بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

بینات

 
 

’’گرین گولڈ‘‘: مستقبل کی تخیلاتی معیشت کی بنیاد!


’’گرین گولڈ‘‘: مستقبل کی تخیلاتی معیشت کی بنیاد!


تخیلاتی و تصوراتی اور غیرحقیقی اَثاثوں پر مبنی معیشت کو فروغ دینے اور حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو بتدریج ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر کئی جہتوں سے کوششیں ہورہی ہیں۔ اس تناظر میں ایک طرف تو ’’قدر‘‘ کی تعریف ہی تبدیل کرنے کی کوششیں اپنے بامِ عروج پر ہیں تو دوسری طرف ایسی نت نئی مالیاتی پروڈکٹس اور سروسز عالمی مالیاتی نظام میں متعارف کروائی جارہی ہیں، جن کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی پر بس نہیں کیا جارہا، بلکہ ڈی سینٹرلائژڈ فنائنس یعنی ڈی فائی ( ‎Decentralized Finance DeFi) کے نام پر ایک متبادل عالمی مالیاتی نظام کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا ہے، جس کے تحت ایسی فنائنشل پروڈکٹس و سروسز کی ترویج و اشاعت تدریجاً کی جارہی ہے جن کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں، مثلاً: فلیش لون، اسٹیکنگ/ لینڈنگ، ڈی سینٹرلائژڈ ایپلی کیشنز وغیرہ۔ نیز ’’عالمی ماحولیاتی آلودگی سے تدارک‘‘ کا لبادہ اوڑھے گرین گولڈ کے نظریے کو پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت سونے کو زیرِ زمین ہی رہنے دیا جائے اور سونے کو نکالنے کے لیے کان کنی نہ کی جائے۔ گرین گولڈ نظریے کو عملاً نافذ کرنے کے لیے پہلے علمی و عقلی دلائل سے عوام الناس کے اندر رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے اور پھر مستقبل میں یہ احتمال ہے کہ ایک منظم طریقے سے اس نظریہ اور اس کی عملی شکلیں معاشرے میں رواج دینے کی کوششیں کی جائیں گی۔
دنیا کے مشہور سرمایہ کار اور امیر ترین شخصوں میں سے ایک وارن بافیٹ نے ۱۹۹۸ء میں ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں اپنی تقریر میں کہا:
‘‘[Gold[ gets dug out of the ground in Africa, or someplace. Then we melt it down, ‎dig another hole, bury it again, and pay people to stand around guarding it. It has ‎no utility.”‎
’’[سونا] افریقہ میں، یا کسی جگہ زمین سے کھودا جاتا ہے، پھر ہم اسے پگھلاتے ہیں، ایک اور گڑھا کھودتے ہیں، اسے دوبارہ دفن کرتے ہیں، اور لوگوں کو اس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہونے کے لیے ادائیگی کرتے ہیں، اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔‘‘    (حوالہ: فوربزنزنس میگزین)
یہ بیان غیر حقیقی معیشت کو پروان چڑھانے والی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، یہ وہ طرزِ فکر ہے جس کے تحت عالمی معاشی نظام کی جڑیں کھوکلی ہوتی ہیں، ایک ایسی معیشت کو تقویت دی جاتی ہے جو کہ عالمی مالیاتی بحرانوں کا پیش خیمہ بنتی ہے اور کساد بازاری کی بنیادی وجہ ہے۔ پوری دنیا کی معیشت پر جن لوگوں کا اثر ورسوخ ہے، ان میں سے بیشتر اسی طرزِ فکر کے حامی ہیں، اس کے ذریعے عالمی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ایسے ہتھکنڈے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، جن سے عالمی معیشت پر اُن کی گرفت مضبوط رہے۔ 
’’گرین گولڈ‘‘ سے مراد سونے کی وہ شکل ہے جس کو زمین سے کان کنی کرکے نکالا نہ گیا ہو، بلکہ زمین کے اندر ہی رہنے دیا جائے اور محض تخمینہ کے ذریعے سونے کے زیرِ زمین ذخائر کا اندازہ لگا کر اس فرضی سونےکے تخمینے کی حقیقی دنیا میں خریدو فروخت شروع کر دی جائے، مثلاً کسی جگہ سونے کے ذخائر کی موجودگی کے شواہد ملنے کے بعد جدید سائنسی طریقے سےتخمینہ لگا کر سونے کے ذخائر کا اندازہ لگا لیا جائے، پھر اس سونے کی قیمت بازاری ریٹ کے حساب سے لگا کر اس زیرِ زمین سونے کی خریدوفروخت کی جائے۔ دوسرے الفاظ میں سونے کے ذخائر کا کمپیوٹر کے کھاتوں میں اندراج کردیا جائے اور پھر اس کی خرید وفروخت کی جائے، مثلاً اگر دو سو ٹن زیرِ زمین سونے کے ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا تو اس زیرِ زمین سونے کا اندراج کمپیوٹر کے کھاتوں میں کردیا جائے اور پھر عالمی مارکیٹ میں حقیقی سونے کی مارکیٹ قیمت کے حساب سے اس زیرِ زمین سونے کی تجارت شروع ہوجائے۔ آسان الفاظ میں زیرِ زمین موجود سونے کے ذخائر کا محض تخمینہ لگا کر سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس طرح کی سونے کی سرمایہ کاری کو ’’صاف‘‘ اور ’’گرین‘‘ سرمایہ کاری کا عنوان دیا گیا ہے۔
اس طریقے سے گرین گولڈ کے محض کمپیوٹر کھاتوں میں اندراج کی خریدوفروخت سے کئی سنگین مسائل جنم لیں گے، مثلاً: اس بات کو کیسے ملحوظ رکھا جائے گاکہ کاغذوں اور کمپیوٹر پر اتنی ہی زیرِ زمین سونے کی مقدار کا اندراج کیا گیا، جس کا تخمینہ لگایا گیا تھا؟ کاغذوں اور کمپیوٹر پر اندراج ہی تو کرنا ہے، تخمینہ لگائی گئی مقدار کے بجائے زیادہ اندراج کردیا جائے اور پھر اس کی خریدوفروخت شروع کردی جائے، پھر تو دیگر سیاروں مثلاً مریخ پر ممکنہ طور پر موجود سونے کے ذخائر کو نکالے بغیر ان کی تجارت کرنے کی راہیں ہموار کی جائیں گی اور اس کی ملکیت پھر انہی ممالک کے پاس ہوگی جن کا اسپیس پروگرام ہے۔ پھر سونے کے ذخائر کی تلاش کی کُلفت اُٹھانے کی بھی کیا ضرورت ہے؟ بس جس کا دل چاہے سونے کی فرضی مقدار سوچ لے، کمپیوٹر کھاتوں میں جتنے چاہے سونے کے ذخائر کا اندراج کردے اور پھر خریدوفروخت شروع! اس سوچ کی ایک نظیر مُرَوَّجَہ فلیش لون ہے، جس میں اثاثوں کی غیر موجودگی میں اس فرضی اثاثے کا قرضہ فراہم کیا جاتا ہے اور یہی کچھ ’’گرین گولڈ‘‘ کے تناظر میں بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔
دیکھیے! بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ پر حقیقی سونے کی مُرَوَّجَہ خریدوفروخت بذریعہ مارکیٹ ہے، مثلاً لندن کی اوور دی کاؤنٹر مارکیٹ London OTC Market ، امریکی فیوچر مارکیٹCOMEX ‎، چائنیز مارکیٹ، مثلاً شینگھائی گولڈ ایکسچینجSGE ‎، شینگھائی فیوچرز مارکیٹSHFE ، نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج‎ NYMEX ‎ وغیرہ شامل ہیں اوردوسری صورت گولڈ بُلین کی صورت میں سونے کی خریداری ہے ۔ سونے کی خریدوفروخت کموڈیٹی مارکیٹ کے ذریعے عمومی طور پر انجام دی جاتی ہے اور علمائے کرام کے مطابق کموڈیٹی ٹریڈنگ (سونا چاندی اور دیگر اشیاء واجناس کی آن لائن تجارت) مختلف وجوہات مثلاً: مبیع قبل القبض اور بعض صورتوں میں مبیع معدوم ہونے کی بنا پر ناجائز ہے۔ قارئین غور فرمائیں کہ حقیقی سونا موجود ہے، مگر چونکہ سونا بیچنے والے کے پاس سونا بیچتے وقت اس حقیقی سونے کی ملکیت اور قبضہ نہ آیا، لہٰذا اس حقیقی سونے کی خریدوفروخت بھی ناجائز ٹھہری، چہ جائیکہ گرین گولڈ جس میں تو سونا سرے سے موجود ہی نہیں، محض تخمینہ اور سونے کے ذخائر کے فرضی نمبروں کا کھاتے میں اِندراج کی خریدوفروخت ہے۔ لہٰذا مفتیانِ کرام کے مطابق گرین گولڈ کی تجارت بدرجہ اولیٰ ناجائز ہے۔
گرین گولڈ نظریہ کے حامی سونے کی کان کنی سے پیدا ہونے والے نقصانات گنواتے ہیں، مثلاً: سونے کی کان کنی سے ماحولیات پر اثر جیسے دریا ؤں پر اثر، زمین کے قدرتی مناظرLandscape‎ کا خراب ہونا، آب وہواClimate ‎ پر اثر، جنگلاتی حیاتFlora and Fauna ‎ پر اثر، جانوروں کی رہائش گاہ پر اثر اور بائیو ڈائورسٹی یا حیاتیاتی تنوع‎ Biodiversity شامل ہیں۔ گرین گولڈ نظریہ کے حامی افراد کی باتوں سے یہ تأثر ملتا ہے کہ سونے کی کان کنی کے ماحولیات پر سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں، جبکہ یہ حضرات سائنسی تجزیہ سے مستند اعداد و شمار پیش نہیں کرتے کہ کون کون سے عوامل کتنے فیصد ماحولیاتی آلودگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اس میں سونے کی کان کنی کا کتنا تناسب ہے۔ ہماری رائے میں سونے کی کان کنی پر پابندی کی بجائے ماحولیاتی آلودگی کے بڑے اسباب کا تدراک کیا جائے، مثلاً: ترقی یافتہ ممالک کا صنعتوں میں کیمیائی مادوں کا بے دریغ استعمال، جنگلات کا کٹاؤ، انٹرنیٹ کو چلانے والے ڈیٹا سینٹرز و دیگر ماحولیات پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا تدارک شامل ہے۔ امریکہ کی ماحولیاتی آلودگی کے تحفظ کی تنظیم (Envorinmental Protection Agency EPA) کے۲۰۱۹ء کے اعداد وشمار کے مطابق چونتیس فیصد پاور کی صنعت (بجلی کی پیداوار اور ٹھنڈے ممالک میں حرارت کی پیداوار)، چوبیس فیصد مختلف صنعتوں، بائیس فیصد زراعت، پندرہ فیصد ٹرانسپورٹ اور چھ فیصد بلڈنگ سے گرین ہاؤس گیس (جو کہ سطح زمین پر درجہ حرارت بڑھنے کا سبب بنتی ہیں) کا اخراج ہوا ہے۔ یورپی کمیشن کی ۲۰۲۳ء کی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کی رپورٹ ان اعداد و شمار کی تائید کرتی ہے اور اس میں مہیا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس کا اخراج پاور کی صنعت (بجلی وحرار ت کی پیداوار)، ٹرانسپورٹ، بلڈنگ، زراعت، فضلہ اور معدنی وسائل کے ڈھونڈنے میں ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ورلڈ گولڈ کونسل کے مہیا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سونے کی صنعت (کان کنی وغیرہ) کا گرین ہاؤس گیس اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم کا حصہ ہے، لہٰذا یہ تأثر دینا کہ سونے کی کان کنی ہی ماحولیاتی آلودگی کا اصل اور بڑا سبب ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔
گرین گولڈ نظریہ کے حامی گرین گولڈ کی تجارت کے کئی فوائد گنواتے ہیں، مثلاً ایسا کرنے سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوگا۔’’گرین گولڈ‘‘ بطور ’’نیا اثاثہ‘‘ سستا بھی ہوگا، اس میں کان کنی کا خرچہ بھی بچے گا، مائننگ کمپنیوں کو مزدوری بھی ادا نہیں کرنی پڑے گی، رائلٹی بھی نہیں دینی پڑے گی اور بھاری مشینری کے اخراجات سے بھی نجات ملے گی۔ غور فرمائیے کہ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف ہی تبدیل کردی گئی ہے اور ایک موہوم، فرضی اور معدوم چیز کو اثاثہ گردانا جارہا ہے۔ پھر یہ بات پیش کی گئی ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں گے۔ درحقیقت یہ سرمایہ کاری کے مواقع نہیں بڑھ رہے، بلکہ غیر حقیقی معیشت کو فروغ دے کر لوگوں سے پیسے بٹورنے کے جدید طریقے ہیں۔ 
ایک اہم غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں سونے کی کانیں دریافت ہوتی ہیں اور کان کنی کی جاتی ہے تو وہاں کی مقامی آبادی کو سونے کی کان کنی کرنے والی کمپنیاں اور حکومتیں رائلٹی کی مد میں بھاری معاوضہ ادا کرتی ہیں۔ گرین گولڈ کی صورت میں جس جگہ سونے کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جائے گا، وہاں سے سونا نکالا نہیں جائے گا، اور بغیر اس اثاثے یعنی سونے کے حصول کے کون رائلٹی ادا کرے گا؟ اگر بفرضِ محال کوئی کمپنی ادا کرے گی تو پھر وہ کمپنی کئی گنا کمائے گی بھی اور وہ بھی بغیر کسی حقیقی اثاثوں کی ملکیت کے بغیر۔ سونے کی کان کنی اس وجہ سے بھی ضروری ہے، کیونکہ جب سرمایہ کاروں کو سونے میں سرمایہ کاری اور تجارت کرنا ہوتی ہے تو سونے تک ان کی رسائی بھی لازمی ہونی چاہیے۔ سونے کی تجارت بغیر سونے تک حقیقی رسائی کے ممکن نہیں اور انسانی معاشرے کی بھلائی کے لیے اسلام نے حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کے اصول وضع کیے ہیں۔
تاریخی طور پر سونے کو ’’قدر کو محفوظ‘‘ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ  کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دینار دے کر بھیجا کہ ایک جانور قربانی کے لیے خریدیں، جس پر آپ ؓ نے قربانی کے لیے ایک بکری خریدی۔ (حوالہ: تقریرِ ترمذی، حصہ معاملات، جلد اول، صفحہ: ۱۸۷)جمہور مفتیان کرام کی تحقیق کے مطابق ایک دینار (سونے) کی مقدار چار اَعْشارِیَہ تین سات چار گرام ‎ ۱ Dinar = ۴.۳۷۴ grams ‎ ہے۔ (حوالہ: مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ’’ا وزانِ شرعیہ‘‘) آج بھی ایک دینار کی قیمت تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپے بنتی ہے، جس سے ایک بکری لی جاسکتی ہے، یعنی چودہ سو سال گزرنے کے باوجود سونے نے اپنی قدر کو قائم رکھا ہوا ہے، اب بھلا ’’گرین گولڈ‘‘ کے فرضی اندراج سے قدر کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟ 
’’گرین گولڈ‘‘ سے انسانیت کو فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہے۔ سونے کی کان کنی سے کئی صنعتیں جڑی ہیں اور بلا مبالغہ لاکھوں مزدورں، انجینئر، سائنسدان، ہیوی مشین آپریٹرز، جیولوجسٹ، کیمیکل انجینئر وغیرہ کی نوکریاں وابستہ ہیں۔ گرین گولڈ سے ان تمام لوگوں کی حق تلفی ہوگی، ان کے گھرانوں کی روزی روٹی بند ہوگی اور یہ مزدوروں کے حقوق پر سرمایہ دارانہ ذہنیت کی ایک کاری ضرب ہے اور اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں کے حقوق غصب کرنا چاہتا ہے۔ سائنس اور معاشی علوم کا مقصد انسانیت کی فلاح اور بہتری ہے۔ گرین گولڈ کو ’’عالمی ماحولیاتی آلودگی سے تدارک‘‘ کا لبادہ اوڑھے پیش کرنے سے محض چند لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور بہت زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر ہمیں گرین گولڈ کے نظریہ کے بجائے حقیقی سونے کی خرید وفروخت پر انحصار کرنا چاہیے۔ 
دیکھیے! سونا ایک قیمتی دھات ہے، جس کی اپنی ذاتی قدر ہے، قیمتی اثاثہ ہے اور تاریخی طور پر اس کو بطور آلۂ مبادلہ استعمال کیا گیا۔سونے کے دیگر اہم استعمال بھی ہیں، مثلاً الیکٹرونکس کے آلات اور خاص طور پر موبائل فون، دندان سازی اور کمپیوٹر ہارڈوئیر میں استعمال ہوتا ہے۔ نیز سونے کے زیورات کے ذریعے تزئین و آرائش حاصل کی جاتی ہے۔ سونے کی کان کنی سے کئی دیگر صنعتیں بالواسطہ اور بلا واسطہ متعلق ہیں۔ سونے کی کان کنی سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے، لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں، اور معیشت کا پہیّہ چلتا ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے ۲۰۲۴ء کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً بیالیس فیصد سونے کا استعمال جیولری بنانے میں، پچیس فیصد بار اور سکّے بنانے میں، چھ فیصد ٹیکنالوجی میں، اور بائیس فیصد سونا مختلف ممالک کے سینٹرل بینک نے اپنے ذخائر میں خرید کر رکھا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جن ممالک میں سونے کے ذخائر ہیں، ان میں سے کچھ پر مغربی استعماری قوتوں کے تسلط کی وجہ سے یہ ممالک شدید ترین بدحالی اور معاشی کمزوری کا شکار ہیں۔ کچھ امیر ممالک اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان ممالک کو غریب سے غریب تر کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے معدنی وسائل پر مکمل قبضہ کرلیا ہے، لہٰذا جو لوگ ’’گرین گولڈ‘‘ کے نظریے کے حامی ہیں، دراصل عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ایک طرف تو وہ سونے کے بیکار پڑے رہنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف یہی لوگ اپنے لیے سونے کے انبار اکھٹا کرتے نہیں تھکتے۔ 
جب ’’گرین گولڈ‘‘ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ سونے کی کوئی ذاتی قدر نہیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں، بس بےکار یوں ہی تجوریوں میں پڑا ہوا ہے، اور سونے کی کان کنی نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ سونا تو ویسے ہی حکومتی اور سونے کی کمپنیوں کے والٹس‎ Vaults ‎یعنی تجوریوں میں پڑا رہتا ہے تو بنیادی طور پر پوری دنیا کو ایک ایسے نظام کی طرف لے جارہے ہیں، جس کی بنیاد تصوراتی وتخیلاتی معیشت ہے، اور حقیقی معیشت سے اس کا دور کا کوئی تعلق نہیں۔ دیکھیے! ۲۰۰۷ء، ۲۰۰۸ء کے عالمی مالیاتی بحران کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ورلڈ اکنامک فورم پر جو مقالہ پیش کیا، اس میں چار بنیادی عوامل کو پیش کیا، جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی بحران پیدا ہوا۔ اول یہ کہ نقدی کو اُس کے بنیادی مقصد یعنی ذریعۂ تبادلہ سے ہٹانا اور اُسے خود تجارت کا آلہ بنانا، دوم ڈیریویٹیوز‎ Derivatives ‎کا بہت زیادہ سرائیت کرجانا، سوم یہ کہ قرضوں کی فروخت اور چہارم یہ کہ اسٹاک، اشیاء اور کرنسیوں میں شارٹ سیل‎ Short Sales ‎ اور بلینک سیلBlank Sales ‎۔ گرین گولڈ بھی دراصل عالمی معاشی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، کیونکہ اس سے بھی سٹے بازی اور غیر حقیقی معیشت کو فروغ ملے گا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ پوری دنیا کو معاشی طور پر کنٹرول کرنے والے ’’گرین گولڈ‘‘ کی ترغیب دے رہے ہیں، جبکہ خود اُن کی جان سونے میں اٹکی ہوئی ہے، یعنی ایک طرف تو سونے کی کان کنی کی خامیاں گردانتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف فیڈرل ریزرو امریکہ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ، اور آئی ایم ایف نے سونے کے ذخائر کے انبار لگا رکھے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ برطانیہ کے ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ کے پاس والٹس‎ Vaults ‎ میں ساڑھے پانچ ہزار ٹن (تقریباً پچاس لاکھ کلوگرام) سونے کے بُلین موجود ہیں، جس کی آج کل کے حساب سے مارکیٹ ویلیو تقریباً ایک سو اَسّی بلین امریکی ڈالر سے زائد کی ہے اور یہ مقدار پوری دنیا کے سونے کے ذخائر کی پانچ فیصد بنتی ہے، جس کی آج تک کان کنی کی گئی ہے (حوالہ: مارک کارنی، ویلیو(ز)، سگنل، ۲۰۲۲ء) ۔ اگر سونے میں اتنی ہی خامیاں ہیں تو کیوں فیڈرل ریزرو امریکہ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ، اور آئی ایم ایف، و دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنے تمام سونے کے ذخائر سے نجات حاصل نہیں کرلیتے؟ کیوں خود بھی عملی طور پر سونے سے نجات حاصل کرکے صرف اور صرف گرین گولڈ پر انحصار نہیں کرلیتے؟ کیوں اپنے سارے گولڈ کے اثاثے غریب ممالک میں تقسیم نہیں کردیتے؟ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ سونے کی قدر کا اُن کو بخوبی اداراک ہے۔ ان کا مطمح نظر تو صرف لوگوں میں حقیقی سونے کی اہمیت کم کرکے گرین گولڈ کے عنوان سے تخیلاتی و تصوراتی اور غیر حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو فروغ دینا اور لوگوں سے دولت سمیٹنا ہے!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین