بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آزر

آزر

’’یہ مقالہ جامعہ کے سابق استاذِ حدیث ، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور ماہنامہ بینات کے مدیرِ مسؤل حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی vنے ’’ادارۂ معارفِ اسلامیہ لاہور‘‘ کے تیسرے اجلاس منعقدہ دہلی میں ندوۃ المصنفین دہلی کے نمائندہ کی حیثیت سے پڑھا تھا، پھر اپریل۱۹۳۹ء میں ماہنامہ ’’برہان‘‘ دہلی میں اس مضمون کا ابتدائی حصہ شائع ہوا، حضرتؒ اس موضوع پر تفصیلی تحریر لکھنا چاہتے تھے، ہمیں جو حصہ ’’برہان‘‘سے دستیاب ہوا، اس کی اِفادیت کے پیش نظر تقریباً ۷۷؍ سال بعد ماہنامہ ’’بینات‘‘ قندِ مکرر کے طور پر اُسے شائع کررہا ہے ۔‘‘   (ادارہ)

حضرت ابراہیم m کے باپ کا نام تورات میں تارح یا تارخ ہے اور قرآن کریم نے اُن کا نام آزر بتلایا ہے: ’’وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لِأَبِیْہِ آزَرَ الخ۔‘‘ (الانعام) یہودی ذہنیت کے لیے قرآن پر نکتہ چینی کرنے کا یہ موقع ہاتھ آگیا، چنانچہ ’’انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘‘ کا ایک مقالہ نگار لفظِ ’’آزر‘‘ کے تحت میں لکھتا ہے: ’’قرآن میں ابراہیم ؑ کے باپ کا نام ’’آزر‘‘ آیا ہے، مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درست نہیں، کیونکہ ابراہیم ؑکے باپ کا نام آزر سوائے قرآن کے اور کہیں نہیں پایا جاتا، اس کے برعکس تارح یا تارخ خود مسلمان مفسرین ومورخین کی روایات میں بھی موجود ہے۔ اسی لیے علماء اسلام قرآن اور تورات کے بیان میں موافقت پیدا کرنے کے لیے ایسی ایسی کمزور تاویلات کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘ مقالہ نگار کی اس تنقید کے تین جزو ہیں: ۱- ’’آزر بجز قرآن کے اور کہیں نہیں ملتا۔‘‘ اس کے متعلق گزارش ہے کہ اگر آزر بجز قرآن کریم کے اور کہیں نہیں ملتا تو تارح یا تارخ بھی بجز اسفارِ تورات کے اور کہیں دستیاب نہیں ہوتا۔ اگر یہ تفرد وجۂ غلط ہے تو تورات بھی اس سے خالی نہیں۔ اگر یہود کو یہ حق ہے کہ وہ تورات کے مقابلہ میں قرآن کی تغلیط کریں تو اسلامیین کو ان سے زیادہ اس تغلیط کا استحقاق حاصل ہے۔ ثبوت اور قطعیت کے لحاظ سے قرآن کریم کا مقام اس قدر رفیع ہے کہ کوئی آسمانی کتاب اس کی سہیم وعدیل نہیں، جو تواتر اور حفظِ صدور قرآن کریم کو حاصل ہے‘ کیا تورات بھی اس کے کسی حصہ سے بہرہ مند ہے؟! تورات تحریفاتِ یہود کا تختۂ مشق رہی ہے، قرآن کا ایک شوشہ بھی وحی آسمانی سے مختلف نہیں، لہٰذا مسیحیین کو اس تفرد کی وجہ سے قرآن پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے۔ ۲-’’تارح یا تارخ اسلامی مفسرین ومؤرخین کی روایات میں بھی موجود ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ :’’اے بادصبا! ایں ہمہ آوردۂ تست‘‘ ان روایات کا ماخذ ومرجع صرف تورات ہے، اس کو بے احتیاطی کہیے یا آسمانی کتاب کا احترام کہ مفسرین ومورخینِ اسلام آزر کے ساتھ بصیغۂ تمریض یا بحوالۂ تورات تارخ بھی ذکر کردیتے ہیں، یہ اس روا داری کا صلہ ہے جو مسیحیین کی جانب سے ملا ہے، اچھا ہوتا کہ یہ مورخین ومفسرین قرآن کی تصریح پر قائم رہتے اور تارخ کا سرے سے انکار کردیتے، جیسے مسیحیین نے کیا۔ ۳-’’مؤرخین ومفسرینِ اسلام قرآن کریم وتورات میں موافقت پیدا کرنے کے لیے کمزور تاویلات تلاش کرنے پر مجبور ہوئے۔‘‘ کس قدر پست ذہنیت کا مظاہرہ ہے کہ مؤرخین ومفسرینِ اسلام تو قرآن کریم اور اسفارِ تورات میں وجۂ توفیق تلاش کریں اور مسیحیین ان وجوہ کو تحاویل سے تعبیر کریں اور ان کے اس فعل کو اضطرار سے۔ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات میں اسی کتاب کا ایک اور مقالہ نگار لکھتا ہے: ’’قرآن میں آیا ہے کہ ابراہیم ’’آزر‘‘ کے بیٹے ہیں، مگر تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام ابراہیم ؑکے خادم ’’یعازر‘‘ سے ماخوذ ہے۔‘‘ گویا قرآن کریم حضرت ابراہیم m کے خادم ’’یعازر‘‘ کے نام کو ان کے باپ کا نام قرار دے کر العیاذ باللہ ایک صاف اورصریح غلطی کا ارتکاب کررہا ہے اور اسفارِ تورات اس کی تصحیح کرتی ہیں۔ کیا مسیحیین کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے کہ خادمِ ابراہیم ؑ کا نام ’’یعازر‘‘ تھا؟ عہد جدید یا عہدِ عتیق میں کہیں ’’یعازر‘‘ نامی ابراہیم m کا کوئی خادم مذکور ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو پھر قرآن جیسی قطعی اور متواتر کتابِ آسمانی کی تصریح کے مقابلہ پر ایسے بے سرو پا مآخذ تجویز کرنا مقامِ تحقیق سے کس قدر گری ہوئی چیز ہے۔ اسی کتاب کا ایک مقالہ نگار ’’آزر‘‘ کے تحت میں اسلامی روایات کی تردید کرنے کے بعد لکھتا ہے: ’’مراتشی (Maracci) کہتا ہے کہ: ’’آزر‘‘ لفظ ’’Aoaq‘‘ کی بگڑی ہوئی صورت ہے جو یوزیبوس کی ’’تاریخ کنیسہ‘‘ میں موجود ہے، مگر یوزیبوس اور اس کے متبعین نے وہ فقرہ نہیں بتلایا جس میں یہ لفظ آیا ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بہرحال کچھ بھی ہو ’’مراتشی‘‘ کا قول بہت بعید ہے۔‘‘ جس طرح ’’مراتشی‘‘ کا بیان کردہ ماخذِ اشتقاق عدمِ ثبوت کی بنا پر صواب سے بعید ہے، اسی طرح ’’یعازر‘‘ والا ماخذ بھی ثبوت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے ساقط الاعتبار ہونا چاہیے۔ یوزیبوس کی ’’تاریخ کنیسہ‘‘ میں اگر کوئی ایسا فقرہ نہیں جس میں یہ نام آیا ہو تو کتابِ مقدس میں بھی کوئی ایسا فقرہ نہیں جس میں ابراہیم علیہ السلام کے خادم کا نام ’’یعازر‘‘ آیا ہو۔ بہرصورت اس مقام پر اس مقالہ نگار نے اس خیال کی تائید کردی جو عام طور پر قائم ہوچکا ہے کہ ریسرچ کے پردہ میں اسلامی روایات کی تنقیص مسیحی مصنفین کا شعار بلکہ تبلیغی مشن ہے۔  ’’آزر‘‘     اس لفظ کی تحقیق کے سلسلہ میں ائمہ لغت کے دو قول ہیں: ۱- ’’آزَرُ‘‘ بروزن ’’أَفْعَلُ‘‘ اسم تفضیل اور ’’أَزْرٌ‘‘بمعنی قوت وشدت سے ماخوذ ہے اور منع صرف کی وجہ وصفیت وعلمیت ہے اور عربی میں ’’آزر‘‘ عبرانی میں ’’تارخ‘‘ دونوں ابراہیم m کے باپ کے نام ہیں، جس طرح یعقوب واسرائیل ایک ہی شخص کے دو نام ہیں۔ ۲- ’’آزَرُ‘‘ بروزن ’’فَاعَل‘‘ تارَخ، فالغ شالخ وغیرہ کی طرح عبرانی لفظ ہے اور اس کے منع صرف کی وجہ عجمی اور علمیت ہے۔ علامہ زمخشری فرماتے ہیں:  ’’والأقرب أن یکون آزَر فاعَل کعابر وشالخ وفالغ فعلٰی ہٰذا ہو ممنوع من الصرف للعلمیۃ والعُجمٰی۔‘‘ اور اس صورت میں آزر، ’’تارخ‘‘ کی تعریب ہے، جس طرح اسحاق ’’اضحک‘‘ یا ’’اصحاق‘‘ کا معرب ہے اور عیسیٰ ’’ایشوع‘‘ کا۔ لسانیات وفیلالوجی کا مسئلہ ہے کہ ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں جانے کے بعد اپنی اصلی صورت پر قائم نہیں رہتا، بالخصوص لغتِ عرب کہ غیر زبان کا کوئی لفظ یا اسم عربی میں آکر اصلی حالت پر باقی رہ ہی نہیں سکتا۔ تعریب کا کوئی مقررہ ضابطہ نہیں، بعض الفاظ واسماء میں خفیف سا تغیر ہوتا ہے، بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ کس لفظ کی تعریب ہے، جیسے ابراہیم وابراہام اور ہارون وہاران اور بعض الفاظ تعریب کے قالب میں ڈھل کر کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں، مادہ اور صورت دونوں بدل کر ایک نئی صورت اختیار کرلیتے ہیں، جیسے اسحاق اور لفظ فلسفہ کہ یونانی کے لفظ ’’فیلاسوف‘‘ سے اور ’’زط‘‘ کہ ہندی کے لفظ جاٹ اور جڈ سے معرب ہے۔ لسانیات کا مطالعہ اس مسئلہ میں پوری رہنمائی کرتا ہے۔ لہٰذا ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ آزر تارخ کی تعریب ہے اورقرآن وتورات میں کوئی اختلاف نہیں، حریفوں کو نکتہ چینی اور خوردہ گیری کرنی تھی، ورنہ بات کچھ نہ تھی: اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا! ہم اپنی اس رائے کی تائید وسند میں امام راغبؒ کا قول پیش کردینا کافی سمجھتے ہیں جو لغت اور غریب القرآن کے مسلَّم اور یگانہ امام ہیں: ’’ کان اسم أبیہ تارخ ، فعرب فجعل آزر۔‘‘ ایک اور نکتہ بھی اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، وہ یہ کہ آزر اور تارخ کے معنی عبرانی میں بالکل ملتے جلتے ہیں، چنانچہ ائمہ لغت آزر کے معنی عبرانی میں معوج، خاطی، ضال وغیرہ بتلاتے ہیں اور تارخ کے معنی متکاسل، گویاہر دو لفظ عیب وخطا کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں، اس لیے یقین ہوتا ہے کہ فی الحقیقت آزر تارخ کا معرب ہے۔ ان مورخین ومحققین سے زیادہ ہمیں اپنے ان غیر محتاط مفسرین ومورخین سے شکایت ہے جنہوں نے اسفارِ تورات کے بیان سے مرعوب ہوکر ابراہیم m کے باپ کا نام تارخ یا تارح تسلیم کرلیا اور قرآن کی تغلیط پر مہرِ تصدیق ثبت کردی، مسیحی محققین انہی کی روایات کو تورات کی تائید وحمایت میں پیش کررہے ہیں: من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد کس قدر حیرت و استعجاب کا مقام ہے کہ قرآن کریم کے صاف اور صریح قطعی بیان میں تو تاویلات شروع کردیں اور تورات جو تحریفاتِ یہود کا تختۂ مشق ہے جس کے متعلق قرآن ببانگ دہل ’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ‘‘ کا اعلان کررہا ہے، اس کے بیان کو ہو بہو تسلیم کرلیا، لغت کے مشہور امام زجاجؒ اور فرائؒ کہتے ہیں:’’لیس بین النسابین والمورخین اختلاف فی کون اسمہٖ تارخ أو تارح۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’تمام علماء انساب ومورخین اس پر متفق ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تارخ یا تارح تھا۔‘‘ مشہور امام تفسیر مجاہدؒ کہتے ہیں: ’’آزر لم یکن بأبیہ ولکنہٗ اسمُ صنم۔‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’آزر ابراہیم ؑکے باپ نہ تھے، بلکہ یہ بت کا نام ہے۔‘‘ سدّیؒ فرماتے ہیں: ’’اسم أبیہ التارح واسم الصنم آزر‘‘ ۔ ترجمہ:’’ابراہیم ؑکے باپ کا نام تارح تھا اور بت کا آزر۔‘‘ حالانکہ ان اقوال کی کوئی سند نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کوئی مرفوع روایت ثابت ہے اور نہ قدماء عرب اور علماء انساب سے، صرف تورات کا بیان ہے اور بس، دراصل یہ کعب احبار اور وہب بن منبہ ایسے علماء اہل کتاب کی عنایت ہے کہ خود بھی اسلام میں آئے اور اپنے ساتھ اسی قسم کی بہت سی بے سروپا روایات بھی لیتے آئے۔ امام رازیؒ’’ کبیر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وأما قولہم أجمع النسابون علٰی أن اسمہٗ کان تارخ ، فنقول ہذا ضعیف لأن ذلک الإجماعَ إنما حصل لأن بعضَہم یقلد بعضا وبالأخرۃ یرجع ذٰلک الإجماع إلٰی قول الواحد والاثنین مثلَ قول کعب ووہب وغیرہما وربما تعلقوا بما یجدون من أخبار الیہود والنصارٰی ولاعبرۃَ بذٰلک فی مقابلۃ صریحِ القرآن۔‘‘    (تفسیر کبیر) ترجمہ:… ’’ان حضرات کا یہ فرمانا کہ علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تارخ تھا‘ ہمارے خیال میں درخورِ اعتناء نہیں، کیونکہ اس اجماع کا راز ایک کورا نہ تقلید میں مضمر ہے، پایان کار اس اجماع کی بنیاد کعب اور وہب جیسے افراد کے بیان پر ہے جو یہود ونصاریٰ سے سنی سنائی باتیں بلا تحقیق نقل کردیتے ہیں، جن کی قرآن کی صریح نصوص کے مقابلہ میں کوئی قدر وقیمت نہیں۔‘‘ ان مورخین ومفسرین کی اس کورانہ تقلید اور غیر محتاط علماء اہل کتاب کی اس سعی نامشکور سے اسلامی روایات کو یہ نقصان پہنچا کہ آج ان مستشرقین کو نصوصِ قرآن کے متعلق اس دریدہ دہنی کی ہمت ہوئی، نہ یہ حضرات قرآن کی قطعی اور صریح نصوص کو چھوڑ کر اسرائیلیات کی اس خرافات کو نقل کرتے، نہ ان گستاخوں کو اپنی ہرزہ سرائی کے لیے ان کی تائید وحمایت میسر آتی اور لطف یہ ہے کہ علماء راسخین ابتداء ہی سے نصوصِ قرآنی پر سختی کے ساتھ قائم ہیں، امام بخاری علیہ الرحمۃ تاریخ کبیر میں ابراہیم m کو آزر کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’واللّٰہ سماہ آزر وإن کان عند النسابین والمورخین اسمہٗ تارخ لیعرف بذلک۔‘‘ ترجمہ:…’’مورخین ونسابین اگرچہ ان کا نام تارخ بتلاتے ہیں، مگر اللہ پاک نے ان کو آزر کے نام سے موسوم کیا، تاکہ اسی نام سے وہ پہچانے جائیں۔‘‘ سید رشید رضا مصری علیہ الرحمۃ تفسیر ’’المنار‘‘ میں امام بخاریؒ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’فقد اعتمد أن آزر ہو اسمہٗ عند اللّٰہ أی فی کتابہٖ فإن أمکن الجمع بین القولین فبہا وإلارددنا أقوالَ المورخین وسفر التکوین لأنہٗ لیس حجۃ عندنا ، حتی نعتد بالتعارض بینہٗ وبین ظواہر القرآن بل القرآن ہو المہیمن علی ما قبلہٗ نصدق ماصدقہٗ و نکذب ما کذبہٗ ونلتزم الوقف فیما سکت عنہ حتی یدل علیہ دلیل۔‘‘ ترجمہ:…’’دیکھیے! امام بخاریؒ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ عند اللہ ابراہیم mکے باپ کا نام آزر ہے، اب اگر کوئی صورت رفع اختلاف کی ہو تو فبہا، ورنہ ہم بلاتامل نصوصِ قرآن کے مقابلہ میں مورخین اور سفر تکوین کے بیان کو رد کردیںگے، کیونکہ یہ ہمارے نزدیک ان معتدبہ دلائل میں سے نہیں جو نصوصِ قرآن کے مقابلہ پر آسکیں، بلکہ قرآن ہی کتب سابقہ اور تاریخ کے لیے مصدق اور شاہد عدل ہے، جن چیزوں کی قرآن نے تصدیق کی وہ مقبول ہیں اور جن کی تردید کی ہے وہ مردود اور جن میں سکوت کیا ہے، ان میں ہم بھی توقف کریں گے، یہاں تک کہ کوئی دلیل اس پر قائم ہوجائے۔‘‘ امام رازیؒ مفسرین کی وہ ہی تاویلات نقل فرمانے کے بعد جن کی مدونینِ ’’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘‘ تضحیک کررہے ہیں، فرماتے ہیں: ’’واعلم أن ہذہ التکلفات إنما یجب المصیر إلیہا لو دل دلیل باہر علٰی أن والدَ ابراہیم ما کان اسمہٗ آزر وہذا الدلیل لم یوجد ألبتۃ ، فأی حاجۃ تحملنا علی ہذہ التاویلات والدلیل القوی علٰی صحتہٖ أن الیہود والنصارٰی لم یکذبوہ وقتَ نزولِ القرآن مع شدۃِ حرصہم فی تکذیبہٖ۔‘‘ ترجمہ:… ’’یاد رہے ان تکلفات کو اختیار کرنے کی ضرورت اس وقت ہے جبکہ کوئی صاف وصریح دلیل اس پر قائم ہوجائے کہ ابراہیمm کے باپ کا نام آزر نہ تھا، حالانکہ اب تک کوئی اس قسم کی دلیل قائم نہیں ہوئی، پھر ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ان تاویلات کو اختیار کریں۔ بیانِ قرآن کی صحت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت یہود ونصاریٰ نے اس کی تردید نہ کی، حالانکہ وہ تکذیب وتردیدِ قرآن پر بے حد حریص تھے۔‘‘ لہٰذا ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ابراہیم m کے باپ کا نام آزر تھا اور تورات کا بیان اگر تحریف یہود پر مبنی نہیں تو پھر اس کو قرآن حکیم کے موافق بنانے کے لیے کوئی اور توجیہ تلاش کیجئے، خواہ یہ کہیے کہ آزر اور تارخ دونوں نام تھے، جس طرح یعقوب واسرائیل دونوں ایک ہی شخص کے نام تھے۔ یا آزر نام تھا اور تارخ بمعنی متکاسل لقب، تورات میں لقب مذکور ہے، قرآن نے اصلی نام سے دنیا کو آگاہ کیا۔ یا اس کے برعکس تارخ نام تھا اور آزر بمعنی مخطی لقب اور قرآن حکیم نے ایک خطاکار کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کے لیے ایسے عنوان سے خطاب کیا جو اس کی خطا کاری پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ یا آزر اس بڑے بت کا نام تھا جس کا وہ پرستار تھا اور قرآن حکیم نے بت پرستی کی لعنت کو نمایاں کرنے کے لیے اصلی نام کے بجائے آزر کے لقب سے یاد کیا جو بت پرستی کے طفیل میں انہیں ملاتھا۔ یا آزر کو تارخ کا معرب کہیے، جیساکہ امام راغبؒ کی رائے ہے اور یہی ہماری تحقیق ہے۔ بہرحال یہ وجوہِ توفیق اپنی اپنی جگہ پر لائق قبول سہی، مگر ہمیں ان کی ضرورت نہیں، قرآن کا فیصلہ آخری اور ناطق ہے، تورات وانجیل کو قرآن کے مطابق کیا جائے گا، قرآن کو اُن کے موافق نہیں بنایا جاسکتا ہے، وہ اپنی جگہ بالکل محفوظ ہے۔ ’’وَإِنَّہٗ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ لَایَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ۔‘‘ ترجمہ:…’’قرآن ایک کتاب عزیز ہے، جس میں پس وپیش کسی جہت سے بھی باطل کا گزر نہیں، وہ دانا وستودہ خدا کی اتاری ہوئی کتاب ہے۔‘‘ ہمارے تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی جب ہم اپنے مفسرین کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ آزر ابراہیم m کے چچا تھے، مجازاً ان کو باپ کہہ دیا گیا ہے، جس طرح حضرت اسماعیل m کو آباء یعقوب میں شمار کیاگیاہے: ’’نَعْبُدُ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ آبَائِ کَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ۔‘‘ ترجمہ:…’’ہم تیرے خدا کی اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے خدا کی عبادت کریں گے۔‘‘ حالانکہ اس مجاز کے لیے ان حضرات کے پاس کوئی قرینہ نہیں اور ’’وَإِلٰہَ آبَائِ کَ‘‘ میں ’’آبائ‘‘ کی جمعیت خود اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں حقیقی باپ مراد نہیں کہ وہ ایک ہی ہوتا ہے۔ ’’آبائ‘‘ کو جب بھی جمع لایاجاتاہے تو اس سے باپ، دادا، چچا، تایا مراد ہوتے ہیں، کیا’’ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لِأَبِیْہِ‘‘ میں بھی یہ حضرات کوئی اس قسم کا قرینۂ مجاز پیش کرسکتے ہیں؟ پھر بلاکسی قرینہ اور ثبوت کے کس طرح اور کیوں مان لیا جائے کہ یہاں ’’أَبِیْہِ‘‘ سے چچا مراد ہیں، نہ اس کے لیے کوئی مرفوع حدیث ہے، نہ تاریخی روایت، نہ علماء اَنساب کی کوئی تصریح، نہ تورات کا کوئی بیان اور نہ صرف اس ایک مقام پر بلکہ قرآن میں جہاں بھی ’’لِأَبِیْہِ‘‘ آیا ہے، اس سے یہی فرضی چچا مراد لینا اور تمام کفر وشرک اور بت پرستی وکواکب پرستی اسی فرضی چچا کے سر لگا کر حضرت ابراہیمm کے باپ کو اس سے بری ثابت کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔ قرآن حکیم تو کھلے لفظوں میں ابراہیم m کے باپ کے کفر اور عدو اللہ ہونے کا اعلان کرے، ابراہیم m اپنے کافر باپ سے براء ت اور بیزاری کا اظہار فرمائیں، بخاری ومسلم کی صحیح احادیث ا س کی تائید کریں، اور یہ ہمارے مفسرین اُسے مومن وموحد ثابت کریں۔ بسوخت عقل زِ حیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست ’’وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِیْمَ لِأَبِیْہِ إِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَا إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ أَنَّہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّئَ مِنْہُ إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیْمٌ۔‘‘ ترجمہ:…’’ابراہیم m کا اپنے باپ کی مغفرت چاہنا صرف ایک وعدہ کی بنا پر تھا جو انہوں نے ان سے کیا تھا، جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزاری کا اعلان کردیا، بیشک ابراہیم ؑبہت نرم دل اور بردبار ہیں۔‘‘ یہ تمام سعی نا محمود صرف اس لیے ہے کہ آدم m سے لے کر عبد المطلب تک تمام اجداد نبی k کو مومن وموحد ثابت کریں، حالانکہ امام رازیv تصریح فرما رہے ہیں کہ یہ شیعہ کا عقیدہ ہے، آباء و اجداد نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایمان کے سلسلہ میں ایک عجیب استدلال پیش کیا جاتا ہے، علامہ آلوسیv روح المعانی میں فرماتے ہیں: ’’والذی عول علیہ الجم الغفیر من أہل السنۃ أن آزر لم یکن والد إبراہیم علیہ السلام وادعوا أنہٗ لیس فی آباء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کافر أصلا لقولہٖ علیہ الصلوٰۃ والسلام لم أزل أنقل من أصلاب الطاہرین إلٰی أرحام الطاہرات والمشرکون نجس وتخصیص الطہارۃ بالطہارۃ من السفاح، لادلیلَ لہٗ والعبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب والقول بأن ذٰلک قول الشیعۃ کما ادعاہ الرازیؒ ناشئ من قلۃ التتبع وأکثر ہؤلاء علٰی أن آزر اسم لعم إبراہیم علیہ السلام۔‘‘ ترجمہ:…’’علماء اہل سنت کا جم غفیر جس پر اعتماد کرتا ہے وہ یہ ہے کہ آزر ابراہیم k کے باپ نہ تھے اور اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ نبی k کے آباء کرام میں قطعاً کوئی کافر نہ تھا، کیونکہ حضور k فرماتے ہیں کہ: میں ہمیشہ پاک پشتوں سے پاک ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہاہوں اور مشرکین نجس ہیں اور طہارت کو زنا کی پاکی کے ساتھ مخصوص کرنا بلادلیل ہے، عام الفاظ کا اعتبار ہوا کرتا ہے، نہ کہ خصوصِ اسباب کا اور یہ کہنا کہ یہ شیعہ کا قول ہے، جیساکہ رازی مدعی ہیں‘ قلتِ تتبع کا نتیجہ ہے۔ باقی اکثرعلماء کی رائے یہ ہے کہ آزر ابراہیم k کے چچا کا نام ہے۔‘‘ علامہ آلوسیؒ جیسے محقق کے اس بیان کو دیکھ کر ’’حبک الشیء یعمی ویصم‘‘ والا مقولہ یاد آجاتا ہے، اس استدلال میں سب سے زیادہ وزنی چیز حضور k کی حدیث ہے اور یہ کہ طہارت سے طہارتِ ایمانی مراد ہے۔ علامہ آلوسیv اگر حدیث کے پورے الفاظ سامنے رکھتے تو اُنہیں اس استدلال کی جرأت نہ ہوتی، ابونعیمؒ نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں حضرت ابن عباسr کی یہ روایت ذیل کے الفاظ میں نقل کی ہے اور یہی اس روایت کے اصل الفاظ ہیں: ’’لم یلتق أبوای فی سفاح لم یزل اللّٰہ عز وجل ینقلنی من أصلاب طیبۃ إلٰی أرحامٍ طاہرۃٍ صافیًا مہذبًا لاتنشعب شعبتان إلا کنتُ فی خیرہما۔‘‘ ترجمہ:…’’میرے والدین کبھی زنا سے ملوث نہیں ہوئے، اللہ عز وجل مجھے پاکیزہ پشتوں سے پاک ارحام کی جانب منتقل کرتا رہا، صاف اور شستہ نکھرا ہوا، جہاں کہیں سلسلۂ نسب دو شاخوں میں تقسیم ہوا میں ان میں سے بہتر شاخ میں رہا۔‘‘ اس روایت میں ’’طہارت من السفاح‘‘ کی تصریح ہے، اب یہاں طہارت کا عموم نہ رہا، بلکہ بنصِ حدیث تخصیص ہوگی اور معلوم ہوگیا کہ طہارت سے مراد طہارتِ ایمانی نہیں، بلکہ نظافتِ نسب، صفاء طینت، تہذیبِ اخلاق اور عام بشری خیریت وشرافت مراد ہے اور یہ بالکل صحیح ہے، ذخیرۂ احادیث اس کی تائید کرتا ہے، تاریخ اور علم الانساب اس کا شاہد ہے۔ باقی رہا اثباتِ ایمان وتوحید سو ’’دونہٗ خرط القتاد‘‘ ایسی روایات ضرور مل جائیں گی جن سے کفر کا پتہ چلتا ہے اور ابراہیم m کے والد کا کفر تو قرآن وحدیث کی قطعی نصوص سے ثابت ہے۔ امام رازیv ہی تنہا اس عقیدہ کو شیعہ کی جانب منسوب نہیں کرتے، ابوحیان توحیدی بھی تفسیر بحر محیط میں اس عقیدہ کو شیعہ کی طرف منسوب کرتا ہے: ’’وقیل إن آزر عَمَّ إبراہیم علیہ السلام ولیس اسم أبیہ وہو قول الشیعۃ یزعمون أن آباء الأنبیاء لایکونون کفارا  وظواہر القرآن ترد علیہم لاسیما محاورۃ إبراہیم مع أبیہ فی غیر ما آیۃ۔‘‘ ترجمہ:…’’ کہا گیا ہے کہ آزر ابراہیم m کے چچا کا نام ہے، باپ کا نام نہیں ہے۔ حالانکہ یہ شیعہ کا عقیدہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ انبیاء oکے آباء و اجداد کافر نہیں ہوتے۔ قرآن کی صاف اور صریح آیات ان کی تردید کرتی ہیں، بالخصوص ابراہیم m اور ان کے باپ کی گفتگو متعدد آیات میں ہے۔‘‘ بہرحال علامہ کا استدلال اور نظریہ اس مسئلہ میں آہنی بنیاد کا محتاج ہے جو اُسے میسر نہیں آسکتی، چنانچہ سورۂ ممتحنہ میں علامہ نے خود بھی اس سے رجوع کرلیا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن کا بیان اپنی جگہ قطعی ہے، ابراہیم m کے باپ کا نام آزر تھا اور کافر وعدو اللہ تھا۔ ابراہیم m نے اس سے بیزاری کا اعلان کیا ہے اور آزر تارخ کی تعریب ہے۔ مدونین ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ نے سطورِ بالا لکھ کر قرآن حکیم کے خلاف اپنی جارحانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ (تحقیق کے بعض گوشے ابھی تشنہ ہیں، کسی دوسری فرصت میں ان شاء اللہ! اس کی تکمیل کی جائے گی) ۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین