بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ امین عبد الرحمان کے عقائد اور ان کا حکم (دوسری اور آخری قسط)

شیخ امین عبد الرحمان کے عقائد اور ان کا حکم

(دوسری اور آخری قسط)

جیسا کہ بخاری شریف میں ہے:

«وعنه قال قال النبي ﷺ لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال».    «مشكوة المصابيح» (باب الترجل ص: 38) ط: سعيد

ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ سے براہ راست استفادہ اگرچہ ناممکنات میں سے نہیں ،لیکن خود حضور ﷺ نے اپنے سے بالواسطہ فائدے کا سلسلہ جاری فرمایا ہے۔ گویا براہ راست اصلاح و تربیت کا دعویٰ حضور ﷺ کے جاری کردہ ظاہری نظام کو جھٹلانے کے مترادف ہے اور جو شخص جھوٹ بول کر نبی اکرم ﷺ سے براہ راست اپنا تعلق ظاہر کرے، وہ بڑی سخت وعید کا مستحق ہے۔

صحابی اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس نے حالت بیداری میں بحالتِ اسلام آپ ﷺ کی زیارت کی ہو اور پھر بحالت ایمان اس کی موت واقع ہوئی ہو۔ خواب میں آپ ﷺ کی زیارت سے صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوسکتا، اس لیے شیخ امین کا یہ دعوی غلط ہے، جیسا کہ کتاب التعریفات میں ہے:

’’الصحابي هو العرف: من رأى النبي ﷺ وطالت صحبته معه، وإن لم يرو عنهﷺ وقيل: وإن لم تطل۔ ‘‘  (باب الصاد، ص: 94، ط: دار المنار)

صحابہ کرامؓ کے بارے میں لب کشائی ایمان سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: میرے صحابہ کو برا مت کہو، جیسا کہ مشکوۃ شریف میں ہے:

’’«لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه» متفق عليه۔‘‘  (ص: 553)،ط: قديمي

ترجمہ: میرے صحابہؓ کو برا مت کہو (کیونکہ ان کا مرتبہ یہ ہے کہ) تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے (خیرات کرے) تو ان کے ایک مد بلکہ نصف مد (جو) کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔

نیز مظاہر حق میں ہے:

«عن عويمر بن ساعدة أنه ﷺ قال إن الله اختارني واختار لي أصحابا فجعل لي منهم وزراء وأنصارا وأصهارا فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين ولا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا.‘‘       (باب مناقب الصحابة) (5/622)

ترجمہ: "حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے منتخب فرمایا ہے اور میرے لیے میرے صحابہؓ کو منتخب کیا ،ان کو میرا وزیر ،مددگار اور رشتہ دار بنایا جو ان کو برا کہے اس پر اللہ تعالی کی ،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ تعالی اس کا کوئی فرض اور کوئی نفل قبول نہ کرے گا"۔

اور فتح المغیث میں امام ابو زرعہ رازیؒ (جو امام مسلمؒ کے اجل شیوخ میں سےہیں) فرماتے ہیں:

«إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول الله ﷺ فاعلم أنه زنديق، وذلك أن الرسول حق، والقرآن حق، وما جاء به حق، وإنما أدى إلينا ذلك كله الصحابة، وهؤلاء يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة والجرح بهم أولى وهم زنادقة«.        «معرفة الصحابة» (4/94) ط: دار الامام الطبري)

لہذا مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص صحابہ کرامؓ کی تنقیص کرتا ہے وہ گمراہ اور زندیق ہے، ایسے شخص کے ساتھ میل جول اور محافل میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگا۔ تمام صحابہ کرامؓ عادل، پرہیز گار متقی تھے، صحابہ کرامؓ کو ناقص کہنے والا کبھی بھی خود کامل مومن نہیں ہوسکتا، ایسا شخص خود لائق اصلاح ہے، جہ جائیکہ دوسروں کی اصلاح کرے۔

ادریس نامی بزرگ کا نام، نسب ، قبیلہ الغرض مکمل تعارف اور سلسلہ ادریسیہ کا مکمل تعارف پیش کیا جائے، اس کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

صحابہ کرامؓ تابعینؒ تبع تابعینؒ اور فقہاء اربعہؒ کا اس پر اجماع ہے کہ تراویح کی رکعت بیس ہیں۔ اگر دس رکعت تراویح پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ تراویح کی کل رکعات دس ہی ہیں تو ایسا شخص اجماع کا منکر ہے اور اگر بیس رکعت تسلیم کرنے کے باوجود دس رکعت پڑھتا ہے تو سنت مؤکدہ (جس کا اہتمام آپ ﷺ نے ہمیشہ فرمایا ) کا تارک ہے اور سنت کا تارک لائق ملامت ہے ۔ جیسا کہ ردالمختار میں ہے:

" وحكمها ما يوجد على فعله ويلام على تركه (قول يلام) اى يعاقب بالتاء ولا يعاقب كما إفاده في البحر والنهر ليكن في التلويح: ترك السنة الموكدة قريب من الحرام يستحق حرمان الشفاعة لقوله عليه الصلاة والسلام: «من ترک سنتى لم ينل شفاعتی» وفي التحرير: إن تاركها يستوجب التضليل واللؤم اه والمراد الترك بلا عذر على سبيل الإصرار»".

(كتاب العبارة اركان الوضوء اربعة، ط: سعيد)، وكذافى ألنهر الفائق، كتاب الطهارة ج ۱ ص ۳۵ ط امدادیہ ملتان)، و کذافي العنایة علی ہامش فتح القدير، ج: ا، ص: ۲۰،ط: مصطفی البابی مصر)

رمضان المبارک میں وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے ،جماعت کی نمازمیں سستی غفلت و نفاق کی علامت ہے ،احادیث مبارکہ میں جماعت کی نماز کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور تارک جماعت کے بارے میں بہت سخت وعید میں وارد ہوئی ہیں، جیسا کہ مشکوۃ المصابیح میں ہے ۔

"عن عبد الله بن مسعود قال لقد رأينا وما يتخلف عن الصلوة إلا منافق قد علم نفاقه أو مريض إن كان المريض ليمشي بين رجلين حتى ياتي الصلوة وقال أن رسول الله ﷺ علمنا سنن الهدى وإن من سنن الهدى الصلوة في المسجد الذى يؤذن فيه. (1۔ ۹۶ ) قدیمی

نیز الدر المختار مع ردالمحتار میں ہے:

"والجماعة سنة مؤكدة للرجال قال الزاهدي: ارادوا بالتاكيد الواجب، وقال في شرح المنية: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها بلا عذر يعزر، وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه» اه.’’ مطلب شروط الامامۃ الکیری‘‘ (۱۔۵۵۲)ط: سعید)

طریقت و شریعت دونوں میں تلازم ہے، طریقت ہی وہی ہے جو شریعت کے مطابق ہو، اس سے متصادم نہ ہو ۔ الغرض جو طریقت میں ہے وہ شریعت میں ہے اور جو شریعت میں ہے وہی طریقت میں ہے ۔ سنن اور نوافل شریعت میں ثابت ہیں تو طریقت میں بھی ثابت ہیں تضاد کا دعوی غلط ہے۔ جیسا کہ الفتاوی الحدیثیہ میں ہے:

"قال العلامة ابن حجر الهيثمي: «الطريقة مشتملة على منازل السالكين وتسمى مقامات اليقين والحقيقة موافقة للشريعة في جميع علمها وعملها وأصولها، وفروعها، وفرضها ومندوبها، ليس بينهما مخالفة أصلاً». «باب السلوک مطلب في الفرض بین الحقيقة والشريعة» (ص: 409) ط: قديمي.

 نماز اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کو معاف نہیں اور نہ صحابہ کرام ؓکو بلکہ آج تک کسی کو معاف نہیں، نماز ہر حالت میں پڑھنی فرض ہے، کسی صورت میں معاف نہیں اور نماز چھوڑنے والے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

 عن جابر قال: قال رسول الله ﷺ: «بين العبد وبين الكفر ترک الصلوة .... وقال بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلوة»«مشکوۃ المصابع» (ص: 58)ط: سعيد

ترجمہ : ’’یعنی حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز چھوڑ نا آدمی کو کفر سے ملا دیتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ بندے کو اور کفر کو ملانے والی چیز صرف نماز چھوڑنا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ ایمان و کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے‘‘۔

 اس لیے الہام اور معانی کا دعوی بے بنیاد من گھڑت اور جھوٹ ہے اور جھوٹے دعوے کرنے والا اور جھوٹ بولنے والا شخص مستحق عذاب و عقاب ہے ۔

  برا کرتے ہیں رمضان میں کھانا، اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑانا ہے، شیخ کی تربیت کااگر یہ اثر ہے تو اس سے خود شیخ کی طبیعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 کامل پیر کی صحبت میں بیٹھنے سے جس طرح دین کی رغبت نصیب ہوتی ہے، اسی طرح مصنفین کی کتابوں سے علماء و مبلغین حضرات کے وعظ و نصیحت و تقاریر سے دین حاصل ہوتا ہے، ورنہ دین کی نشر و اشاعت کا ذریعہ صرف خانقا ہیں ہوتیں جب کہ دین آج تک یا تو کتابوں سے یا وعظ و بیان سے ،مجاہدین کی تلوار سے پھیلا ہے، دین کو ایک شعبہ میں منحصر کرنے کا دعوی جھوٹا ہے، تاریخ اسلام کی کتابیں اس بات کی گواہ ہیں ، نیز یہ دعوی مشاہدہ کے بھی خلاف ہے۔ آج ساری دنیا میں دین ان تمام ذرائع سے پھیل رہا ہے اس کو ایک شعبہ میں منحصر کرنا مشاہدہ کے بھی خلاف ہے ،لہذ ا شیخ امین کا اپنی تقاریر میں یہ دعوی کرنا کہ" دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا ،میری صحبت میں بیٹھنے سے آئے گا "غلط ہے ۔

فلمیں دیکھنا، گانے سننا حرام ہے اور حرام کاری کی دعوت دینے والا منافق و فاسق ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہے جبکہ ان کو حرام سمجھتے ہوئے کرے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ لْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَهُمْ ۭنَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ  ۭاِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(التوبة: ٢٧)

ترجمہ : منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک طرح کے ہیں کہ بری بات کی تعلیم دیتے ہیں اور اچھی بات سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں انہوں نے خدا کا خیال نہ کیا پس خدا نے ان کا خیال نہ کیا بلا شبہ یہ منافق بڑے ہی سرکش ہیں ۔

نیز مشکوۃ المصابیح میں ہے:

’’وعن جابر قال: قال رسول الله ﷺ: «الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع»." (باب البيان والشعر الفصل الثالث ص: 411) ط: سعید.

 نیز شرح الفقہ الاکبر میں ہے :

«ويجوز أن يكون مرتكب الكبيرة مؤمنا غير كافر». (مرتكب الكبيرةص: 140، ط:قطر)

اور شرح العقائد کی شرح النبر اس میں ہے:

«حتى أنه يخرج بالكبيرة وإصرار الصغيرة عن الولاية»   (ص: 295)ط: امداديه ملتان

البتہ جو شخص حرام کام کو اس کے حرام ہونے کے باوجود حلال سمجھے اور لوگوں کو اس حرام کام کے کرنے کی دعوت دے اور خود بھی اس کا ارتکاب کرے تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

 «استحلال المعصية كفر إذا ثبت كونها معصية بدليل قطعي».      (مطلب استحلال المعصية كفر،(2/292) ط:سعيد)

نیز کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے اور یہ بات پردۂ غیب میں ہے، کوئی نبی ،کوئی ولی بھی اس بات کا دعوی نہیں کر سکتا ۔ صحابہ کرامؓ جیسی برگزیدہ ہستیوں نے بھی جنتی ہونے کا دعوی نہ کبھی اپنے بارے میں کیا اور نہ کبھی کسی دوسرے کے بارے میں کیا ۔ آج پندرھویں صدی کا آدمی کیسے دعویٰ کر رہا ہے؟

 نعت سننا اچھی بات ہے، لیکن دورانِ نعت جھومنا ، تالیاں بجانا اور شور مچانا جیسا کہ فساق و فجار موسیقی کی محافل میں کرتے ہیں، خلاف ادب ہے ۔

ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے، نماز جان بوجھ کر قضاء کردینا گو بعد میں پڑھ بھی لی جائے، سخت گناہ ہے۔ احادیث میں نماز کو اس کے وقت میں نہ پڑھنے کے بارے میں سخت قسم کی وعید یں وارد ہوئی ہیں ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

 "روى انه عليه السلاة والسلام قال: «من ترك الصلاة حتى مضى وقتها ثم قضى عذب في النار حقبا والحقب ثمانون سنة، والسنة ثلثمائة وستون يوما كل يوم كان مقداره الف سنة»."

ترجمہ :" حضور اکرم ﷺسے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضاء کر دے، گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہو گا ( اس حساب سے ایک حقب کی مقدار دو کروڑاٹھاسی لاکھ برس ہوئی ) ۔

نیز دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا بھی جائز نہیں ،احادیث مبارکہ میں اس بارے میں سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں ۔ جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے:

 "عن ابن عباس قال: قال رسول اللهﷺ «من جمع بين الصلوتين من غير عذر فقدأتی بابا من أبواب الكبائر»۔"(1/22)

 ترجمہ :"نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص دو نمازوں کو بلا کسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ گیا (یعنی اس نے کبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔"

نیزفتاوی شامی میں ہے :

ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر سفر ومطر خلافا للشافعي ولا بأس بالتقليد عند الضرورة.  (1/381)، ط: سعيد.

اس کا جواب نمبر چھ میں گذر چکا ہے۔

گستاخ رسول کی موت پر خوشی منانا بظا ہر آپﷺ سے محبت و عقیدت پر محمول کیا جا سکتا ہے، لیکن ڈھول ڈھمکے ڈانس باجے گھونگھرو پہن کرنا چنا جائز نہیں ، خوشی منانا ممنوع نہیں، لیکن جو طریقہ اپنایا گیا وہ ممنوع ہے، اسلام نےغمی و خوشی کی حدودواقع کی ہیں، کسی نبی یا ولی کو اس سے تجاوز کرنا جائز نہیں ۔ جیسا کہ حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"والتغنى حرام إذا كان يذكر امرأة مغنية إلى قوله وأما الرقص والتصفيق والصريخ وضرب الأوتار الذي يفعله بعض من يدعى التصرف فإنه حرام بالإجماع لأنها ذي الكفار كذا في سكب الأتمر."        (فصل في صفة الأذکار۔ص: 319، ط: قديمي)

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے ، اس لیے انسان کو انسانوں کی صفات زیبا دیتی ہیں، حیوانوں کی صفات اپنا نا انسان کی انسانیت کے خلاف ہے۔

الغرض نماز ،روزہ، زکوۃ اور فرائض شرعیہ ادا نہ کرنا اور مریدین کو اپنے کتے بن کر بھونکنے کے لیے کہنا اور رنڈیوں کو ناچ گانے کی اجازت دینا اور فواحشات کا مرتکب ہونا اور اپنے مریدین کو فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کی تلقین کرنا ۔ نیز صحابہ کرامؓ کی تنقیص کرنا ( نعوذ باللہ من ذلک ) یہ تمام افعال حرام اور کبا ئر اور موجبات فسق ہیں اور ان کو حلال سمجھنا کفر ہے اور جو لوگ ان فواحشات کے مرتکب اور ذمہ دار ہیں وہ زندیق ہیں ان کے حلقہ بیعت میں داخل ہونا حرام ہے ۔

 لہذا مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ شیخ امین عبد الرحمن ایک فاسق و فاجر شخص ہے ، اس میں شیخ بننے کی صلاحیت تو دور کی بات ہے، خود اس میں عام مسلمانوں کی صفات بھی مفقود ہیں، اسے دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، کسی بھی شخص کو شیخ امین عبد الرحمن ( جو مذکورہ کردار کا حامل ہے ) کی بیعت کرنا نا جائز و حرام ہے، اس سے اجتناب کیا جائے اور علاقے کے عوام کو اس حقیقت سے باخبر کیا جائے ۔

 

الجواب صحیح                                                                                                 کتبه  

مولانا مفتی عبد المجید دین پوری .                                                 مولوی مختار احمد

متخصص فی الفقہ الاسلامی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین