بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ امین عبد الرحمان کے عقائد اور ان کا حکم (پہلی قسط)

شیخ امین عبد الرحمان کے عقائد اور ان کا حکم

(پہلی قسط)

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس بارے میں کہ:

بی بلاک شاہ رکن عالم کالونی ملتان میں عرصہ بارہ تیرہ سال سے ایک شخص آیاہے جس کا نام شیخ امین عبد الرحمان ہے، پیری مریدی کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہے۔ احباب کا ایک حلقہ رکھتا ہے عقائد اور نظریات کے حوالے سے مبہم ہے، آج تک موثق اور بااعتماد ذرائع کے ساتھ جو باتیں سامنے آئی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

۱ ۔اس کے بال خلاف سنت پیٹ تک ہیں۔

۲ ۔ کہتا ہے کہ میں براہ راست رسول پاک علیہ السلام سے فیض حاصل کرتا ہوں، اللہ تعالی نے سب کچھ سرکار علیہ السلام کو دے رکھا ہے، میں ان سے لے کر مخلوق کو دیتا ہوں، اس لیے مجھے صحابیت کا شرف حاصل ہے۔

۳ ۔ کبھی یہ بھی کہتا ہے بعض صحابہ کامل ہیں اور بعض صحابہ ناقص ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذالک)

۴ ۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ ساتویں صدی میں ادریس نامی بزرگ گزرے ہیں، میں اس سے فیض لے کر مخلوق کو پہنچاتا ہوں، اس لیے اپنے آپ کو ادریسیہ سلسلہ کی طرف منسوب کرتا ہے۔

۵ ۔ رمضان شریف میں دس رکعت تراویح پڑھتا ہے۔ یہ دس رکعت بھی صرف سورہ طارق اور سورہ اعلی میں دو دو تین تین آیات کرکے پوری کرتا ہے۔

۶ ۔ رمضان میں وتر جماعت سے نہیں پڑھتا۔

۷ ۔ سنن اور نوافل کے شیخ اور اس کے مریدین تارک ہیں (نیا آنے والا کوئی پڑھ لیتا ہے) بعض احباب (مثلا مولانا عبد الماجد صاحب جو شاہ رکن عالم کالونی کے رہائشی ہیں، ایک سال تک شیخ امین کی مجلس میں حاضر ہوتے رہے ہیں) نے جب یہ سوال کیا کہ شیخ امین اور اس کے مریدین سنن اور نوافل کیوں نہیں پڑھتے، تو اس کے مرید خاص احتشام صاحب نے جواب دیا کہ اللہ جل شانہ نے ان کو معاف کردیں ہیں، مولانا نے کہا: کہ شریعت نے یہ چیز تو کسی کو معاف نہیں کی، حتی کہ صحابہ کرامؓ تک کو یہ چیز معاف نہ ہوئی، آپ کو کیسے معاف ہوگئی، تو احتشام صاحب نے کہا: کہ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور چیز ہے، اللہ جل شانہ نے شیخ کو الہام کیا ہے اور ان کو یہ سب چیزیں معاف کردیں ہیں۔

۸ ۔ اس کے اخص الخواص مریدین رمضان میں فجر کی اذان کے بعد بھی کھاتے پیتے رہتے ہیں۔

۹ ۔ اپنی تقاریر میں علماء سے متنفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا بلکہ میری صحبت میں بیٹھنے سے آئے گا۔

۱۰ ۔ کبھی کہتا ہے کہ سارے فرقے حق ہیں، شیعہ، سنی، بھائی بھائی ہیں اور کبھی سب کو گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، یہ بڑے خبیث ہیں، ان سے بچ کر رہنا کبھی کہتا ہے کہ فلمیں دیکھو، گانے سنو جو کچھ بھی کرتے ہو، کرتے رہو سب جنتی ہیں، کسی کو کچھ نہ کہا کرو۔

۱۱۔ نعت خوانی کے دوران کبھی کھڑے ہوکر جھومتا ہے اور تالیاں بجاتا ہے، اور نعت خوانی کے دوران نعت خواںصلى الله عليكم يا رسول الله ، وسلم عليكم يا حبيب الله پڑھتے ہیں۔

۱۲ ۔ لوگوں کی کوشش کے باوجود عقائد اور سلسلہ تصوف کے بارے میں وضاحت نہیں کرتا اور نہ ہی  یہ بتاتا ہے کہ کس کا مرید ہے۔

۱۳ ۔ سب سے بڑی کرامت یہ بتلاتا ہے کہ جو مجھ سے تعلق جوڑے گا اس کا کاروبار چمکے گا۔

۱۴ ۔ کبھی مغرب کی نماز اتنی لیٹ کردیتا ہے کہ عشاء کے وقت میں پڑھتا ہے اور کبھی عشاء کی نماز مغرب کے وقت میں ہی پڑھ لیتا ہے، ایک مرتبہ عشاء کی نماز مغرب کے وقت میں ادا کی اور تین رکعت ادا کی، جب بعض احباب نے ایک مرید سے سوال کیا کہ یہ تو عشاء کی نماز تھی، تین رکعت کیوں ادا کی؟ تو مرید صاحب کہنے لگے کہ ہم سب سے تو غلطی ہوسکتی ہے، لیکن شیخ صاحب سے غلطی نہیں ہوسکتی، اس لیے انہوں نے چار ہی پڑھائیں ہیں اگرچہ ہمیں تین کا پتہ چلا۔

۱۵ ۔ نماز جماعت سے پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا، ایک مرتبہ ایک صاحب ان کے مرید کے ساتھ شیخ امین کی مجلس میں گئے، عصر کا وقت تھا، سب مریدین شیخ کے آنے کا انتظار کرتے رہے، جب آخر وقت تک نہ آئے تو مریدین نے اپنی اپنی نماز پڑھ لی، مغرب کے وقت میں اعلان ہوا کہ عصر کی نماز شیخ مدینہ منورہ میں پڑھانے گئے تھے، اب واپس تشریف لے آئے ہیں۔ لہذا مغرب کی نماز خود پڑھائیں گے۔

۱۶ ۔ گزشتہ دنوں کے کچھ عرصہ پہلے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے یہودی کے جل کر مرجانے کی خوشی میں شیخ نے تین دن کے جشن کا اعلان کیا، اور مریدین کو شرکت کی دعوت دی، یہ جشن محلے کے پلاٹ میں منعقد ہوا۔ جس میں ڈھول ڈھمکا جھانجر، آتش بازی، نمائش کے لیے پنجرے میں شیر، ناچنے کے لیے گھوڑے منگوائے گئے۔ مریدین نے اس جشن میں تین دن ڈانس کرکے (حتی کہ بعض مریدین نے تو گھونگرو بھی پہن رکھے تھے) خوب خوشی کا اظہار کیا۔

۱۷ ۔ چوتھے دن شیخ نے ایک دن کی مزید اجازت دی، جس میں مریدین کو شیخ امین صاحب کے کتے بن کر بھونکنے کے لیے کہا گیا، چنانچہ چوتھے دن شیخ امین کے مریدین نے مائیک ہاتھ میں لے کر صرف یہی کہتے رہے شیخ امین کے کتے بھاؤں ، بھاؤں ،(یعنی کتے کی آواز)۔

۱۸ ۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ شیخ امین ایک عرصہ مدینہ منورہ میں رہے ہیں، بعض بدعات کی بناء پر حکومت نے ان کا خروج کردیا۔

یہ وہ معلومات ہیں جو ان علماء سے لی گئی ہیں، جو معلومات حاصل کرنے کے لیے شیخ امین کی مجلس میں حاضر ہوتے رہے، عوامی باتوں پر اعتماد نہیں کیا گیا، یہ سب احوال گزارش کرنے کے بعد حضرات علماء سے دریافت یہ کرنا ہے کہ:

۱ ۔ شیخ کی صفات کیا ہیں کہ شیخ کیسا ہونا چاہیے؟

۲ ۔ کیا مذکورہ احوال کی روشنی میں امین عبد الرحمان میں شیخ بننے کی اہلیت ہے؟

۳ ۔ اور شیخ امین عبد الرحمان کی بیعت کرنے کا کیا حکم ہے؟

ازروئے شرع وضاحت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔ السائل: خرم سعید، سمیجہ آباد، ملتان۔

 

الجواب حامدا مصلیا

 

واضح رہے کہ انسان کو عقائد حقہ، اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ کا اختیار کرنا ضروری ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہےجب کہ عقائد باطلہ، اخلاق رذیلہ، اعمال سیئہ سے پرہیز کرے۔ تجربہ و مشاہدہ یہ ہے کہ یہ چیزیں بغیر مربی کے حاصل نہیں ہوتیں، جس مربی کی تربیت سے یہ چیزیں حاصل ہوسکیں  وہ  پیر بنانے کے قابل ہے۔ استعدادیں ناقص ہونے کی وجہ سے عموما ًخود کتابیں دیکھ کران کی تکمیل نہیں ہوتی، اسی تربیت کے لیے تعلق  و ارادت قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے امراض بدنیہ کے علاج کے لیے حکیم یا ڈاکٹر کی ضرورت پیش آتی ہے، اس طریق کو اختیار کرکے بے شمارمخلوق نے حسب استعداد کمالات حاصل کیے اور اپنی زندگیوں کو سنت کے مطابق بناتے ہوئے ولی و  عارف ہوکر خلق کی خدمت انجام دی، کھرے کھوٹے کی تمیز ہر لائن میں ضروری ہے۔ جیسا کہ ’’اعلاء السنن‘‘ میں ہے:

قال العبد الضعيف: «تزكية الأخلاق من أهم الأمور عند القوم..... ولا يتيسر ذلك إلا بالمجاهدة على يد شيخ أكمل قد جاهد نفسه: وخالف هواه، وتحلى عن الأخلاق الذميمة، وتحلى بالأخلاق الحميدة، ومن ظن من نفسه أنه يظفر بذلك بمجرد العلم درس الكتب فقد ضل ضلالا بعيدا، فكما أن العلم بالتعلم من العلماء كذلك الخلق بالتخلق على يد العرفاء فالخلق الحسن صفة سيد المرسلين...» إلخ       «كتاب الأدب»(18/43-442) إدارة القرآن.

کسی شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے اعمال صالحہ کرنے کا زیادہ شوق و جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، صحابہ کرامؓ بھی آپ ﷺ کے ہاتھ پر مختلف اعمال صالحہ پر عمل پیرا ہونے کے عزم کے لیے بیعت کیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت  جریرؓ ارشاد فرماتے ہیں:

«بايعت رسول الله ﷺ على أقام الصلاة وإيتاء الزكوة والنصح لكل مسلم»        «صحيح مسلم» (باب بيان الدين النصيحة) (1/55) ط: قديمي

ترجمہ: میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر نماز قائم کرنے زکوۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر بیعت کی۔

حضرت جریرؓ کی زندگی میں اس بیعت نے اتنا اثر دکھایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے غلام کو ایک گھوڑا خرید نے کے لیے بازار بھیجا تو غلام بازار سے ایک گھوڑا تین سو درہم کا خرید کر لائے اور صاحب فرس کو اس گھوڑے کی رقم دلوانے کے لیے حضرت جریر ؓ کے پاس لائے۔ حضرت جریرؓ نے مالک سے فرمایا کہ آپ کا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے اچھا ہے،اگر آپ چاہو تو چار سو درہم کا مجھے بیچ دو، مالک نے کہا ٹھیک ہے پھر حضرت جریرؓ نے مالک سے فرمایا آپ کا گھوڑا تو اس سے بھی زیادہ قیمتی ہے، آپ چاہو تو پانچ سو درہم کا مجھے بیچ دو، مالک راضی ہوگیا پھر یکے بعد دیگرے سو، سو درہم کا اضافہ فرماتے رہے یہاں تک کہ مالک سے آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا۔ جب حضرت جریر ؓ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ اس بات پر بیعت کی ہے کہ ہر مسلم کے ساتھ بھلائی اور اچھا برتاؤ کروں گا مذکورہ واقعہ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے بہت اہم ہے۔

شیخ کامل کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح العقیدہ ،صالح الاعمال ،صادق الاقوال ہو، بقدر ضرورت علم دین سے واقف، متبع شریعت ،پابند سنت ہو، عقائد حقہ ،اخلاق فاضلہ ،اعمال صالحہ کے ساتھ متصف ہو ،عدالت و تقوی میں پختہ ہو، طاعات مؤکدہ و اذکار منقولہ و مرویہ کا پابند ہو، دنیا کی چکا چوند، چمک دھمک جاہ وحشمت سے بیزار، آخرت کی طرف مائل ہو، الغرض تمام صفات حسنہ اس میں پائی جائیں اور اخلاق رذیلہ ،جھوٹ ،غیبت، حسد ، کینہ، تکبر وغیرہ تمام صغیرہ و کبیرہ سے اجتناب کرنے والا ہو، اور کسی کامل شیخ متبع شریعت کی صحبت سے فیض یافتہ ہو اور اس شیخ کی طرف سے خلافت مل چکی ہو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کاربند ہو یعنی خود بھی نیک کام کرتے ہوئے دوسروں (مریدین) کو نیکی کا حکم کرتا ہو، ایسا شخص شیخ بننے کے لائق ہے۔ جس میں مذکورہ صفات و شرائط نہ پائی جائیں، اس سے بیعت کرنا جائز نہیں۔

سائل نے جو تفصیل مسمی شیخ امین عبد الرحمان سے متعلق واضح کی ہے، اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ اس تفصیل کے مطابق شیخ امین غیر شرعی افعال و اقوال و عقائد کا حامل ہے، شیخ امین عبد الرحمان کی بیعت کرنا درست نہیں ہے، جیسا کہ ’’القول الجمیل‘‘ میں ہے:

«فشرط من يأخذ البيعة أمور:أحدها: علم الكتاب والسنة، والشرط الثاني: العدالة والتقوى، والشرط الثالث: أن يكون زاهدا في الدنيا راغبا في الآخرة، والشرط الرابع: أن يكون آمرا بالمعروف ناهيا عن المنكر، والشرط الخامس: أن يكون صحب المشايخ وتأدب بهم دهرا طويلا وأخذ منهم النور الباطن والسكينة».    «القول الجميل للشاه ولي الله» (ص26) مكتبه تهانوي)

نیز ’’فتاوی عزیزیہ‘‘ میں ہے:

’’مرید شدن ازآں کس درست است کہ درآں پنج شرط متحقق باشد، شرط اول: علم کتاب و سنت رسول داشتہ باشد، خواہ خواندہ باشد، خواہ از عالم یا دداشتہ باشد، شرط دوم: آنکہ موصوف بعدالت و تقوی باشد و اجتناب از کبائر و عدم إصرار صغائر نماید، شرط سوم:آنکہ بے رغبت از دنیا و راغب در آخرت باشد و برطاعت مؤکدہ و اذکار منقولہ کہ در احادیث صحیحہ آمدہ اند مداومت نماید شرط چہارم: امر معروف و نہی از منکر کردہ باشد شرط پنجم: آنکہ از مشایخ ایں امر گرفتہ باشد و صحبت معتد بہا ایشان نمودہ باشد پس ہر گاہ این شروط در شخصے متحقق شوند ،مرید شدن ازآں درست است اھ‘‘۔       ’’فتاوی عزیزیہ‘‘ (۱۔۱۰۲) ط: رحیمیہ دیوبند۔

اب ہر ہر شق کا جواب نمبر وارد دیا جاتا ہے۔

۱ ۔ بال رکھنے کے مسنون تین طریقے ہیں: ۱ ۔ کانوں کی لو تک۔ ۲ ۔ کانوں کی لو اور کندھوں کے درمیان تک۔ ۳ ۔ کندھوں تک۔ ان کو عربی میں وفرہ لمہ اور جمہ کہتے ہیں اور پھر آپ ﷺسے حج و عمرہ کے موقع پر سر کے بال مبارک منڈوانا بھی ثابت ہے، بال رکھنے کے یہی تین طریقے آپ ﷺسے ثابت ہیں۔پیٹ تک بال رکھنے کا کہیں ثبوت نہیں ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

«عن أنس بن مالكh قال: كان شعر رسول الله ﷺ أي واصلا أو منتهيا إلى نصف أذنيه... وكان له أي لرأسه الشريف شعر: أي نازل فوق الجمة، بضم الجيم وتشديد الميم ما سقط على المنكبين ودون الوفرة»        (جمع الوسائل فی شرح الشمائل،باب شعر رسول علیہ السلام، ص: ۹۰۔۹۲ ادارہ تالیفات)

اور پیٹ تک سر کے بال رکھنا (مرد کے لیے) خلاف سنت ہے۔ نیز پیٹ تک بال رکھنے سے عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے اور ایسی مشابہت اختیار کرنے پر احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین