بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آئینِ پاکستان کے خلاف  یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد

آئینِ پاکستان کے خلاف  یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد


الحمد للہ و سلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

چند ماہ پہلے فرانس کی حکومت کی شہہ پر فرانس میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے، پوری مسلم دنیا نے اس پر احتجاج کیا۔ پاکستانی عوام نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ حکومتی سطح پر فرانس سے تجارتی تعلقات ختم کیے جائیں اور فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور یہ کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ تحریکِ لبیک پاکستان نے دھرنا دیا، حکومت نے ان سے ۱۶ نومبر ۲۰۲۰ء کو معاہدہ کیا اور یہ معاہدہ موجودہ وزیراعظم کے حکم پر سابق وزیرداخلہ برگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور وزیرمذہبی امور نور الحق قادری نے کیا کہ ہم فرانس کا معاشی بائیکاٹ کریں گے اور فرانس کے سفیر کو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ملک بدر کریں گے اور اس کے لیے انہوں نے چند ماہ ۱۷؍ فروری ۲۰۲۱ء تک کی مہلت مانگی، مدتِ معاہدہ مکمل ہونے پر حکومت نے ایک اور معاہدہ کے ذریعہ ۱۷ ؍فروری ۲۰۲۱ء کی ڈیڈلائن میں ۲۰؍ اپریل ۲۰۲۱ء تک توسیع لے لی۔ 
دوسرے معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے چند دن پہلے تحریکِ لبیک پاکستان کے راہنماؤوں کو اندازہ ہوا کہ حکومت دفع الوقتی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سفیر کو نکالنے کا اُن کا کوئی ارادہ نہیں، انہوں نے آگاہ کیا کہ اگر حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا، تو ہم فیض آباد، اسلام آبادمیں دھرنا دیں گے اور ہم نے تیاری شروع کردی ہے۔ حکومت نے معاہدہ ختم ہونے سے چند دن پہلے تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ کو گرفتار کرلیا، ان کے کارکنوں نے اس کے خلاف لاہور میں جگہ جگہ دھرنے شروع کردیئے اور اُدھر حکومت ایکشن میں آئی، زبردستی ان کے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا اور دھرنے میں موجود لوگوں پر پہلے لاٹھی چارج، آنسوگیس اور پھر سیدھی فائرنگ شروع کردی۔ پولیس اور کارکنوں میں تصادم ہوا، دونوں طرف کے کئی لوگ جان سے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ حکومت نے تحریکِ لبیک پر پابندی لگاتے ہوئے ان کی پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ اُدھر وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو تمام اسلامی ممالک مل کر اُٹھائیں اور یورپ کو باور کرائیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ناموس کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے کتنا حساس ہے، باقی ہم فرانس کے سفیر کو نہیں نکال سکتے، ورنہ یورپی یونین ہمارے ساتھ کاروبار نہیں کرے گا اور ہماری ایکسپورٹ کو نقصان ہوگا۔ دھرنے کے شرکاء پر براہِ راست فائرنگ کی گئی،  پورے ملک نے اس عمل کی مذمت کی۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے رات کو گیارہ بجےہنگامی کانفرنس بلائی اور اس پر سخت ردِ عمل دیا اور کہا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے ہم سب تحریکِ لبیک پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اگر یہ اسلام آباد آئے تو ہم ان کا استقبال کریں گے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ ایک دن پہلے تک جو حکومت بات سننے کے لیے تیار نہیں تھی، اور اس کے وزراء کے تعلّی آمیز اور رعونت کے غماز بیانات آرہے تھے، اس ایک پریس کانفرنس سے ڈھیر ہوگئی اور کل تک جس جماعت پر پابندی لگادی گئی تھی، رات بھر اُن کی منت اور خوشامد کرکے ایک بار پھر ان سے مذاکرات کرنے بیٹھ گئی اور مذاکرات کیا ہوئے وہی دفع الوقتی کی پالیسی کہ ہم فرانس کے سفیر کو نکالنے کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے۔ 
دوسرے دن ہنگامی طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلالیا گیا، پیپلز پارٹی نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے نے پرائیویٹ طور پر قرارداد پیش کی، جس میں سفیر کے ملک بدر کرنے کا کوئی ذکر نہیں اور وزیر اعظم نے مغربی میڈیا کو انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ ہم سفیر کو نہیں نکالیں گے۔ یہ قرارداد تو پرائیویٹ ممبر کی ہے، حکومتی پالیسی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اور پاکستانی میڈیا پر کہا گیا کہ ہمارا معاہدہ پورا ہوگیا، قرارداد اسمبلی میں آگئی ہے۔ جمعیت علماء اسلام اور پاکستان مسلم لیگ نے کہا کہ یہ قرارداد ناکافی ہے اور اس میں کافی ابہام ہے۔ حکومتی افراد اور حزبِ اختلاف پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے، تاکہ اس قرارداد کو جامع بنایا جائے، لیکن حکومتی بینچوں نے طے کررکھا تھا کہ اس قرارداد کو پاس نہیں ہونے دینا۔ وہی کیا گیا کہ دو دن کے وقفے کے بعد جاری قومی اسمبلی کے اجلاس کو شورشرابہ کی نذر کرتے ہوئے غیرمعینہ مدت کے لیے یہ اجلاس ہی ختم کردیا گیا۔
دوسری طرف ابھی چند روز ہوئے کہ یورپی یونین نے فرانس کا ساتھ دیتے ہوئے ایک قرارداد ۶ کے مقابلے میں ۶۸۱ ووٹوں سے منظور کی ہے، اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ توہینِ رسالت کا قانون ۲۹۵بی اور ۲۹۵ سی کو ختم کیا جائے اور اس توہینِ رسالت کے مقدمہ میں قید شفقت ایمانوئیل اور شگفتہ کوثر کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اگر پاکستان توہینِ رسالت قانون کو ختم نہیں کرتا تو اس قرارداد میں یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ۲۰۱۴ء میں پاکستان کو ’’جی ایس پی پلس‘‘ کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر فی الفور نظرثانی کرے۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر محترمہ شیریں مزاری صاحبہ نے اس یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد کے ردِ عمل میں ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ: ’’یہ بدقسمتی ہے کہ یورپی یونین کی پاکستان مخالف قرارداد کا معاون سپانسر ایک ایسی جماعت کا ممبر ہے، جسے سویڈن کے وزیراعظم نے ’’ایک ایجنڈے والی نیوفاشٹ پارٹی‘‘ قراردیا تھا، جس کی جڑیں نازی اور نسل پرستانہ ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ یورپی پارلیمان میں پیش کی گئی قرارداد سویڈن سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن چارلی ویمر نے مرتب کی ہے۔ اس قرارداد پر پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ بیان دیا ہے کہ:
’’اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پاکستان نے یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے ملک میں توہینِ رسالت کے قانون کے حوالے سے قرارداد کی منظوری پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث پاکستان اور مسلم دنیا میں توہینِ رسالت اور اس سے منسلک مذہبی حساسیت کے صحیح فہم نہ ہونے کی غمازی کرتی ہے۔ دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ترجمانِ دفتر خارجہ نے جمعہ کو میڈیا کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ: پاکستان کے عدالتی نظام اور ملکی قوانین کے بارہ میں غیرضروری تبصرے پر افسوس ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ: پاکستان ایک پارلیمانی جمہوری ملک ہے، جہاں ایک متحرک سول سوسائٹی، آزاد میڈیا اور ایک خود مختار عدلیہ موجود ہیں، جو کہ بلاکسی تفریق ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے ضامن ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ: ہمیں فخر ہے کہ ہماری اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور ان کی بنیادی آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۱۸ رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ، یکم مئی ۲۰۲۱ء)
جمعیت علماء اسلام پاکستان کی معززہ رکن نعیمہ کشور نے اس یورپی قرارداد کے خلاف ’’کے پی کے‘‘ کی صوبائی اسمبلی میں درج ذیل قرارداد جمع کرائی ہے:
’’قرارداد: اس معزز ایوان کی رائے ہے کہ یورپی یونین میں پاس کردہ جانبدارانہ قرارداد کو یہ ایوان مسترد کرتا ہے اور اس قرارداد کی شدید مذمت کرتے ہیں، کیونکہ اس قرار داد میں ہمارے آئین کے آرٹیکل ۲۹۵ سی جو توہینِ رسالت سے متعلق ہے، اس کے خاتمے اور فرانس کے اقدامات یاگستاخی کی تائید کی گئی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور مسلمانوں کے لیے تمام انبیاء کی ناموس اور آسمانی کتب کا تحفظ عظمتِ ایمان کا حصہ ہے۔ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں گستاخی کسی ادنیٰ مسلمان کو بھی گوارا نہیں، اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ناموسِ رسالت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور آزادیِ اظہار کی آڑ میں مسلمان اپنے پیغمبرِ کونین حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنا خلافِ ایمان سمجھتے ہیں۔ یورپی یونین کی یہ قرارداد حقائق سے لاعلمی اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر مبنی ہے۔ توہینِ رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیے ایک خاص طبقہ روزِ اول سے ایک سازش کے تحت برسرپیکار ہے، جو اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ پاکستان میں اقلیتوں کے مساوی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت پاکستان کے آئین و قانون میں دی گئی ہے، لہٰذا یہ ایوان مرکزی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی کمیونٹی کو آگاہ کرے کہ یورپی یونین اس قرارداد کو فوری واپس لے اور تمام مذاہب کے مقدسات کے لیے عالمی قانون سازی کے لیے کردار ادا کرے، کیونکہ پاکستان مذہبی آزادی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فریضے کے لیے مؤثر کردار ادا کر رہا ہے، لہٰذا بین الاقوامی کمیونٹی کو اسلامی فوبیا کے عروج کے اس دور میں نسل پرستی، عدمِ برداشت، مذاہب اور عقیدے کی بنیاد پر تشدد پر اُکسانے کے خلاف مشترکہ طور پر جد و جہد کرنا چاہیے۔                                                  منجانب: نعیمہ کشور ایم پی اے‘‘
اربابِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں سے ہماری درخواست ہے کہ اس نازک موقع پر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرلیں اور یورپی یونین یا مغربی دنیا کی گیدڑ بھبکیوں سے بالکل نہ ڈریں، بلکہ ان کو صاف اور واضح پیغام دیں کہ ہم اپنے نبی کی حرمت اور تقدس کی قیمت پر آپ سے اقتصادی رابطہ رکھنے اور تجارت کرنے پر ہرگز ہرگز تیار نہیں۔ آپ نے جو معاشی اور تجارتی رعایتیں دی ہوئی ہیں، وہ چاہے آپ بند کردیں، ہم آپ کے مطالبات ماننے کے لیے تیارنہیں، ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں کو قرآن کریم ان حالات میں راہنمائی کرتا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
۱:- ’’یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ  یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا  وَاِنْ خِفْتُمْ  عَیْلَۃً  فَسَوْفَ  یُغْنِیْکُمُ  اللہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَائَ اِنَّ  اللہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘                                         (التوبۃ:۲۸)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! مشرک لوگ (بوجہ عقائد خبیثہ) نرے ناپاک ہیں، سو یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ آنے پاویں۔ اور اگر تم کو مفلسی کا اندیشہ ہو تو (تم خدا پر توکل رکھو) تم کو اپنے فضل سے اگر چاہے گا (ان کا) محتاج نہ رکھے گا، بیشک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے، بڑا حکمت والا ہے ۔ ‘‘
۲:- ’’اَھُمْ   یَقْسِمُوْنَ  رَحْمَتَ  رَبِّکَ  نَحْنُ  قَسَمْنَا  بَیْنَھُمْ   مَّعِیْشَتَھُمْ   فِی الْحَیٰوۃِ  الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا  وَرَحْمَتُ  رَبِّکَ  خَیْرٌ  مِّمَّا  یَجْمَعُوْنَ‘‘                              (الزخرف:۳۲)
ترجمہ: ’’کیا یہ لوگ آپ کے رب کی رحمت (خاصہ یعنی نبوت) کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں؟ دنیوی زندگی میں (تو) اُن کو روزی ہم (ہی) نے تقسیم کر رکھی ہے اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے (اور عالم کا انتظام قائم رہے) اور آپ کے رب کی رحمت بدرجہا اس (دنیوی مال و متاع) سے بہتر ہے، جس کو یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں ۔‘‘
لہٰذا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے انہیں دو ٹوک جواب دیں۔
انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ یورپی پارلیمنٹ فرانس کو پابند کرتی کہ تمہاری شرارت کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا اضطراب اور کرب میں مبتلا ہے، لہٰذا ان گستاخانہ خاکوں کے بنانے کی بناپر مسلم دنیا سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کریں۔ اُلٹا یورپی یونین فرانس کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور پاکستان سے توہینِ رسالت کے قانون کے خاتمے کے مطالبات بھی شروع ہوگئے اور ساتھ یہ دھمکی بھی کہ ہم تمہاری تجارتی مراعات ختم کردیں گے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ : 
’’وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ  وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ  مِلَّتَھُمْ‘‘     (البقرۃ:۱۲۰)
ترجمہ: ’’اور کبھی خوش نہ ہوںگے آپ سے یہ یہود اور نہ یہ نصاریٰ، جب تک آپ (خدانخواستہ) ان کے مذہب کے (بالکل) پیرو نہ ہوجاویں ۔‘‘
کل تک وزیراعظم عمران خان فرانس کے سفیر کے ملک بدر کرنے کی بنا پر جس معاشی اور اقتصادی مشکلات سے پاکستانیوں کو ڈرا رہے تھے، آج فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہ کرنے کے باوجود فرانس نے وہ تمام پابندیاں عائد کردیں اور یہ آخری مطالبہ نہیں، بلکہ شیطان کی آنت کی طرح ان کفار کے مطالبات کی لمبی فہرست ان کے پاس ہے، لہٰذا خودداری اور ملی غیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں صاف اور دو ٹوک جواب دے دیں، ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ اس سے آسانیوں کی راہیں کھولے گا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین