بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آہ! حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی رحمۃ اللہ علیہ 

آہ! حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی رحمۃ اللہ علیہ 

 

۱۷/ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ/۳/دسمبر۲۰۲۰ء بروز جمعرات عصر کے وقت مخلص ترین مدرس، شیخِ وقت حضرت مولانا مفتی محمد عاصم زکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ  طویل علالت کے بعد خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے اور اپنے متعلقین، تلامذہ ومریدین کو سوگوار وغمگین چھوڑ گئے، ساتھ میں اپنی یادیں بھی چھوڑ گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، نور اللّٰہ مرقدہٗ !
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے والد محترم جناب نواب محمد زکی صاحبؒ کان پور کے باسی تھے۔ کان پور ہندوستان کا وہی شہر ہے جہاں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہٗ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مدرسہ جامع العلوم میں تدریس کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ نواب صاحب مرحوم کو کان پور میں بھی اشاعتِ علومِ اسلامیہ کی مصروفیت تھی اور پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں بھی ’’ایچ ایم سعید کمپنی‘‘ کے نام سے اسی خدمت میں مصروف رہے، بڑی قیمتی اور نادر کتابیں اپنے ادارے سے شائع فرمائیں۔ 
حضرت مفتی صاحبؒ نے بھی ’’مکتبہ غفوریہ عاصمیہ‘‘ قائم فرماکر قیمتی کتابوں کی اشاعت فرمائی۔ نواب صاحب مرحوم، حضرت حکیم الامتؒ کے خلیفہ مجاز، عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی رحمۃ اللہ علیہ  کی خانقاہِ عالیہ کے حاضر باش تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مفتی صاحبؒ کے بڑے بھائی جناب محمد شاہد زکی صاحب زید مجدہٗ نے بتایاتھا کہ: ’’والد صاحب‘‘ کو حضرت ڈاکٹر صاحبؒ سے اجازت حاصل تھی، لیکن والد صاحبؒ نے فہرست میں نام نہیں آنے دیا تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔‘‘  نواب صاحبؒ کے صاحب زادوں میں حضرت مولانا مفتی محمد عاصم صاحب (اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے) نے علم دین حاصل کیا اور پھر اس کی تدریس میں آخر عمر تک منہمک رہے۔ 
اپنی مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں رہ کر حق ادا کردیا۔ حضرت مفتی صاحبؒ ایک کامیاب مدرس، اور ایک کامل درجے کے با نسبت شیخ تھے۔ حضرت مولانا محمد ادریس انصاری  رحمۃ اللہ علیہ  (مصنف: میری نماز، مسلمان خاوند، مسلمان بیوی) سے اصلاحی تعلق رکھتے تھے اور انہی کے مجاز تھے۔
حضرت مفتی صاحبؒ پر مادرِ علمی کے اکابر کو بھر پور اعتماد تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرت مفتی صاحبؒ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے انتظامی امور میں بھی تھے اور شوریٰ کے رکن بھی! حضرت مفتی صاحبؒ سے شناسائی ایک عرصے سے تھی۔ حضرت مفتی صاحبؒ اپنے پریس ’’ایجوکیشنل پریس‘‘ میں دوپہر بارہ بجے کے بعد تشریف لاتے تھے، یہ پریس ہمارے پڑوس میں واقع ہے۔ 
ایک مرتبہ آپ کے پریس میں حضرت مفتی صاحبؒ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ مسائلِ فقہ پر بات شروع ہوگئی۔ ایک مسئلہ حضرت مفتی صاحبؒ نے بیان فرمایا: ’’امام سے نماز میں ارکان کی ادائیگی میں غلطی ہوجائے اور مقتدی لقمہ دے تو امام کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوچے کہ کیا غلطی ہوئی بھی ہے؟ اگر امام‘ مقتدی کے لقمے پر بلا سوچے عمل کرلے گا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔‘‘یہ ایک باریک مسئلہ ہے۔ ہمارے یہاں شاید ہی کوئی سوچتا ہو؟ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت مفتی صاحبؒ کو فقہی جزئیات پر عبور حاصل تھا۔
حرمین شریفین کی حاضری کے لیے حضرت مفتی صاحبؒ ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ مسجد حرام بیت اللہ شریف میں حضرت مفتی صاحبؒ کا معمول ہوتا تھا کہ میزابِ رحمت کے سامنے مطاف میں اپنے کسی بھی ساتھی کو قرآن مجید سناتے تھے۔ آپ قرآن مجید کے پختہ حافظ تھے، نہ صرف حافظ تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں اس کا ذوق بڑی خوبی کے ساتھ رکھا تھا کہ رمضان المبارک میں قرآن مجید اہتمام کے ساتھ سناتے تھے۔ جامعہ علوم اسلامیہ کے دارالحدیث میں حضرت مفتی صاحبؒ کئی سالوں سے دس روزہ تراویح میں قرآن مجید سنانے لگے تھے اور تین پارے روز پڑھتے تھے۔ زندگی کے آخری دوسال اپنی طبیعت کی وجہ دس روز کی بجائے ایک پارہ یومیہ کردیا تھا۔ قرآن مجید ماشاء اللہ بہت خوب پڑھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے لہجہ بہت عمدہ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو ان کے لیے قبر میں ڈھال بنائے، آمین!
ہمارے محلے میں ایک مسجد ’’مسجدِ عائشہؓ    ‘‘ ہے،جو ڈی جے کالج کے احاطے میں ہے۔ ۱۹۹۰ء سے پہلے کی بات ہے کہ کالج کی انتظامیہ نے محلے کی ایک انتظامیہ بنا کے کمیٹی میں شامل کرلیا، یہ محلے کے وہ افراد تھے، جنہوں نے مسجد کی آباد کاری کے لیے جد وجہد کی تھی۔ کالج کے بعض اساتذہ یہ چاہتے تھے کہ ہماری ریٹائرمنٹ کے بعد مسجد غلط ہاتھوں میں نہ جائے، اس لیے کہ کالج کے پرنسپل جو ہندو تھے، وہ مسجد کی کمیٹی کے صدر تھے، اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ کیا کچھ ہوسکتا تھا۔مسجد میں جو امام تھے، کمیٹی نے ان کو کہا کہ آپ کی تنخواہ نئی کمیٹی دے گی، آپ جمعہ بھی پڑھایا کیجئے۔ اس سے پہلے مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تھا۔ امام صاحب نے کہا کہ مجھے جمعہ پڑھانا نہیں آتا، تو انتظامیہ نے مجھے کہا کہ تم جمعہ کا بندوبست کرو، وہ میرا ابتدائی زمانۂ طالب علمی تھا، میں نے جامعہ یوسفیہ بنوریہ میں اپنے اساتذہ کرام سے عرض کیا، انہوں نے فرمایا: اچھا، کچھ کرتے ہیں۔ پھر ایک دن پہلے مجھ سے فرمایا کہ تم کیوں نہیں پڑھاتے؟ میں نے دس منٹ کی تقریر کے لیے کوئی دو گھنٹے کا مطالعہ کیا اور اللہ کے فضل سے اور اساتذہ کرام کی دعاؤں سے جمعہ پڑھادیا۔ 
حضرت مفتی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس وقت مکمل سرپرستی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ یہ مصلیٰ میرے لیے مکتب اور اسکول کا درجہ رکھتا ہے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ہمارے محترم ومخدوم حضرت مولانا شفیق احمد صاحب بستوی مدظلہم (فاضل دارالعلوم دیوبند) مسجد عائشہؓ میں خطیب ہوگئے، جمعہ پڑھانے تشریف لانے لگے، وہ گول مارکیٹ ناظم آباد کی جامع مسجد میں پیش امام تھے اور جہری نمازیں ان کے ذمے تھیں۔ سری نمازیں اس وقت ہمارے مخدوم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی نور اللہ مرقدہٗ پڑھاتے تھے۔ گول مارکیٹ میں جمعہ مولانا اسعد تھانوی پڑھاتے تھے، ان کا محلے والوں سے اختلاف ہوا تو انہوں نے جمعہ پڑھانا چھوڑ دیا۔ مسجد والوں نے حضرت بستوی صاحب پر زور دیا کہ آپ جمعہ پڑھائیں، انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ میں مجبور ہوں، اس لیے مجھے چھٹی دے دی جائے، میں نے عرض کیا کہ چھٹی اس شرط پر ہے کہ آپ وہاں سے جب بھی چھوڑدیں، مسجد عائشہؓ کا منبر آپ کے لیے ہوگا، پہلی ترجیح اسے دیجیے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ: ٹھیک ہے۔ 
اس وقت پھر میں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے عرض کیا کہ جمعہ نماز اپنے ذمے لے لیں، حضرت مفتی صاحبؒ جمعہ وہیں پڑھتے تھے، حضرت مفتی صاحبؒ نے بہت اصرار کے بعد میری درخواست کو قبول فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ صرف خطبہ نماز میرے ذمے ہوگی، بیان تجھے ہی کرناہے۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ حضرت! آپ کی موجودگی میں؟ فرمایاکہ: مجھے بیان کرنا نہیں آتا اور اگر کچھ جھجھک ہے تو دیر سے آیا کروں گا، تم بات پوری کر لینا۔ میں دیکھتا تھا کہ پھر بھی آدھے بیان پر تشریف لے آتے تھے اور پس دیوار بیٹھتے تھے۔ کئی جمعوں بعد میں نے پھر اصرار کیا کہ حضرت ہی بیان فرمایا کریں، فرمانے لگے: میاں! لوگ تم سے مانوس ہیں، بات سنتے ہیں، تو میری کیا ضرورت ہے؟ یہ تم نے ہی کرناہے اور زیادہ زور کروگے تو یہ بھی چھوڑ دوں گا۔ یہ یہ بزرگانہ دھمکی کام کر گئی اور میں خاموش ہوگیا، لیکن حضرت مفتی صاحبؒ برابر حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے۔
پھر جب حضرت بستوی صاحب مدظلہ نے گول مارکیٹ کو خیر باد کہا تو حسبِ وعدہ مسجد عائشہؓ واپس آگئے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کی مصروفیات میں مزید اضافہ ہوگیا تو انہوں نے پریس میں آنا کم کردیا۔
ایک مرتبہ حضرت مفتی صاحبؒ حج پر تشریف لے جارہے تھے، اگلے دن غالباً جمعہ تھا، میری ملاقات نہ ہوسکی تھی کہ اچانک فون آیا اور فرمایا کہ میں معذرت چاہتاہوں کہ جمعہ کی چھٹی نہ لے سکا۔ میں نے عرض کیا کہ: حضرت! آپ تو اس سے بری ہیں، فرمانے لگے: نہیں! بات یہ ہے کہ پہلے سے مجھے کہنا چاہیے تھا، تاکہ وقت پر مناسب بندوبست ہوجائے۔
یہ حضرت مفتی صاحبؒ کا بڑا پن اور انتظامی ذمہ داری کا احساس تھا، جو آج عنقا ہورہا ہے۔ بہرحال! اب وہ دنیا سے ایسی جگہ تشریف لے گئے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے حضرت مفتی صاحبؒ کی خدماتِ دین کے واسطے سے رحم وکرم کا معاملہ فرمائے اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین