بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آہ! شیخ الحدیث مولانا قاری صدر الدین رحمہ اللہ

آہ! شیخ الحدیث مولانا قاری صدر الدین v

    مجسمۂ اخلاق، پیکرِ صداقت، عالم باعمل، شیخ التفسیر، شیخ الحدیث، شیخ الفقہ، شیخ الصرف والنحو، حضرت اقدس مولانا قاری صدر الدین طاہر مؤرخہ ۵؍ رجب المرجب ۱۴۳۵ھ مطابق ۵؍مئی ۲۰۱۴ء کو داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔مولانا قاری صدر الدین v ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ آپ مضبوط ترین صاحب علم، جامع المعقول والمنقول مدرس، پرجوش واعظ وخطیب، اصلاحِ خلق کا جذبہ رکھنے والے مشفق داعی، صاحب زہد وتقویٰ عالم باعمل، حافظِ قرء اتِ عشرہ، ماہر فنون، تواضع وانکساری کا مجسمہ اور اخلاق عظیمہ کے حامل مسحور کن انسان تھے۔ آپ نے ۳۲؍سال طویل عرصہ ایک ہی شہر اور ایک ہی جامعہ میں خدمت میں صرف کردیا۔ عسر ویسر، تنگی وخوشحالی میں استقامت کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ آخر عمر تک قرآن وسنت کی خدمت کرتے اور تفسیر وحدیث امت تک پہنچاتے واصل حق ہو گئے۔     آپ کی ولادت ۱۹۵۴ء میں ضلع لیہ کے علاقے ’’جمن شاہ‘‘ کے مضافات میں ہوئی۔ والد محترم خیر محمد علما وصلحا کے خادم اور محب ومحبوب تھے۔ قرآن کریم کی تعلیم اپنے ماموں اور بننے والے سسر حافظ باغ علیؒ سے حاصل کی، نیز اپنے برادر اکبر قاری غلام حسن صاحب سے بھی پڑھتے رہے۔ تکمیل قرآن کریم اور گردان جامعہ قاسم العلوم ملتان میں حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی v سے کی،جبکہ قرء اتِ عشرہ دار العلوم کبیر والا میں قاری کریم یخش صاحب v اور حضرت مولانا محمد اشرف شاد صاحب v سے پڑھیں۔ آپ کو قرآن کریم سے تاحیات شغف رہا، فارغ اوقات میں تلاوت کلام اللہ ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ درسگاہ میں سبق سے فارغ ہوکر باقی ماندہ وقت تلاوت کلام اللہ میں صرف کرتے۔ گھر سے مدرسہ آتے جاتے بھی تلاوت کا معمول رہتا، سفر میں تو کئی کئی پارے تلاوت فرمالیتے۔ سفر حرمین میں گھر سے مکہ مکرمہ تک اور واپسی پر مکہ مکرمہ سے گھر تک ایک ایک ختم مکمل فرمایا۔ تقریباً چالیس برس تک اہتمام کے ساتھ تراویح سنائی۔ ضبط قرآن کریم کا یہ عالَم تھا کہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں دوران تراویح ایک غلطی بھی نہیں آتی تھی۔     فارسی کی تعلیم کوٹ ادو میں حاصل کی۔ صرف ونحو کی تعلیم کے لیے دارالعلوم کبیر والا تشریف لے گئے۔ یہ پہلا سال تھا جب حضرت مولانا منظور الحق v نے اپنے تلمیذ ِ رشید حضرت مولانا محمد اشرف شاد v کو اپنا شہرۂ آفاق سبق ’’ارشاد الصرف ، نحو میر اور شرح مائۃ عامل‘‘ حوالے کیا تھا۔ آپ نے اپنے استاذ محترم حضرت مولانا محمد اشرف شادv سے نہایت ہی محنت وعرق ریزی کے ساتھ یہ کتابیں پڑھیں۔ باقی علوم وفنون بھی دارالعلوم کبیر والا ضلع خانیوال ہی میں رہ کر اپنے شہرۂ آفاق جبالِ علم وعمل اساتذہ سے پڑھے۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا مفتی علی محمدv، حضرت مولانا منظور الحقv، حضرت مولانا ظہور الحقv، حضرت مولانا احسان احمد تونسویv، حضرت مولانا غلام یاسین تونسویv، حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی مدظلہ، حضرت مولانا محمد اشرف شادvاور حضرت مولانا مفتی عبد القادرv شامل ہیں۔ ذہانت ولیاقت کے چرچے ابھی تک آپ کے رفقا کی زبانوں پر عام ہیں۔ درجہ رابعہ سے دورۂ حدیث تک دارالعلوم کبیر والاکے شیخ الحدیث مولانا محمد ارشاد احمد کے ہم درس، ہم نوالہ وہم پیالہ اور مذاکرۂ اسباق کے ساتھی رہے۔ فراغت کے بعد ایک سال جامع مسجد غلہ منڈی خانیوال میں تدریس فرمائی، جہاں مولانا عبد الکریم حصاروی خطیب وامام تھے۔ پھر اپنے استاذ محترم مولانا محمد اشرف شادv کی تشکیل پر جامعہ فاروقیہ شجاع آباد تشریف لائے اور تادمِ زیست جامعہ فاروقیہ کے ہوکر رہ گئے۔     آپ ہمارے والد محترم حضرت مولانا رشید احمدv کے رفیق خاص اور معتمد تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی مساعی سے جہاں جامعہ نے بے مثال ترقی کی، وہاں علاقے بھر میں دین کا کام بھی عام ہوا۔ آپ ۱۹۸۲ء سے ہی جامعہ فاروقیہ میں مصروف عمل ہوئے اور شہر میںایک چھوٹی سے مسجد ’’مسجد بلال‘‘ خان گڑھ روڈ میں خطابت ودروس کے فرائض سنبھالے، آپ کی کاوشوں سے یہ مسجد عظیم جامع مسجد بن گئی۔ ایک طرف آپ کی تدریس کا ہر سو چرچا ہوا، طلبہ دور دور سے جامعہ میں آنے لگے تو دوسری جانب شہر بھر میں آپ کے مواعظ کے اثرات پہنچنے لگے، سینکڑوں لوگوں کو توبہ کی توفیق اور اپنے عقائد درست کرنے کا موقع ملا،اس سے آپ شہر کی ہر دلعزیز شخصیت بن گئے، ہرطبقۂ فکر کا آدمی آپ سے محبت کرتا اور آپ کی خدمت میں حاضری دیتا۔     آپ تدریس کے میدان کے عظیم شہسوار تھے۔ صرف ونحو میں اس قدر مہارت تھی کہ مجھ جیسے نالائق طلبہ کو بھی ہمہ قسم مشکل ترین صیغے ازبرکرادیے تھے۔ طلبہ کو صرف ونحو کی تمرین اس طرح کراتے کہ کمزور ترین طالب علم بھی لائق ترین بن جاتا۔ تفسیر قرآن کریم اور فقہ میں بھی ید ِطولیٰ رکھتے تھے۔ آپ نے کریما سے بخاری تک درس نظامی کی جملہ کتب کی متعدد بار تدریس فرمائی۔ اکثر دعا فرماتے کہ حق تعالیٰ خدمت حدیث کی توفیق نصیب فرمائے۔ حق تعالیٰ نے قبولیت نصیب فرمائی، چھ سال قبل بنین کا دورہ حدیث اور بارہ سال قبل بنات کا دورہ حدیث شروع ہوا، آپ کو تدریس حدیث کی خدمت کا خوب موقع ملا۔ آپ کی تدریس کی نمایاں خصوصیت طلبہ کی تربیت واصلاح تھی۔ آپ اکابر کے گرویدہ تھے اور اکابر کی علمی مہارت وتقویٰ کے واقعات آپ کو ازبر تھے۔ طلبہ کو ہمیشہ ان واقعات کے ذریعے علم وعمل پر ابھارتے تھے۔ آپ کی طلبہ پر شفقت غالب تھی، یہی وجہ ہے کہ طلبہ بھی آپ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اخلاق کا یہ عالم تھا کہ شہر بھر میں ہرغریب امیر کے ساتھ برابر تعلق تھا۔ آپ ہر کسی کے دکھ درد کے ساتھی تھے۔ شہر میں رہائش پذیر تھے، چار مرلے کے مختصر مکان میں زندگی گزاری۔ لوگ دن رات مسائل دریافت کرنے اس چھوٹے سے گھر میں آیا کرتے تھے، رات گئے بھی جگا کر مسائل پوچھ لیتے اور آپ خندہ پیشانی سے اسی وقت ان کا مسئلہ حل فرمادیتے۔ عوامی خدمت کا یہ عالم تھا کہ شہر کے اسّی فیصد جنازے لوگ آپ ہی سے پڑھواتے اور اسے سعادت سمجھاجاتا، بایں ہمہ آپ اپنے تدریسی مشاغل میں کمی نہ آنے دیتے۔     حدیث کے ساتھ تفسیر کا اعلیٰ ذوق تھا، ۲۰۰۵ سے ۲۰۱۳ء تک برابر دورہ تفسیر پڑھاتے رہے۔ ملک بھر سے طلبہ کا ایک جم غفیر جامعہ میں تفسیر کے لیے جمع ہوتا، تقریباً ۱۰؍پارے تفسیر کمزوری ونقاہت کے باوجود آپ خود پڑھاتے اور طلبہ کو اکابر کا ذوق منتقل فرماتے۔ فرض شناسی کا یہ عالم تھا کہ سال بھر میں ماسوائے شدید علالت کے کبھی ناغہ نہیں کیا۔ہمیشہ سبق میں وقت سے پہلے تشریف لاتے۔ پورے جامعہ میں سب سے کم ناغے اور گھنٹوں میں سب سے کم منٹوں کی تاخیر آپ ہی کی ہوتی تھی۔ نوجوان اور مدرسہ میں مقیم اساتذہ بھی اتنی جلدی درسگاہ میں نہ پہنچتے جتنی جلدی آپ تشریف لاتے۔ جامعہ کے ساتھ خیر خواہی اور تعاون کا معاملہ بھی دیدنی تھا۔ شہر بھر سے لوگوں کو ترغیب دے کر چندہ اکٹھا کر کے خاموشی سے دفتر میں جمع کروادیتے اور کانوں کان کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔طبیعت میں گریہ وزاری غالب تھی، اکثر بیان ونصیحت کرتے ہوئے آب دیدہ ہوجاتے تھے۔ اساتذۂ کرام اور ان کی اولادوںسے زندگی بھر خدمت وعقیدت کا تعلق رکھا۔     آپ ایک عرصہ سے شوگراور بلڈپریشر کے مریض تھے، گزشتہ ڈیڑھ دوسال سے دل کا عارضہ لاحق ہوگیاتھا۔ اس سال متعددبار کارڈیالوجی ہسپتال ملتان داخل رہے۔ مؤرخہ یکم مئی مطابق یکم رجب جامعہ کی طرف سے اسباق کے اختتام کی تاریخ مقرر تھی۔ وقت مقررہ سے قبل صحیح بخاری، مشکوٰۃ المصابیح کے اسباق مکمل کیے اور ہسپتال داخل ہوگئے۔ مؤرخہ ۴؍مئی کو چھٹی لے کر گھر پہنچے، ۵؍مئی کو طبیعت زیادہ خراب ہوگئی، احقر فوراً حضرت کو ملتان ہسپتال لے گیا، ہسپتال پہنچتے ہی دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، تین مرتبہ اللہ اللہ کہا اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ یہ خبر پھیلتے ہی لوگوں میں غم وصدمے کی کیفیت طاری ہوگئی، ہر آنکھ اشک بار تھی، لوگ دھاڑیں مارمار کرروتے رہے۔ اگلے روز جامعہ فاروقیہ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیس ہزار سے زائد افراد جنازے میں شریک ہوئے۔ شیوخ، علمائے کرام اور طلبہ کے ساتھ عوام الناس بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔     حسب ِوصیت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی v کے قدموں میں دفن ہوئے۔ تدفین میں بھی کرامت کا ظہور ہوا، حضرت قاضی صاحب v کے قدموں میں دوقبروں کے درمیان صرف اڑھائی فٹ کا فاصلہ ہے۔ یہاں گورکن نے قبر بنائی، کھدائی کے بعد یہ قبر وسیع وعریض نظر آرہی تھی۔ آج قبر پہ حاضری ہوئی تو عقل دنگ رہ گئی کہ اتنی مختصر جگہ میں قبر کیسے بن گئی؟ بس حق تعالیٰ نے آپ کی وصیت کی لاج رکھ لی۔ آپ نے سوگواران میں ایک بیوہ، چار بیٹے، چار بیٹیاں اور ہزاروں تلامذہ چھوڑے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین