض سے علامہ موصوف کے شاگرد مولانا محمد بن موسیٰ میاں افریقی  ؒ نے لندن سے اس کے اعلیٰ معیار کے عکس تیار کروا کر اہم اداروں اور علمی شخصیات کے کتب خانوں میں رکھوا دیئے تھے، لیکن ان حواشی کی حیثیت ذاتی یادداشت کے لیے قلم بند کیے گئے اشارات کی تھی، جن کی تحقیق وتخریج کی بجا طور پر ضرورت تھی۔ مختلف ادوار میں متعدد اہلِ علم نے اس سلسلے میں خامہ فرسائی کی، اور خود بانیِ جامعہ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ نے بھی اس مسودہ کی تبییض فرماکر اس کی تحقیق وتخریج کا ارادہ فرما لیا تھا، لیکن گوناگوں علمی ودینی اور ادارتی مشاغل کی بنا پر یہ کام پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اب الحمدللہ جامعہ کے شعبہ مجلسِ دعوت وتحقیقِ اسلامی میں ان حواشی کی تحقیق وتخریج مکمل ہوچکی ہے، جس میں حضرت بنوریؒ کے کام سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ! جلد ہی دو جلدوں میں اس کی طباعت منظرِ عام پر آئے گی۔ پیشِ نظر مضمون میں اس قیمتی ذخیرے کے تعلق سے علامہ کشمیریؒ کے نامور شاگرد مولانا محمد منظور نعمانی  ؒ نے اپنے تأثرات کا اظہار فرمایا ہے۔ افادۂ عام کے لیے اسے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔‘‘                            (ادارہ)

حضرت استاذ مولانا سید محمد انور شاہ قدس سرہٗ جن کے وصال پر ابھی پورے تیس سال بھی نہیں گزرے ہیں، ان کے علمی مقام سے صرف وہی اہلِ علم کچھ واقف ہیں جنہیں ان کے قریب رہنے یا ان سے استفادہ کرنے کا کافی موقع ملا، ان کے خاص معاصر اور ان کے استاذ شریک حضرت مولانا شبیر احمد صاحبؒ نے اپنی کتاب ’’فتح الملہم شرح صحیح مسلم‘‘ میں ان کے بارہ میں جو یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ’’لم تر العيون ولم ير ہو نفسہٗ مثلہ‘‘ (کہ نہ اس زمانے کے دوسرے لوگوں نے ان جیسا کوئی دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنے مثل کسی کو دیکھا) اس عاجز کے نزدیک یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے، حق یہ ہے کہ جنہوں نے نہیں دیکھا وہ آسانی سے یقین بھی نہیں کرسکتے کہ اس دور میں بھی کوئی ایسا متبحر عالم ہوسکتا ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی اصل علمی خصوصیت تو اُن کی جامعیت تھی، جس موضوع اور جس مسئلہ کے متعلق سوال کیا جاتا، ایسا معلوم ہوتا کہ شاید یہی ان کی تحقیق و مطالعہ کا خاص موضوع ہے اور گویا ابھی اس کے مالہ وماعلیہ کا مطالعہ فرماکر اور پوری تیاری فرماکر تشریف لائے ہیں، لیکن اس جامعیت کے باوجود فنِ حدیث میں ان کا اشتغال نسبتاً سب سے زیادہ تھا اور حدیث کے مطالعہ میں تقریباً تیس سال تک حدیث کے ساتھ فقہ حنفی کی تطبیق ان کی توجہ کا خاص مرکز رہا، اس لیے اس خاص پہلو سے ان کا مطالعہ بہت وسیع اور اس دائرہ میں ان کا مقا م بہت ہی بلند تھا۔ ان کے اوقات کا بڑا حصہ کتابوں کے مطالعہ ہی میں صرف ہوتا تھا اور دستور یہ تھا کہ جہاں کوئی ایسی بات نظر پڑتی جس کے متعلق خیال ہوتا کہ فلاں اہم مسئلہ پر اس سے روشنی پڑتی ہے یا فلاں اشکال کے حل میں اس سے مدد مل سکتی ہے یا فلاں بات کی تردید یا تائید ہوتی ہے تو اس کو نوٹ فرماتے جاتے، لیکن چونکہ یہ نوٹ اپنے ہی واسطے لیے جاتے تھے، اس لیے عموماً بس اشاروں ہی پر اکتفا فرماتے تھے، ایسے نوٹوں کے کاغذات کی گڈیاں کی گڈیاں تھیں جو حضرت کے کمرے کے اوپر کے تختوں پر رکھی رہتی تھیں، ایک دن اس عاجزکے سامنے ہی ان گڈیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ ہماری ساری عمر کی محنت ہے، لیکن ایسے حال میں ہے کہ دوسرے اس سے نفع نہیں اُٹھاسکیں گے۔ 
مولانا ظہیر احسن شوق نیموی مرحوم کی معرکۃ الآراء کتاب ’’آثار السنن‘‘(۱) (جس کی تالیف میں حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ کا مشورہ بھی شریک رہا تھا) اس میں جو مباحث اور مسائل آئے ہیں، ان سے متعلق اپنے مطالعہ اور غور و فکر کے خاص نتائج نوٹ کرنے کے لیے حضرت نے اسی کا اپنا مملوکہ نسخہ غالباً مخصوص فرمالیا تھا۔ ان مباحث کے متعلق جو چیز کہیں نظر سے گزرتی یا ذہن میں آتی آپ اس کو ’’آثار السنن‘‘ کی اسی بحث میں حاشیہ پر یا بین السطور میں بس اشارے کے طور پر نوٹ فرمادیتے۔ بعضے ایک ایک صفحےمیں پچاسوں نوٹ اور پچاسوں حوالے ہیں، جوحوالے نادر اور قلمی کتابوں کے ہیں، ان میں تو بقدرِ ضرورت کتاب کی اصل عبارت حضرت نے لکھ دی ہے اور جو ایسی کتابوں کے ہیں جن کاملنا زیادہ مشکل نہیں ہے، ان کے بس صفحے کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔ 
’’آثار السنن‘‘ کا یہ نسخہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے تبرکات میں محفوظ رہا، لیکن اگر یہ صرف حضرت کے وارثوں کے پاس محفوظ رہتا تو نہ عام اہلِ علم کو اس کی اطلاع ہوتی نہ ہر ایک اس سے استفادہ کرسکتا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ہی کے تلامذہ میں سے اپنے ایک خوش نصیب بندے مولانا الحاج محمد ابن موسیٰ میاں (جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ) کو توفیق بخشی، انہوں نے یہ نسخہ حاصل کرکے مجلسِ علمی کی طرف سے اس کے چند عکسی نسخے لندن میں ایک جدید طریقہ سے تیار کرائے اور ہندوستان کے چند مرکزی دینی اداروں اور حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ سے خاص تعلق رکھنے والے چند اشخاص تک پہنچادیے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمتِ جلیلہ کو قبول فرمائے اور اپنے خزانۂ رحمت سےپوری پوری جزا اُن کو عطا فرمائے۔ 
اسی عکسی نسخہ کا نام ’’الإتحاف لمذہب الأحناف‘‘ ہے، ’’آثار السنن‘‘کے دونوں حصے ایک ہی جلد میں جمع کردیئے گئے ہیں، شروع میں حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ رشید حضرت مولانا محمد یوسف بنوری (دامت فیوضہم) کے قلم سےاس عکسی کتاب ’’الإتحاف‘‘ کا تعارف ہے، ’’آثار السنن‘‘ کے حاشیہ پر اور بین السطور میں جو نوٹس ہیں وہ تو عموماً ’’آثار السنن‘‘ کے مباحث ہی سے متعلق ہیں، لیکن شروع کے اور آخر کےسادہ اوراق کے سیکڑوں نوٹ دوسرے مختلف موضوعات و مسائل سے متعلق ہیں۔ اس ناچیزکا اندازہ ہے کہ شروع اور آخر کے چار پانچ ورقوں میں جو نوٹ اور حوالے ہیں، اگر ان کو افادۂ عام کے لیےکوئی قاعدہ سے ایڈٹ کرے تو متوسط ضخامت کی ایک پوری کتاب صرف ان متفرق نوٹوں سے تیار ہوجائے گی، پھر ’’آثار السنن‘‘ کے بعضے ایک ایک صفحہ پر جو نوٹ اور حوالے ہیں اگر تصنیفی زبان میں ان کو مرتب کیا جائے تو ایک ایک صفحہ کے نوٹوں اور حوالوں سے ایک ایک ضخیم رسالہ تیار ہوگا۔ 
یہاں اس کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ان نوٹوں کی حیثیت حواشی کی نہیں ہے، بلکہ زیادہ تر بس اشارے ہیں، جو غالباً اپنے ہی لیے نوٹ کیے گئے تھے، اس لیے ان سے استفادہ جتنا کچھ بھی کرسکتے ہیں صرف خواص اور وہ بھی بڑی محنت کے بعد ہی کرسکتے ہیں۔ ان چند عکسی نسخوں کے تیار ہوجانے کا بڑا فائدہ یہی ہے کہ یہ دولت ضیاع کے خطرہ سے ان شاء اللہ محفوظ ہوگئی۔ اب ضرورت ہے کہ اس خزانہ کو عام استفادہ کے لائق بنانے کی بھی کوشش کی جائے، اس کارِ عظیم کی توقع حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے صرف حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری ہی سے کی جاسکتی ہے، انہوں نے جیسا کہ اپنے تعارف میں تحریر فرمایا ہے، حضرت استاذ قدس سرہٗ کی حیات میں اس سلسلہ میں کچھ کام کیا بھی تھا۔ مجلس علمی جو ہانسبرگ جنوبی افریقہ کی طرف سے ’’الإتحاف‘‘ کے عکسی نسخے ہندوستان و پاکستان کے جن دینی اداروں اور جن حضرات اہلِ علم کو دیئے گئے ہیں اُن کی تفصیل جو ناچیز کو مجلس علمی کی طرف سے معلوم ہوئی ہے، وہ یہ ہے: کتب خانہ دار العلوم دیوبند، کتب خانہ مظاہر علوم سہارنپور، حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب صدر مفتی دار العلوم دیوبند، مولانا سیدانظر شاہ صاحب مدرس دار العلوم دیوبند، مجلس علمی سملک (ضلع سورت)، مجلس علمی کراچی، حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری (کراچی)، حضرت مولانا بدرِ عالم صاحب (مدینہ طیبہ)، حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اعظمی( مئو، ضلع اعظم گڑھ) ۔ راقم سطور ناچیز محمد منظور نعمانی کو بھی ایک نسخہ مرحمت فرمایا گیا ہے۔
یہ تفصیل یہاں اس لیے لکھ دی گئی ہے کہ جو صاحبِ علم کسی وقت ’’الإتحاف‘‘ سے استفادہ کرنا چاہیں ان کے علم میں یہ رہے کہ اس کے نسخے کہاں کہاں موجود ہیں۔ 

حواشی 

۱- اس صدی ہجری کی لکھی ہوئی اس معرکۃ الآراءکتاب اور اس کے مصنف مولانا ظہیر احسن شوق نیموی مرحوم سے ہند و پاک کے علمی حلقے خوب واقف ہیں، مولانا مرحوم نے یہ کتاب اب سے قریباً ساٹھ ستر سال پہلے اس دور میں لکھنی شروع کی تھی، جب ہندوستان میں جماعت اہلِ حدیث اور علماء احناف کے معرکے شباب پر تھے۔علامہ مرحوم فنِ حدیث میں بڑی ماہرانہ بصیرت رکھتے تھے اور حدیث کے ساتھ فقہ حنفی کی تطبیق حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ان کا بھی خاص موضوع تھا، وہ خالص محدثانہ انداز میں آثار السنن کے نام سے حدیث کی ایک ایسی جامع کتاب مرتب کرنا چاہتے تھے جس کے مطالعہ سے فقہ حنفی کے بارے میں اطمینان ہوجائے کہ وہ حدیث نبوی کے خلاف نہیں ہے۔ اس کتاب کے ابھی صرف دو ہی حصے مرتب ہوکر شائع ہونے پائے تھے کہ مولانا مرحوم کی زندگی کا آفتاب غروب ہوگیا، رحمہ اللہ تعالٰی رحمۃ الأبرار الصالحین۔ (ان دو حصوں میں صرف کتاب الطہارۃ اور کتاب الصلاۃ ہے۔)
فنِ حدیث میں بصیرت رکھنےوالے علماء احناف کا تو گویا اس پر اتفاق ہے کہ یہ کتاب تحقیق کا شاہکار اور اپنے موضوع و مقصد میں غیر معمولی درجہ میں کامیاب ہے۔ ہمارے استاذ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب قدس سرہ اس کتاب کے بڑے مداح اور اس کے مؤلف علامہ نیموی مرحوم کی مہارتِ فن اور وسعتِ نظر کے بہت معترف تھے۔ کتاب کے آخر میں ان کے دو مدحیہ عربی قصیدے بھی چھپے ہوئے ہیں، جن سے کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں ان کے احساسات و جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ راقم نے جیسا کہ اوپر لکھا ہے اس کتاب کی تالیف میں حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ کا مشورہ بھی شریک رہا تھا، اس عاجز نے اب سے ۳۵ سال پہلے درس ہی میں خود حضرت کی زبان سے اس کی پوری تفصیل سنی تھی اور افسوس ہے کہ اس کو نوٹ نہیں کیا تھا، اس لیے صرف حافظہ ہی کی مدد سے اس کو ناظرین کے لیے حوالۂ قلم کرتا ہوں۔ اگر کوئی غلطی ہو تو اس کی ذمہ داری میرے حافظہ پر ہے۔ بہرحال مجھے حضرت کے بیان کا جو خلاصہ اس سلسلہ میں یاد رہ گیا ہے، وہ یہ ہے کہ:
’’مولانا نیموی مرحوم نے جب یہ کتاب لکھنی شروع کی تو اس کا پہلا جز، حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ (یعنی شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن نور اللہ مرقدہٗ) کی خدمت میں دیوبند بھیجا اور لکھا کہ میرا ارادہ ہے کہ جتنا جتنا میں لکھتا جاؤں آپ کی خدمت میں بھیجتا رہوں، آپ اس میں جو ترمیم و اضافہ مناسب خیال فرمائیں وہ لکھ کر مجھے واپس کردیا کریں، اس طرح یہ کتاب زیادہ مکمل اور زیادہ مفید ہوجائے گی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ملاحظہ فرماکر یوں ہی واپس فرمادیا اور لکھ دیا کہ جس طرز پر آپ یہ کتاب لکھ رہے ہیں (یعنی خالص محدثانہ طرز پر)میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا، اپنے ایک عزیز و دوست کا پتہ لکھتا ہوں، آپ ان سے مراسلت کریں، ان شاء اللہ وہ اس سلسلہ میں آپ کو مفید مشورے دے سکیں گے، اور حضرت نے میرا پتہ ان کو لکھ دیا۔ مولانا نیموی مرحوم نے اضافہ اور مشورہ کی فرمائش کے ساتھ کتاب کا وہی حصہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے گرامی نامہ کے ساتھ میرے پاس بھیج دیا، میں نے اس پر جو اضافےمناسب سمجھے کیے، جن کی مقدار اصل سے دو چند کے قریب تھی، لیکن میرے یہ اضافے زیادہ تر معنوی مباحث سے متعلق تھے، علل و اسانید سے متعلق مباحث میں اضافہ کی گنجائش ہی بہت کم تھی۔مولانا نیموی مرحوم نے میرے یہ اضافے ملاحظہ فرماکر مجھے لکھا کہ میں یہ کتاب محدثین کے طرز پر لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے علل و اسانید سے متعلق آپ کے اضافے تو میں کتاب میں شامل کرلوں گا، لیکن دوسری قسم کے اضافے میں نہ لے سکوں گا، اس کے بعد وہ اس کے اجزاء برابر بھیجتے رہے اور میں اپنے مشورے لکھتا رہا۔‘‘

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین