بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

آزادی مارچ --- تحریکِ آزادی کا تسلسل!

آزادی مارچ --- تحریکِ آزادی کا تسلسل!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

برصغیرپر جب انگریز نے تسلُّط جمالیا تو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، آپ کے مرید سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہما نے اس فتوے کی روشنی میں علمِ جہاد بلند کیا اور بالاکوٹ کے مقام پر دونوں نے شہادت پائی۔ اس کے بعد ۱۸۵۷ء میں حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حافظ ضامن شہید   رحمۃ اللہ علیہم نے استخلاصِ وطن کے لیے انگریز کے خلاف جہاد کیا۔ اس کے بعد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رُفقائے کار نے تحریکِ ریشمی رومال چلائی، جس کے نتیجے میں ہندوستان ، پاکستان کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی اور ممالک کو بھی آزادی میسر آئی۔
تمام باشعور لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان دو قومی نظریہ کے تحت وجود میں آیا اور پاکستان کی بنیاد مبیَّنہ اسلامی نظریہ پر رکھی گئی، بانیانِ پاکستان نے اسی نظریہ کے تحت تحریکِ پاکستان چلائی، لیکن ۷۲ سال گزرنے کے باوجود عملاً اسلام کو یہاں نافذ نہیں کیا گیا، بلکہ ملک چلانے والوں نے بڑی عیاری ومکاری اور دسیسہ کاری سے اس ملک کو سیکولر اور لادین ریاست باور کرانے کی راہیں اور جہتیں ڈھونڈنے اور تلاش کرنے میں اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کرتے رہے، جس کے نتیجے میں نہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوا اور نہ ہی قوم کو صحیح معنی میں آزادی کا کوئی ثمرہ ملا، بلکہ اب ہمارا ملک صرف اس کام کے لیے رہ گیا ہے کہ باہر سے کوئی حکم آئے اور ہمارے حکمران ومقتدر قوتیں اسے پاکستانی قوم پر نافذ کردیں اور بیرونی قوتوں کے اشاروں اور ان کے مہروں کے ذریعہ یہاں حکومتیں بننے لگیں اور عہدے ملنے لگے۔ اس لحاظ سے پورا ملک اور پوری قوم استعمار کے ہاتھوں یرغمال نظر آنے لگی اور آزادی کے ثمرات کو ترسنے لگی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ۲۵ جولائی ۲۰۱۸ء کو پاکستان میں پورے ملک میں فوج کی نگرانی میں بظاہر قومی وصوبائی الیکشن ہوئے۔ متحدہ اپوزیشن نے متفقہ طور پر انتخابات کو دھاندلی زدہ قراردیا، جس کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام نے متحدہ اپوزیشن کو رائے دی کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں حلف نہ اُٹھائے جائیں، بلکہ مقتدر قوتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ دوبارہ صاف شفاف الیکشن کرائیں، لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کے کہنے پر ان کو اپنا موقف واپس لینا پڑا، لیکن جمعیت اپوزیشن کا یہ بیانیہ لے کر کہ انتخابات میں سخت ترین دھاندلی ہوئی ہے عوام میں چلی گئی، ادھر انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے کہ جن سے واضح لگتا تھا کہ یہ اقدامات آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی، ملکی وحدت وسالمیت اور پاکستان کی آزادی وخودمختاری کے منافی ہیں، مثلاً: اس حکومت کے آتے ہی قادیانیوں کا پورے ملک میں فعال ہونا، اور میاں عاطف قادیانی اور اس کی قادیانی ٹیم کو اقتصادی کونسل کا رکن بنانے کی کوشش کرنا، آسیہ ملعونہ جس کو دو عدالتوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وگستاخی کی بناپر ملکی قانون کے تحت سزائے موت سنائی تھی، سپریم کورٹ سے اس کو آزاد کراکر باعزت طورپر باہر بھجوانا، اور امریکہ میں جاکر جناب وزیراعظم کا یہ کہنا کہ باوجود مذہبی طبقہ کی مخالفت کے میں نے آسیہ کو رہائی دلوائی۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ایک رکن قومی اسمبلی کا برملا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنا۔ اسرائیل کے طیارہ کا کسی خفیہ مشن پر اسلام آباد آنا اور دس گھنٹے تک یہاں رُکا رہنا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کا سینیٹ میں یہ قانون لانا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مدعی کا اپنے دعوے کو ثابت کرناضروری ہوگا،اگر ثابت نہ کر سکا تو اس کو سزائے موت ہوگی۔ ایران میں جاکر وزیراعظم کا یہ کہنا کہ پاکستانی زمین ایران میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ امریکہ میں جاکر یہ کہنا کہ اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے کی اطلاع ہماری ایجنسی کے ایک ادارے نے دی اور یہ کہنا کہ القاعدہ کو ٹریننگ بھی ہماری ایجنسیوں نے دی۔ انسدادِ تجاوزات (اینٹی اینکروچمنٹ) کے نام پر لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو توڑنا، لاکھوں لوگوں کو نوکریوں سے بے دخل کرنا، گیس،بجلی، پیٹرول کو مہنگا کرنا، روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کو اونچی اُڑان دینا۔ ہر ملک میں جاکر یہ کہنا کہ ہمارے ملک میں کرپشن ہے، ہمارے ادارے اور حکمران کرپٹ رہے ہیں، جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری کا رُکنا۔ کے پی کے حکومت کے محکمۂ تعلیم کا دینیات سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدۂ ختم نبوت کے متعلق مضامین کو تبدیل کرنا۔ اسکول وکالج کی لڑکیوں کے لیے پردہ اور حجاب پر والدین کے اصرار کے باوجود پابندی لگانا۔ قادیانیوں کے سربراہ مرزا مسرور کا ایک سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ: ہم پاکستان جاسکیں یا نہ جاسکیں، لیکن اتنا ضرور کہتا ہوں کہ پاکستان کا آئین ضرور بدلے گا، ان کا اس طرح آئینِ پاکستان کی تبدیلی کا طمع کرنا اور اُمید لگانا۔آخر کیوں؟!
یہ سب وہ اقدامات اور بیانات ہیں جن کی بنا پراپوزیشن کی نوجماعتوں نے تحریک چلانے کے لیے ایک رہبرکمیٹی بنائی، جس نے مقتدر حلقوں اور حکومت کے سامنے چار مطالبات رکھے:
۱:۔۔۔ وزیراعظم جناب عمران احمد خان کا استعفیٰ

۲:۔۔۔صاف شفاف الیکشن کا انعقاد

۳:۔۔۔فوج کی کسی قسم کی مداخلت کے بغیر الیکشن

۴:۔۔۔پاکستان کے آئین کی حفاظت کی ضمانت

اوران مطالبات کو لے کر جمعیت علمائے اسلام اور ان کے قائد حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے ملک کے طول وعرض میں پندرہ پرامن ملین مارچ کرنے کے بعد ۲۷ اکتوبر کو کراچی میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے یومِ سیاہ منانے کے ساتھ آزادی مارچ کو شروع کیا، جو ۳۱ تاریخ کو رات گئے تک اسلام آباد پہنچا اور تیرہ دن تک وہاں رہا۔ یہ آزادی مارچ اتنا پُرامن اور منظَّم تھا کہ جس کی امن پسندی اور ملکی قانون کی پاسداری کی تعریف ملکی اور غیرملکی میڈیا سب نے کی۔ اس آزادی مارچ سے جمعیت علمائے اسلام، سیاسی جماعتوں، تاجربرادری، ڈاکٹر حضرات، غریب عوام اور پاکستان وبیرونِ پاکستان رہنے والے مسلمانوں کو کیا فوائد حاصل ہوئے اس کی فہرست طویل ہے، لیکن چند فوائد یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
۱:- اس آزادی مارچ کے ذریعے دینی اقدار اور دینی تہذیب کا اصل چہرہ دنیا بھر کے سامنے آیا، اس لیے کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت سے اب تک دینی اور مذہبی طبقے کا جس طرح استحصال کیا گیا، اس کی مثال پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہر ریاستی پالیسی میں مذہبی طبقے کو نشانہ پر رکھا گیا، آپریشن ہو یا کوئی پلان، پیغام ہو یا کوئی بیانیہ، شامت مذہبی طبقے ہی کی آتی تھی۔ تمام تر میڈیا‘ علماء، طلبہ اور دینی مدارس کی کردارکشی کرنے کو اپنی سعادت اور کمال سمجھتے تھے۔ مذہب کو دہشت گردی، قدامت پسندی اور تاریک خیالی سے جوڑا گیا۔ حکومتی وزراء ہوں یا ادنیٰ درجہ کے حکومتی اہلکار ہر ایک مذہبی طبقے کے لیے سوتیلی ماں کا کردار ادا کرتا نظر آیا۔ دینی طبقے کی غلط تصویر اور غلط چہرہ دنیا بھر کے سامنے پیش کیا گیا، جس سے بیرونی دنیاکی عوام‘ شعوری یا لاشعوری طور پر یہ سمجھنے لگی تھی کہ دینی لوگ متشدد، جنونی، انتہاپسند، فسادی، امن کے دشمن اور انسانی حقوق کے شعور سے عاری اور لاعلم ہوتے ہیں، داڑھی اور پگڑی، حجاب اور پردہ پر طرح طرح کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کیا جاتا تھا، جس کو اس تحریک انصاف پارٹی نے تو اور زیادہ بڑھاوادیا، حتیٰ کہ ۲۰۱۴ء کے دھرنے میں تو مشرقی تہذیب کا بالکل جنازہ نکال دیا گیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہاں تک بھی آوازیں سنی گئیں کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ اور پتا نہیں کیا کچھ خرافات اور واہیات قسم کے نعرے لگائے گئے۔ ایک وفاقی وزیر نے تو ایک تقریب میں دورانِ بیان یہاں تک ہرزہ سرائی کی کہ: ’’مستقبل کا سفر نوجوانوں نے خود کرنا ہے، مولویوں نے نہیں۔‘‘ حالانکہ ہمارا پیارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اس کا آئین اسلامی ہے، اس ملک کا مذہب اسلام ہے۔ قرآن وسنت اس کا سپریم لاء ہے۔ کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں بن سکتا۔ اگر وفاقی وزیر کی یہ ہرزہ سرائی مان لی جائے تو اسلام، قرآن اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بارے میں آگاہی کیا یہودی، عیسائی یا پاکستان کے گویّے اور سنگر دیا کریں گے؟
اس آزادی مارچ کے ذریعے دنیا بھر کی عوام اور میڈیا پر یہ واضح ہوگیا کہ دینی لوگ تو سب سے زیادہ امن پسند، انسانی حقوق کے پاسدار، عورتوں کی عزت اور آزادی کے علم بردار، ملکی قوانین کا سب سے زیادہ احترام کرنے والے، آئینِ پاکستان کے وفادار اور پاکستان کے حقیقی محافظ لوگ ہیں۔
۲:-اسی طرح جمعیت علمائے اسلام پر کیا جانے والا یہ پروپیگنڈہ بھی اپنی موت آپ مرگیا کہ ان کے ساتھ صرف مدرسوں کے طلبہ ہیں، جب کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ پورے ملک میں تمام مدارس میں تعلیم جاری رہی اور مدارس کے طلبہ واساتذہ تعلیم وتعلم میں مصروف رہے۔ اس آزادی مارچ سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ جمعیت علمائے اسلام ملکی سطح کی جماعت ہے اور پاکستان کا ہر طبقہ اس کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ دینی وملکی مسائل پر جمعیت کا متوازن اُصولی موقف ہر محبِ وطن کو بھاتا ہے اور جمعیت کو اپنی پریشانیوں اور مسائل کا نجات دہندہ تصور کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جمعیت علمائے اسلام، اس کی تنظیم انصار الاسلام اور دینی طبقہ پُرامن، منظم اور نظم وضبط کے حامل لوگ ہیں، جس کا مظاہرہ اور نظارہ پوری دنیا نے دیکھا کہ کراچی سے اسلام آباد تک پانچ دن پر محیط روڈ کا سفر بڑے امن اور اطمینان کے ساتھ کیا گیا، نہ روڈ پر چلنے والی گاڑیوں کو پریشانی ، نہ ایمبولینس کے سامنے کوئی رکاوٹ، نہ کوئی دکان کا شیشہ ٹوٹا اور نہ ہی کسی گاڑی پر پتھراؤ ہوا۔ اسی طرح اس آزادی مارچ کی وجہ سے ملک بھر میںجمعیت کے ووٹ بینک میں اضافہ، اداروں کی آزادی، الیکشن میں فوج کی عدمِ شرکت کا وعدہ، آئین کے تقاضوں کی پاسداری، سول بالادستی کی تحریک کو تقویت، خوف اور جمود کی کیفیت کا خاتمہ اور اس بات کا اظہار کہ پرامن احتجاج صرف اہلِ مذہب ہی کرسکتے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا احتجاج ہوا جو پرامن اور حکومتی املاک کو نقصان پہنچائے بغیر مکمل ہوا۔
۳:- دینی مدارس کا تحفظ… ایک عرصہ سے دینی مدارس ، اس کے طلبہ، اساتذہ اور اس کا نظام ونصاب بیرونی دنیا کے اشاروں پر ہماری حکومتی ایجنسیوں کے نشانے پر تھا، کبھی ان کی فنڈنگ پر بحث، کبھی ان کی رجسٹریشن میں رکاوٹ، کبھی ان کے نصاب اور ان کے نظام میں خامیاں، کبھی ان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے دعوے اور بہلاوے سمیت کون سا وار ایسا نہیں ہے جو اُن پر نہ آزمایا گیا ہو؟ لیکن ان شاء اللہ! اس آزادی مارچ کے ذریعے یہ سب سب وشتم اور ظلم وجور کی دیواریں دھڑام سے زمین بوس ہوجائیں گی۔
۴:- اس آزادی مارچ کے ذریعے آئینِ پاکستان خصوصاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدۂ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے قانون کا تحفظ ہوگیا، اب سالوں تک ان شاء اللہ! آئینِ پاکستان کی ان شقوں کو کوئی چھیڑنے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔
۵:- اس آزادی مارچ سے سب سے زیادہ تکلیف اور پریشانی دو طبقوں اور دو حلقوں کو ہوئی ہے: ایک قادیانی اور دوسرا اُن کا پشت پناہ اسرائیل، اس لیے کہ تحریکِ انصاف کے برسرِاقتدار آنے سے قادیانیوں کو بہت زیادہ توقعات اور اُمیدیں وابستہ ہوگئی تھیں، جن کی بناپر وہ بہت زیادہ دندناتے پھرتے تھے کہ اب آئین تبدیل ہوگا اور ہمیں غیرمسلم اقلیت سے ہمارے لے پالک نکال لیں گے، لیکن ’’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق ان کی یہ اُمیدیں خاک میں مل گئی ہیں اور آئندہ کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ وہ آئین میں ان قادیانیوں کے حق میں کوئی ترامیم کراسکے۔ اسی طرح اسرائیل جن کی چالیس سالہ انویسٹمنٹ اور فنڈنگ پر پانی پھر گیا ہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے تئیں یہ طے کررکھا تھا کہ ۲۰۲۰ء میں اسرائیل کا تسلُّط اپنے ان حواری قادیانیوں کے ذریعے جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان پر ہوجائے گا، اس لیے یہ دونوں طبقے سب سے زیادہ پریشان ہیں۔
۶:- اس آزادی مارچ کے ذریعے تاجروں کو کچھ وقت کے لیے سکون کا سانس نصیب ہوا، اس لیے کہ وہ گوورنمنٹ جو تاجروں کی کسی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہ تھی، یکایک ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہوگئی، یہ آزادی مارچ کا ثمرہ نہیں تو اور کیا ہے؟!
۷:- کے پی کے صوبہ کے وہ ڈاکٹر حضرات جو اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کررہے تھے، جن پر پولیس کے ذریعے تشدُّد کیا گیا، ان پر مقدمات بنائے گئے، ان کو جیلوں میں ڈالا گیا، اس آزادی مارچ کے ذریعے ان کو ریلیف ملا، ان سے مقدمات ہٹائے گئے اور تھانوں وجیلوں سے ان کو رہائی نصیب ہوئی۔
بہرحال پرامن آزادی مارچ ۱۳ دن تک اسلام آباد میں رہا، جس نے نظم وتہذیب، امن وامان، گفتار کی شائستگی یا دلیل کی قوت کا لوہا منوایا ہے۔ اسی طرح حسنِ اخلاق اور عورتوں کی عزت وتوقیر کے حوالہ سے عالمی سطح پر ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کرچکا ہے۔
حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس آزادی مارچ کے ذریعے عملاً یہ ثابت کردیا کہ مارچ اور دھرنے‘ ڈانس، مخلوط ناچ گانوں اور ڈھول ڈھمکوں کے بغیر بھی کامیاب بنائے جاسکتے ہیں، حکومت کے خلاف دیئے جانے والے دھرنوں میں تہذیب وشرافت اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایاجاسکتا ہے۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق جمعۃ المبارک کی نماز ۱۷ لاکھ ۶۰ ہزار سے زائد انسانوں نے اس آزادی مارچ کے پنڈال میں ادا کی، اس لاکھوں انسانوں کے احتجاج کو اعتدال کی راہ پر رکھنا یہ جمعیت علمائے اسلام اور انصار الاسلام کا انوکھا اور عظیم کارنامہ ہے۔
اسلام آباد کی سرزمین نے یہ عجیب منظر بھی دیکھا کہ یہاں آئے ہوئے لوگ اگرچہ آئے تو آزادی مارچ کے نام پر ہیں، سفید ریش بزرگ ہوں یا سیاہ ڈاڑھیوں والے نوجوان، کالج یونیورسٹی کے طلبہ ہوں یا سادہ لوح غریب عوام سب نمازیں بھی پڑھ رہے، قرآن کریم کی تلاوت بھی ہورہی ہے، ذکرواذکار کے حلقے بھی لگے ہوئے ہیں، تہجد بھی ادا ہورہی ہے اور دن رات اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور مناجات کے ذریعے سب کے سب نصرتِ خداوندی کے طلب گار بھی نظر آتے ہیں، اور جذبہ اتنا جوان کہ اپنی مدد آپ کے تحت سب مصارف برداشت کرنے اور اسلام آباد جیسی سخت سردی اور بارش کے باوجود کہہ رہے تھے کہ اگر ہمیں ایک مہینہ کیا ایک سال کا بھی حکم ہوگا تو ہم یہیں رہیں گے۔
مولانا نے اپنے تدبر، تفکر، حکمت، بصیرت اور جرأتِ رندانہ کے زور پر پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک کاز اور ایک ہی کنٹینر پر لاکھڑا کیا۔ جمہوری تاریخ میں اس قدر کامیابی شاید ہی کسی اور سیاسی لیڈر کے حصہ میں آئی ہو۔ مولانا نے اس آزادی مارچ کے ذریعے سماجی اقدار کو فتح کیا۔ تمدُّنی روایات کو زندہ کیا، اسلامی طرزِ حیات کے نمونے دکھلائے، سیاسیات کو سنجیدگی، وقار، متانت اور شائستگی سے مالا مال کیا، پاکستانی سیاست جسے مغربی گند سے بھردیا گیا تھا، اسے مولانا نے نتھارکر سرخرو کیا۔ عدمِ تشدد اور پُرامن لاکھوں کے مجمع کے سامنے حکمت ومصلحت کا ایسا بند باندھا کہ ایک جذباتی لہر بھی کنارہ کراس نہ کرسکی۔ ڈاڑھی، پگڑی اور ٹوپی کا مان بڑھایا، کرتااور رومال کی شان اونچی کی۔ مذہبی طبقے کی حقیقی تصویر ساری دنیا سے منوائی۔ مجبور قوم کو زبان دی، قوم کو جرأت کا سلیقہ دیا۔ پسے اور دبے ہوئے افراد کی ترجمانی کی، اسلامی اقدار کو اُجاگر کیا۔ تہذیبِ اسلام کی آفاقیت تسلیم کرائی، قوم کا شعور بیدار کیا۔ اسی بناپر ہماری جامعہ کے رئیس اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر، اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم العالیہ نے حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کو تہنیتی خط لکھا، جو درج ذیل ہے:

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم
محترم ومکرم حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب حفظکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہّٰ وبرکاتہ

پاکستانی قوم کی مشکلات، مصائب وآلام اور کرب واذیت کے ازالہ، آئینِ پاکستان کی حفاظت، خصوصاً ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے قانون کے تحفظ کے لیے آپ نے جو علمِ جہاد بلند کیا ہے، میں اس پُرامن تحریک اور کامیاب آزادی مارچ پر اپنی جماعت عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کی جانب سے آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اور اس آزادی مارچ میں شریک جماعتوں، افراد اور تمام کارکنان کی حفاظت فرمائے اور آپ سب حضرات کو تمام مقاصدِ عالیہ میں سرخروئی اور کامیابی عطا فرمائے۔
اس آزادی مارچ میں میرا شرکت کا ارادہ تو تھا، لیکن مرض کی شدت اور ڈاکٹر حضرات کی جانب سے سفر کی ممانعت کی بنا پر شرکت سے معذور ہوں۔ اُمید ہے میری صحت کے لیے آپ دعا فرمائیں گے۔
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           والسلام
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     (مولانا ڈاکٹر) عبدالرزاق اسکندر
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              ۴؍ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ مطابق ۲؍ نومبر۲۰۱۹ء
اس لیے راقم الحروف ضروری سمجھتا ہے کہ ہمارے علمائے کرام خواہ مدارس سے وابستہ ہوں یا کسی مسجد کے خطیب، تبلیغی جماعت سے منسلک ہوں یا کسی اور دینی شعبہ سے جڑے ہوئے، ہر ایک اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام یا کسی اور دینی سیاسی جماعت سے ضرور تعلق جوڑے اور الیکشن کے وقت صرف اور صرف دینی اور مذہبی ذہن رکھنے والی جماعت کو ہی ہر طریقے پر سپورٹ اور معاونت کرے، تاکہ دینی طبقہ ہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھال کر اس ملک اور قوم کو مشکلات سے نکال سکے۔ دینی لوگ اپنی اپنی جگہ اور اپنی اپنی سطح پر کتنا ہی دین کا کام کیوں نہ کررہے ہوں جب تک قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دینی لوگوں کی بھرپور نمائندگی اور شمولیت نہیں ہوگی، اس وقت تک قوم کی حفاظت، ملک کی خدمت ، دین کی تبلیغ ، دین کا نفاذ اور دینی طبقہ پر کیے جانے والے ہر طرح کے حملوں کا مؤثر جواب نہیں دیا جاسکتا، جیسا کہ بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہاں علماء کی کثرت کے باوجود وہ اپنی بات حکومت سے منوانے، دینی اقدار، اوراسلامی تہذیب کو ملکی شناخت دلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے ہمیں اس پہلو پر سوچنے اور عمل کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ملک کے معروف صحافی اور سینئر تجزیہ نگارجناب اوریا مقبول جان صاحب نے ۶ نومبر ۲۰۱۹ء کو روزنامہ ۹۲نیوز میں ایک کالم ’’کرتارپورہ راہداری اور مذہبی سیاست گری‘‘کے عنوان سے لکھا، جس کے پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کا یہ پورا کالم صرف مذہبی طبقے کو گالیاں دینے اور جناب عمران خان نیازی کی صفائی دینے پر وقف ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں۔
موصوف لکھتے ہیں: ’’جب سے کرتارپورہ راہداری کھول کر سکھوں کے مقدس ترین مقام کو راستہ دینے کا اعلان ہوا ہے، ہمارے مذہبی، مسلکی، جمہوری اور سیاسی راہنماؤں نے اسے درپردہ قادیانیوں کو سہولت دینے کی سازش قرار دیا ہے۔ پھر انہوں نے لکھا کہ: کرتارپورہ لاہور سے ۱۴۵ کلومیٹر ہے، ربوہ سے لاہور ۱۷۰ کلومیٹر اور لاہور سے قادیان براستہ امرتسر ۱۰۲ کلومیٹر ، یہ کل آٹھ گھنٹوں کا سفر ہے۔اب قادیانیوں اور حکومت کی ملی بھگت سے قادیانی پہلے ربوہ سے ۱۷۰ کلومیٹر سفر کرکے لاہور ، پھر یہ بے وقوف ۱۰۲ کلومیٹر صاف ستھری سڑک کا راستہ چھوڑ کر ۱۴۵ کلومیٹر صاف شفاف روڈ چھوڑ کر ۱۴۵ کلومیٹر ٹوٹی پھوٹی روڈ کرتارپور جائیں گے اور پھر وہاں سے ۴۴ کلومیٹر مزید فاصلہ طے کرکے ایک اور بوسیدہ سڑک پر سفر کرکے قادیان پہنچیں گے، یعنی سفر کی اذیت کے علاوہ چار گھنٹے مزید سفر بھی کریں گے، لیکن کمال ہے اس عصبیت اور منافقت کا جو عمران خان کی دشمنی میں ہمارے مذہبی طبقے کو بھی جھوٹا پروپیگنڈا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: ایسے میں اگر ایک سلیم الفطرت قادیانی بچہ بھی دین کی طرف مائل ہونے سے رُک گیا تو اس کا گناہ ان تمام مذہبی لوگوں پر ہوگا جو جھوٹ کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
میرے محترم! کرتارپورہ راہداری کھولنے کو ہمارے مذہبی ، مسلکی، جمہوری اور سیاسی راہنماؤںنے درپردہ قادیانیوں کو سہولت دینے کی سازش یوں ہی قرار نہیں دیا، اس راہداری کو کھولنے کا مطلب صرف یہاں سے گزرنا ہی نہیں، بلکہ مستقبل میں سکھ اور قادیانی گٹھ جوڑ سے ہمارے ملک پاکستان کے خلاف ایک بڑی سوچی سمجھی سازش تیار کی جارہی ہے، جس کا ذکر آج سے پچاس سال قبل مرحوم شورش کاشمیریؒ نے اپنی کتاب عجمی اسرائیل اور تحریک ختم نبوت میں کردیا تھا۔
۲:- آپ نے جو حساب وکتاب لگایا ہے اور واہگہ بارڈر کی طرف سے راستہ کا کم ہونا، آرام دہ ہونا اور کرتارپورہ راستے کا زیادہ ہونا اور روڈ کا ٹوٹا ہوا ہونا بتایا ہے، یہ خود سوچیں کہ یہ کتنا کمزور اور بے وزن دلیل ہے۔ بات یہ ہے کہ جب قادیانیوں کو بتایا جائے گا کہ ہمارے مرزا غلام احمد قادیانی متحدہ ہندوستان کے وقت آنے جانے میں یہی راستہ اختیار کیا کرتے تھے تو آپ ہی بتلائیے مرزا غلام قادیانی کا کون پیروکار ایسا ہوگا جو سفر کی طوالت اور پرمشقت ہونے کے باوجود اپنے نبی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس راستہ کو اختیار نہیں کرے گا؟!
۳:- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکھ انڈیا کے ہوں یا لندن کے، کیوں بار بار قادیانیوں کے قادیان اور لندن کے مراکز میں جا جا کر ان قادیانیوں کا شکریہ ادا کررہے ہیں؟ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟
۴:- قادیانیوں نے کرتارپورہ پہنچ کر اور لندن سے اپنے بیانات کے ذریعے خود کہا کہ: یہی کرتار پورہ والا راستہ ہی ہم استعمال کریں گے۔ 
۵:- انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان اس کرتارپورہ راہداری پر جو معاہدہ ہوا، اس میں واضح یہ کیوں لکھا گیا کہ یہ راہداری صرف سکھوں کے استعمال کے لیے نہیں، بلکہ تمام مذاہب کے لوگ اس راہداری سے آجاسکیں گے؟ یہ وہ تمام حقائق ہیں جن کی بناپر تمام مذہبی، مسلکی، جمہوری اور سیاسی راہنماؤں نے اسے درپردہ قادیانیوں کو سہولت دینے کی سازش قرار دیا۔
ادھر کرتارپورہ راہداری کھولنے کی ۹ نومبر ۲۰۱۹ء کی تقریب جس میں ہمارے وزیراعظم سمیت کئی وفاقی وزراء اور مقتدر اداروں کے سربراہان براجمان ہوئے، اور انہوںنے اس کو ملکی لیول کی کوئی تقریب باور کرائی، انڈیا نے اس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنا وزیراعظم تو درکنار کوئی وفاقی سطح کا وزیربھی اس تقریب میں نہیں بھیجا۔ یہ تو حال ہے ہماری خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی کا۔
دوسرا یہ کہ ہم جن سکھوں کے لیے ۴۲ ایکڑ پر مشتمل گردوارہ کو بڑھاکر ۸۴۲ ایکڑپر لے گئے اور دنیا کا سب سے بڑا گردوارہ بناکر اور اربوں روپے ہم نے اس پر جھونک دیئے، وہ سکھ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں کہ ہم پاکستان میں گھس کر مریدکے اور بہاولپور میں کارروائیاں کرائیں گے اور ہم پاکستانی لوگوں کو ان کی فوج کے خلاف کراکر اپنا بدلہ لیں گے، حالانکہ یہ وہی سکھ ہیں کہ پاکستان بناتے وقت ہمارے آباء واجداد کو سب سے زیادہ انہوں نے قتل کیا، ہماری ماؤں بہنوں کی عصمت دری انہوںنے کی، ہم ان تمام باتوں کو بھلاکر آج دنیا کا سب سے بڑا گردوارہ بناکر ان کو نواز رہے ہیں۔ دنیا کا مؤرخ کیا لکھے گا کہ آج کی حکومت اور مقتدر قوتیں اپنے آباء واجداد سے غداری اور ان کے خون کا سودا کررہی تھیں یا اپنے ماضی سے نابلد اور جاہل تھیں۔
ہماری حکومت نے تو قوم کو یہ باور کرایا تھا کہ ہم سکھوں پر یہ احسان اس لیے کررہے ہیں کہ وہ کشمیر سمیت پاکستان کے مفادات میں ہمارا ساتھ دیں گے، پاکستانی مفادات اور کشمیر میں ساتھ دینے کی بجائے اُلٹا دو لاکھ سکھوں کی فوج ہمارے کشمیری بھائیوں، بہنوں اور بیٹیوں کو یرغمال بناکر ان کو قتل، زخمی اور ان کی عصمت دری کررہی ہے۔ کیا ہماری حکومت بتاسکتی ہے کہ کسی ایک سکھ نے بھی ہمارے اس احسان کا بدلہ دیتے ہوئے انڈیا کی فوج سے استعفیٰ دیا ہو یا کشمیری بھائیوں کے حق میں کوئی آواز بلند کی ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے تو ملکی مفاد کے خلاف اتنا بڑا رسک کیوں لیاگیا؟ حالانکہ سکھ برملا یہ اعلان کررہے ہیں کہ: ہم انڈیا کے ساتھ ہیں، ہم اس کی فوج کا حصہ ہیں اور ہم انڈیا کے مفادات کو مقدم رکھیں گے، آخر ایسا کیوں؟
محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہماری حکومت اور مقتدر قوتوں نے مغربی استعمار کی خوش نودی اور حکم کی بجاآوری میں یہ طے کررکھا ہے کہ اس ملک میں ہم نے دینِ اسلام کی تو ہر آواز کو مذہبی کارڈ کا نام دے کر اسے دبانا اور خاموش کرانا ہے اور غیرمسلم چاہے وہ سکھ ہوں یا ہندو، بدھ مذہب کے لوگ ہوں یا قادیانی وعیسائی ان کی ہر ایک بات کی تشہیر اور ان کے ہر مذہبی تہوار کو اپنے میڈیا کے ذریعے خوب اُجاگر کرناہمارا منشور اور ایجنڈا ہے، تاکہ مغربی آقاؤں کو پیغام دیا جاسکے کہ دیکھیے! ہم کتنا رواداری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تقریب میں شریک ہمارے پاکستان کے وزیرخارجہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم گیارہ ارب روپے خرچ کرکے ۴۰۰ مندروں کی تعمیر کریں گے، نعوذ باللہ من ذٰلک۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اعلان ایک اسلامی جمہوری ملک کے وزیرخارجہ کا اعلان ہے؟!
آخر یہ حکومت دین کے خلاف کیا کرنا چاہتی ہے؟ کیا کوئی ایسا رجل رشید نہیں ہے جو اس حکومت سے پوچھ سکے کہ آپ کی معاشی حالت اس کی اجازت دیتی ہے؟ جس ملک میں ہسپتالوں کے لیے فنڈ نہ ہو، دوائیوں کے لیے رقم نہ ہو، یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ نہ ہو تو ایسے ملک میں گردوارہ اور مندروں کی تعمیر میں اربوں کھربوں روپے لگانا چہ معنی دارد؟ہماری حکومت تو ۴۰۰مندر بنانے پر تلی ہوئی ہے، جب کہ انڈیا اپنے ملک میں مساجد کو توڑرہا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ ان کی سپریم کورٹ مندر بنانے کا فیصلہ دے رہی ہے اور ہماری حکومت ان کی مذمت میں ایک لفظ تک نہیں بول سکی۔
لگتا یوں ہے کہ یہ بین الاقوامی ایجنڈا ہے کہ اسلام، اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب کو اسلامی ممالک سے دیس نکالا دیا جائے۔ اس نے سعودی عرب، عرب امارات اور پاکستان میں حکمرانوں کو اس کام پر لگایا ہوا ہے کہ تم اپنے اپنے ممالک میںہندؤوں، سکھوں اور بدھ مذہب کے لوگوں کی دلداری، اور ان کی خوش نودی کے لیے مندر اور گردوارے بنانے سمیت ہر وہ کام کرو جو دینِ اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر، ان کی تہذیب اور اقدار کے خلاف ہو جس سے ظاہر ہوسکے کہ واقعی یہ حکومتیں ہماری فرماںبردار اور ہمارے احکامات کو پوری تندہی سے بجا لارہی ہیں، یا أسفٰی علی أمراء المسلمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۶ نومبر ۲۰۱۹ء کو ناروے کے جنوبی شہر کرسٹینڈ سینڈ میں قرآن کریم کی توہین اور نذر آتش کرنے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، اسلام مخالف تنظیم (سیان) کے کارکنوں نے ریلی نکالی، جس میں قرآن کریم کی شدید بے حرمتی کی گئی اور ایک نسخے کو آگ لگادی۔ اس موقع پر پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی اور تنظیم کے سربراہ لارس تھورسن کوروکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس دل خراش واقعہ کو دیکھ کر ایک مسلم نوجوان عمر الیاس یا عمر دھابہ نے اس قرآن جلانے والے ملعون کو دھکا دیا اور قرآن کریم کو آگ سے بچانے کی کوشش کی۔ اس اقدام سے دوسرے مسلمانوں کو بھی ہمت ہوئی اور انہوں نے قرآن کریم کو بچانے کی کوشش کی تو پولیس نے ان سب کو گرفتار کرلیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس واقعہ پر سوائے ترکی حکومت کے کسی اسلامی ملک نے احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی اس حکومت نے اس پر کوئی آواز اٹھائی۔
ہم اس واقعہ کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور تمام اسلامی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس بلاکر ان کو سخت پیغام دیا جائے اور ایسے موہنِ قرآن کو عبرت ناک سزا دلوانے کے لیے بین الاقوامی عدالت میں اس پر مقدمہ قائم کرایا جائے۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین