بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

آہ! میری پیاری ماں

آہ! میری پیاری ماں

میری پیاری والدہ ماجدہ کی ولادت دہلی میں حضرت مولانا مفتی عبد الرحمن v کے ہاں ۱۹۳۵ء میں ہوئی۔ حضرت مولانا مفتی عبد الرحمن v دار العلوم دیوبند انڈیا سے فراغت کے بعد حضرت مفتی اعظم ہندوستان مفتی کفایت اللہ دہلوی v کے مدرسہ امینیہ دہلی میں تقریباً ۲۷ سال مدرس رہے، بعد میں جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا جو کہ ضلع ملتان میں تھا، اب ضلع لوھراں میں ہے کے بانی اور سابق مہتمم تھے۔ والدہ ماجدہ کی ولادت کے تقریباً ۲۰ دن بعد دہلی کے حالات خراب ہوگئے ، ہندؤوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کردیئے، تومیرے نانا حضرت مفتی عبدالرحمن صاحبv نے میرے دادا جان حضرت مولانا محمد صاحب v (جوکہ فاضل دیوبند تھے) کو خط لکھا کہ ان بچوں کو اپنے علاقے میں لے جاؤ تو وہ ان کو لے آئے اور بعد میں جب حالات صحیح ہوگئے تو پھر دہلی لے آئے، تو اس طرح کئی بار دہلی گئے اور کئی بار علاقے میں آئے۔  میری والدہ ماجدہ نے اپنے والد محترم سے دینی کتابیں اور وظائف واوراد کا کافی حصہ یاد کیا۔ ۱۹۵۴ء میں ان کی شادی میرے والد محترم اور میرے استاذ حضرت مولانا عبد الحئی v (سابق مہتمم مدرسہ عربیہ اسلامیہ دارالہدیٰ زروبی تحصیل ٹوپی ضلع صوابی) کے ساتھ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبیٹے اور چھ بیٹیاں عطاء فرمائیں، جن میں دو بچیوں کا انتقال ہوگیا ہے اور دوبیٹے اور چاربیٹیاں ابھی تک بقید حیات ہیں اور ان میں سے راقم سب سے چھوٹا ہے۔  میری والدہ ماجدہ انتہائی نیک اور صالحہ خاتون تھیں۔ ہماری زمین داری ہمارے گاؤں میں مشہور تھی۔ گھر اور زمین داری کی تمام متعلقہ خدمات میری والدہ ماجدہ بڑے شوق سے کرتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے محلے اور اطراف کی عورتیں اور بچیاں ان کے پاس قرآن پاک ناظرہ اور ترجمۂ قرآن پڑھتی تھیں۔ اگرچہ عصری تعلیم حاصل نہیں کی تھی، پھربھی اردو کی کتابیں پڑھتی اور سمجھتی تھیں۔ اور گھر کے تمام کام کاج خود کرتی تھیں، اپنے بچوں کی خدمت ،رشتہ داروں کی خدمت اور مہمانوں کی خدمت بھی خود کرتی تھیں۔ اپنی بچیوں اور رشتہ داروں کو کچن کے قریب نہیں آنے دیتی۔ ایسی نیک اور صالحہ خاتون تھیں کہ کھانا پکاتی تھیں اور ذکر الٰہی کرتی تھیں، آٹا گوندھتی تھیں اور زبان پر ذکرجاری رہا۔ چائے بھی تین قسم کی پکاتی تھیں، ایک چائے والد صاحب اور بھائی کے لیے بہت کڑک اور باقی گھروالوں کے لیے درمیانی اور بچوں اور بچیوں کے لیے بہت نرم چائے پکاتی تھیں۔ دودھ خوب ڈالتی، لیکن پتی بہت کم اور کہتی تھیں کہ بچوں اور بچیوں کے دماغ چائے سے نہ اُڑاؤ۔ بہرکیف اپنے بچوں کے علاوہ پوتے پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں کی بھی خدمت کرتی تھیں اور جہاں بھی رشتہ داروں میں جاتی تھیں تو وہاں کچن میں پہنچ کر ان کے برتن دھوتی تھیں اور ان کے ساتھ کھانے پکانے میں لگ جاتی تھیں۔ پورے خاندان میں کسی سے لڑتی نہیں تھیں، اگر شوہر کے رشتہ داروں سے ناچاقی بھی ہوجاتی تو فوراً صلح کرلیتی تھیں۔ پورے خاندان میں خدمت اور عبادت میں مشہور تھیں، کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اگر دن کو اپنے وظائف پورے نہیں کرپاتی تو رات کو وقت نکال کر پورا کرتی تھیں اور کیوں نہ ہو کہ ان کے والد حضرت مفتی صاحبv بہت بڑے مفتی اور پیرطریقت گزرے ہیں اور خاص کر پنجاب میں ان کے مریدین کا کافی بڑا حلقہ تھا۔ مفتی صاحب v مدرسہ کی چھٹیوں میں اپنے مریدین کے پاس جاتے تھے، کبھی راجن پور، کبھی لیاقت پور اور کبھی دیگر مختلف علاقوں میں تشریف لے جاتے تھے۔ والدہ ماجدہ انتہائی سخاوت کی مالکہ تھیں، خاص کر مدارس کے طلبہ اور علماء کرام کے ساتھ محبت شفقت اور مالی امداد کا معاملہ رکھتی تھیں اور ساتھ ساتھ اپنے محلہ کے غریبوں کے ساتھ کافی مالی تعاون کرتی تھیں۔ بہت مہمان نواز خاتون تھیں اور نرم طبیعت کی مالکہ تھیںاور عاجزی وانکساری اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اور خود کا معاملہ یوں تھا کہ ایک دو جوڑے کپڑوں کے علاوہ کپڑے نہیں بناتی تھیں اور جو بناکر دیتی تھیں وہ بھی غریبوں کو دے دیتی۔ مجاہدین اسلام خصوصاً طالبانِ افغانستان(کثر اللہ سوادہم) کے ساتھ بھی محبت کرتی تھیں اور ان کے ساتھ تعاون بھی کرتی تھیں۔ اور کھانے پینے میں اکثر پرانی روٹی اور پرانا سالن کھاتی تھیں، تازہ سالن گھروالوں اور بچوں اور مہمانوں کو دیتی تھیں اور خود پرانا سالن اور پرانی روٹی دوسرے وقت کا کھانا گرم کرکے کھاتی تھیں۔ فروٹ وغیرہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا تھا کہ پرانے فروٹ خود کھاتی اور تازہ بچوں اور مہمانوں کو دیتی تھیں، یہاں تک کہ مجھے کہنا پڑتا کہ امی جان! یہ فروٹ پرانے ہیں اور خراب ہونے والے ہیں، ان کو مت کھاؤ، بیمار ہوجاؤگی، لیکن وہ نہیں مانتی تھیں۔ عمر بھر تیری خدمت میری خدمت گر رہی تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی اولاد میں سے بیٹوں سے بنسبت بیٹیوں کے زیادہ محبت کرتی تھیں ، اسی طرح پوتوں سے بنسبت پوتیوں کے اور نواسوں سے بنسبت نواسیوں کے زیادہ محبت کرتی تھیں، یعنی ان کو لڑکے بہت پسند تھے۔اور میں چونکہ سب سے چھوٹا تھا تو تمام بہن بھائیوں میں مَیں سب سے زیادہ لاڈلا تھا: کس کو ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار کون میرا فون نہ آنے سے رہے گا بے قرار پانچ چھ سال پہلے ان کا بلڈپریشر ہائی ہوگیا اور پشاور میں چھوٹی بیٹی کے ہاں ان کو شیرپاؤ ہسپتال میں فالج ہوا اور ان کا دایاں جانب شل ہوگیا، دایاں ہاتھ، دایاں پاؤں اور زبان بند ہوگئے، پانچ چھ سال فالج کی بیماری میں گزارنے کے بعد اپنے گھر میں۸/۲/۲۰۱۷ء کو خالق حقیقی سے جاملی، فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون ۔ بیمارِ عشق لے کے تیرا نام سو گیا مدت کے بے قرار کو آرام آہی گیا بندہ نے ایک سال قبل اپنے گھر والوں کو کراچی جامعہ بنوری ٹاؤن سے ان کی خدمت کے لیے بھیجا تھا، سب بہن بھائیوں نے ان کی خدمت کی، لیکن سب سے زیادہ چھوٹی بیٹی نے خدمت کی اور پھر راقم کے گھر والوں نے خدمت کی، اس لیے میرے شیخ حضرت مولانا فضل محمد دامت برکاتہم نے فرمایا کہ: ’’ان کی گھر والی نے، راقم اور بہنوں نے والدہ ماجدہ کی خدمت کرکے جنت کمالی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ حضرت الشیخ مدظلہٗ کے زبانِ مبارک کے الفاظ کو میرے لیے اور گھر والوں اور بہنوں کے حق میں مقبول فرمائے اور والدہ کی خدمت کو جنت کا ذریعہ بنائے۔ آمین آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری والدہ ماجدہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور والدہ ماجدہ کی طرح خدمت، سخاوت اور علم دوست حضرات کے ساتھ محبت نصیب فرمائے ۔ ماہنامہ’’ بینات‘‘ کے قارئین سے خصوصاً اور باقی مسلمانوں سے عموماً درخواست ہے کہ میری پیاری والدہ مرحومہ کے لیے ایصالِ ثواب کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب حضرات کو جزاء خیر عطا فرمائے۔ آمین

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین