بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 شعبان 1446ھ 11 فروری 2025 ء

بینات

 
 

اُمت کے اتفاقی موقف سے انحراف گمراہی ہے قرآن وسنت کی صحیح تشریح کا معیار (پہلی قسط)

اُمت کے اتفاقی موقف سے انحراف گمراہی ہے

قرآن وسنت کی صحیح تشریح کا معیار

(پہلی قسط)


آج کل ہر شخص اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق قرآن وسنت کی تشریح کرکے اپنے مقصد کا مفہوم اور مطلب مرادلیتا ہے اور پھر اسی کو حق اور صحیح سمجھتا ہے، اس کے خلاف چاہے قرآن کریم کی کوئی آیت ہو یا کوئی حدیث صحیح ہو یا اُمت کا اتفاقی عقیدہ اور نظریہ ہو، سب چیزوں کو پس پشت ڈال کر وہ اپنی دلیل کو مضبوط سمجھ کر اپنے عقیدے اور نظریے کو حق سمجھتا ہےاور پھر اسی پر عمل اور اسی کے پرچار کی کوشش کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اور کالجز ویونیورسٹیز میں اس طرزِ عمل کا بازار گرم ہے، عام طور پر اس طرح کا نظریہ اور موقف اختیار کرنے میں آدمی قرآن کریم کی کسی آیت ‎یا کسی حدیث صحیح کا سہارا لیتا ہے، کیونکہ جب اس کے سامنے قرآن کی آیت یا کوئی حدیثِ صحیح آتی ہے تو وہ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کو واجب العمل سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ جب بھی کوئی قرآن کی آیت یا حدیث اگر اُمت کے اتفاقی موقف کے خلاف ہو تو اس وقت آدمی کو عقل اور فہم سے سوچنا چاہیے اور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آخر اُمت نے اس آیتِ مبارکہ پر عمل کیوں نہیں کیا؟ یا اُمت نے اس حدیث کو قابلِ عمل کیوں نہیں سمجھا؟ جب ہم قرآن کریم کی کسی آیت کو دیکھتے ہیں یا کسی حدیث صحیح کو دیکھتے ہیں کہ اُمت اس پر عمل نہیں کر رہی تو محدثین اور فقہاء اور اصولیین w اس آیت اور حدیث کی تشریح اور تاویل کرتے نظر آتے ہیں اوریقیناً اس تشریح اور تاویل کے پیچھے محدثین اور فقہاء کرام کے پاس مضبوط دلائل ہوتے ہیں، عام طور پر جن آیات کو اور احادیثِ صحیحہ کو اُمت نے چھوڑا اور اُن پر عمل نہیں کیا، اس کی درج ذیل وجوہ ہو سکتی ہیں: 

1-آیت یا حدیث کا منسوخ ہونا

ان میں سے سب سے پہلی چیز نسخ ہے، نسخ کا معنی یہ ہے کہ شریعت کے سابقہ حکم کو اُٹھا دینا اورختم کردینا، پھر کبھی اس کے بدلے میں دوسرا حکم اُترآتا ہے اور کبھی نہیں اُترتا۔ نسخ قرآن اور حدیث دونوں میں ثابت ہے اور اس پر اہلِ سنت والجماعت کا اتفاق ہے، پھر نسخ کبھی قرآن کی آیت کا حدیث کے ذریعے ہوتا ہے، کبھی حدیث کا حدیث کے ذریعےہوتا ہےاورکبھی آیت کا آیت کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی حدیث کا آیت کے ذریعہ ہوتا ہے۔ علامہ سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’الإتقان في علوم القرآن‘‘ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  ’’الفوز الکبیر‘‘ میں نسخ کی یہ چاروں صورتیں بیان فرمائی ہیں، البتہ یہ یاد رہے کہ جب آیت کا نسخ کسی حدیث کے ذریعہ ہو تو اس صورت میں حدیث کا متواتر ہونا ضروری ہے، خواہ متواترِ لفظی ہو یا معنوی یا حکمی! لہٰذا جس آیت کے بارے میں پوری اُمت کہتی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو چکی، اس کی وجہ امت کے پاس اس کے خلاف دوسری دلیلِ قطعی کا موجود ہوناہے، مثلاً قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِیَّۃً لِّأَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ‘‘   (البقرۃ: ۲۴۰)
شروع اسلام میں یہ حکم نازل ہوا کہ جب کوئی شخص فوت ہو اور اس کی بیوی حیات ہو تو وہ فوت ہونے سے پہلے اپنی بیوی کے لیے ایک سال کی وصیت کر کے جائے۔ اب یہ آیتِ مبارکہ دوسری آیت کی وجہ سے منسوخ ہو چکی ہے اور وہ آیتِ وصیت اورآیتِ میراث ہے، جس میں واضح طور پر حکم بیان فرما دیا گیا کہ بیویوں کا وراثت میں کتنا حصہ مقرر ہے، چنانچہ امام فخر الدین رازی، علامہ زمخشری اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ  سمیت سب مفسرین نے اس کو منسوخ قرار دیا ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
۵- ’’آیۃ المتاع إلی الحول: وقولہ - تعالی -: ’’وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ‘‘ - إلی قولہ - ’’إِلَی الْحَوْلِ‘‘ منسوخۃ بالميراث، والسکنی باقيۃ عند قوم، منسوخۃ عند آخرين بحديث: ’’لا سکنی إلخ‘‘۔
لہٰذا اب اگر کوئی شخص اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہے کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور آیت پر عمل کرنا واجب ہے، لہٰذا ہر شخص فوت ہونے سے پہلے ایک سال کی اپنی بیوی کے لیے وصیت کر کے جائے تو استدلال درست نہیں، جیسا کہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب میں اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’شوہروں کے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی بیواؤں کے لیے ایک سال کے نان نفقہ اور اپنے گھر میں سکونت کی وصیت کر جائیں۔ ‘‘
اسی طرح دوسری آیتِ مبارکہ ہے :
’’کُتِبَ عَلَيْکُمْ إِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَيْرًا الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِيْنَ‘‘   (البقرۃ: ۱۸۰)
اس آیتِ مبارکہ میں پہلے یہ حکم اُتارا گیاکہ اگر کوئی شخص وفات کے وقت مال چھوڑے اور اس کے والدین اور رشتہ دار حیات ہوں تو وہ اپنے والدین کے لیے وصیت کر کےجائے۔ یہ آیتِ مبارکہ بھی منسوخ ہوچکی ہے اور اس کے نسخ کی دلیل درج ذیل حدیث پاک ہے:
’’إن اللہ قد أعطی کل ذي حق حقہ، فلا وصيۃ لوارث۔‘‘
 اس حدیث پاک کو اگرچہ بعض حضرات نے ضعیف کہا ہے، لیکن امت کی جانب سے اس کو تلقی بالقبول حاصل ہوئی، یعنی اُمت نے اس حدیث کو اپنے عقیدے اورعمل سے قبول کیا، اس لیے یہ حدیثِ مبارکہ تواتر کے درجہ میں پہنچ گئی، چنانچہ علامہ سخاوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’فتح المغیث‘‘ میں امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ جس حدیث کو اُمت کی طرف سےقبولیت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ متواتر کے مرتبہ میں ہوتی ہے اور اس کے ذریعے سے قرآن کریم کی آیت کا نسخ جائز ہوتا ہے اور پھر مثال کے طور پر یہی آیتِ مبارکہ اور یہی حدیث ذکر کی، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’إذا تلقت الأمۃ الضعيف بالقبول يعمل بہ علی الصحيح، حتی إنہٗ ينزل منزلۃَ المتواتر في أنہ ينسخ المقطوع بہ ; ولہٰذا قال الشافعي - رحمہ اللہ - في حديث: ’’لا وصيۃ لوارث‘‘ : إنہ لا يثبتہ أہل الحديث، ولکن العامۃ تلقتہ بالقبول، وعملوا بہ حتی جعلوہ ناسخا لآيۃ الوصيۃ لہ۔‘‘
نیز حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس آیت کو آیتِ وصیت کی وجہ سے منسوخ قرار دیا ہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’آيۃ الوصيۃ للوارث: فمن البقرۃ قولہ - تعالی -: ’’کُتِبَ عَلَيْکُمْ إِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ‘‘ الآيۃ، منسوخۃ قبل بآيۃ المواريث، وقيل: بحديث لا وصۃ لوارث، وقيل بالإجماع، حکاہ ابن العربي. قلت: بل ہي منسوخۃ بآيۃ ’’يُوْصِيْکُمُ اللہُ فِيْ اَوْلَادِکُمْ‘‘ إلخ وحديث ’’لا وصيۃ لوارث‘‘ مبين للنسخ۔‘‘
اسی طرح جوتوں پر مسح کرنے اور آگ پر پکی ہوئی چیزکو کھانے سے وضو کے واجب ہونے سے متعلق درج ذیل احادیث کو بھی شراحِ حدیث w نے منسوخ قرار دیا، اگرچہ یہ روایات صحیح اسانید کے ساتھ مروی ہیں:
’’عبد خير، قال: رأيت عليًا توضأ ومسح علی النعلين فوسع، ثم قال: ’’لولا أني رأيت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم فعل کما رأيتموني فعلت، لرأيت أن باطن القدمين أحق بالمسح من ظاہرہما‘‘ قال أبو محمد: ’’ہٰذا الحديث منسوخ بقولہٖ تعالی ’’وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَيْنِ‘‘ عن عائشۃ، قالت: قال رسول اللہ - صلی اللہ عليہ وسلم -:’’ توضؤوا مما مست النار۔‘‘ 
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کا وجوب منسوخ ہونے کی صراحت علامہ ابن جوزی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب ’’کشف المشکل من حدیث الصحیحین‘‘ میں کی ہے۔ 

۲-آیت یا حدیث کا مؤول ہونا

دوسری چیزآیت یا حدیث کا مؤوّل ہونا ہے، یعنی اس آیت یا حدیث میں دیگر نصوص کے مطابق تاویل کی جائے گی، تاویل کا مطلب یہ ہے کہ جس آیت یا حدیث سے اُمت کے اتفاقی موقف کے خلاف استدلال کیا جارہا ہے، وہ اپنے لغوی اور حقیقی معنی سے پھری ہوئی ہے، یعنی اُمت کے ہاں اس کا ظاہری اور حقیقی معنی مراد نہیں ہوتا، بلکہ دیگر دلائل کی روشنی میں دوسرامعنی اور مفہوم مراد ہوتا ہے، جیسے متشابہات سے متعلق قرآن کریم کی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں اشاعرہ تاویل کرتے ہیں، مثلاً: قرآن کریم کی آیت ’’وَالسَّمَاءَ بَنَيْنٰہَا بِأَیْــدٍ وَّإِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ‘‘ (الذاریات: ۴۷) میں ہاتھ اور دوسری آیت ’’ يَوْمَ يُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ إِلَی السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ‘‘ (القلم: ۴۲) میں پنڈلی کا ذکر ہے، اسی طرح حدیث پاک میں ’’يد اللہ علی الجماعۃ‘‘ میں بھی ہاتھ اور بعض احادیث میں چہرے کا ذکر موجود ہے۔اس سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کا بھی ایسا ہی وجود ہے، جیسا کہ انسانوں کا وجود ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اُمت کا موقف اس کے خلاف ہے، امت کے تمام علمائے کرام کے نزدیک اللہ کا وجود انسانوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہیں، اسی لیے فرقہ مجسمہ کو گمراہ قرار دیا گیا، باقی یہاں آیتِ مبارکہ میں ہاتھ سے مرا د بعض حضرات کے نزدیک اللہ کی قدرت مراد ہے اور حدیث میں ہاتھ سے مراد اللہ کی نصرت ہے۔ اسی کو تاویل کہتے ہیں۔ 
باقی اللہ تعالیٰ کا وجود انسانوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ وہ ذات جسم سے پاک وجودرکھتی ہے، اس پر بہت سی نصوص دلالت کرتی ہیں، جیسے :’’لَيْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ‘‘ (الشوریٰ: ۱۱)، ’’لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ يُدْرِکُ الْأَبْصَارَ‘‘ (الانعام: ۱۰۳)، ’’قَالَ رَبِّ اَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْکَ قَالَ لَنْ تَرَانِيْ وَلٰکِنِ انْظُرْ إِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرَانِيْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا فَلَمَّا اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ إِلَيْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ‘‘  (الاعراف: ۱۴۳) ’’ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ‘‘ (الاخلاص: ۳) وغیرہ اور ان کے علاوہ بہت سی احادیث اس پر دلالت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہیں۔
اسی طرح قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ ’’وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَيْنِ‘‘ (المائدۃ: ۶) میں ’’اَرْجُلِکُمْ‘‘ کی قراءت لا م کے کسرہ کے ساتھ بھی تواتر کے ساتھ ثابت ہے، جیسا کہ قراءت کے مشہور ائمہ علامہ شاطبی اور علامہ جزری رحمہما اللہ نے تصریح کی ہے اور ایسی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ پاؤں پر بھی مسح کیا جائے گا، جبکہ اُمت کے نزدیک دوسری قراءت راجح ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے، یہاں تک کہ اگر کسی نے پاؤں دھونے کی بجائے مسح کر کے نماز پڑھ لی تو بالاتفاق اس کی نماز نہیں ہوگی، جیسا کہ شیعہ حضرات کا مذہب ہے، اسی لیے علمائے کرام نے لام کے کسرہ والی قراءت کی تاویل کی ہے اور وہ یہ کہ ’’اَرْجُلِکُمْ‘‘ کی لام کے نیچے زیر ’’رُءُوْسِکُمْ‘‘ کے ساتھ متصل ہونے اورجوار یعنی پڑوسی ہونے کی بنا پر دی گئی ہے، ’’يقال لہ بجرّ جوار في اصطلاح النحویین‘‘ جس کو علمِ نحو کے ماہرین کی اصطلاح میں جرِ جوار سے تعبیر کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ ’’امْسَحُوْا‘‘ فعل کا مفعول بہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے پاؤں پر مسح کی گنجائش نکلتی ہو۔
اسی طرح تین طلاق سے متعلق حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  سے منقول درج ذیل حدیث بھی مؤوّل قرار دی گئی ہے:
’’عن ابن عباسؓ، قال: ’’ کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، وأبي بکر، وسنتين من خلافۃ عمرؓ، طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد کانت لہم فيہ أناۃ، فلو أمضيناہ عليہم، فأمضاہ عليہم ۔‘‘
اس حدیث کی مختلف تاویلیں کی گئی ہیں، لیکن علامہ نووی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ سب سے صحیح تاویل یہ ہے کہ شروع زمانہ میں لوگ ’’أنت طالق أنت طالق أنت طالق‘‘ کہہ کرتاکید اور استیناف یعنی نئی طلاق دینے وغیرہ کی کوئی نیت نہیں کرتے تھے یا دوسرے اور تیسرے جملے سے تاکید کی نیت کرتے تھے تو اس وقت چونکہ خیر غالب تھی، اس لیے ان کی بات پر اعتماد کر لیا جاتا تھا، جب بکثرت ایسا ہونے لگا تو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ آئندہ اگر کسی نے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ بیوی کو خطاب کرتے ہوئے بولے تو اس سے تین طلاقیں ہی مراد لی جائیں گی، البتہ اگر دوسری اور تیسری طلاق میں تاکید کا کوئی قرینہ موجود ہو تو اب بھی ان کو تاکید پر محمول کیا جا سکتا ہے، لیکن بغیر قرینہ کے شوہر کی بات خلافِ ظاہر ہونے کی وجہ سے عورت کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی، یہ حکم اس لیے جاری کیا گیا تھا، تاکہ آئندہ لوگ طلاق کے اہم مسئلہ میں بہانے بازی نہ شروع کر دیں، یعنی ایک شخص تین طلاقیں دینے کے بعد یوں نہ کہے میں نے دوسری اور تیسری سے تاکید کی نیت کی تھی۔ عورتوں کی حلت وحرمت کا معاملہ بہت نازک اور احتیاط پر مبنی ہے، اس لیے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے اس دروازے کو بند کیا اور تمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے آپ کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے ایک مجلس کی تین طلاق کو بھی تین قرار دیا اور کسی ایک صحابیؓ کا بھی حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے اس فیصلے سے انکار منقول نہیں، اسی لیے مذاہبِ اربعہ یعنی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے سب فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے بھی اسی موقف کو اپنایا۔
اس میں تاویل کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ دیگر بہت سی نصوص میں بغیر کسی تفصیل کے تین طلاقوں کے تین ہونے کا ذکر موجود ہے، جن میں سے بعض احادیث کو امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں بھی نقل کیا ہے۔
نوٹ: اُمت کے اتفاقی موقف کے خلاف قرآن کریم کی آیت ہو تو اس میں صرف نسخ یا تاویل چلتی ہے، بقیہ پانچ چیزیں جوآگے آرہی ہیں وہ صرف حدیث میں جاری ہوتی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

۳-روایت میں علتِ قادحہ کا پایا جانا

تیسری چیزحدیث کا معلل ہونا ہے، معلل حدیث کی ایک اصطلاح ہے، محدثین کے ہاں علت ہر ایسی وجہ کو کہتے ہیں کہ جو مخفی ہو اور اس حدیث کا ظاہر سلامتی پر مبنی ہو، یعنی ظاہری طور پر اس کی سند اور متن میں کسی قسم کا عیب اور سقم ظاہرنہ ہو۔ البتہ اس میں کوئی ایسی مخفی وجہ موجود ہو جو صحتِ حدیث سے مانع ہو، اس کو محدثین علتِ قادحہ کہتے ہیں۔ 
علت چونکہ مخفی ہوتی ہے تو جب کوئی حدیث قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ یا امت کے اتفاقی موقف یا اجماعِ صحابہؓ کے خلاف ہو تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی مسئلہ اور خرابی ہوتی ہے، اسی مسئلے اور خرابی کا نام علت ہے، چنانچہ سند کا منقطع ہونا، راوی کے حافظہ کا کمزور ہونا، راوی کو بھول چوک ہو جانا، نسیان طاری ہو جانا، لکھی ہوئی حدیث کے کچھ حصے کا کسی وجہ مثلاً پانی یا دیمک کے کھا جانے کی وجہ سے مٹ جانا وغیرہ سب علت کی صورتیں ہیں، بشرطیکہ یہ اُمور مخفی ہوں، یعنی محدث اور فقیہ کو ان کے وجود کا علم نہ ہو، اسی لیے امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم رازی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی ’’کتاب العلل‘‘ میں عبد الرحمٰن بن مہدی اور ابن نمیر رحمہما اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اگر علت بیان والے شیخ سے سوال کیا جائے کہ آپ نے یہ علت کہاں سے بیان کی تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ 
اسی لیے اگر علت کا سبب ظاہر ہو جائے تو وہ حدیث معلل نہیں رہتی، بلکہ ضعیف کی قسم میں شمار ہو تی ہے، جیسے سند کے انقطاع کا اگر محدث کو محض گمان ہو تو یہ علت ہے اور اگر اس کا علم ہو جائے تو یہ روایت منقطع اور ضعیف کہلائے گی، مثلاً امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے اور چوتھی مرتبہ شراب پینے پر قتل کی سزا دینے سے متعلق دو حدیثیں نقل کی ہیں، جبکہ ان دونوں پر اہلِ علم کا عمل نہیں ہے، اسی لیے ان دونوں حدیثوں کو معلل قرا ر دیا گیا ہے، چنانچہ امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’جميع ما في ہٰذا الکتاب من الحديث ہو معمول بہ، وبہ أخذ بعض أہل العلم ماخلا حديثين: حديث ابن عباسؓ: ’’أن النبي صلی اللہ عليہ وسلم جمع بين الظہر والعصر بالمدينۃ، والمغرب والعشاء من غير خوف ولاسفر، ولا مطر۔‘‘
وحديث النبي صلی اللہ عليہ وسلم أنہٗ قال: ’’إذا شرب الخمر فاجلدوہ، فإن عاد في الرابعۃ فاقتلوہ.‘‘ وقد بينا علۃ الحديثين جميعا في الکتاب۔‘‘
واضح رہے کہ ان میں سے دوسر ی حدیث شربِ خمر پر قتل کی سزا سے متعلق کو بعض حضرات نے منسوخ بھی قرار دیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے استاذ امام ابن ملقن  رحمۃ اللہ علیہ  نے بخاری شریف کی شرح میں اس کے منسوخ ہونے کی صراحت کی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص ان حدیثوں کو صحیح سمجھ کر اُن پر عمل کرے تو یہ اس کا استدلال اور عمل درست نہ ہوگا، چنانچہ جو لوگ ان احادیث کی بنا پر بغیر کسی عذر کے جمع بین الصلاتین کے قائل ہیں، ان کا یہ طرزِ عمل خلافِ شریعت ہے۔

۴-روایت میں شذوذ کا پایا جانا
 

شاذ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حدیث کا راوی تو ثقہ اور عادل ہے، مگر وہ اپنی حدیث میں بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کر رہا ہے یا وہ اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کر رہا ہے، اگرچہ وہ راوی ایک ہی ہو تو ایسے راوی کی روایت شاذ کہلاتی ہے اور دوسری روایت کو محفوظ کہا جاتا ہے۔ محدثین کے ہاں شاذ روایت بھی ضعیف کہلاتی ہے یعنی ناقابلِ عمل کہلائے گی، اسی لیے محدثین کے ہاں طبقات کی بحث بہت اہمیت کی حامل ہے، چنانچہ محدثین کرام نے کبار محدثین کے شاگردوں کے طبقات بنائے ہیں، جیسے سلیمان بن مہران الاعمش، یحییٰ بن ابی کثیر، امام مسلم بن شہاب زہری، امام عمر وبن دینار، ابو اسحا ق سبیعی اور قتادہ بن دعامہ سدوسی w وغیرہ۔ یہ لوگ مدارِ اسانید کہلاتے ہیں، جیسا کہ امام علی بن مدینی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی ’’کتاب العلل‘‘ میں ذکر فرمایا ہے، ان کے آگے پھر طبقات ہیں، بعض تلامذہ پہلے طبقے میں، بعض دوسرے طبقے میں اور بعض تیسرے طبقہ میں شامل ہوتے ہیں۔ پہلے طبقے سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے شیخ کی صحبت کا ایک لمبا عرصہ انہوں نے اہتمام کیا ہو، سفر حضر میں شیخ کے ساتھی ہوں، شیخ کی طبیعت اور مزاج سے واقف ہوں۔ دوسرے طبقہ میں وہ ہوتے ہیں جو شیخ کی صحبت اختیار کرنے میں پہلے طبقے سے کم درجہ رکھتے ہوں، ان کو کم صحبت ملنے کی وجہ سے انہوں نے شیخ سے کم روایات لیں، مزاج شناس تو یہ بھی تھے، لیکن پہلے کی بنسبت کم تھے۔ پھر تیسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جوصحبت کے اہتمام میں، روایات لینے میں اورمزاج شناس ہونے میں دوسرے طبقہ سے بھی کم درجہ رکھتا ہو۔ اب جب کوئی روایت اس شیخ سے منقول ہوگی تو پہلے طبقہ کی روایت دوسرے طبقہ کے مقابلے میں اعلیٰ ہوگی، دوسرے طبقہ کی روایت تیسرے کے مقابلے میں ارجح اور اعلیٰ کہلائے گی، اگرچہ سند کے اعتبار سے دونوں صحیح ہوں گی اور دونوں کے راوی ثقہ ہوں گے، کسی پر ضعف کا حکم نہیں لگا ہوگا، لیکن جب تعارض ہوگا تو اول طبقہ کی روایت کو ثانیہ پر ترجیح دیں گے اور ثانیہ کی روایت کو ثالثہ کی روایت پر ترجیح دی جائے گی، اسی طرح ہر پہلے والے طبقہ کی روایت بعد والے طبقہ کی روایت پر راجح ہو گی اور ایسی صورت میں راجح روایت مقبول اور مرجوح روایت شاذ اور غیرمقبول ہو گی اور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، مثلاً امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  نے درج ذیل حدیث ذکر کی ہے:
’’عن عائشۃ، أن سالما، مولی أبي حذيفۃ کان مع أبي حذيفۃ وأہلہ في بيتہم، فأتت - تعني ابنۃ سہيل - النبي صلی اللہ عليہ وسلم فقالت: إن سالما قد بلغ ما يبلغ الرجال. وعقل ما عقلوا وإنہٗ يدخل علينا وإني أظن أن في نفس أبي حذيفۃ من ذٰلک شيئا. فقال لہا النبي صلی اللہ عليہ وسلم ’’أرضعيہ تحرمي عليہ، ويذہب الذي في نفس أبي حذيفۃ‘‘ فرجعت، فقالت: إني قد أرضعتہٗ، فذہب الذي في نفس أبي حذيفۃ۔‘‘
اس روایت میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حضرت سہلہ بنت سہیل  رضی اللہ عنہا  حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ! سالمؓ میرے پاس آتے ہیں اور سالمؓ کا میرے پاس آنا میرے شوہر ابو حذیفہؓ کو ناگوار گزرتا ہے، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: تم ان کو اپنا دودھ پلا دو! انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو بڑے ہیں، یعنی بالغ ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یعنی میں جانتا ہوں کہ وہ بالغ ہیں، آپ ان کو دودھ پلا دو، اس کے بعد حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا  نے ان کو دودھ پلا دیا تو ان کے شوہر ابو حذیفہؓ کے دل میں جو بات تھی وہ نکل گئی، کیونکہ سالمؓ سہلہ ؓ کے محرم بن گئے تھے۔ 
 اس حدیثِ مبارک کو اُمت نے قبول نہیں کیا، بلکہ اس میں تاویل کی اور کہا کہ یہ حضرت سالم  رضی اللہ عنہ  کی خصوصیت تھی، چنانچہ دیگر ازواجِ مطہراتؓ اس مسئلہ میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی مخالفت کرتی تھیں اور ان کا موقف یہی تھا کہ یہ حضرت سالمؓ کی خصوصیت تھی، باقی امت کے لیےیہ حکم نہیں ہے، اسی لیے امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد دیگر ازواج مطہرات ؓ سے بالغ آدمی کو دودھ پلانے کی صورت میں محرمیت کے عدمِ ثبوت والی روایت نقل کی ہے، اسی لیےشیخ فؤاد عبد الباقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ اس میں شذوذہے، گویا کہ اس حدیث میں تاویل کی وجہ شذوذ ہے، یعنی اس روایت میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  دیگر ازواجِ مطہراتؓ سے تفرُّد اور انفرادیت اختیار کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  یا اُن کے بعد سند میں موجود کسی راوی کو اس میں وہم ہوا ہے۔علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی شرح مسلم میں اس تاویل اور دیگر ازواجِ مطہرات ؓ کی مخالفت کا ذکر درج ذیل عبارت میں کیا ہے:
’’وحملوا حديث سہلۃ علی أنہٗ مختص بہا وبسالم وقد روی مسلم عن أم سلمۃ وسائر أزواج رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم أنہن خالفن عائشۃ في ہٰذا، واللہ أعلم۔‘‘
اسی حدیث کی بنا پر امام داود ظاہری  رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک یہ ہے کہ بڑے آدمی کو ددودھ پلا ناجائز ہے، لیکن امام ابوعبداللہ محمدبن علی تمیمی مالکی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب ’’المُعلَم بفوائد مسلم‘‘ میں ان پر رد کیا ہے، اور علامہ ابن عبدالبر  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کے تحت تصریح کی ہے کہ یہ روایت چھوڑ دی گئی ہے اور جمہور علمائے کرام نے اس کو قبول نہیں کیا، اس کے بعد انہوں نے اس روایت کے خلاف بہت سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اور تابعینؒ سے بالغ آدمی کو دودھ پلانے کی ممانعت نقل کی اور اصل دلیل قرآن کریم کی سورۂ بقرہ اور سورۂ احقاف کی آیاتِ مبارکہ ہیں، جس میں دو سال یا دوسری آیت سے اڑھائی سال تک دودھ پلانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، اس لیے قرآن کریم کی ان نصوص کے خلاف خبرِ واحد درجے کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی۔

۵-روایت کی مختلف اسانید میں اضطراب کا پایا جانا

پانچویں وجہ روایت میں اضطراب ہوناہے، چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ روایت کی سند صحیح ہوتی ہے، تمام راوی ثقہ ہوتے ہیں، سند متصل بھی ہوتی ہے، البتہ مختلف اسانید سے مروی ہونے کی وجہ سے سند یا متن یا دونوں میں اضطراب ہوتا ہے۔ اضطراب کا مطلب یہ ہے کہ ہر راوی نے اپنے شیخ سے سن کر روایت بالمعنی کرتے ہوئے مختلف الفاظ استعمال کیے، جس کی وجہ سے ہر ایک راوی کے بیان کردہ الفاظ دوسرے راوی کے بیان کردہ الفاظ سے مختلف تھے، الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے معنی میں بھی اختلاف ہو گیا، جب معنی میں اختلاف ہوا تو مفہوم میں بھی اختلاف ہوگیا اور جب طرق کی سند بالکل صحیح ہوتی ہے تو ہم کسی ایک طریق کو دوسرے پر ترجیح نہیں دے پاتے، جب ترجیح نہیں دے پاتے تو ایسی روایت کو کبھی تو چھوڑ دیا جاتا ہے اور کبھی کوشش کی جاتی ہے کہ دونوں قسم کی روایات پر عمل کیا جائے، لہٰذا اگر پوری امت کسی روایت کو چھوڑ رہی ہے تو اگر اس میں ایسا اضطراب ہے کہ ان طرق کو جمع کر کے ان سب پر عمل کرنا یا تطبیق دینا ممکن نہ ہو تو اس حدیث کو سندِ صحیح ہونے کے باوجود چھوڑ دیا جائے گا، جیسے امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے حدیث نقل کی ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا  نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں کوئی چیز واجب ہے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ : مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق واجب ہے، حدیث مبارکہ ہے:
’’حدثنا محمد بن أحمد بن مدويہ، قال: حدثنا الأسود بن عامر، عن شريک، عن أبي حمزۃ، عن الشعبي، عن فاطمۃ بنت قيس، قالت: سألت، أو سئل النبي صلی اللہ عليہ وسلم عن الزکاۃ؟ فقال: إن في المال لَـحَقًّا سوی الزکاۃ۔‘‘
جبکہ امام ابن ماجہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت فاطمہ بنت قیس  رضی اللہ عنہا  سے ہی مروی دوسری روایت نقل کی ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ زکوٰۃ کےعلاوہ مال میں کوئی حق واجب نہیں ہے:
’’حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا يحيی بن آدم، عن شريک، عن أبي حمزۃ، عن الشعبي، عن فاطمۃ بنت قيس، أنہا سمعتہ تعني النبي صلی اللہ عليہ وسلم يقول: ’’ليس في المال حق سوی الزکاۃ۔‘‘ 
ان دونوں حدیثوں کو نقل کرنے کے بعد علامہ عراقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ یہ ایسا اضطراب ہے کہ اس میں کسی قسم کی تاویل نہیں کی جا سکتی، اس لیے ان دونوں روایتوں کو چھوڑ کر وجوبِ زکوٰۃ سے متعلق دیگر نصوص پر عمل کیا گیا اور دیگرنصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ مال میں فرض درجہ کا حکم زکوٰۃ کی ادائیگی کا ہی ہے، البتہ واجب درجے کے بعض دیگر احکام بھی انسان کے مال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جیسے عشر، صدقہ فطر اور قربانی۔ 
البتہ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر مختلف طرق سے مروی ہو، روایت کے الفاظ مختلف ہونے کے باوجود اس کا معنی تبدیل نہ ہو، بلکہ سب طرق سے ایک ہی معنی اورمفہوم نکلتا ہو تو اس کو محدثین کے ہاں مضطرب نہیں کہیں گے، بلکہ وہ روایت صحیح شمار ہوگی اور ایسی روایت اُمت کے ہاں قبول ہوگی، بلکہ کثرت ِ طرق کی وجہ سے اس روایت کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔

۶- روایت کا کسی شخص کے ساتھ خاص ہونا

چھٹی وجہ یہ ہے کہ کبھی ایسے ہوتا ہے کہ روایت کی سند صحیح ہوتی ہے، مگر دیگر قطعی دلائل کی بنیاد پر ائمہ کرام اس میں عموم کی بجائے تخصیص کا قول اختیار کرتے ہیں، جیسے ایک صحابی حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں ہلاک ہو گیا، آپ  علیہ السلام  نے فرمایا: کس چیز نے تجھے ہلاک کیا، اس نے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں روزے کی حالت میں جماع کر لیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: کیا آپ ایک غلام آزاد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ کیا آپ دو ماہ لگاتار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت رکھتے ہیں؟ اس نے عر ض کیا: نہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: بیٹھ جائیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: یہ مدینہ کےفقراء میں تقسیم کردو، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! مدینہ میں مجھ سے زیادہ غریب کوئی نہیں ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مسکرانے لگے اور فرمایا کہ: یہ لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو، چنانچہ حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیں:
’’عن أبي ہريرۃ رضي اللہ عنہ، قال: جاء رجل إلی النبي صلی اللہ عليہ وسلم، فقال: ہلکت، يا رسول اللہ! قال: ’’وما أہلکک؟‘‘ قال: وقعت علی امرأتي في رمضان، قال: ’’ہل تجد ما تعتق رقبۃ؟‘‘ قال: لا، قال: ’’فہل تستطيع أن تصوم شہرين متتابعين؟‘‘ قال: لا، قال: ’’فہل تجد ما تطعم ستين مسکينا؟‘‘ قال: لا، قال: ثم جلس، فأتي النبي صلی اللہ عليہ وسلم بعرق فيہ تمر، فقال: ’’تصدق بہذا‘‘ قال: أفقر منا؟ فما بين لابتيہا أہل بيت أحوج إليہ منا، فضحک النبي صلی اللہ عليہ وسلم حتی بدت أنيابہ، ثم قال: ’’اذہب فَأطْعِمْہُ أہْلَکَ۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں رمضان کا روزہ توڑنے کی صورت میں اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا، جبکہ اس پر کسی کا عمل نہیں ہے، اس لیے فقہائے کرام اور محدثین کرام w نے اس کے معنی میں تخصیص کی اور فرمایا کہ: یہ درحقیقت اس صحابیؓ کی خصوصیت تھی، لہٰذا اُمت کے لیے عام حکم نہیں ہے۔

۷- راوی کا عمل اس کی روایت کے خلا ف ہونا

کبھی ایسے ہوتا ہے کہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہے، مگر اس کے راوی کا عمل اس کی طرف سے روایت کی گئی حدیث کے خلاف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں کسی حد تک تہمت پید اہو جاتی ہے کہ شاید اس روایت کے بیان کرنے میں راوی سے خطا واقع ہوئی ہو، اس لیے فقہاء کرام اور محدثین کے ہاں یہ اصول ہے کہ اگر راوی کا عمل اپنی روایت کے خلاف ہو تو وہ قبول نہیں، کیونکہ اگر اس راوی کےنزدیک وہ روایت صحیح ہوتی اور اس کی نظر میں وہ منسوخ اور معلل وغیرہ بھی نہ ہوتی تو اس کا عمل اس روایت کے خلاف نہ ہوتا، جیسے تین طلاق کے ایک ہونے کی ایک روایت حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےجو پیچھے گزر چکی ہے، جبکہ سنن ابی داود میں ان کا فتویٰ اس روایت کے خلا ف منقول ہے، اور وہ روایت درج ذیل ہے:
’’عن مجاہد، قال: کنت عند ابن عباسؓ، فجاءہٗ رجل، فقال: إنہ طلق امرأتہٗ ثلاثا، قال: فسکت حتی ظننت أنہ رادہا إليہ، ثم قال: ينطلق أحدکم فيرکب الحموقۃ، ثم يقول: يا ابن عباسؓ، يا ابن عباسؓ، وإن اللہ قال: ’’وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا‘‘ (الطلاق: ۲) وإنک لم تتق اللہ، فلا أجد لک مخرجا، عصيت ربک، وبانت منک امرأتک، وإن اللہ قال: ’’يٰاَيُّہَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْہُنَّ‘‘ (الطلاق: ۱) في قبل عدتہن۔‘‘
جب حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کا فتویٰ ان کی روایت کے خلاف آگیا توان سے مروی تین طلاق کے ایک ہونے والی روایت قابلِ عمل نہ رہی۔
البتہ اس اصول میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ اگر راوی کو بھول چوک ہو گئی ہو اور اس کو حدیث بیان کرنا یاد نہ ہو، جبکہ اس کے شاگرد نے اس روایت کو شیخ سے سن کر محفوظ کیا ہو، اس کو ضبط کیا ہو، تو اب جب شیخ کا عمل اس کے خلاف ہو، شیخ اس کو چھوڑ رہا ہو اور اپنی روایت کا شیخ انکار کرتا ہو میں نے یہ روایت بیان نہیں کی تو دیکھا جائے گا کہ جن لوگوں نے اس شخص سے یہ روایت لی ہے، اگر وہ اس پر جزم کے عقیدے سے جزم یعنی یقین کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت کرتے ہیں تو پھر اس روایت کو قبول کیا جائے گا اور اس روایت پر عمل کیا جائے گا۔
عام طور پر ان سات وجوہ میں سے کسی وجہ کی بنیاد پر صحیح سند سے مروی حدیث کو چھوڑا جاتا ہے، البتہ ان سات میں ہی حصر نہیں، بلکہ اور بھی کچھ ایسی وجوہ ہو سکتی ہیں، جن کی وجہ سے خبرواحد درجے کی حدیث پر عمل نہ کیا جائے، لیکن یہاں چند ایک بطورِ مثال ذکر کی گئی ہیں۔

اُمت کے اتفاق کے خلاف بعض دیگرآیات واحادیث

قرآن کریم میں بعض ایسی آیات اور بعض صحیح درجے کی احادیثِ مبارکہ موجود ہیں، جن کے ظاہری معنی کو اُمت نے مذکورہ بالا وجوہ کی بنیاد پر ناقابلِ عمل قرار دیا، ان میں سے چندایک مزید آیات واحادیث درج ذیل ہیں:
1-’’وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِيْہَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَيْہِ وَلَعَنَہٗ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِيْمًا‘‘  (النساء: ۹۳)
ترجمہ: ’’اور وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر(نا حق) قتل کر دے اس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غصہ اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذا ب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس آیت ِ مبارکہ میں کسی مسلمان کو عمداً قتل کرنے والے کے لیے دائمی عذاب کی وعید آئی ہے، جبکہ جمہور علمائے کرام کے نزدیک مسلمان قتل اورقتل کے علاوہ جتنا بھی بڑا گناہ کر لے وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا، بلکہ ایک دن ضرور آگ سے آزاد ی پا کر جنت میں داخل ہو گا اورعلمائے کرام نے اس آیت کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ مؤوّل ہے اور یہاں زجر اور تنبیہ کے طور پر یہ سزا سنائی گئی ہے، جیسے انتہائی غصے میں باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ میں آپ سے آئندہ کبھی بھی بات نہیں کروں گا تو اس طرح کے کلام میں زجر اور تنبیہ مقصود ہوتی ہے:
2- ’’فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَہُمْ فِيْہَا زَفِيْرٌ وَّشَہِيْقٌ خَالِدِيْنَ فِيْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاءَ رَبُّکَ إِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ وَاَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا فَفِي الْجَنَّۃِ خَالِدِيْنَ فِيْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّکَ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ‘‘      (ہود: ۱۰۶ - ۱۰۸)
ترجمہ: ’’چنانچہ جو بدحال ہوں گے وہ دوزخ میں ہوں گے، جہاں ان کے چیخنے اور چلانے کی آوازیں آئیں گی، یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں، مگر یہ کہ تمہارا رب کو کچھ اورچاہے، بے شک تمہارا رب جو ارادہ کر لے اس پر اچھی طرح عمل کرتا ہے، اور جو لوگ خوشحال ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جب تک آسمان وزمین قائم ہیں، الا یہ کہ تمہارےرب کوکچھ اور ہی منظور ہو۔‘‘
ان آیات کے ظاہرسےیہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ دوزخ اور اہلِ جنت اس وقت تک جنت اور دوزخ میں رہیں گے جب تک آسمان وزمین باقی ہیں، پھر اس میں بھی ’’إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّکَ‘‘ کے استثناء سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوگئی کہ ان کو ہمیشہ کا عذاب نہ دیا جائے تو ان سے عذاب ختم ہو جائے گا، اسی لیے بعض لوگوں جیسے ڈاکٹر اسرار صاحب کے بارے میں ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی رائے یہ تھی اہل دوزخ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو ایک وقت گزرنے کے بعد ختم کر دیں گے، حالانکہ پوری اُمت کا اس پر اتفاقی موقف ہے کہ مسلمان جنت میں جانے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ جنت میں اور کفار ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اللہ تعالیٰ اگرچہ اس عذاب کو ختم کرنے پر قادر ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ طے ہو چکا ہے کہ یہ دائمی عذاب وثواب ہو گا، جو کبھی ختم نہ ہو گا، جیسا کہ اس پر قرآن کریم کی بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں، جیسے ’’إِنَّ اللہَ لَعَنَ الْکَافِرِيْنَ وَأَعَدَّ لَہُمْ سَعِيْرًا  خَالِدِيْنَ فِيْہَا اَبَدًا لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّ لَا نَصِيْرًا‘‘ (الاحزاب: ۶۴، ۶۵) ’’ خَالِدِيْنَ فِيْہَا لَا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ہُمْ يُنْظَرُونَ‘‘ (البقرۃ: ۱۶۲) وغیرہ تقریباً اس طرح کی چالیس آیات قرآن کریم میں موجود ہیں، جو آخرت کے ثواب وعذاب کے دائمی ہونے پر دلالت کرتی ہیں، لہٰذا اگر کوئی آیت یا حدیث ان کے خلاف آتی ہے تو اس کی تاویل کی جائے گی۔
3- ’’فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاءَ فَلْيَکْفُرْ‘‘ (الکہف: ۲۹)
ترجمہ: ’’اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں بھی ’’مَنْ شَاءَ فَلْيَکْفُرْ‘‘ میں بالاتفاق کفر کا اختیار دینا مراد نہیں، بلکہ اس میں دھمکی دینا مقصود ہے، جس پر اسی آیت کا اگلا حصہ ’’اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ نَارًا‘‘ دلالت کر رہا ہے، جبکہ آیت کا ظاہری معنی یہ ہے کہ آدمی کو ایمان اور کفر کے انتخاب میں اختیار دیا جارہا ہے۔
4-’’فَاِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ‘‘    (فاطر: ۸)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں گمراہ کرتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ہدایت عطا فرماتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو گمراہ کرنا اور کسی کو ہدایت عطا فرمانا سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، جب سب اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے تو پھر بندہ نیکی اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں مجبور محض ہوا، اسی لیے جبریہ فرقہ نے یہ عقیدہ اختیار کیا تھا کہ نیک اور برے اعمال کرنے میں بندہ کوکوئی اختیار نہیں ہے، اس پر پھر اشکال ہو گا کہ جب بندہ کو اختیار نہیں تو پھر آخرت میں حساب اور پھر جنت ودوزخ کا فیصلہ کیوں کیا جائے گا؟ اس لیے اُمت نے ان آیات کی تاویل کی اور اس پر اتفاق کیا کہ بندہ کو نیک اور برے اعمال کرنے میں مکمل اختیار ہے، باقی اس طرح کی آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی سرکشی کی وجہ سے گمراہی کے راستے پر چھوڑے رکھتے ہیں، اسی طرح اس کے رجوع الی اللہ کی وجہ سے اس کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دیتے ہیں اور اس تاویل کے تمام وہ نصوص ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو اختیار دیا ہے اور نیکی اور بدی کے دو راستے اس کے سامنے رکھے ہیں، مثلاً ’’وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ‘‘ (البلد: ۱۰)، ’’ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا  قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا  وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا‘‘ (الشمس: ۸ - ۱۰) ، ’’ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی‘‘ (الاعلیٰ: ۱۴، ۱۵) ’’ إِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَّإِمَّا کَفُوْرًا‘‘ (الانسان: ۳) قرآن کریم کی یہ اور ان کے علاوہ تمام وہ آیات جن میں ایمان اور عمل صالح پر نجات کا مدار رکھا گیا ہے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بندہ مجبور نہیں، بلکہ اعمال کرنے میں بااختیار ہے۔نیز انسان کا مشاہدہ بھی اس پر قوی دلیل ہے کہ انسان اپنے ااختیار سے عمل کرتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص کسی کو ناحق قتل کر کےعدالت جائے اور کہے کہ میں مجبور تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ایسا کروایا تو اس کا یہ عذر دنیا کی کسی عدالت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔
اسی طرح تقدیر سے متعلق جو نصوص وارد ہوئی ہیں، ان کا بھی یہی جواب ہے کہ تقدیر میں سب لکھا ہوا ہونے سے انسان کے اختیار کی نفی نہیں ہوتی، کیونکہ تقدیر میں لکھا جانا دراصل اللہ تعالیٰ کے علمِ کامل کی وجہ سے ہے، اس سے یہ بات کسی طرح ثابت نہیں ہوتی کہ انسان کا اختیار چھین لیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین